Corruption of Chairman NAB Justice Deedar Shah


انسانوں کو ناانصافی کے ترازو پر نہ تولا جائے……عرض حال…نذیر لغاری

لگ بھگ 13سال پرانی بات ہے۔ میں گلشن حدید میں ایک دوست کے ساتھ موجود تھا، مجھے اطلاع ملی کہ الفلاح تھانے کی حدود میں ڈی ایس پی عزیز الرحمٰن کے دو بیٹوں سب انسپکٹر کاشف عزیز اور راشد عزیز کو ان کے ڈرائیور اور گن مین کے ہمراہ قتل کردیا گیا۔ میرے ساتھی کرائم رپورٹر بھی میرے ساتھ گلشن حدید میں موجود تھے، ہم دونوں فوری طور پر وہاں سے اٹھے اور وقوعہ کی جانب چل دیئے۔ ہم قتل کی تفصیلات معلوم کرنے کے ساتھ ساتھ مقتولین کے ورثا کا موقف بھی جاننا چاہتے تھے۔ ملیر سے الفلاح کی جانب مڑے ہی تھے کہ ہمیں ایک اور اخبار کے کرائم رپورٹر نظر آئے۔ انہوں نے کہا کہ آپ وہاں نہ جائیں کیونکہ مقتولین کے والد قتل کے ذمہ داروں میں آپ کا اور دیگر صحافیوں کے نام لے رہے ہیں۔

میں چونک پڑا قتل کی کسی بھی واردات سے میرا یا کسی اور صحافی کا کیا تعلق ہوسکتا ہے۔ دراصل کئی برس قبل ہمارے اخبار میں مقتولین کے بارے میں ایک خبر شائع ہوئی تھی۔ یہی خبر ایک ہفت روزہ میں بھی شائع ہوئی تھی۔ اس خبر کی اشاعت کے اگلے روز ہم نے ڈی ایس پی عزیز الرحمٰن اور ان کے بیٹے کا وضاحتی بیان بھی شائع کردیا تھا۔ تاہم ڈی ایس پی عزیز الرحمٰن نے میرے اور مقامی ہفت روزہ کے مدیر کے علاوہ ہمارے رپورٹروں کے ساتھ ساتھ بعض دیگر افراد کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرا دیا۔

مقدمہ کے اندراج کے چند روز بعد ایس ایچ او الفلاح ممریز خان ہماری گرفتاری کیلئے تھانے سے نکلے اور پہلے مقامی ہفت روزہ کے دفتر پہنچے۔ میں اس وقت پریس کلب میں موجود تھا۔ اس موقع پر صحافی دوست اور کے یو جے اور پریس کلب “ کے عہدیداران ہفت روزہ کے دفتر پہنچ گئے۔ میں نے ڈی آئی جی ملک اقبال صاحب کو فون کرکے ان سے پوچھا کہ میں اس وقت پریس کلب میں ہوں، آپ بتائیں کہ میں گرفتاری کیلئے کہاں پہنچوں؟ انہوں نے کہا کہ ابھی پولیس تفتیش کررہی ہے ابھی صحافیوں کی گرفتاری کا مرحلہ نہیں آیا۔ اس پر میں نے پوچھا کہ متعلقہ تھانہ کے ایس ایچ او ہفت روزہ کے دفتر میں موجود ہیں اور وہ رفیق افغان اور ان کے رپورٹر کو گرفتار کرنے کیلئے وہاں پہنچے ہوئے ہیں۔

ہمارے دفتر کی جانب سے ہمیں ہدایت کی گئی کہ ہمیں اس مقدمہ میں ضمانت قبل از گرفتاری کرا لینی چاہئے۔ ہمارے وکیل نے ضمانت کے کاغذات تیار کئے اور ہم متعلقہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت میں پہنچے۔ صدر آصف علی زرداری کے انتہائی قریبی دوست اور رفیق کار ان دنوں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج تھے۔ انہوں نے ہمیں اپنے روبرو طلب کرنے اور ہمارا موقف سننے سے انکار کرتے ہوئے یہ معاملہ اس ہدایت کے ساتھ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے حوالے کردیا کہ ان کی ضمانتیں منظور نہ کی جائیں۔ ہم ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے چیمبر میں پہنچے تو وہاں ایک اہم سیاستدان اور سابق سینیٹر ان کی کرسی کے برابر میں کرسی لگا کر بیٹھے ہوئے تھے۔ عدالت نے ہماری درخواست پر ایک مختصر حکم لکھا اور ہماری درخواست مسترد کردی۔

اگلے روز ہم ہائیکورٹ چلے گئے۔ ہائی کورٹ میں ہمارا کیس جسٹس دیدار حسین شاہ کے روبرو لگایا گیا۔ پاکستان کی تاریخ کے چند نامور قانون دانوں میں سے ایک انتہائی قابل، ذہین اور ماہر قانون دان خالد اسحاق میرے پاس آئے اور مجھے کہا کہ تم جسٹس دیدار حسین شاہ کی عدالت میں پیش ہونے کے بجائے شہر سے باہر چلے جاؤ۔ یہ انتہائی با اصول جج ہیں، کسی کی سفارش نہیں سنتے، کسی کا چہرہ دیکھ کر فیصلہ نہیں کرتے، یہ کسی بھی بڑی شخصیت کو خاطر میں نہیں لاتے۔ اگرچہ انہیں پی پی دور میں جج بنایا گیا مگر وہ پیپلز پارٹی والوں سے بھی کوئی رعایت نہیں کرتے۔ بہتر یہی ہے کہ آپ مری چلے جائیں۔ میں نے ان سے گزارش کی کہ اگر میں مجرم ہوں تو کب تک بھاگتا پھروں گا اور اگر میں بے قصور ہوں تو کیوں چھپتا پھروں۔

اتنے میں ہماری باری آگئی۔ میں اپنی زندگی میں پہلی بار جسٹس دیدار حسین شاہ کو دیکھ رہا تھا۔ میری ان سے کبھی بھی بالمشافہ ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ میرے ساتھ میرے وکیل تھے جو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اب سندھ ہائیکورٹ کے جج ہیں۔ میرے وکیل نے لگ بھگ تین سے چار منٹ تک اپنی معروضات پیش کیں۔ جسٹس دیدار حسین شاہ نے میری طرف ایک نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ انہوں نے میری اور میرے رپورٹر کی ضمانت قبل از گرفتاری منظور کرتے ہوئے پولیس کو نوٹس جاری کردیئے اور اگلی پیشی میں پولیس نے صحافیوں کے نام سی کلاس میں ڈال دیئے تھے۔

میں یہ بالکل نہیں کہتا کہ جو مجھے انصاف دے وہی اچھا منصف ہے۔ صدر زرداری کے قریبی رفیق کار سے ہماری ضمانت قبل از گرفتاری منظور نہیں ہوسکی۔ ہمارے معاملے میں ایک سینئر سیاستدان ، سابق سینیٹر جج کی کرسی کے ساتھ کرسی لگا کر بیٹھے تھے۔ ہماری گرفتاری میں وزیر اعلیٰ ہاؤس گہری دلچسپی لے رہا تھا۔ ہمارے ایک ساتھی صحافی کی گرفتاری کیلئے ایس ایچ او ان کے دفتر پہنچ چکا تھا۔

ان دنوں جسٹس دیدار حسین شاہ کے خلاف ایک طوفان اٹھا ہوا ہے۔ طوفان اٹھانے والے شاید دیدار حسین شاہ کو نہیں جانتے۔ یہ بات تو مجھ سے زیادہ میاں نواز شریف جانتے ہیں کہ جنرل مشرف کے عہد میں بڑے بڑے سورما جابر حکمران کے سامنے سربسجود تھے۔ جسٹس دیدار حسین شاہ نے نواز شریف کے معاملے میں کوئی دباؤ قبول نہیں کیا تھا۔ میاں نواز شریف ضرور جانتے ہوں گے کہ جب دیدار حسین شاہ سندھ ہائیکورٹ سے سپریم کورٹ چلے گئے تھے تو انہیں کیسی کیسی مشکلات سے گزرنا پڑا تھا۔ میں سیاست اور سیاسی عمل کو گالی دینے کا تصور بھی نہیں کرسکتا مگر سیاست اور سیاسی اہداف کیلئے یہ ضروری ہے کہ کسی اچھے انسان کو ناانصافی کے ترازو پر تولا جائے۔

Source: Jang, 12 October 2010

Comments

comments

Latest Comments
  1. Zainab Ali
    -
  2. Abdul Nishapuri
    -
  3. Aamir Mughal
    -
  4. Aamir Mughal
    -
  5. Aamir Mughal
    -
  6. Aamir Mughal
    -
  7. Aamir Mughal
    -
  8. Aamir Mughal
    -
  9. Aamir Mughal
    -