بلاول بھٹو – روشن آواز

اس وقت انتخابی بخار پورے زور و شور سے جاری ہے-سیاسی منظر نامے پر عمران خان کے”اوئے میاں نواز شریف”کہنے اور شہباز شریف کی جانب سے “اوئے بلے باز”کہنے کی باز گشت گونج رہی ہے-اب ایسے میں کوئی میرے کالم کے عنوان پر نظر ڈالے گا تو اس کو یہ بے وقت کی راگنی لگے گا-لیکن میں کہتا ہوں کہ خیبر پختون خوا،بلوچستان اور کراچی کے اندر لبرل اور پروگریسو خیالات رکھنے کی بنا پر لاشے اٹھانے والوں کے لیے یہ بے وقت کی راگنی نہیں ہے –یہ ان کے لیے بروقت راگنی ہے-

پنجاب جہاں کے لوگ جلسہ گاہوں میں اور انتخابی ریلیوں میں جاکر عمران خان اور نواز شریف و شہباز شریف کی تھیٹر پر کی جانے والی کامیڈی جیسی تقریروں سے محظوظ ہورہے ہیں-ان کو پورا پورا لطف اٹھانے کا مزا آرہا ہے –لیکن باقی صوبوں میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے-وہاں ہر اس آدمی،عورت کی جان خطرے میں ہے اور ہر وہ عمارت نشانے پر ہے جہاں ترقی پسندی کا کوئی نشان یا سراغ ملنے کی امید موجود ہے-

بلوچستان جلے،فاٹا اور خیبر پختون خوا میں لوگ مریں پنجاب میں بہت کم لوگوں کو اس کی پروا ہے-اکّا دکّا کالم نگار ہیں جن کو بلوچ اور پشتون آبادی کی فکر ہوگی-اردو بولنے والوں کے مارے جانے کی فکر کھارہی ہوگی-ورنہ تو بس عمران ہے یا پھر نواز شریف جن کے قصیدے پڑھنے سے کسی کو فرصت نہیں مل رہی-

لیکن اگر کوئی بھی پاکستان کے تین حصوں میں بھڑکتی آگ پر بولنے کو تیار نہ ہو تو کیا مجھے بھی خاموش رہنا چاہئے ؟یہ سوال میں نے اپنے آپ سے کیا-جواب نفی میں آیا-تو سوچا کہ قلم سے وہ بات لکھی جائے جو پنجاب کے اندر غیر مقبول ہی سہی لیکن کسی کے ضمیر کو تو جھنجھوڑنے کے کام آہی جائیگی-

آج جبکہ چاروں اور تاریکی اور جہالت کا دور دورہ ہے-لوگوں کو مرضی کے لیبل   لگاکر مارا جارہا ہے تو ایسے میں یہ سوال بنتا ہے کہ یہ لیبل لگانے والے کس کی باقیات ہیں اور مارنے والوں کے فکری اور ذھنی گرو کون ہیں؟یہ وہ سوال ہے جو “جہالت اور تاریکی “کی چیخ و پکار سے حل ہونے والا نہیں ہے-یہ سوال تو روشنی کی آواز جس کے پاس ہو وہی حل کرسکتا ہے-

روشنی کی یہ آواز کیسی ہوتی ہے ؟اس کو پہچاننے کے لیے آپ کو زرا تھوڑا سا ماضی کی جانب لیکر جاؤں گا-کیا آپ کو معلوم ہے کہ 5 جولائی 1977ء سے لیکر 4 اپریل 1979ء کے درمیان کیا ہوا تھا-ایک شخص تھا زوالفقار علی بھٹو اس شخص کا کنگرو عدالتیں بھی ٹرائل کررہی تھیں اور اس زمانے کے پنجاب سے شایع ہونے والے اخبارات ،میگزین اور جرائد بھی اس کی شخصیت کے خلاف جھوٹ کا طومار باندھے ہوئے تھے-وہ شخص جس کو یقین تھا کہ اگر پھانسی پر گیا تو ہمالیہ سے بھی بلند سوگ اور ماتم ہوگا-لیکن 4 اپریل 1979 ء کو راوالپنڈی کی جیل میں اس کو سولی دی گئی تو پورے پنجاب میں بس ایک دو جگہ لوگوں نے خود کو جلایا اور احتجاج کیا-اور اس کو گڑھی خدا بخش کے قبرستان میں خاموشی سے دفن کردیا گیا-

تاریکی کا علمبردار ،ظلمت کا جھنڈا اٹھائے 1979ء سے لیکر 1984 ء تک روشنی کو قید کرنے اور خوشبو کو پھیلنے سے روکنے کے لیے کال کوٹھڑیوں کو بھرتا رہا اور لوگوں کی پشتوں کو کوڑوں سے ادھیڑتا رہا-

اس دوران وہ کون سی گالی،کون سی تہمت اور کون سی بدزبانی تھی جو اس سولی شناس کو نہیں دی گئی-اس دوران المرتضی کو لاڑکانہ میں سب جیل میں بدلا گیا-اور ظلمت کا یہ پیکر پاکستان کے محلے ۔محلے،گلی،گلی اور کوچہ گوچہ،قریہ ،قریہ ہر اس کارکن ،ادیب،دانش ور،صحافی،شاعر کی درگت بناتا رہا جس نے اس کی تاریک خیالی کو ماننے سے انکار کیا-اور سولی پرچڑھ جانے والی روشنی کی آواز پر لبیک کہنے کی جسارت کرلی-

لیکن 1984ء کی ایک صبح لوگوں نے دیکھا کہ ظلمت کے خلاف روشنی کی آواز نے ایم آرڈی کا روپ دھار لیا-روشنی کی آواز گونجنے لگی-اسی دوران جنرل ظلمت نے ڈالر اور ریال کی لالچ نے جنرل ظلمت اور پاکستان میں سیاسی قیدیوں کو غائب کرنے مین ید طولی رکھنے والی ایجنسی کے جنرل تاریک نے بارود اور بندوق کے کھیل کو                  “جہاد “کے نام پر پاکستان کے اندر “سکہ رائج الوقت”کرڈالا-

بارود،بندوق اور منشیات کا یہ کھیل کبھی نہیں رکا اور اس کھیل کے زریعے سے پاکستان کی جمہوری،سیکولر اور لبرل قوتوں اور انکی ترجمانی کرنے والی قیادت کے کے خلاف استعمال ہوتا رہا-جنرل ظلمت اور جنرل تاریک تو ایک حادّثے میں آموں کی پیٹیوں کے ساتھ ہی پھٹ گئے مگر ظلمت اور تاریک اسقدر بچے جن چکے تھے کہ یہ کھیل جاری رکھا گیا-ڈالر والے چلے گئے مگر ریال والوں نے یہیں بسیرا کرلیا اور بربریت میں جو کسر رہ گئی تھی اس کو نجد کے ڈاکوؤں اور ان کے مال مسروقہ پر پلنے والے نئے ابن تیمیاؤں نے پوری کرڈالی-

ان ظالموں اور تاریک پسندوں کے آڑے روشنی کی طاقتور آواز آتی رہی اور اس کی جتنی کردار کشی کی گئی اس کے باوجود اس نے ہمت نہ ہاری اور وہ ظلمت و تاریک پسندوں کی باقیات کو للکارتی رہی-

اس آواز کو بھی 27 دسمبر 2007ء کو خاموش کردیا کیا-لیکن روشنی کی یہ آواز پھر سے پلٹ کر آگئی-اس آواز کو پہلی مرتبہ مظلوموں نے جنوری میں سلمان تاثیر کی شہادت کے بعد لندن میں سنا-اور اس نے ضیاءالحق کے جانیشنوں کو للکارا اور اس کی باقیات سے نجات پانے کے لیے جدوجہد جاری رکھنے کا عزم کیا-

پھر یہ آواز اس وقت سنائی دی جب شہباز بھٹی کو مارا گیا-اور ایک مرتبہ پھر اس آواز نے جنرل تاریک اور جنرل ظلمت کو للکارا-اور پھر سانحہ گوجرہ ہو کہ سانحہ جوزف کالونی سب پر اس نے احتجاج ریکارڈ کرایا-اور وہ کسی کی دھمکیوں میں نہیں آیا-

اس نے شیعہ کے قتل عام اور نسل کشی پر اپنے گھر بلاول ہاؤس پر “علم عباس “لہرانے کا اعلان کیا اور اس طرح سے مظلوم کمیونٹی سے یکجہتی کا اصرار کیا-

آج جب تین صوبوں اور فاٹا کے اندر لبرل اور سیکولر قوتوں پر حملے جاری ہیں تو اس نے سب سے پہلے اس کے خلاف آواز اٹھائی-وہ بہت طاقت اور آہنی عزم کے ساتھ ابن تیمیہ اور ابن وہاب نجدی کے سوانگ رچانے والوں کے خلاف عوام کو بیدار کرنے کی کوشش کرہا ہے-وہ اس جنگ میں اپنے اصل دشمن سے بہت اچھی طرح واقف ہے-اسی لیے وہ کسی مصلحت سے کام نہیں لے رہا-

وہ اپنی پارٹی کا مقدمہ نہیں لڑرہا بلکہ وہ تو ساری انسانیت کا مقدمہ لڑرہا ہے-وہ سارے لیڈروں میں اپنے خیالات کے حوالے سے منفرد اور ممتاز نظر آتا ہے-وہ کم عمر ہے مگر ذھنی کم سن نہیں ہے-وہ بلوغ کاملہ کی منزل کو چھو چکا ہے-اسی لیے تو “مذھب کے بیوپاریوں “کو للکار رہا ہے-

یہ بلاول بھٹو زرداری ہے جو روشنی کی آواز ہے-ہم کہ سکتے ہیں کہ بھٹو کی آواز ہے-روشنی ایک اور طاقت ور آواز اسفند یار ہے-یہ آوازیں آج اگرچہ پنجاب کے کوفہ میں دیواروں سے ٹکرا کر واپس آرہی ہیں –لیکن مداریوں کا تماشہ زیادہ دیر لوگوں کو مشغول نہیں رکھ پائے گا-بیداری کی لہر چلے گی اور روشنی چاروں طرف چھاجائے گی-

                                                                                                                                                    bilwalbhutto

Comments

comments

Latest Comments
  1. Muhammad
    -
  2. Tahir
    -