علی کے ساتھ کچھ دیر
میں سوچ رہا تھا کہ اس مرتبہ 13 رجب جب آئے گی تو اپنے احباب کو اس دن کی خوشی میں کیا تحفہ دوں-میں نے ایک خوشبو لی موتیا کی جو ایک حواری مولائے کائنات کے بقول مولا علی کرم اللہ وجہہ کو بہت پسند تھی-میں نے وہ خوشبو اپنے بیٹے عاشور حسین کے کپڑوں سے لگائی اور باقی خوشبو میں نے اپنے دوست سید تقی حیدر کی بیٹی زھرا بتول کو دے دی-عاشور بھی بہت خوش تھا اور بیٹی زھرا بھی-
میں دونوں کی خوشی سے نہال ہورہا تھا کہ میرے دوست سید میر منظم علی شاہ کے بیٹے اور میرے بھتیجے میر سید باسط علی شاہ تشریف لے آئے-بہت پیارا بچہ ہے-مگر روائتی شیعہ ہے-والد خانیوال کی مرکزی امام بارگاہ کے منتظم ہیں-اور اس کے زمے ملک بھر کے ذاکرین،علماء اور نوحہ خوانوں سے رابطہ رکھنا اور ان کو اہم ایام پر امام بارگاہ میں مجالس میں مدعو کرنا ہے-
الیکشن کے بخار سے تازہ تازہ فارغ ہوا ہے-اور میرے کہنے پر اپنے حلقہ اثر کو یزیدیت کے مددگاروں کے حق میں ووٹ دینے سے روکنے میں بھی کامیاب رہا ہے-لیکن آج گفتگو کے دوران مجھے کہنے لگا کہ
انکل!آپ تو جانتے ہی ہیں کہ شیعت کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے-شعیہ کے ہاں سیاست ہے ہی نہیں-آئمہ اہل بیت کا کیا تعلق ہے شیعت سے؟تو جو لوگ شیعہ برادری کے نام سے امیدواروں کی حمائت یا مخالفت کا اعلان کرتے رہے وہ شیعہ مذھب کو بدنام کرنے کا سبب بنے ہیں”
میں نے میر منظم علی شاہ کے بیٹے میر باسط کی یہ بات سنی تو کچھ دیر کے لیے مجھے سمجھ ہی نہ آیا کہ میں اپنے اس بھتیجے کی بات کا کیا جواب دوں؟اہل تسنن کے ہاں غیر سیاسی پن کی ایک تاریخی وجہ موجود ہے-جب کوغی نوجوان اہل تسنن کے ہاں سے ایسی بات کرے تو مجھے کجھ حیرت نہیں ہوتی لیکن اس طرح کی بات تشیع سے تعلق رکھنے والا کوئی نوجوان کرے تو حیرت تو اپنی جگہ ہوتی ہی ہے صدمہ بھی ہونے لگتا ہے-
یہ صدمہ اس لیے بھی دوچند ہوگیا کہ آج 13 رجب ہے اور اس شخص کی ولادت کا دن ہے جس کی ذندگی سے سیاست کو آپ خارج کردیں تو اس کی شخصیت کی معرفت اور پہچان ہی ختم ہوجانے کا اندیشہ ہے-
میں نے میر باسط سے کہا بیٹا! شیعت سیاست کے بنا ایسی لکڑی ہے جو کٹنے کے بعد کھوکھلی اور بے برگ و بار ہوجاتی ہے-بس فرق یہ کرنے کی ضرورت ہے کہ سیاست شیعت کے ہاں وہ نہیں ہے جو امیر شام اور ان اے بعد آنے والے ملوک نے اختیار کی تھی اور جس کو علی نے ہمیشہ حقارت کی نظر سے دیکھا تھا-اور اس کو ایسی دنیا سے تعبیر کیا تھا جس کی اہمیت علی کے ہاں بکری کی چھینک سے بھی کم تھی-
میں نے باسط سے کہا کہ آج کی رات وہ ہماری صحبت میں آئے-ہم چند دوست شب بیداری کریں گے-اور کچھ وقت قربت علم علی میں صرف کریں گے تاکہ جس سے محبت اور عشق کا ہمیں سودا ہے اس کی معرفت بھی ہم حاصل کرلیں-
ہم سب دوست رات کو اکٹھے ہوئے-ایک کھلے صحن میں مسجد حیدر کے اندر ڈیرہ لگایا-خشک چٹائی پر جس کے ساتھ تراب جمٹی ہوئی تھی-جی تو چاہا تھا کہ صف کو اپنے سے لپٹالیا جائے مگر پھر خیال یہ آیا کہ لوگ سودائی نہ خیال کریں تو بس خیال ہی خیال میں حیدر کرّار کے صف میں لپٹ کر سوجانے اور پھر تراب کے چہرے پر آجانے اور مقصود کائنات کے آپ کو بو تراب کہنے کے منظر کو تازہ کرکے لطف لیتے رہے-
مئی گے آخری ہفتے کی گرم رات اور چاند کی روشنی کے صحن میں پھیلنے سے در و دیوار کے چاندنی ہوجانے کا منظر اور اس پر مولود کعبہ کا یوم ولادت سب نے ملکر ماحول کو بہت رومانوی کردیا تھا-
ہم سب اہل مجلس حالت جذب میں تھے-کیف و سرور تھا جو مجھے اپنے حصار میں لیے ہوئے-لفظ آج خود بخود اترتے چلے جاتے تھے-اور میں نے اہل مجلس کو بتایا تھا کہ مجھ پر یہ کیفیت نجف اشرف میں آج سے دس سال قبل طاری ہوئی تھی جب میں ضریح کے سامنے تھا-اور نہج البلاغہ کا خطبہ توحید میرے سامنے اپنے اسرار کھولنے لگا تھا-اور میں دس سالوں میں اس کیفیت اور سرور کو ترستا رہا تھا-آج نجانے کیسے کرم نوازی ہوئی تھی اور سرور کی ایک لہر تھی جو کشاں کشاں مجھے اڑائے پھر رہی تھی-
میں نے معیت علی کا آغاز کرنے کے لیے لب کھولے تھے اور غیر ارادی طور پر میرے منہ سے خود بخود یہ الفاظ نکلے
علی کی نشوونما علم و صداقت کے گہوارے میں ہوئی تھی اسی لیے ان کے ہاں سیاست ہمیشہ علم اور صداقت کا نام رہی اور انہوں نے سیاست کو حیلہ گری،نفاق پروری اور مصلحت انگیزی نہ بننے دیا-حکمت کے خزانے علی پر کھول دئے گئے-ان کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ ان کی پرورش بیت نبوت میں ہوئی-ان کو “علم محمدی ” کے چشمے سے سیاست کو سیکھنے کا براہ راست موقعہ ملا-ان کی زندگی کا جو تشکیلی دور تھا اور فکری بلوغت کے لیے ارتقاء کا جو سفر تھا وہ اس مکّہ اور مدینے میں طے ہوا جہاں محمد نے اپنی زندگی گذاری اور اسی تعلق کی بنا محمد بن عبداللہ کو لحد میں اتارنے کی سعادت بھی علی کے نصیب میں آئی-
علی اپنی تشکیل علمی اور اپنی بلوغت فکر کے ساتھ دریائے دجلہ و فرات کی تہذیب کے مرکز میں پہنچے-اور ترقی یافتہ اقوام کے صاف علمی چشموں کو اپنی فکر و حکمت کے ساتھ ملاڈالا-
علی کا قلب علم ،حکمت،تحقیق و جستجو،نکتہ سنجی،ژرف نگاہی اور وسعت فکر و نظر کا مرکز ہے-اس لیے علی کو نور من نور اللہ کہنا غلط نہیں ہے-
علی کی جلالت ،قدر،رفعت اور شان اس قدر ظاہر ہے کہ اس کو چھپانے کی کوشش جتنی کی جاتی ہے ان کے اوصاف حمیدہ اور جگ مگ کرنے لگتے ہیں-
محمد بن عبد اللہ کو اللہ نے ایک جگہ کہا تھا کہ”وللآخرۃ خیر لک من اولی”ہر آنے والی گھڑی آپ کے لیے پچھلی گھڑی سے بہتر ہے”تو آگر مدینۃ العلم ہر گھڑی بہتر سے بہتر ہوگا تو باب المدینۃ العلم بھی تو بہتر سے بہتر ہوگا-گویا جب محمد کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصّہ مختصر تو اس کا مطلب یہ بھی ہوا کہ بعد از محمد بزرگ توئی قصّہ مختصر ہوگا کہنا علی کے لیے-
علی جس مرتبے پر فائز ہوئے اس مرتبے پر کسی اور کو فائز کرنا عدل کے خلاف تھا تو کوئی اور اس مرتبے پر فائز نہ ہوا اور نہ ہی ہوگا-
آئمہ اہل بیت کے مخزن علمی کا اول نشان محمد بن عبد اللہ ہیں اور اس مخزن علم ک مظہر اتم امام اول علی بن ابی طالب ہیں-
ویسے آپ نے کبھی خیال کیا کہ علی کا نام جب بھی آتا ہے تو بے اختیار زبان سے “کرم اللہ وجہہ”کیوں نکلتا ہے-اس کی وجہ وہ عناد و دشنام کی آندھیاں ہیں جو وفات محمد بن عبد اللہ کے بعد سے علی کرم اللہ وجہہ کی ذات کو غبار آلود کرنے کے لیے چلنا شروع ہوگئی تھیں-مگر یقین کجئیے کہ ایک وقت وہ بھی آیا تھا جب دمشق کی جامع مسجد کے خطبہ جمعہ میں علی کرم اللہ وجہہ پر تبراء ہوتا تھا مگر جتنا یہ تبراء تیز ہوا اتنا ہی علی کا چہرہ روشن تر ہوتا چلا گیا-
جس قدر سیاست امیر شام کی خون آشامی بڑھتی گئی اتنا ہی سیاست علی کی سچائی عوام پر واضح ہوتی گئی-دولت،جبر ،دھونس اور ہوس کے گندے جراثیموں سے پلنے بڑھنے والی سیاست کا مقابلہ عل کی سیاست سے ہوا جس کی بنیاد عدل،مساوات،انسانیت ،سچائی اور دیانت پر تھی اور جس کے جھنڈے کے نیچے افتادگان خاک جمع ہوئےاور آج آپ کو دنیا میں سوائے یزیدیوں کے کوئی نہیں ملے گا جو سیاست امیر شام کا جواز پیش کرنے کی ہمت رکھے-
محمد بن عبد اللہ کی زندگی کے مکی اور مدنی سالوں میں بار بار ایسے واقعات ہوتے رہے اور ایسے حالات پیدا ہوتے رہے کہ انہوں نے علی ابن ابی طالب کے بارے میں جملے کہے یا ان کے بارے میں کوئی خبر دی یا پھر ان کے عام مومنین سے تعلق پر روشنی ڈالی-پھر قران کی بہت ساری آیات کے نزول کے پس منظر میں بھی علی کی شخصیت موجود رہی-ان سب چیزوں کو اگر اکٹھا کرلیا جائے تو محمد بن عبد اللہ کے مظہر اتم علی ابن ابی طالب ہی ٹہرتے ہیں اور کوئی اس مقام تک آتا دکھائی نہیں دیتا-
آپ نقول و اسناد کو ایک طرف رکھکر ان متون کو دیکھیں جن کی نسبت علی ابن ابی طالب کی جانب ہے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ علی نابغہ تھے اور عبقری تھے-
محمد بن عبداللہ نے ایک مرتبہ کہا کہ “خیارھم فی الجاھیلۃ خیارھم فی الاسلام”جو جاہلیت کے زمانہ میں نیک طینت تھے وہ اسلام کے دور میں بھی نیک طینت ہیں”یہ ایک جملہ اے قدر بلیغ ہے کہ پوری تاریخ اسلام پر بھاری ہے-اور اس فقرے کی گہرائی ماپنے کے لیے آپ کو ان سب کرداروں کو دیکھنا ہوگا جو مسلم تاریخ میں ملوکیت،جاگیرداری ،قبائلیت اور دیگر برائیوں کو غالب کرنے کا سبب بن گئے-
محمد بن عبد اللہ نے حجاز کے اندر ایک ایسا سماج تشکیل دینے کی کوشش کی تھی جس کے اراکین اخیار ہوں اور ابرار ہوں-اس کوشش کی جانب بڑھنے کی کوشش علی نے جاری رکھی اور وہ اخیار و ابرار کو ہی سیاست و امامت دینے کے نظریے پر قائم ہے-وہ اپنے ساتھی سے مکارم اخلاق ہونے کا مطالبہ کرتے تھے-جس کے اخلاق اچھے نہ ہوں وہ اسے اپنا رفیق بنانے کو تیار نہ تھے-انہوں نے نفاق اور اس کے اہل کے خلاف علم جنگ بلند رکھا-یہی وجہ ہے کہ ہم جب بھی علی کے طرز زندگی کی بات کرتے ہیں تو سب ایک ہی جواب دیتے ہیں “منافقت کی موت”گویا علی کے ساتھ رہنے کا مطلب منافقت کو فنا گھاٹ اتارنے کے مشن کے جھنڈے تلے زندگی گذارنا ہے-
علم علی کا مطلب کیا ہے؟اور اس کا ہماری انفرادی و اجتماعی زندگی سے کیا تعلق بنتا ہے؟یہ سوال بہت اہمیت کے حامل ہیں-میں آپ کو علی کی زندگی کے چند اہم واقعات سے روشناس کراؤں گا-یہ واقعات آپ نے اکثر و بیشتر سلے ہوں گے-لیکن ان کو ایسے نہ دیکھا ہوگا جیسے میں آپ کو دکانے کا خواہش مند ہوں-
عرب میں اسلام کی آمد سے قبل ایک چوپال موجود تھا جہاں قریش کے سردار اور وڈیرے اکٹھے ہوتے تھے-اس چوپال کو سب رار الندوہ کے نام سے جانتے ہیں-یہاں مکّہ کے دانا اکٹھے ہوتے تھے-اور اس حوالے سے تاریخ میں جن داناؤں کے نام محفوظ رہ گئے ان ک کرداروں پر ایک نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے ہاں دانائی سے مراد چالاکی،عیاری ،پرکاری اور زبردست جوڑ توڑ کی صلاحیت ہوا کرتی تھی-وہ نتائج پرستی پر یقین رکھنے والے لوگ تھے-ان کے خیال میں مقصد کا حصول آپ کی صلاحیت و اہلیت کا ثبوت ہوا کرتا ہے-ان کے ہاں یہی علم تھا اور یہی دانائی تھی-
اس تصور کو سب سے پہلے تو محمد بن عبداللہ نے ضرب لگائی اور اس ضرب کے ساتھ ضرب علی ابن طالب نے لگائی-ہمیں تاریخ میں دعوۃ عشیرہ کا زکر ملتا ہے جب علی نے کمزور جسم،پتلی ٹانگوں اور کم عمری کے باوجود محمد بن عبداللہ کا اخی،ولی،وصی ہونے کا اعزاز حاصل کرلیا تھا-اور سارے دانا ان کی جسمانی کمزوری پر ہنستے دکھائی دے رہے تھے اور مستقبل کے منظر کو دیکھکر زمانہ ان پر ہنس رہا تھا-
علی بن ابی طالب سے ان کے چچا عباس نے وفات رسول کے فوری بعد کہا کہ ان کو سقیفہ میں ہونے والے اجتماع میں جانا چاہئے تو علی کے علم نے مدینۃ العلم کی میت کو تنہا چھوڑ جانے کو گوارا نہ کیا-پھر یہی عباس تھے جنہوں نے شوری میں جانے سے علی کو روکا تو علی نے کہا کہ وہ دلیل کے ساتھ کسی کو قائل کریں گے اور اس کو یہ کہنے کا موقعہ نہیں دیں گے کہ علی تو آئے ہی نہیں تھے-پھر علی شوری میں گئے اور وہاں پھر ان کا علم مصلحت آشنا نہ ہوسکا انہوں نے اپنی اجتہادی آزادی کی قربانی دینے سے انکار کیا اور ایک مرتبہ پھر وہ اپنے علم اور دیانت میں رشتے کو واضح کرنے میں کامیاب ہوگئے-پھر جب مدینہ کا محاصرہ ہوا اور سب لاتعلق ہوچلے تو علی کا علم اس وقت بھی ان کو سیاست سے لاتعلق نہ کرسکا-انہوں نے فتنہ کا نام لیکر دنیا کو طلاق دیکر بے عملی کا سنجوگ نہ لیا-وہ تارک الدنیا نہ ہوئے اور صحرا نشین نہ ہوئے-بلکہ انہوں نے اپنے گھر کے دروازے بھی بند نہ کئے اور بوڑھے خلیفہ کو جب محافظ نہیں ملتے تھے تو اپنے دونوں بیٹے خلیفہ کے دروازے پر کھڑے کردئے-امام حسن نے علی سے کہا کہ نواح میں اپنی زمین پر چلے چلتے ہیں جب جوار بھاٹا بیٹھ جائے گا واپس آجائیں گے-لیکن علی کے علم نے گوارا نہ کیا کہ جب خلق خدا ظلم کے خلاف ان کو پکار رہی ہو تو وہ اپنی جان بچانے کی غرض سے گوشہ نشین ہوجائیں –انہوں نے خلق خدا کی آواز پر لبیک کہا اور ایک ایسی جنگ میں اتر گئے جس میں ان کو اور ان کے خاندان کو اتنے چرکے لگے کہ دنیا بھر کے نوحے اور مرثیہ بھی ان زخموں کا مرہم نہیں بن سکے ہیں-
علی کا علم سماج سے لاتعلق نہیں تھا-ان کے علم کا مابعدالطبعیاتی پہلو بھی سماج کی حقیقتوں سے تعلق رکھتا ہے-
میں اپنی اوپر کہی ہوئی بات کو زرا زیادہ واضح کروں گا-اصل میں مسلم تاریخ میں جن لوگوں نے زوال کو اصل بنانے کی کوششوں کا آغاز کیا وہ سب کے سب مابعدالطبعیاتی خیالات کے رشتے انسانوں کے اعمال سے کاٹنے کی کوشش کرتے رہے-اور اس حوالے سے توحید کو ان لوگوں نے مشق ستم بنانے کی کوشش کی-
اب اگر امام علی اور ان کے جانشینوں کی اس بات پر غور کیا جائے کہ “انسان کی طرف اس کے اختیاری اعمال کو منسوب کیا جائے گا اور وہ ان اعمال پر مسئول ہوگا اور اچھا کام کیا تو بدلہ اچھا ہوگا اور برا کیا تو بدلہ برا ہوگا” افعال مخلوق ہیں-علم اور مشیت خالق کے ہاں لازم و ملزوم رشتے میں بندھے ہوئے نہیں ہیں-
میں نے بہت مختصر انداز میں ایک ایسے مابعدالطبعیاتی خیال کو لفظوں میں بیان کیا ہے جو کہ ہزاروں کتابوں میں بکھرا ہوا ہے-یہ خیال تاریخ کے اندر یزیدیوں کی تدلیس کے خلاف جہاد کرنے میں بہت ممدومعاون ثابت ہوا-اصل میں جب بنو امیہ اور ان کے ساتھیوں کے مظالم اور ان کی بدعتوں کا پردہ فاش ہونا شروع ہوا-اور مظالم جو انہوں نے خانوارہ اہل بیت اور ان کے حامیوں پر ڈھائے-عمار یاسر ،حجر بن عدی اور پھر کربلا میں حسین سمیت اہل بیت کے لوگوں کی شہادت اور مستورات اہل بیت کی کسمپرسی کی کہانیاں عام ہوئیں تو بنو امیہ نے لوگوں میں یہ خیال عام کرنا شروع کردیا کہ سب کچھ مشیت خدا کے تحت ہوا اور اس میں ارداہ خدا کو بھی دخل تھا-اور ان سب واقعات کا ہونا اٹل تھا-اور اس طرح سے اپنی بے گناہی کی تلاش شروع کی گئی-اور پھر یہ بھی کیا گیا کہ اقتدار پر جو بھی قابض ہوگیا تو پھر اس کے قبضہ کو بھی مشئت خدا کہہ کر مان لینے کا فتوی بھی سامنے آگیا-اور اسی دوران بہت سے لوگ ایسے بھی سامنے آئے جن کو سماج میں نظام اجتماعی کو فلاح کی شکل میں بدلنا کار محال لگا-اور ان کے خیال میں بس اپنے ایمان کو بچانے کے لیے تارک الدنیا زاہد ہونا چاہئے-اور پھر ہم نے دیکھا کہ بے عملی اور غیر سیاسی پن کو اسلام کی شکل دے دی گئی-اس لیے علی اور ان کے ساتھیوں نے اعمال کی نسبت اور اختیار کو انسانوں کی طرف کرنے اور علم خدا کے ساتھ اس کے ارادے کو لازم نہ کرنے پر اصرار کیا تو اس سے سماج کا براہ راست تعلق تھا اور یہ عدل و انصاف کے قیام اور ظلم کے خاتمے کے لیے بہت ضروری تھا-اور یہی سیاست مرتضوی تھی-اسی کا نام علی کی فکر ہے اور اسی کا نام علی کی حکمت ہے-آپ اگر عدل کی سیاست کے غلبے کے لیے،انصاف کی فراہمی کے لیے اور مساوات کے قیام کے لیے کوشاں ہوتے ہیں تو آپ کی اس گواہی کےکچھ معانی بنتے ہیں کہ اشہد ان لاالہ الّا اللہ واشہدانّ محمد رسول اللہ و اشہد انّ علی ولی اللہ وصی الرسول اللہ اور آپ یقین رکھیں کہ آپ علی کے ساتھ ہیں اور ان کے علم کے سائے میں زندگی بسر کرتے ہیں اور علی کے ساتھ وقت بھی گزارتے ہیں-
آئیے اب کچھ دیر کے لیے ہم علی ابن ابی طالب کے پاس چلتے ہیں اور ان کے ساتھ کچھ وقت گذارتے ہیں اور ان سے سنتے ہیں کہ وہ دنیا کے بارے میں کیا کہتے ہیں-میں وقت کے چکر کو واپس لے جاتا ہوں-یہ مدینہ ہے اور مسجد نبوی میں اندر اور باہر لوگ جمع ہیں –سب کے سب باری باری علی کا ہاتھ تھامتے ہیں اور ان کو اپنا خلیفہ بنانے کا اعلان کررہے ہیں-یہ بیعت عام ہے-اور کوئی فرد مدینہ کا ایسا نہیں ہے جو یہ بیعت نہ کررہا ہو-علی ابن ابی طالب سب سے بعیت لینے کے بعد منبر پر کھڑے ہوتے ہیں اور یوں گویا ہوتے ہیں-
“میں جو کہوں گا اس کی زمہ داری میری ہے اور میں اس کا ضامن بھی ہوں-اور مجھے یقین ہے کہ جو آدمی بلاؤں اور مصائب میں گھر جائے تو اس سے بچنے کا زریعہ نیکوکاری اور پرھیز گاری ہوا کرتی ہے-
مصیبت اور بلا آج ویسے ہی واپس آگئی ہے جیسے یہ اس وقت موجود تھی جب زمانہ جاہلیت تھا اور محمد بن عبد اللہ کو اللہ نے نبی بناکر بھیجا تھا-
مجھے اس زات کی قسم ہے جس نے محمد بن عبد اللہ کو حق اور صداقت کے ساتھ مبعوث کرکے بھیجا تھا-تم خلط ملط اور اوپر نیچے کردئے جاؤگے جیسے دیگ میں چیزیں خلط ملط ہوتی ہیں-تم ٹکڑے ٹکڑے کردئے جاؤگے-تم میں جو پست ہیں وہ بلند ہوجائیں گےاور جو بلند تھے وہ پست کردئے جائیں گے-وہ جو آگے تھے پیچھے ہوجائیں گے اور جو پیچھے تھے وہ آگے-میں نے تم سے کوئی بات نہیں چھپائی اور کوئی جھوٹ نہیں بولا-اس مقام اور اس دن ک اطلاع میرے پاس پہلے تھی-
یاد رکھنا!گناہ کی مثال ان سرکش گھوڑوں کی طرح ہے جن پر خطا کار ایسے سوار ہوں کہ سواروں کے ہاتھ میں ان کی باگ نہ ہوں اور وہ جہنم کی طرف رواں دواں ہوں-
نیکی کی مثال رام کئے ہوئے گھوڑوں کی ہے جن پر اہل حق سوار ہوتے ہیں اور ان کا باگ پر پورا کنٹرول ہوتا ہے اور منزل جنت ہوا کرتی ہے-
حق اور باطل یہ دو ہی کمیپ ہوا کرے ہیں-حق کے ساتھی بھی ہوتے ہیں اور باطل کے ساتھی بھی-اور اگر باطل قابو پالے تو یہ قدیم زمانے سے ہونے والا فعل ہے-حق کے چاہنے والے اگر کم ہوں تو یہ بھی کوئی عجوبا نہیں ہے-لیکن یہ بھی تو ہوتا ہے کہ حق باطل پر غالب آجاتا ہے-لیکن ایسا بہت کم ہوا کرتا ہے کہ پیچھے رہ جانے والی شئے آگے بڑھ آئے-
جس کے سامنے دوزخ اور جنت ہوں وہ باطل کی طرف مشغول نہیں ہوسکتا-اس دنیا میں تین طرح کے لوگ ہوا کرتے ہیں-ایک وہ جو نجات کے رستے کی طرف تیزی کے ساتھ بڑھتے ہیں-دوسرے وہ جو حق کی طرف سستی سے جاتے ہیں-ان کے لیے امید باقی ہوتی ہے-اور تیسرے وہ جو کوتاہی کامل کے مرتکب ہوا کرتے ہیں-یہ لوگ آتش و عذاب کے سامنے سرنگوں ہوجانے والے ہوتے ہیں-
رستے کے دائیں اور بائیں گمراہی ہے-سچی راہ تو درمیان کی ہے-اسی رستہ کا شاہد قران ہے اور اسی رستے کی گواہی تاریخ دیتی ہے-اسی رستے پر رسول گامزن تھے-اور انجام کار اسی رستے پر لوٹنا ہے-
جس نے یہ راستہ ترک کیا وہ ہلاک ہوگیا-جس نے اس راستے کے بارے میں جھوٹ سے کام لیا وہ خسارا پانے والوں میں سے ہوگیا اور حس نے حق کے مقابل آنے کی کوشش کی تو وہ برباد ہوگیا-
لوگو!آدمی کی جہالت کے لیے یہی بات کافی ہے کہ وہ حق کی قدر نہ پہچان سکے-نیکی کی جڑ کبھی برباد نہیں ہوا کرتی-اور کسی قوم نے اپنی کھیتی کو نیکی پر استوار کیا تو وہ کبھی خشک سالی کا شکار ہوکر سوکھ نہیں سکتی-جب فتنہ چھا جائے اور تم دیکھو کہ ہر کوئی باطل کا شیدا ہے تو پھر اپنے نفس کی اصلاح پر زور دو-توبہ تمہارے پیچھے ہے-حمد خدا کے لیے ہو اور اپنے نفس کی ملامت کو شعار بنا لیا جائے-
(نہج البلاغہ :خطبہ :16 مطبوعہ من منثورات الھجرۃ)
منظر بدلتا ہے-یہ کوفہ کی جامع مسجد ہے-اہل کوفہ جمعہ کی نماز کے لیے اکٹھے ہیں-علی ابن ابی طالب منبر پر کھڑے ہوتے ہیں اور وہ اعلان کرتے ہیں کہ جن لوگوں نے بیت المال سے ناجائز پیسہ لیا ہے وہ اس کو واپس لینے والے ہیں-ان تمام جاگیروں کو واپس لینے والے ہیں جو ناجائز طور پر اقرباء پروری کے لیے دے دی گئی تھیں-اور اس خطبے کے آخر میں وہ کہتے ہیں کہ
فان فی العدل سعۃ و من ضاق علیہ العدل فالجور علیہ اضیق
بے شک عدل میں وسعت ہے –جو عدل کے معاملے میں تنگ دل ہو وہ ظلم و جو کے معاملے میں بھی اتنا ہی سنگ دل واقع ہوا کرتا ہے-
(خطبہ 15،نہج البلاغہ)
علی ابن ابی طالب جہالت ،خواہش نفس کی پیروی اور خود ساختہ احکام کے تسلط کو فتنہ اور فساد کی بنیاد خیال کرتے تھے-ان کے خیال میں کسی سماج میں بگاڑ اس وقت شروع ہوتا ہے جب جاہل مفتی اور ہوس نفس کے غلام حاکم بن جایا کرتے ہیں-اس وقت ہوتا یہ ہے حق میں باطل کی ملاوٹ کردی جاتی ہے-اور اس طرح سے باطل کو حق کا لباس پہنادیا جاتا ہے-اور پورے سماج میں عدل ،انصاف ،حق اور مساوات کا جنازہ نکل جاتا ہے اور ظلم چھانے لگتا ہے-علی کوفہ میں ہیں اور ایک مجلس میں بیٹھے ہیں –لوگ ان سے جہالت کے بارے میں سوال کرتے ہیں-تو علی اس محلس میں یوں گویا ہوتے ہیں
یاد رکھو اللہ کی مخلوق میں سب سے زیادہ اللہ کے ہاں مبغوض شخص دو ہیں-ایک وہ آدمی جس کو اللہ دور کردے-وہ اعتدال کا رستہ بھول جائے-بدعت کا حامی ہوجائے-گمراہی کی دعوت پر لبیک کہنے لگ جائے-ایسا آدمی ان لوگوں کے لیے بھی فتنہ و فساد کا سبب بنتا ہے جو اس کے واسطے سے بدعتوں اور گمراہیوں میں مبتلا ہوتے ہیں-ایسا آدمی اپنے اسلاف کی راہ سے ہٹ جاتا ہے-اور جب تک زندہ ہو تو فتنہ و فساد پھیلاتا ہے-پھر جب مرجاتا ہے تو اس کے ماننے والے گمراہی پھیلاتے رہتے ہیں-غیروں کے گناہ اس کے سر پڑتے رہتے ہیں-اور اپنے گناہوں کا اسیر تو یہ ہوتا ہی ہے-
دوسرا مبغوض ترین آدمی وہ ہوتا ہے جو اپنی نادانیوں اور جہالتوں کو جمع کرنے کے بعد ان کو امت میں پھیلانے اور شایع کرنے میں کوشاں ہوجاتا ہے-فتنہ و فساد کی تاریکیوں کو وہ مسافر ہوا کرتا ہے-وہ اصلاح کے معانی سے ناواقف ہوتا ہے-عوام اس کو دانا و بینا خیال کرلیتے ہیں-جبکہ وہ سرتاپا نادان و جاہل ہوا کرتا ہے-اس کی صبح ہوتی ہے تو وہ ان چیزوں کو زیادہ کرنے کی کوشش کرتا ہے جن کا کم ہونا بہتر ہے-جب وہ متعفن پانی خوب پی لیتا ہے اور لاطائل باتیں کرلیتا ہے تو قاضی بن جاتا ہے-جو باتیں شبہ والی ہیں وہ ان کے جاننے کا دعوی کرتا ہے-جہاں اس کا علم کام نہ کرے وہاں جھوٹی باتوں سے کام چلانے لگتا ہے-اور اپنے جھوٹ پر جم جاتا ہے-شبہات پر اس کی استقامت تارعنکبوت کی طرح ہوتی ہے-اس کو پتہ نہیں ہوتا کہ کیا غلط اور کیا ٹھیک ہے-اگر غلطی کرے تو لوگوں سے یہ امید رکھتا ہے کہ وہ اس کے غلط کو ٹھیک مان لیں گے-ایسا آدمی جاہل ہے اور جہالت کے اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارتا پھرتا ہے-کم نظر ہے-اور ایسی سواری پر سوار ہے جس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے-اس نے علم کی لکڑی کو کبھی نہیں چبایا-یہ جاہل روایات کے ساتھ وہ سلوک کرتا ہے جو تیز ہوا خشک تنکوں کے ساتھ کرتی ہے کہ سب کو منتشر کرڈالتی ہے-خدائے واحد کی قسم بس سے جو بھی سوال کیا جائے اس کو مطلق پتہ نہیں ہوتا-اس کو جو امور سونپیں جائیں ان کو انجام دینے کی اس میں اہلیت نہیں ہوا کرتی-
خطبہ 17 نہج البلاغہ
آپ نے دیکھ لیا کہ تمثیل کے انداز میں علی ابن ابی طالب نے دو ایسے آدمیوں کی مثال دی جو کہ غلط طور پر منصب رشد و ہدائت پر قابض ہوجاتے ہیں-اور ایسے لوگ کیسے پورے سماج میں جہالت اور فتنہ وفساد کو پھیلانے والے بن جاتے ہیں-علی جب یہ باتیں کررہے تھے تو ان کے سامنے اسلام کی تحریک کے سارے نشیب و فراز تھے-وہ اپنے دوستوں اور پیروکاروں کو بتارہے تھے کہ بلاد اسلامیہ میں جہالت اور اس کے نتیجے میں پیداہونے والا فتنہ و فساد وہ بیناد ہے جس سے اسلامی تحریک کی غرض و غائت پس پشت ڈال دی گئی ہے اور سماج سے عدل و انصاف گم ہوگیا ہے-
مدینہ اور مکّہ میں بیت ہوچکی-علی مدینہ کے امن کو باقی رکھنے کے لیے کوفہ کی طرف آجاتے ہیں-اس دوران یہ ہوتا ہے کہ آپ کے خلاف پروپیگنڈا شروع ہوجاتا ہے کہ آپ خون عثمان کے زمہ دار ہیں-اور ایک تحریک قصاص عثمان کے نام سے اٹھ کھڑی ہوتی ہے-اس ساری تحریک کے دوران ایک مرتبہ پھر غلط بیانیوں اور جھوٹ کا سہارا لیکر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے-علی ابن ابی طالب اتہام پرستی کی اس مہم کو دیکھتے ہیں اور پھر اہل کوفہ کو جمع کرتے ہیں اور اپنی صفائی یوں پیش کرتے ہیں-
شیطان نے اپنے گروہ کو اکسایا ہے-اپنی سپاہ کو جمع کرلیا ہے-تاکہ ظلم و ستم کو پھر سے جاری جائے-اور باطل کو غالب کردیا جائے-
خدا کی قسم !ان لوگوں نے کون سا الزام ہے جو میرے سر نہ ڈالا ہو-میرے اور اپنے درمیان آج تک یہ انصاف کو نہیں آنے دیتے-جس حق کو یہ خود ترک کرچکے تھے اس کا مطالبہ مجھ سے کرتے ہیں-جس خون کو انہوں نے خود بہنے دیا اس کا مطالبہ مجھے سے کرتے ہیں-اگر میں اس خون میں شریک تھا تو پھر یہ بھی اس خون میں شریک ٹہرتے ہیں-اور اگر انہوں نے یہ جرم میرے بغیر کیا تو یہ اس کے زمہ دار اور قابل مواخذہ ہیں-ان کی دلیل خود ان پر عائد ہوتی ہے-یہ اس ماں کا دودھ پینا چاہ رہے ہیں جس کا دودھ ختم ہوچکا-یہ اس بدعت کو زندہ کرنے کے خواہشمند ہیں جو مرچکی ہے-۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خدا نے مجھے یقین کی جو دولت دی ہے اس پر مجھے بھروسہ ہے اور مجھے اپنے راستے کے ٹھیک ہونے کے بارے میں کوئی شبہ نہیں ہے-
(خطبہ:22 نہج البلاغہ)
فتنہ و فساد خواہش نفس اور خود ساختہ احکام کی پیروی کے باعث ہوتا ہے-کتاب اللہ کی خلاف ورزی کی جاتی ہے اور ایسے لوگ حاکم بن جاتے ہیں جو برائی کے خوگر ہوا کرتے ہیں-اگر باطل میں حق کی ملاوٹ نہ ہوتی تو حق کے تلاش ارنے والوں سے حق کبھی چھپا نہ رہتا اور اگر باطل میں حق کی چاشنی نہ ہوتی تو پھر دشمنوں کو لب کشائی کا موقعہ نہ ملتا-کچھ حق ہوتا ہے کچھ باطل دونوں کو ملا دیا جاتا اور یہی وہ مرحلہ ہے جہاں شیطان لوگوں پر قابو پالیتا ہے-اور شیطان کے اس وار سے وہی لوگ نجات پاتے ہیں جو اس کی چال کو سمجھتے ہیں-اور جن پر خدا کی رحمت کا سایہ ہوا کرتا ہے-
(خطبہ:50نہج البلاغہ)
دوستوں علی ابن ابی طالب کی اس مجرد تقریرکو آپ تاریخ اسلام کی روشنی میں پڑھیں گے تو آپ کو سمجھ آنے لگے گی کہ وہ سماج طوائف الملوکی کا شکار کیونکر ہوا-کیسے اس سماج میں ظلم اور فساد کا دور دورہ ہوا-آپ کو یہ بھی سمجھ آئے گی کہ سقیفہ کے اندر ہونے والی غلطی جو معمولی لگتی تھی وہ کیسے آگے چلکر تباہ کن ثابت ہوئی-زرا غور کجئیے کہ علی اپنے دوستوں سے پوچھ رہے ہیں کہ سقیفہ میں انصار کو کیا دلیل دے کر رام کیا گیا تو لوگوں نے بتایا کہ اہل قریش نے وہاں کہا تھا کہ “وہ شچر رسول سے ہیں”یہ سنار علی بولے کہ
درخت سے تو دلیل لاتے ہیں اور پھل کو ضایع کردیتے ہیں
خطبہ:66 نہج البلاغہ
علی ابن ابی طالب کے ارشادات و فرمان کو آپ پڑھتے جائیے –وہ دینا اور اس کی مادی آسائیشوں،نفس کی خواہشات کی اور خوئے حکمرانی اور تمناؤں و آرزؤں میں گھر جانے سے نفرت کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں-اور وہ مادیت پرستی سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں-ان کے کلام میں جگہ جگہ دنیا کی بے ثباتی اور موت کے برحق ہونے کا ذکر ملتا ہے-اور وہ زہد و نیکی کو مسلک بنانے کی بات کرتے ہیں-لیکن کیا اس کا مطلب عدل اجتماعی اور مساوات کے قیام کو سرے سے نظر انداز کرنا ہے-کیا ریاست منصفانہ کے قیام کے مقصد سے منہ موڑ لینا ہے-کیا ظلم و جور کے خلاف خاموشی اختیار کرلینا ہے-اور گندی سیاست اور طبقات امراء کے سیاست و وسائل پر قبضے کو بنیاد بناکر خود کو گوشہ نشین کرلینا جائز ہے؟علی نے زہد اور نیکوکاری کا مطلب سیاست سے دست برداری اور عدل و انصاف کے جھنڈے کو چھوڑ دینا کبھی نہیں لیا تھا-وہ ظالم کی اطاعت سے انکاری ہی نہیں ہوئےبلکہ انہوں نے ظالم کے خلاف غیر مصالحت پسند مزاحمت اور جدوجہد کرنے کی مثال قائم کی-اور سب کے سامنے یہ بات ہے کہ وہ وفات رسول کے بعد سے لیکر آپنے وصال کرجانے تک مسلسل جدوجہد اور جہاد میں مصروف رہے-ان کی زندگی کا ایک دن بھی ایسا نہیں تھا جب انہوں نے عدل اجتماعی کے اصول سے روگردانی کی ہو-وہ ظالموں ،مفسدوں اور جاہلوں کے سپرد قوم کو کرنے کو تیار نہ تھے-انہوں نے ظالموں ،مفسدوں اور جاہلوں کے ساتھ جنگ کی اور ایک اور اہم بات یہ کہ انہوں نے اہل عراق،اہل حجاز اور اپنے دیگر ساتھیوں کو بہت واضی طور پر بتایا کہ ظالموں،مفسدوں اور جاہلوں کے آگے ہتھیار ڈال کر خود کو نہیں بچایا جاسکتا-انہوں نے خبردار کیا کہ شام مفسدین ،ظالمین اور جاہلین کا مرکز ہے –اس کو تباہ کئے بغیر ظلم و فساد اور جہالت کا خاتمہ ممکن نہیں ہے-ان کے ساتھیوں کی یہ بدقسمتی تھی کہ وہ شام پر حملہ کرنے میں دیر کرگئے-اور شامیوں نے جنگ اہل عراق کے گھر آکر ان پر مسلط کرڈالی-علی ابن ابی طالب امیر شام سے کسی معاہدے کے حق میں نہ تھے –اور ان کی بات آنے والے وقت نے ٹھیک ثابت کی-علی نے پیشن گوئی کی تھی اگر شام کو بازیاب نہ کرایا گیا تو سارے بلاد پر امیر شام کا قبضہ ہوجائے گا-اور پھر شیعان علی کے ساتھ بہت برا سلوک کیا جائے گا-علی نے اپنے ساتھیوں کو یہاں تک کہا تھا کہ ان کے بعد اہل شام ان کو مجبور کریں گے کہ ان پر دشنام کیا جائے تو انہوں نے اپنے پیروان کو اجازت دی کہ جان بچانے کے لیے دشنام کرلیا جائے –
علی ابن ابی طالب نے سماج کی بہتری کے لیے اور انسانوں کی فلاح کے ایک فعال زندگی کو سب سے بڑا آدرش قرار دیا اور اس کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے کی ہدائت کرنے سے پہلے ایسا کرکے دکھایا-علی کے نزدیک مرد مومن کون ہوتا ہے زرا خود ان کی زبانی سن لیا جائے
اللہ کے بندو!اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ آدمی اور قابل محبت وہ ہے جس کو اللہ نے اس کے نفس کے خلاف دی ہو-جو حزن کرتا ہو اور خوف رکھتا ہو-ایسے آدمی کے دل میں ہدائت کا چراغ جلتا ہے-اور وہ موت کے دن کے لیے سامان ضیافت تیار رکھتا ہے-اور اس طرح سے وہ سختی مرگ کو اپنے لیے آسان بنا لیتا ہے-اتنا غور کرتا ہے کہ بینا ہوجاتا ہے-خدا کو یاد کرتا ہے-اعمال نیک کی کثرت کرتا ہے اور ان اعمال صالحہ کے شریں چشموں سے سیراب ہوتا ہے-ہموار راستے کا مسافر ہوتا ہے-خواہشات نفسانیکا لباس اتار پھینکتا ہے-تمام اندیشوں سے آزاد ہوجاتا ہے-اس کو بس تقرب خداوندی کی فکر ہوتی ہے اور یہ ایک فکر اس کوو اندھوں اور خواہش پرستوں کی زندگی سے نجات دلا دیتی ہے-وہ خود ہدائت کے راستے کی کنجی بن جاتا ہے اور ہلاکت والے راستے کا قفل بن جاتا ہے-جس نے راہ وسط دیکھ لی اور ہدائت کے نشان و علامت کو پہچان لیا ،دشواریوں سے گزر گیا-دین کے محکم ستوںوں قران اور عترت رسول سے لپٹ گیا تو وہ آدمی کا یقین آفتاب کے نور اور روشنی کی طرح کا یقین ہے-اس نے تمام امور میں اپنے نفس کو خدا کے لیے وقف کرڈالا-ہر کام کو وہ اس کی طرف لوٹاتا ہے-ایسا آدمی تاریکی کا چراغ،مشتبہ معاملات کا صاف کرنے والا،غیر واضح باتوں کی؛ کنجی،سخت مشکلات کا دور کرنے والا ،اور بیانوں کی گہرائیوں کا رہنما بن جاتا ہے-جب بولے تو بات سمجھادے-جب خاموشی اختیار کرے تو محفوظ و سالم رہے-خدا کے لیے اپنے کردار کو پاک صاف رکھے-اور یہ اوصاف ہیں جن کی بنا پر حق اس کو اپنے لیے وقف کرلیتا ہے-وہ دین کی کان اور زمیں کا ستون اور منصف و عادل بن جاتا ہے-
اس کا پہلا عدل یہ ہوتا ہے کہ وہ ہوس اور خواہش نفس کو اپنے سے دور کرلیتا ہے-حق کو بیان کرتا ہے-اس پر عمل کرتا ہے اور اور عامل حق رہتا ہے-خیر اور نیکی کو کسی صورت ترک نہیں کرتا-حس کا اردادہ کرلے اس کو کبھی پورا کئے بنا چھوڑتا نہیں ہے-
خطبہ :86نہج البلاغہ
میں نے اپنی بات شروع بھی “علی کے ساتھ کچھ دیر “کے عنوان سے بھی اسی لیے کی تھی کہ علی کے ساتھ رہ کر علی کے ساتھ رہنے کے معانی کی تلاش کی جائے-میں اس میں کامیاب ہوگیا ہوں کیونکہ آپ کے چہروں سے چھلکتی خوشی مجھے اپنی کامیابی کا یقین دلا رہی ہے-
آپ اور میں اس دن کا جشن منانے اکٹھے ہوئے ہیں-اور جشن مولود کعبہ منانے کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ ظالموں کے ظلم کے خلاف کمربستہ ہونے کا عہد کریں اس سے مولائے کائنات بھی خوش ہوں گے-اور یہ اہل بیت سے وابستگی کا سچا اظہار ہوگا-اور آخری خطبہ جو میں نے درج کیا اس میں آدمی کے جو وصف بیان کئے گئے ہیں ان کو اپنانے کی کوشش بھی کی جائے-
آج استعمار اور سامراج اور ان کے گماشتہ لوگوں کی کوشش یہ ہے کہ وہ مسلم ملکوں میں لوگوں کو مذھبی اختلاف اور نسلی فرق کی بنیاد پر ایک دوسرے کے گلے کاٹنے پر آمادہ کرلیں-اس وقت وہ پورے بلاد اسلامیہ کے اندر شیعہ سنی فساد کرانے کی کوشش کررہا ہے-اور بلاد اسلامیہ میں اس وقت سب سے گمراہ ترین گروہ وہ ہے جو عالم اسلام میں تکفیری مہم چلائے ہوئے ہے اور بازاروں،گلیوں ،محلوں ،عبادت گاہوں ،لڑکیوں کے اسکولوں اور محکمہ صحت کی عمارتوں پر بم برساتا ہے اور کفر سازی کی مشین ویسے ہی رواں رکھتا ہے جیسے علی ابن ابی طالب کے زمانے کے خوارج نے رواں رکھ تھی-یہ گروہ پورے بلاد اسلامیہ میں انارکی جس کا پرانا نام فتنہ و فساد ہے پھیلائے ہوئے ہے اور اور یہ اپنے عمل سے ظالم حاکموں اور طبقاتی خلیج کو بڑھاتے چلے آنے والے سرمایہ داروں کی مشین کو تباہ ہونے سے بچانے میں اہم کردار ادا کررہا ہے-یہ وہ گروہ ہے جس نے باطل میں حق کی چاشنی ملارکھی ہے اور بہت سے لوگوں کو گمراہ کررکھا ہے-یہ اپنی دین داری کے ڈھونگ سے عوام کو دھوکہ دیتا ہے-اور فساد کو جہاد قرار دیتا ہے-اور ہر طرف قتل و غارت گری کا بازار سجائے رکھتا ہے-اس گروہ کو بعض شیطان ریاستوں کی مدد ھی حاصل ہے-یہ دشمن بہت واضح ہے مگر افسوس کی بات یہ ہے جن ک اس گروہ کے خلاف باہر نکلنا چاہئے وہ اس دشمن کو بے چہرہ کہہ کر اس کی پہچان کرنے سے روگردانی کرتا ہے اور اپنی جان بچانے کی سوچتا ہے-مگر علی ابن ابی طالب کی بات یاد رکھنی چاہئے کہ
“جنگ میں اتنے زخم جنگ کے شرکاء کو نہیں لگتے جتنے اس جنگ سے لاتعلقی کا ڈھونگ رچانے والوں کو لگتے ہیں”
اب کچھ باتیں تحدیث نعمت کے لیے کیونکہ وقت زیادہ ہوگیا ہے-اس لیے بس اشارات ہی ہوں گے
بے شک اللہ،اس کا رسول اور ایمان والے(مصداق اول علی ابن ابی طالب)تمہارے ولی ہیں-
اللہ چاہتا ہے کہ آپ کے اہل بیت کو ہر آلائش سے پاک کردے
آج کے دن ہم نے آپ کا دین مکمل کردیا اور اپنی نعمتیں آپ پر تمام کردیں-
میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے(قول رسول)
جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے-جو علی سے عدوات رکھے گویا مجھ سے اور اللہ سے عدوات رکھے
علی تجھ سے محبت مومن رکھے گا اور تجھ سے عدوات صرف منافق رکھے گا-
حق علی کے ساتھ ہے-جدھر علی ہوگا حق بھی وہیں ہوگا-
علی تم اس دنیا میں بھی میرے بھائی ہو اور آخرت میں بھی میرے بھائی ہوگے-
علی تمہارا اور میرا گھر یہاں بھی متصل ہے اور وہاں بھی متصل ہوگا-
کل میں جھنڈا اس کے ہاتھ دوں گا جس کو اللہ اور اس کا رسول دونوں محبوب رکھتے ہیں-
تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں ایک قران دوسرا عترت دونوں کو تھامے رہنا یہاں تک کہ حوض کوثر پر ہماری ملاقات ہو-
میں تم سے اپنے اقرباء کی مودت اس رہنمائی کے صلے میں مانگتا ہوں-
اللہم صلی علی محمد وآل محمد
Comments
Latest Comments
Mashaalah buhut achay manzar kashy k hn .
Subhana’allah, Syedna Ali (R.A) were the most brave, humble, ocean of knowledge and honest person after profit (S.A.W.W). Thank your so much to publish this aritcle.
That is right. He was distinctly honest person. He did not even spare his first cousin Abdullah Ibne Abbas (RA) when he got a news of his corruption (Ibne Abbas was the Governor of Basra), he asked him to return the money (of public exchequer). The displeased Ibne Abbas left Basra. Those were difficult times, Imam Ali needed support of wise-people like Ibne Abbas, but Imam did not compromise.
MashaAllah. JazaKallah Wa Khair-o-Kum.
Well Said. The pious stream of Imamat originates from the spring of Risalat (the Prophet-hood of Abu-alQasim -e-Mummad (PBUH and his holy progeny). This means Imamat is subservient to Risalat. Imamat without Risalat has no footings. This is standard Shia faith. Lies have been fabricated that Shias regard Imamat is an institution independent of or parallel to Risalat … No No to lies.
Ali Ibne Abi Talib — Karram Allah Ho Wajhu is the standard Barelvi salutation to him. He was distinct among Ashab (RA) for the reason that he never prostrated to idols — that is why he had a shining face — a face shining with Noor-e-Muhammad (SAWAW). I remember the Barelvi Imam Sahib of the Msajid that I used to go for Friday prayer during my teenage, used to pronounce “Imam-il-Mashariq Wal Magharib, Akhi Rasool Wa Zauje Batool, Ameeral Momineen Ali Ibne Abi Talib Karram Allah Ho Wajhu”.
JazaKaAllah.
“Imam-il-Mashariq Wal Magharib, Akhi Rasool Wa Zauje Batool, Ameeral Momineen Ali Ibne Abi Talib Karram Allah Ho Wajhu”
MashaAllah, sounds as beautiful music to my ears. This is one reason, I respect Barelvi Imams, I do not call them “Mullahs”, even though some of them use harsh words for Shias — Hubbe Ali dominates!
یہ ٹھیک بات ہے کہ اہل سنت بریلوی کے ہاں جمعے کے خطبے میں امام علی کا زکر کرتے ہوئے کہا جاتا “امام المشارق والمغارب ،آخی الرسول و زوج البتول ،غالب علی کل غالب علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ “اور یہ عمر بن عبد العزیز کا دور تھا جب امیر شام کی جاری بدعت کا خاتمہ ہوا اور منبر پر خطبہ جمعہ میں اہل سنت کے آئمہ نے لعنت کرنے والوں کو جواب دینے کےلیے یہ آیہ کریمۃ شامل کی
انّ اللہ یامر باالعدل والاحسان و ایتای ذی القربی والیتمای والمساکین وابن السبیل
I agree. Thanks.