جنرل کیانی کا خواب : ایک اور ایکسٹینشن یا وزارتِ داخلہ
جنرل اشفاق پرویز کیانی اور اُن کے روایتی مدّاح جو کہ اپنی فکری وابستگیوں کے حوالے سے “مولانا مودودی کے فکری خوشہ چین اور دائیں بازو کی حامل جماعتوں مسلم لیگ، تحریک انصاف وغیرہ میں بکھرے ہوئے ہیں اس بار پھر میڈیا میں ہمیشہ کی طرح باڑے کے لکھاریوں کا منصب سنبھالے اُن کا قد بڑھانے میں مصروف ہیں۔ اُن کی جمہوریت پسندی اور پرفیشنل ازم کی تعریف میں مشغول ہیں۔
کل رات جناب مجیب الرحمان شامی صاحب اپنے پروگرام میں جنرل کیانی کی تعریف کرتے ہوئے افغانستان میں پیش آمدہ تبدیلیوں کو پاکستانی خواہشات سے جوڑے رکھنے کے عمل کی نگرانی کے لئے جنرل کیانی کی ایکسٹینشن یا رولز میں ترمیم کرتے ہوئے آئندہ ٹرم میں اُن کوکوئی اور اہم عہدہ دیئے جانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اِس پروگرام کو دیکھ کر میں اِس خواہش کے شان نزول پر سوچ ہی رہا تھا کہ آج شامی صاحب کے نظریاتی ساتھی عفان صدّیقی نے جنرل کیان کا خواب تحریر کر ڈالا۔
پتا چلا کہ جنرل کیانی نے اپنا یہ خواب سُنانے کے لئے چند سینیئر صحافیوں کو اتوار کے دن گالف کا ناغہ کرتے ہوئے پانچ گھنٹوں پر مُحیط طویل مُلاقات کا موقع فراہم کیا۔ اب برادرم عرفان صدّیقی کے بقول یہ میٹنگ تو آف دی ریکارڈ ہی رہی لیکن اس کا لبّ لباب جنرل کیانی کی طرف سے مشروط پیشکش یا شفّاف انتخابات کی یقین دہانی کے ملفوف مُطالبے کی صورت میں سامنے آیا۔
ہاں اتنا ضرور ہے کہ اِس ضمن میں جنرل کیانی کے خواب کی تعبیر شامی صاحب نے شام کو بتادی اور صدّیقی صاحب نے خواب صبحِ صادق کے لمحوں میں اخباری کالم میں بتلا دیا۔
صبح صادق کے خواب سچّے ہوتے ہیں اس لئے یقین رکھیئے کہ انتخابات وقت پر ہوں گے، یعنی سیاست کچھ مشروط آمادگیوں کے ساتھ بچی رہ گئی اور ریاست کو نئی ایکسٹنشن کی یقین دہانی مل جائے گی اور اگر اس راہ میں کوئی دقْت ہے تو آنے والے دنوں میں جنرل ریتائرڈ اشفاق پرویز کیانی وزیر داخلہ کے طور پر سامنے آسکتے ہیں۔
ویسے بھی تحریک طالبان پاکستان نے بھی تو میکے واپسی کے لئے یہی شرط رکھ دی ہے کہ وزارت داخلہ کے لئے کوئی سیریس بندہ لایا جائے اب ریٹائرڈ آرمی چیف سے زیادہ ڈیڈلی سیریس بندہ اور کون ہوسکتا ہے۔
یقین کیجیئے بڑا خوش کُن منظر ہے اور بڑی وِن وِن سچویشن ہے، بلکل ہریشکیش مکھر جی کی فلم کی ہیپی اینڈنگ کی طرح، صاف وشفّاف انتخابات، صادق اور امین نتائج، اتّفاق رائے کا وزیر اعظم اور خواب دیکھنے والا جنرل بطور آرمی چیف یا وزیر داخلہ،
اب وہ مُتّفق وزیراعظم کوئی بھی ہو جنرل کیانی کے ساتھ کام کرتے ہوئے سب خوش ہوں گے۔ ۔ ۔
Comments
Latest Comments
جنرل کیانی کا خواب!…نقش خیال…عرفان صدیقی
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=69220
ناخن درازوں، کیڑا کاروں اور گربہ فرشوں کے لئے دل دہلا دینے والی خبر یہ ہے کہ انتخابات ٹلتے نظر نہیں آتے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ امتحان کی گھڑی قریب آ رہی ہے اور یہ امر بھی یقینی ہو رہا ہے کہ حتی الامکان یہ انتخابات دھاندلی سے پاک ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہی ایک پاک باز طویل المیعاد عبوری حکومت کا تصور بھی تیز دھوپ میں رکھی برف کی سل کی طرح تحلیل ہو گیا ہے۔ ہماری کھیتی انہونیوں کے جھاڑ جھنکاڑ کے لئے ہمیشہ بڑی شاداب رہی ہے، اس لئے پورے یقین کے ساتھ تو نہیں کہا جا سکتا کہ ”قطرے پہ گہر ہونے تک“ کیا گزرتی ہے۔ خاص طور پر امن و امان کی صورتحال اور دہشت گردی کی لہر کسی بھی وقت منظر نامہ تبدیل کر سکتی ہے لیکن اطمینان کی بات یہ ہے کہ اب تک فتنہ گروں کی نہیں بن پائی۔ انتخابات سے ذرا پہلے ”سیاست نہیں ریاست“ کے عنوان سے کینیڈا کے ”شیخ گربہ فروش“ کا قیامت خیز جملہ اپنے اندر غارت گری کا ٹنوں بارود لئے ہوئے تھا۔ حضرت کالی گھٹا کی طرح اٹھے، خاکستر کر دینے والی بجلی کی طرح کڑکے اور جل تھل کر دینے والے ساون کی طرح برسے۔ انہوں نے مینار پاکستان کے عظیم الشان جلسہ عام میں اعلان کیا کہ ملکی مسائل کا حل ایک نیکو کار عبوری حکومت کے قیام میں ہے جو کم و بیش تین سال قائم رہے۔ سیاست کو ہر غلاظت سے پاک کرے، وسیع تر انتخابی اصلاحات کی بنیاد ڈالے اور پھر الیکشن کرا دے۔ حضرت نے ایک آئینی شق اور باہر کے ایک عدالتی فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کیلئے اس نسخہٴ کیمیا میں کوئی دستوری رکاوٹ نہیں اور بآسانی انتخابات کو تین سال کے لئے میل خوردہ کپڑوں والی سیلن زدہ کوٹھڑی میں پھینکا جا سکتا ہے۔
یہ ایک عجیب و غریب تصور تھا جس کی اساس انتخابات ملتوی کر کے طویل عرصے تک ملک کو بے یقینی کے اندھیروں میں دھکیلنے کے فتنہ پرور خیال پر تھی لیکن ستم دیکھئے کہ پیپلز پارٹی نے بھی حضرت کی بلائیں لیں، ایم کیو ایم بھی واری صدقے گئی، مسلم لیگ (ق) نے بھی آستانہٴ عالیہ قادریہ کی حاضری کو فخر جانا اور انقلاب عظیم کی علمبردار تحریک انصاف نے بھی حضرت کے قدموں کی دھول کو اپنی مانگ کا سندور بنانے کو اعزاز سمجھا۔ ایم کیو ایم تو لانگ مارچ میں شرکت کے وعدے سے منحرف ہو گئی لیکن دو دن پہلے عمران خان نے آکسفورڈ یونیورسٹی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ شیخ گربہ فروش کے لانگ مارچ میں چالیس فی صد سے زائد نوجوانوں کا تعلق تحریک انصاف سے تھا۔ یقیناً یہ کسی پس پردہ مفاہمت کے بعد ہی ہوا ہو گا کہ اتنی بڑی تعداد میں نونہالان انقلاب، منہاج القرآن کے دھرنے میں شریک ہوئے۔ خان صاحب کے اس انکشاف کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ اسلام آباد کا دھرنا عملاً منہاج القرآن اور تحریک انصاف کا مشترکہ دھرنا تھا جو بالآخر پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ق)، ایم کیو ایم اور اے این پی کے ساتھ ایک بے سروپا تحریری معاہدے پر ختم ہو گیا۔
شیخ گربہ فروش کے مشن پر کاری ضرب سپریم کورٹ نے لگائی جس نے حضرت کو یاد دلایا کہ آپ تو برسوں سے ملکہ برطانیہ کی وفاداری کا حلف اٹھانے کے بعد کینیڈا میں جا بسے ہیں۔ آپ پاکستانی آئین کے مطابق پارلیمینٹ کے رکن بھی نہیں بن سکتے۔ آپ کی جماعت بھی فی الحال الیکشن میں نہیں، تو پھر آپ کا کون سا بنیادی حق تلف ہوا ہے۔ کیسے باور کر لیا جائے کہ الیکشن کمیشن پر آپ کے اعتراضات اور انتخابی اصلاحات کے حوالے سے آپ کی نیت میں کوئی فتور نہیں؟ حضرت کی دستار کے سارے پیچ کھل گئے۔ اب وہ اپنی قبائے فضیلت کی دھجیاں چننے قریہ قریہ پھر رہے ہیں لیکن بات بن نہیں رہی۔
انتخابات کے انعقاد کے بارے میں شکوک و شبہات رفع کرنے میں سب سے نمایاں کردار عدلیہ اور فوج نے ادا کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہی دو اداروں کو شیخ گربہ فروش نے اپنی فتنہ گری کے لئے ڈھال بنایا تھا۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری تو تسلسل کے ساتھ جمہوری عمل کی استواری اور انتخابات کے بروقت انعقاد پر زور دیتے رہے ہیں۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بھی اس سوچ میں کبھی خلل نہیں پڑنے دیا کہ جمہوری نظام جاری رہنا چاہئے اور کوئی بات آئین کے متعین کردہ دائرہ کار سے باہر نہ ہونی چاہئے۔ آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے فوج کی اس سوچ کو نہایت جچے تلے الفاظ میں واضح کر کے نہایت بروقت پیغام دیا۔
اتوار چھٹی اور آرام کا دن ہوتا ہے جو جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ملک بھر سے آئے کوئی دو درجن اخبار نویسوں کے ساتھ گزارا۔ طے شدہ پروٹوکول کے تحت کوئی پانچ گھنٹوں پر مشتمل اس نشست کی کارروائی آف دی ریکارڈ تھی۔ جنرل نے پاکستان کے متعلق ہر سوال کا بڑے تحمل سے واضح انداز میں جواب دیا۔ انتخابات کے حوالے سے ان کی گفتگو بڑی امید افزا تھی۔ رخصتی کے وقت ہاتھ ملاتے ہوئے میں نے جنرل کیانی سے کہا کہ انتخابات کے بارے میں آپ کی باتوں کو میں کالم میں لکھنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا ”جی بے شک لکھئے“۔ میں نے نکلتے وقت جنرل عاصم باجوہ کو بھی بتا دیا۔ سو میں ”آف دی ریکارڈ“ کی عمومی پابندی سے تھوڑا سا انحراف کرتے ہوئے بتانا چاہتا ہوں کہ جنرل کیانی نے کس مستحکم انداز میں جمہوری عمل کے تسلسل اور انتخابات کے بروقت انعقاد کے بارے میں اظہار خیال کیا۔ ان کا کہنا تھا۔
”آزادانہ، منصفانہ، غیر جانبدارانہ اور شفاف انتخابات میرا خواب ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ ہم اس خواب کی تعبیر کے قریب آن پہنچے ہیں۔ 2007ء میں جب میں نے آرمی چیف کا چارج سنبھالا تو اس وقت بھی میں نے حتی الامکان کوشش کی تھی کہ انتخابات میں کسی طرح کی مداخلت نہ ہو سکے۔ ہم نے پانچ برس آئین کے الفاظ اور روح کے عین مطابق جمہوری عمل کا ساتھ دیا۔ آج ہم پوری طرح منصفانہ انتخابات اور پُرامن انتقال اقتدار کی حمایت کرتے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ آپ لوگ شکوک و شبہات کا اظہار بھی کرتے رہے۔ کسی نے کہا کہ ہم فلاں کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ کسی نے کہا کہ کوئی لمبی مدت کا ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ چاہتے ہیں۔ ہم یہ سب کچھ سنتے رہے۔ آپ نے دیکھا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ہماری نیک نیتی بیانات سے نہیں، ہمارے عمل اور زمینی حقائق کی شکل میں آپ کے سامنے ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ہم خواب کی تعبیر کے قریب آ گئے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ بلوچستان سمیت پورے ملک میں ایک ساتھ ایسے انتخابات ہوں جن پر سب کو یقین ہو۔ 2008ء میں بھی ہم نے مداخلت کاری روکی تھی اور آج بھی ہمارا مشن یہی ہے۔ میں نے چیف الیکشن کمشنر صاحب کو فوج کی مکمل مدد اور تعاون کا یقین دلایا ہے۔ اپنے نمائندے چننا عوام کا حق اور اختیار ہے۔ ہم انتخابات کے نتائج کو کھلے دل سے تسلیم کریں گے۔ عوام کس کو چنتے ہیں، وہ اچھے ہیں یا بُرے، یہ ہمارا کام نہیں۔ ہماری آئینی ذمہ داری یہ ہے کہ جو بھی حکومت بنے اس کا ساتھ دیں“۔
جنرل کیانی کے لہجے کی پختگی اور انداز کا حتمی پن، جمہوری نظام کے تسلسل کے لئے نیک شگون ہے۔ اطمینان کی بات ہے کہ اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں کی آنکھوں میں لو دینے والا خواب چیف جسٹس اور آرمی چیف کی آنکھوں میں بھی بسا ہے۔ میں نے جنرل کیانی کی طویل بریفنگ سے صرف اس خواب کے تذکرے کی اجازت صرف اس لئے چاہی کہ ناخن درازوں، کیڑا کاروں، گربہ فروشوں اور نظریہٴ شرارت کے ان پیروکاروں کی نیندیں مزید حرام ہو جائیں جن کی تمام تر امیدیں فتنہ و فساد اور انتخابات کے التوا سے وابستہ ہیں۔
isn’t the army chief suppose to get permissions from ministry of defence before talking to press about his visions and dreams about democracy? What a country.
@smj Hope you live in Pakistan. It is the other way in Pakistan. MOD has to ask permission from COAS to make any statement. LOL
Irfan Sidiqi Aik Wal-e-Dul Haram Hay. Qadri Sahib Kay Phechay Para Hoa Hay. Taoon Zada Pissoun.