پاکستان کے تین صوبے اور فاٹا میں آگ اور بارود کی بارش برسنے کا سلسلہ جاری ہے-یہ آگ اور بارود تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے برسائی جارہی ہے-آگ اور بارود کی بارش برسانے کا سبب یہ کہ طالبان کے ترجمان احسان اللہ محسود کہتے ہیں کہ جن سیاسی جماعتوں اور امیدواروں پر یہ آگ برسائی جارہی ہے وہ سیکولر ،لبرل ہیں-امریکہ کے اتحادی ہیں-پشتونوں کے قتل کے زمہ دار ہیں-سوات،فاٹا میں فوجی آپریشن ان کی وجہ سے ہوا ہے-احسان اللہ محسود کے مطابق اے این پی،پی پی پی اور ایم کیو ایم اور بعض آزاد امیدواروں پر حملے طالبان کی مجلس شوری کی منظوری سے ہورہے ہیں-جبکہ پی ٹی آئی ،مسلم لیگ نواز اور جے یو آئی ایف کو ان حملوں سے استثنا دے دیا گیا ہے-
احسان اللہ محسود کے اس بیان میں اور بہت سی متضاد باتیں ہیں-ایک طرف تو وہ الیکشن کو غیر اسلامی قرار دیتے ہیں-دوسری طرف وہ جمہوریت کو کفر کا نظام کہتے ہیں-تیسری طرف وہ اس غیر اسلامی اور کافرانہ نظام کا حصّہ بننے والی کچھ جماعتوں کو اپنے حملوں سے باہر کردیتے ہیں-وہ ان جماعتوں کو بھی بے اعتبار قرار دیتے ہیں-اور یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کا نشانہ تو صرف سابق حکومت اور نظام کا حصّہ رہنے والی جماعتیں ہیں-
تحریک طالبان پاکستان کے یہ ترجمان احسان اللہ محسود ایک سے زیادہ مرتبہ یہ بھی فرماچکے ہیں کہ پاکستان میں نیشنل سیکورٹی اور خارجہ امور بارے فیصلوں کا اصل مرکز جی آیچ کیو ہے-لیکن ان کا نشانہ بس اے این پی،پی پی پی اور ایم کیو ایم ہیں-اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تحریک طالبان پاکستانالیکشن کے دوران ان تمام قوتوں کو انتخابات سے باہر کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں جن کے ہاں تحریک طالبان پاکستان کی فکر اور عمل کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے-اور وہ تحریک طالبان پاکستان سمیت ہر اس گروہ کو پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح اور اقبال کے تصورات کا مخالف خیال کرتی ہیں –
طالبان ،لشکر جھنگوی اور پاکستان کی مذھبی جماعتوں کے درمیان ایک فکری اشتراک یہ پایا جاتا ہے کہ یہ سب جماعتیں اور گروہ سیکولر ازم اور لبرل ازم کا مطلب لادینیت،کفر اور مادر پدر آزادی خیال کرتے ہیں-ان کے نزدیک ان دو لفظوں کا اس کے سوا کوئی اور مطلب نہیں ہوسکتا-یہ کہتے ہیں کہ جب آپ خود کو سیکولر ،لبرل اور پروگرویسو کہتے ہیں تو ایسا کہتے ہی آپ “ملحد،بے دین ،لادین اور بے راہ رو”ہوجاتے ہیں-
آپ ان لفظوں کے اصل مطالب اور مفہوم پر انگریزی لغات اور لٹریری و فلسفیانہ لغات سے لاکھ حوالے نکال کر دکھائیں،ان کو ان اصطلاحوں کے تاریخی پس منظر سے آگاہ کریں –کچھ فائدہ نہیں ہوگا-(اے کے بروہی ،مولانا مودودی ،پروفیسر عبدالحمید سے سبط حسن،صفدر میر،فیروز الدین منصور اور دیگر کئی اور احباب کی بحث کتابوں کا اور تاریخ کا حصّہ بن چکی ہے-جبکہ اس موضوع پر خود مولانا حسین احمد مدنی،پروفیسر سرور،عبید اللہ سندھی اور اس مکتبہ فکر کے دیگر درجنوں سکالرز نے بھی نیشنلزم،سیکولرازم پر تقسیم ہند سے قبل اور بعد میں اپنا نکتہ نظر بیان کرتے ہوئے سیکولر ہونے کا مطلب لادین ہونا لینے کو فاش غلطی قرار دیا تھا-مگر شومئی قسمت 80ءکی دھائی میں “ڈالر اور ریال کی ہوس نے مکتبہ دیوبند کے اندر آل سعود کے اثر نفوز کے بعد سب حقائق کو مسخ کرڈالا)
بارود کی بارش کرنے والے منطق اور دلائل کی زبان میں بات کرنا پسند ہی نہیں کرتے-یہ وہ لوگ ہیں جو کسی طرح سے بھی اہل علم و فکر کی صحبت میں کبھی نہیں رہے-ان کے استاد وہ ہیں جو ان کو نفرت اور بدگمانی سکھاتے ہیں-یہ اس قدر تاریک الذھن لوگ ہیں کہ ان کی لڑائی کا کوئی اصول اور ضابطہ نہیں ہے-یہ بے گناہ غیر مسلح اور کمزور نہتے لوگوں پر آگ اور بارود کی بارش کرتے ہیں اور ان کی بربریت سے بچے،عورتیں ،بے مار،لاغر اور بے بس لوگوں کے گھر ،دکانیں،ٹھیلے تباہ ہوتے ہیں اور ان کے اعضاء دور دور تک بکھر جاتے ہیں-ان مرنے والوں میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جن کو اگر آپ یہ پوچھ لو کہ بھائی تم سیکولر ہو؟تو وہ حیرت سے آپ کا چہرہ تکنے لگتے ہیں-اور بہت معصومیت سے سوال کرتے ہیں کہ بھائی یہ کس بلا کا نام ہے؟وہ لبرل ہونے کا مطلب تک نہیں سمجھتے اور ان کو جب آپ یہ کہو کہ بھائی ! کیا تم بے دین ہو؟کافر ہو؟کیا تم مادر پدر آزادی پر یقین کرتے ہو؟تو یقین کجئیے ہوسکتا ہے کہ بھٹو کے جیالے ،باچا خان کے ماننے والے اور الطاف کو حق پرست کہنے والے آپ کا گریبان پکڑڈالیں-وہ آپ پر ہاتھ اٹھانے پر مجبور ہوجائیں-
اس ملک میں اندھیر نگری اور چوپٹ راج چل رہا ہے-ایک طرف تو تاریکی کے جھنڈے اٹھائے نام نہاد طالب قتل عام کررہےہیں-دوسری طرف وہ لوگوں کے عقیدے اور مذھب کا ان کی اخلاقیات کا تعین بھی خود ہی کررہے ہیں-زرا سوچئے کہ اس ملک میں باچا خان کا پوتا جس کا دادا اکوڑہ خٹک کے دارالعلوم حقانیہ میں زیر تعلیم رہا-اور اس کے ہاں مذھب ڈسپلن اور اخلاقیات سکھانے والا عنصر رہا ہے-جس کا باپ ولی خان ہے اور خود اسفند یار بھی مذھبی ماحول میں پروان چڑھا-فرق اسفند اور ملّا کی مذھبیت میں یہ ہے کہ اس کو سیکولر اور لبرل روائت اپنے مذھب سے متصادم نہیں لگتیں-وہ ریاست کو مذھب اور فرقہ کی بنیاد پر کسی کے بنیادی حقوق سلب کرنے کو اپنے مذھب کی تعلیم کے منافی خیال کرتا ہے-جبکہ ملّا کی مذھبیت اس ملک میں ایک طرف تو مسلم،ہندؤ،کرسچن،بدھ،احمدیوں کے درمیان بھائی چارے کی فضاء کو خلاف اسلام خیال کرتی ہے تو دوسری طرف یہ اسلام کے اندر موجود شیعہ،سنی،دیوبندی،وہابی اور دیگر مسالک کے درمیان امن و آشتی کو بھی اپنے عقیدے اور مذھب کے خلاف خیال کرتی ہے-
زوالفقار علی بھٹو،بے نطیر بھٹو اور بلاول بھٹو کی مذھبیت بھی طالبانی مذھبیت سے جدا ہے-اور اس مذھبیت کی بنیاد بھی صلح کلیت ،بھائی چارے ،اخوت اور محبت پر استوار ہے-اس مذھبیت میں اقلیتوں پر جبر کا کوئی تصور نہیں ہے-نہ ہی اس میں مذھبی بنیادوں پر معاشرے میں کسی گروہ پر آگ اور بارود کی بارش کرنے کا تصور پایا جاتا ہے-قائد اعظم محمدعلی جناح نے بھی تقسیم سے پہلے اور تقسیم کے بعد اپنی مذھبیت بارے بہت کھل کر وضاحت کی تھی-ان کی 11 گست 1947 ء کو دستور ساز اسمبلی میں تقریر اور پھر ان کی کابینہ میں وزیر قانون اور وزیر خارجہ کے عہدوں کے لیے اشخاص کا چناؤ یہ بتانے کے لیے کافی تھا کہ قائد اعظم کا تصور مذھبیت کیا تھا-جناح ،اقبال،بھٹو اور ان اے جانشینوں کی مذھبیت سیکولر ،لبرل ،پروگریسو خیالات سے ہم آہنگ تھی اور وہ اس کو اپنے عقیدے اور مذھب کے خلاف نہیں سمجھتے تھے-اس لیے ان کا خیال تھا کہ پاکستان جب بن جائے گا اور پاکستان میں وفاقی پارلیمانی جمہوری ںظام بنے گا اور ایک جمہوری آئین کی تشیکل ہوگی تو پاکستان سے کمیونل،فرقہ ورانہ اور صوبائی تعصب کے تضادات ختم ہوجائیں گے اور سب ریاست کے برابر کے شہری بن کر زندگی گذاریں گے-
ہم جانتے ہیں کہ وہ کون سی قوت تھی جس نے قائد اعظم کے اس خواب کو شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دیا-کیا یہ سچ نہیں ہے کہ قائد اعظم اور ان کے ساتھیوں کی صلح کل مذھبیت جو خارج کرنے کی بجائے شامل کرنے والی تھی کو ملاّئیت کی مذھبیت سے بدل دیا گیا-جمہوریت،لوگوں کو حق رائے دہی دینے سے روکنے کے لیے اسلام کی ایک ایسی شکل پیش کرنے کی کوشش کی جاتی رہی جس میں عوام کو فیصلہ کرنے کا اختیار ملنے کی بجائے جاگیردار،ملّا،وردی بے وردی نوکر شاہی اور بعد میں اسلحے اور منشیات کے تاجروں اور آج کل بلڈر مافیا کو فیصلوں کا اختیار دے دیا گیا-اور یہ سب اس آئیڈیالوجی کے سہارے کیا گیا جس کو تحریک طالبان پاکستان نے اپنا رکھا ہے-اور وہ بارود اور بندوق کے زور پر اس کے نفاز کے لیے سرگرداں ہیں-
آج خیبر پختون خوا،کراچی ،فاٹا اور بلوچستان میں پی پی پی ،اے این پی اور ایم کیو ایم کی قیادت اور امیدواروں کے لیے انتخابی مہم چلانا عملی طور پر ممکن نہیں رہا-جبکہ بلاول بھٹو زرداری کو پنجاب میں بھی جلسوں سے خطاب کرنے سے روک دیا گیا ہے-نگران حکومت چاہے وہ وفاق کی ہو یا وہ پنجاب کی ہو بلاول بھٹو اور ان کی پارٹی کے لیے محفوظ انتخابی مہم چلانے کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے میں ناکام رہی ہے-دوسری طرف نواز شریف،عمران خان اور مولانا فضل الرحمان کو مکمل آزادی ہے-اور وہ انتحابی مہم زور شور سے چلارہے ہیں-اس سے الیکشن کی شفافیت اور الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری پر بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں-
تاریکی کا مقابلہ کرنے کے لیے اس وقت تو پی پی پی ،اے این پی اور ایم کیو ایم کو نہ تو ریاست کے سیکورٹی اداروں سے کوئی مدد مل رہی ہے اور نہ ہی بین القوامی سطح پر اس ایشو پر تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے-ایسے میں اے این پی ،پی پی پی اور ایم کیو ایم کا میدان خالی نہ چھوڑنے کا عزم اور الیکشن میں جمے رہنے کا عمل قابل ستائش ہے-
مگر پی پی پی کی قیادت خاص طور پر بلاول بھٹو زرداری کو ایک بات سوچنا چاہئیے کہ ان کی پارٹی کے پنجاب میں گراس روٹ لیول پر عام جیالے اور عام ووٹر پی پی پی کے پنجاب میں انتخابی مہم سے غائب ہونے اور پنجاب میں ایک ناسازگار ماحول کے موجود ہونے کی وجہ کیا ہے؟وجہ صاف ظاہر ہے-کہ پانچ سالوں میں پارٹی کی تنظیموں کو غیر فعال رکھا گیا-قابل اور اھل ورکرز کو نظرانداز کیا گیا-پارٹی نے پنجاب میں “سلمان تاثیر اور شہباز بھٹی “کے قتل پر مصلحت پسندی کو ترجیح دی-اور پارٹی کی تنظیموں کو تاریکی کے خلاف اس طرح سے متحرک نہیں کیا جس طرح سے ایم کیو ایم اور اے این پی نے کیا تھا-اس لیے آج پنجاب میں پی ٹی آئی ،مسلم ليگ نواز سمیت دائیں بازو کے لوگوں کا ابھار دیکھنے کو مل رہا ہے-سیکولر اور لبرل آئیڈیالوجی ایک سیاسی شکل میں پنجاب کے اندر کمزور دکھائی دیتی ہے تو اس کی زمہ داری پی پی پی کی قیادت پر بھی عائد ہوتی ہے-
میں بہت معذرت کے ساتھ کہتا ہوں کہ پی پی پی کے سابق شریک چئیرمین صدر آصف علی زرداری،سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور دیگر رہنماؤں نے بلاول بھٹو زرداری کے سیکولر،لبرل ریڈکل موقف اور لائن کو پارٹی کی غالب پالیسی اور سٹرٹیجی بنانے کی بجائے اس کو پیچھے کرنے کا کردار ادا کیا-اگر سلمان تاثیر اور شہباز بھٹی کے قتل پر بلاول بھٹو کی تقریروں کو پارٹی پالیسی میں مرکزی اہمیت دی جاتی تو آج حالات مختلف ہونے تھے-بلاول بھٹو زرداری آج بھی پنجاب کے اندر “دائیں بازو”کے ابھار کے آگے بند باندھنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں اگر پی پی پی میں قیادت مصلحت پسندی کے دائرے سے باہر آجائے-اور پارٹی مافیاز سے اپنی جان چھڑا لے-اس وقت پنجاب کے عام آدمی کے نزدیک پی پی پی کا اعتبار اس لیے بھی مجروح ہے کہ اس پارٹی کے بہت سے وزیروں ،مشیروں اور سرکاری اداروں کی سربراہی پر فائز لوگوں نے بدعنوانی اور لوٹ مار کی اور پارٹی کے امیج کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا-اس امیج کی بحالی کے لیے بلاول بھٹو کو ان مافیاز کے غلط کاموں کی تاویلیں ڈھونڈنے کی بجائے ان سے نجات حاصل کرنا ہوگی-اور یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ اس ملک کے محنت کشوں،ہاریوں ،عورتوں،اقلیتوں کے لیے واقعی کچھ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں-اور یہ سب کرنے کے لیے وہ سیکولر ،لبرل آئیڈیالوجی کی افادیت اور ضرورت سے پنجاب کی عوام کوبھی باخبر کرنے میں کامیاب ہوں گے-میں الطاف حسین اور اسفند یار ولی سے بھی کہتا ہوں کہ سیکولر لبرل آئیڈیالوجی کو عوام میں معتبر بنانے کے لیے ان کو مافیا،ککس بیک اور کمیشن بنانے اور لوٹ مار کرنے والے ٹولوں سے نجات حاصل کرنا ہوگی-آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ سچ ہے کہ اویس ٹپی ،توقیر صادق،خرم رسول،ایازنیازی،لیاری گینگ،شوٹر ،بھتہ خور اور کرپشن سکینڈلز کے دوسرے تمام کردار آپ سب کے لیے بدنامی اور بے توقیری کا سبب ہیں-ان کرداروں نے آپ کی لبرل ،سیکولر اور صلح کل آئیڈیالوجی کا حشر خراب کرڈالا ہے-اس میں پروپیگنڈے کا ہاتھ بھی ہے اور عدالتی اسٹیبلشمنٹ اور وردی بے وردی نوکر شاہی کے اندر ضیاء الحقی باقیات کی سازش کا بھی لیکن زیادہ بوجھ ان کرداروں کا ہے جو آپ کی قربت کا فائدہ اٹھاتے رہے ہیں-اور آپ کے نام اور تعلق پر عوام کو چونا لگاتے رہے ہیں-اس گند سے خود کو الگ کئے بنا دائیں بازو کی انتہا پسند فکر کا مقابلہ مشکل ہے-
Comments
comments