امید بہار – از کاشف نصیر

Asif-Ali-Zardari_1401805c

ملکی تاریخ میں پہلی بار ایک اسمبلی آئین میں متعین اپنی معیاد کو پورا کرنے میں کامیاب ہوئی ہے گو اس سے پچھلی قومی اسمبلی نے بھی اپنی معیاد پوری کی تھی لیکن ایک فوجی آمر کے تسلط کی وجہ سے اسے وہ حیثیت حاصل نہیں ہوسکی جو اس اسمبلی کو حاصل ہوئی ہے۔ میرے مطابق اس کامیابی کے محرکات میں سب سے اہم زرداری صاحب کی غیر معمولی ذہنی قابلیت ہے کیونکہ گزشتہ پانچ سالوں میں کئی ایسے مواقع آئے جب لگتا تھا کہ حکومت اور اسمبلی اب گئی کہ تب گئی۔ اگر زرداری صاحب بھی ماضی کی جمہوری حکومتوں کی روایات کو دہراتے ہوئے اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ مخاصمت اور سختی کا رویہ اختیار کرتے اوراپنی حیران کن سیاسی چالوں کو استعمال نہ کرتے تو شاید یہ کامیابی حاصل نہ ہوسکتی اور یہ اسمبلی دو چار سال پہلے ہی اپنی موت آپ مرجاتی۔ نیک یا بد، اسمبلی اپنی مدت پوری کرچکی اور فیصلہ ایک بار پھر عوام کے ہاتھوں میں ہے۔ امید اچھی چیز ہے، آگے بڑھنے اور منزل تک پہنچنے کے لئے اسکی اپنی اہمیت ہے، اقبال کہتے ہیں پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ، چنانچہ مجھے بھی امید ہے کہ آنے والی اسمبلی پچھلی اسمبلی سے بہتر ہوگی اور اس کے بعد آنے والی اس سے بھی بہتر ہوگی۔ عوام تجربات سے سیکھیں گے اور انشاء اللہ بہتری آئیگی۔

ہمیں مدت مکمل کرنے والی اس اسمبلیپر اطمینان ہو یا نہ ہو، پیپلزپارٹی کی حکومت اچھی لگے یا بری اور زرداری صاحب کی صدارت پر اعتراض ہو یا نہ ہو، ماضی کا وہ باب اب بند ہوچکا اور اسلامی جمہوریہ پاکستان اپنی تاریخ میں پہلی بار ایک جمہوری انتقال اقتدار کے قریب آچکی ہے، اس سے پہلے ہم انیس سو ستتر میں ایسے ہی صورتحال کا سامنا کرچکے ہیں جو بدقسمتی سے اپنے منتقی انجام کو نہیں پہنچ سکی تھی لیکن اس وقت کے حالات اور آج کے حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے اور تمام تر خدشات کے باوجود مجھے یقین ہے کہ اس بار ہمیں انیس سو ستتر کے تجربات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ اس یقین کی وجہ موجودہ دور کے زمینی حقائق ہیں، جن میں سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کی دفاعی پوزیشن، آزاد الیکشن کمیشن، آزاد عدلیہ، غیرجانب دار سمجھی جانے والی نگران حکومت اور بے لگام مرکزی اور سماجی ذرائع ابلاغ ہیں۔ کہتے ہیں کہ زیادہ سازگار حالات بھی کبھی کبھی خطرناک ثابت ہوتے ہے لیکن بہرحال امید پر دنیا قائم ہے اور اسی لئے ہم امید کے ساتھ ہیں۔

ہمیں بھولنا نہیں چاہئے کہ اس امید اور ناامیدی کے درمیان ہونے والے دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات ہماری قوم کے لئے بادل نخواستہ آخری موقع نہیں ہیں، ہمیں کئی بار اس قسم کے مواقعوں اور مراحل سے گزرنا ہوگا یہاں تک کہ ہم بحیثیت قوم اپنی منزل کو پاسکیں اور قوموں کی برادری میں الجھے، بکھرے اور منتشر لوگوں کے بجائے ایک زندہ اور پائندہ قوم کی حیثیت سے آگے بڑھ سکیں۔اس لئے اہم مسئلہ تسلسل کا ہے۔ ہوسکتا ہے میری رائے غلط ہو لیکن میرے مطابق جمہوریت کا تسلسل آج کے پاکستان کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے اور ہمارے پاس موجود آپشن میں نظام کے تسلسل کے سوا اور کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ مزید یہ کہ ملک کے تمام نظریاتی اکائی جن میں بنیادپرست، اعتدال پسند اور روشن خیال سبھی شامل ہیں کے مفادات بھی لامحالہ اسی غریب جمہوریت سے وابستہ ہیں، میں ماضی کے اوراق کو کھول کر اپنے موضوع سے ہٹنا نہیں چاہتا لیکن اتنا ضرور یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ملک کے یہ تمام بڑے نظریاتی دھڑے ماضی میں کئی جمہوریت مخالف ایڈوینچر کا حصہ بن چکے ہیں لیکن کامیابی کبھی کسی کو حاصل نہ ہوسکی۔ اسکا یہ مطلب نہیں کہ کامیابی ناممکن اور ہم ہمیشہ ایک بیمار ریاست میں ہی زندہ رہیں گے بلکہ مطلب یہ ہے کہ کامیابی کے لئے درست اور موثر راستے کا انتخاب کیا جائے اور پھر مستقل مزاجی کےساتھ اس راستے پر چلتے رہیں۔

کچھ معتدل مزاج اور اکثر بنیاد پرست اسلام پسند نظریاتی طبقے مجھ سے اتفاق کرنے میں تامل کریں گے لیکن میرا سوال ان سے یہی ہوگا کہ بہتری کا اس سے مختلف کوئی بھی موثر نسخہ آپ تجویز کردیں تو میں قائل ہونے کے لئے تیار ہوں۔ طالبان افغانستان کا طریقہ انقلاب افغانستان کے قبائلی ماحول سے مطابقت رکھتا تھا لیکن پاکستان میں شامل علاقوں میں سید احمد شہید کی تحریک مجاہدین سے آج تک اس طریقہ کار کے موثر ہونے کے کوئی امکانات نظر نہیں آئے، پھر یاد رہے کہ علماء کرام کے نزدیک جمہوریت فی نفس جمہوریت قابل گردن زنی چیزکبھی نہیں رہی ہے بلکہ اعتراض عوام کی حکمرانی کے تصور، پارلیمان کے لامحدود اختیارات اور ذاتی نامزدگی وغیرہ وغیرہ پر ہوتے ہیں، اب سوال یہ ہے کہ کیا شخصی حکومت میں اس قسم کے خدشات موجود نہیں ہوتے، مزید یہ کہ ایک شخص کے دماغ سے بہتر ہے کہ تمام مسلمانوں کا دماغ کام کرے۔ آپ لوگوں کو بڑے پیمانے پر قائل کریں، موقع حاصل کریں اور جمہوریت سے ان تمام نقائص کو دور کردیں جن پر کسی کو بھی اعتراض ہوسکتا ہے۔ یہی راستہ روشن خیالوں کے لئے کیونکہ اب سرخ انقلاب کا زمانہ گیا اور اگر انہیں بھی کوئی تبدیلی مقصود ہے تو بجائے سازشیں کرنے اور میڈیا کا منفی استعمال کرکے پریشر بلاک بنانے کے قانون سازی کا راستہ اختیار کریں، عوام سے لادینیت کے نام ووٹ لیں اور پھر بھلے پاکستان کے آئین کا حلیہ بگاڑ دیں۔

یہ فیصلہ تو بہرحال وقت کرے گا کہ اگیارہ مئی کا سورج ایک صبح نو بہار کے طور پر طلوع ہوگا یا صبح موہوم ہی رہے گا لیکن مجھے امید کہ آنے والا وقت پچھلے وقت سے بہتر ہوگا، بہتر وقت سے مراد ہرگز یہ نہیں کہ مشکلات ختم ہونے لگیں گے، ہمیں بحیثیت قوم ابھی اور بہت سے قربانیاں دینی ہیں۔نیک یا بد اب، اسمبلی اپنی مدت پوری کرچکی اور فیصلہ ایک بار پھر عوام کے ہاتھوں میں ہے۔ امید اچھی چیز ہے، آگے بڑھنے اور منزل تک پہنچنے کے لئے اسکی اپنی اہمیت ہے، اقبال کہتے ہیں پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ، چنانچہ مجھے بھی امید ہے کہ آنے والی اسمبلی پچھلی اسمبلی سے بہتر ہوگی اور اس کے بعد آنے والی اس سے بھی بہتر ہوگی۔ عوام تجربات سے سیکھیں گے اور انشاء اللہ بہتری آئیگی۔

http://kashifnasir.com/2013/04/08/umeed-e-bahar/

Comments

comments