In defence of Musarrat Shaheen
اک جہانِ حیرت ہے جو ہمارے اردگرد پھیلا ہوا ہے، پاکستان کی اعلٰی عدلیہ نے بزعمِ خود سیاسی نظام کی سرپرستانہ رہنمائی کا بیڑا اُٹھایا الیکشن کمیشن پر جائزوناجائزدباوَ ڈال کر انتخابی عمل میں شریک کار بلکہ مختار کار بنتے ہوئے سیاسی جماعتوں کے نامزد کردہ اور آزادانہ حیثیت میں امیدوار بننے والے افراد کی اسکروٹنی کا عمل شروع کیا اور ریٹرننگ افسران کی پُشت تپتپاتے ہوئے انہیں اس دوران انہیں آئین کی دفعہ 63-62 کے نام پر وہ سب کرنے کی اجازت دی جو سرکاری محکموں میں مُلازمت کے خواست گارافراد کے ساتھ کیا جاتا ہے یعنی اُن سے کلمے، نماز، دُعائے قنوت وغیرہ اور نجّی زندگی میں دینی تعلیمات پر کاربند رہنے کے لئے درکارعلم پر سوالات کئے۔
اب ایک ایسے مُلک میں جہاں کے نوجوانوں کا تین چوتھائی حصّہ شریعت کے نفاذ کے حق میں ہو اور جہان مذہبی جنونیت کے پرستاروں کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہو اُس کی سیاسی زمامِ کار کسی ایسے افراد کے ہاتھوں کیسے سونپی جاسکتی ہے کہ قرب وجوار اور پڑوس میں جن کی وجہَ شہرت شراب پی کر غل غپاڑہ کرنے کی ہو یا جو کسی ایسے مبہم و غیرواضح نظریہ کے بارے میں واضح رائے رکھنے کے مُرتکِب ہوں کہ جس پر بانیَ پاکستان اور مصوّرپاکستان صاحب کے ہاں بھی اتنی وضاحت نہ پائی جاتی ہو۔
آئین میں درج ُگناہ کبیرہ کے ارتکاب کی بات تو انتہائی درجے کی نامعقول بات ہے کیوں کہ گناہ کبیرہ تو توبہ کرنے سے مُعاف ہوجاتے ہیں اور توبہ کوئی ایسا عمل نہیں کہ جو باربار نہ کیا جائے کیوں کہ دینی وعظوں میں مصروف مولوی اور ذاکر تو بارہا یہ کہتے رہتے ہیں کہ ایں درما درنومیدی نیست، صد بار اگرتوبہ شکستی بازآ یعنی میرا دروازہ نومیدی کی جگہ نہیں اگر سوبار بھی توبہ توڑی ہے پھر بھی آ، تو جس بارے میں اس حد تک اجازت ہو وہ معاملہ کسی کی اہلیت و ناہلی کا معیار کیسے ہوسکتا ہے
اس سے زیادہ افسوس ناک امر تو یہ ہے کہ برادرم ایازامیر صاحب کی نااہلی کا سارا غُصّہ پشتو فملوں کی ملکہ قراردی جانے والی سابق اداکارہ محترمہ مسرّت شاہین کے بارے میں لائیو براڈکاسٹ میں یا سوشل میڈیا پر اتارا جائے۔ محترمہ مُسرّت شاہین صاحبہ اگر اداکاری کے شعبے سے وابستہ رہی ہیں یا وہ ان فلموں میں درکار مخصوص انداز کے رقص کرنے کی مُرتکب رہی ہیں تو اس بات پر ہمارے انگریزی دان لبرلوں کا اشتعال چہ معنی دارد۔ اُن کے ہاں یہ چیزیں کب معیوب ٹہریں۔ جس طرح سے اُن کے مشہور رقص ٹی وی شوز میں دکھاکر دل کے پھپھولے توڑے گئے یا ہرقابل ذکر کالم نگار نے اس پر ایک کالم داغ دیا وہ ایک عجیب طرز کے مُنافقانہ طرزِعمل کو آشکار کرتا ہے۔ کیا مسرّت شاہین صاحبہ کو نااہل قراردیئے جانے سے آئین میں درج ان احمقانہ شقوں پر مہرتصدیق ثبت ہوجاتی۔ کیا کسی مرد اداکار کے بارے میں بھی یہی لب ولہجہ اختیار کیا جاتا جو مولوی نصرت جاوید نے مسرّت شاہین صاحبہ کے بارے میں اختیارفرمایا۔
جب صحافی برادری کی ایک اور جنس سے تعلّق رکھنے والے طلعت حسین نےہالی وڈ اداکارہ انجلینا جولی کے بارے میں ایک انتہائی مضحکہ خیز کالم داغا تو کئی افراد چیں بہ چیں تھے اس وجہ سے کہ انجلینا جولی کی وجہ شہرت ایک فلمی اداکارہ ہونے کے ساتھ ساتھ اقوام متّحدہ کے رفاہی پراجیکٹس اور دیگر ہیومینیٹیرین معاملات میں بھرپور شرکت کی بھی ہے اور وہ سیلیبرٹی کلچر اور فلنتھراپی کا ایک حسین امتزاج ہیں اس لئے طلعت حسین سے خار رکھنے والوں، ڈیویلپمنٹ سیکٹر کے بھرتی کے کالم نگاروں اور سوشل میڈیا کے محاذ پر مصروف جوشیلے تحریرنگاروں نے خوب اودھم مچایا لیکن مسرّت شاہین کے معاملے پر معاملہ مُختلف ہے۔
حالاں کہ آج جب پاکستان میں الیکشن طالبان کی بندوقوں اور افتخار چوہدری کی پروطالبان عدلیہ کے فرامین کی چھاوَں میں مُنعقد ہورہے ہیں اس میں مولانا فضل الرحمان جیسے طالبان کے سب سے زیادہ قریب سمجھے جانے والے سیاست دان کے خلاف آواز بلند کرنا چہ جائیکہ الیکشن لڑنے کا عزم کرنا کسی لحاظ سے کم جرآت مندانہ اورکم قابل تحسین کام نہیں۔ اس بات کے قطع نظر کہ مُسرّت شاہین انتخاب جیت سکتی ہیں یا نہیں ان کا عزم و ارادہ ہی قابل تعریف ہے۔
جس طرح سے انہوں نے فضل الرحمان کی جماعت کے انتخابی نشان پر اعتراض کیا اور پھر مولانا صاحب کا روایتی اعتراض کہ مُخالفین کو سی آئی اے اور موساد سے جوڑنا وغیرہ ایسا اعتراض مولانا ہی پر دے مارنا ان کی سیاسی جرآت کا اظہار ہے۔ اسی لئے پاکستان کے سوشل میڈیا سپیس پر موجود ڈیڈہ درجن لبرلوں کو تو سیاسی جماعتوں سے یہ اصرار کرنا چاہیئے کہ وہ مسرّت شاہین صاحبہ کے حق میں امیدوار دست بردار کرالیں تاکہ مذہب کے نام پر سیاست گری کے کھیل کو آئینہ دکھایا جاسکے
Comments
Latest Comments
cool.
Blessed!