شیعہ مسلک کے جواز کے متعلق جامعہ الازہر مصر کے مفتی اعظم شیخ محمود شلتوت کا فتویٰ – از عبدل نیشاپوری

Summary: Sheikh Mahmoud Shaltut, Grand Imam of Al Zhar University (Cairo, Egypt) was a great champion of unity between Sunni Muslims and Shia Muslims. He issues a fatwa in which he declared that in addition to four Sunni Mazahib (Hanafi, Maliki, Shafi’i, Hanbali), Shia Jafari Isna Ashari (Twelver) Mazhab is an equally valid and respectable school within Islamic faith. For details of his fatwa in English, see this post: https://lubpak.com/archives/233379

 

جامعہ الازہر مصر کے بزرگ عالم دین شیخ محمود شلتوت – شیعہ سنی اتحاد کے علمبردار

دو نمایاں اور ممتاز شخصیتیں جن میں ایک اپنے زمانے کے عظیم فقیہ، شیعوں کے عظیم الشان مرجع تقلید اور ماضی قریب کے ادوار میں عدیم المثال مذہبی پیشوا حضرت آیت اللہ العظمی بروجردی تھے اور دوسری شخصیت اہل سنت کے با عظمت فقیہ اور مفتی اعظم، الازہر یونیورسٹی کے شجاع اور جدید افکار کے حامل علامہ شیخ محمود شلتوت کی ہے۔ آيت اللہ بروجردی مرحوم مصر کے “دار التقریب” ادارے کے بانیوں میں تھے۔ شیخ شلتوت مرحوم بھی اسی طرح “دار التقریب بین المذاہب” ادارے کے بانیوں میں تھے۔ یہ تقریب (اسلامی مکاتب فکر کو ایک دوسرے کے قریب لانا) شیعہ اور سنی علما دونوں کا فریضہ ہے۔

جامعہ الازہر مصر کے بزرگ عالم دین شیخ محمود شلتوت نے فقہ حنفی، فقہ شافعی، فقہ مالکی اور فقہ حنبلی کے ساتھ فقہ جعفریہ پر عمل کو درست قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ شیعت اپنے کردار، اقدار اور عالمی سیاسی دینی قائدین کے عنوان سے اعلٰی حیثیت کا حامل مکتب ہے، جبکہ استعماری ایجنٹوں کی کوشش یہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان شیعہ، سنی اختلافات کو ہوا دی جائے۔ لہٰذا بعض لوگ جنکی مذہب شیعہ اور اہل سنت میں کوئی حیثیت ہی نہیں مناظرہ کیلئے ایک دوسرے کو للکارتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

شیخ محمد شلتوت ١٨٩٣ء میں علم وتمدن کی سرزمین ”مصر” کے ایک مذہبی، علمی اور ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ باپ کا سایہ بچپن ہی میں سر سے اٹھ گیا اور ماں کی آغوش تربیت میں پروان چڑھتے رہے۔ ابتدائی تعلیم گھر ہی پر حاصل کی اور اعلی تعلیم کیلئے ”اسکندریہ یونیورسٹی” میں داخل ہوئے۔ ١٢ سال تک تعلیم حاصل کرتے رہے اور ١٩١٨ء میں ممتاز حیثیت کے ساتھ فارغ التحصیل ہوئے اور ١٩١٩ء میں ممتاز حیثیت کے ساتھ فارغ التحصیل ہوئے اور ١٩١٩ء سے ١٩٣٨ء تک تک یہیں تدریس کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔

١٩٣٩ء میں مصر کی معروف درسگاہ اور عالم اسلام کے عظیم اسلامی مرکز یعنی ”جامعة الازھر” کے سرپرست علامہ شیخ مصطفی مراغی نے آپ کو ”جامعة الازھر” میں پڑھانے کی پیشکش کی جسے آپ نے خوشی سے قبول کر لیا اور پھر ١٩٥٨ء میں علامہ مراغی کی وفات کے بعد آپ کو اس مایہ ناز درسگاہ کے سرپرست کے طور پر منتخب کیا گیا۔

آپ کے اساتذہ ہیں علّامہ شیخ عبد المجید سلیم، علامہ محمد مصطفٰی مراغی اور استاد شیخ الجیزاوی جیسے نابغہ روزگار اور برجستہ افراد تھے۔ اور شاگردوں میں مصر کے معروف ادیب اور قلمکار عباس محمود عقاد اور شیخ علی عبد الرزاق کا نام لیا جاسکتا ہے۔ (
٣)

اگر چہ آپ ایک نابغۂ عصر عالم اور ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے اور آپ نے علمی، تحقیقی، ادبی، ثقافتی، سیاسی اور… تمام میدانوں میں نمایاں کام انجام دئیے لیکن یہاں صرف ایک منادی وحدت کے عنوان سے آپ کی شخصیت، مجاہدانہ زندگی اور اتحاد بین المسلمین کیلئے آپ کی کاوشوں اور کوششوں پر مختصر روشنی ڈالنا مقصود ہے۔

اسلامی اتحاد

آپ فرماتے ہیں کہ ”دینی اخوت وبرادری مسلمانوں کے دلوں میں ایک ایسا مضبوط رشتہ بر قرار کرتی ہے کہ سب مسلمان اپنے کو ایک گھر کے افراد کی طرح دیکھتے ہیں۔ ایک مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی خوشی میں خوش اور اس کے رنج والم کی وجہ سے غمگین واندوہ ناک ہوتا ہے۔ اگر راستہ بھٹک جائے تو اسے راہ راست پر لاتا ہے اور اگر غفلت کا شکار ہو جائے تو اسے خواب غفلت سے بیدار کرتا ہے” (٤) ”مَثَلُ المُؤمِنِینِ فِی نَوَاددھم وتراحھم وَطعاطفھم مثل الجسد اذا شتکی منہ عضو نداعی لہ سائر الجسد بالسّھر والحمٰی” (٥) تمام مسلمان ایک جسم کے اعضاء کی طرح ہیں کہ جب جسم کا کوئی بھی حصّہ درد میں مبتلا ہوتا ہے تو دوسرے اعضاء بیقرار ہو جاتے ہیں۔

محور اتحاد
اگر تعصب کی عینک اتار کر اسلامی مذاہب کے عقائد ونظریات کو دیکھا جائے تو تمام مسلمان اکثر مسائل میں اتفاق نظر رکھتے ہیں صرف بعض مسائل ہیں جن میں جزئی اختلاف پایا جاتا ہے۔ توحید، نبوت، معاد، قرآن، قبلہ اور دوسری تمام بنیادی چیزیں ایسی ہیں جن میں تمام مسلمان مشترک ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ مسلمان اختلاف کا شکار ہو گئے ہیں۔

علامہ محمود شلتوت فرماتے ہیں: قرآن تمام مسلمانوں کے درمیان اتحاد کا محور ہے تمام مسلمان اس کتاب پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کے احکام پر عمل کرتے ہیں اور سورہ آل عمران میں خداوند متعال فرماتا ہے:”واعتصموا بحبل اللہ جمیعاً ولا تفرقوا” قرآن مسلمانوں کو اتحاد کرنے اور اختلاف وافتراق سے دوری کی دعوت دیتا ہے” (٦)

عوامل اتحاد

شیخ محمود شلتوت دو چیزوں کو اتحاد بین المسلمین کیلئے بہت اہم سمجھتے ہیں۔ ١۔تعصب سے دوری: اسلامی مذاہب کے علما ء اگر بے جا تعصب کو ترک کریں اور انصاف و عدالت کی نگاہ سے ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کریں تو اتحاد اور یکجہتی میں کافی موثر ہے اس لئے کہ مسلمانوں میں اختلاف کی ایک وجہ ایک دوسرے کے نظریات و اعتقادات سے عدم آگاہی ہے۔ ٢۔علمائے دین :اتحاد کا دوسرا اہم عامل مسلمان علماء ہیں جو اختلاف کے نقصانات اور اتحاد کے فوائد کو مد نظر رکھتے ہوئے مسلمانوں کی وحدت میں اہم رول ادا کر سکتے ہیں …اسلئے کہ علماہی ہیں جو لوگوں کو ایک دوسرے سے قریب اور اکٹھا کر سکتے ہیں اور اسلام ومسلمین کے عالمی دشمنوں کے مقابلے کھڑے ہو سکتے ہیں۔ شاید یہی وجہ تھی کہ آپ نے اپنے زمانے میں بہت سے سنی اور شیعہ علماء کو خطوط لکھے، ملاقاتیں کیں اور ان کو اتحاد واتفاق کی دعوت دی ۔

انجمن تقریب مذاھب اور شیخ محمود شلتوت

١٩٤٨ء میں مصر کے دار الحکومت قاہرہ میں اسلامی مذاہب کے اتحاد کے لئے ”انجمن تقریب مذاہب اسلامی” تشکیل پائی جسمیں علامہ شیخ محمود شلتوت پیش پیش تھے۔ اس انجمن کے سلسلے میں آپ فرماتے ہیں کہ ” یہ ایک ایسی مقدس جگہ ہے جہاں ایک مصری، ایرانی، لبنانی، عراقی اور پاکستانی ایک جگہ جمع ہوتے ہیں اور شافعی، حنبلی، حنفی، زیدی اور جعفری (شیعہ) ایک میز کے اردگرد بیٹھ کر ایک زبان اور ایک آواز ہوکر اخلاق، تصوف، عرفان اور تمام دینی ومذہبی مسائل پر گفتگو کرتے ہیں اور اسلام ومسلمانوں کی سربلندی کی خاطر ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کام کرتے ہیں (٧)

علامہ محمد تقی قمی شیخ محمود شلتوت کے اس انجمن کے ساتھ تعاون کے سلسلے میں فرماتے ہیں: شیخ محمود شلتوت ١٧سال تک اس انجمن کے ممبر تھے اور شیعہ سنی اتحاد کیلئے ہر وقت کوشاں رہتے تھے۔

علامہ شلتوت کا شیعہ علماء سے رابطہ:

اتحاد بین المسلمین کے سلسلے میں علامہ شیخ محمود کی کاوشوں میں ایک شیعہ علماء سے آپ کی گہری دوستی اور رابطہ تھا جن میں آیة اﷲ محمد حسین بروجردی، آیة اﷲ محمد حسین کاشف الغطا، علامہ محمد تقی قمی اور دوسرے بہت سے علماکا نام لیا جاسکتا ہے ۔
آیة اﷲ بروجردی سے آپ کو بہت گہرا لگاؤ تھا۔ آپ کا بہت زیادہ احترام کیا کرتے تھے اور مسلسل خط وکتابت کے ذریعہ مختلف اسلامی مسائل پر آپ سے بحث ومباحثہ بھی فرماتے تھے۔ مثلاً آیة اﷲ بروجردی کی طرف ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں:

” آپ پر خدا کا درود وسلام ہو، خدا سے ہمیشہ آپ کی صحت وسلامتی کا طالب ہوں اور خدا سے خواہاں ہوں کہ یہ جلیل القدر شخصیت ہمیشہ مسلمانوں کیلئے خیر وبرکت اور اتحاد ویکجہتی کا سبب بنے۔ خدا آپ کو طول عمر عطا فرمائے اور اپنی نصرت ومدد کے ذریعہ آپ کو عزت بخشے۔” (٨)

اسی طرح بیت المقدس میں سنی شیعہ علماء کی ایک کانفرنس کے موقع پر تمام علما نے شیعہ عالم دین آیة اﷲ محمد حسین کاشف الغطا کی امامت میں با جماعت نماز پڑھی جسمیں آپ بھی شامل تھے۔

شیعہ، سنی علما کے اس حسین اتحاد کی منظر کشی آپ ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ: کیا حسین وجمیل لمحہ ہے کہ مسلمان فرقوں کے علماء بیت المقدس (مسجد اقصیٰ) میں جمع ہوئے اور ایک نے شیعہ مجتہد اور صاحب شرف وعزت استاد شیخ محمد حسین آل کاشف الغطا کی امامت میں نماز جماعت پڑھی۔ شیعہ سنی اختلاف سے قطع نظر اور ایک صف میں کھڑے ہوکر جو سب کے سب ایک خدا کو ماننے والے اور ایک قبلہ کی طرف رخ کرنے والے ہیں۔” (٩)

تاریخی فتوا

اتحاد بین المسلمین کی خاطر آپ نے جو سب سے بڑا جہاد کیا وہ آپ کا وہ تاریخی فتوا تھا جسمیں آپ نے تمام مسلمانوں کو دوسرے چار مذاہب (حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی) کی طرح مذہب جعفری کی پیروی کی بھی دعوت دی اور فقہ جعفری کے مطابق عمل کو جائز قرار دیا جسے تمام سنجیدہ علمانے کھلے دل سے قبول کیا اور پورے عالم اسلام میں اس کا استقبال کیا گیا۔

آپ سے شیعہ اور زیدی مذہب کی پیروی کے سلسلے سوال کیا گیا جسکے جواب میں آپ نے فرمایا:

” اسلام نے اپنے ماننے والوں کو کسی خاص فرقے کی پیروی پر مجبور نہیں کیا ہے بلکہ ہر مسلمان اس فرقے کی پیروی کر سکتا ہے جو صحیح طریقے سے نقل ہوا ہے اور اس کے احکام خاص کتابوں میں مدون ہوئے ہیں ۔جو شخص ان چار مذاہب میں کسی ایک کا پیرو ہو وہ ایک کو چھوڑ کر دوسرے مذہب کی پیروی کر سکتا ہے۔ اور مکتب جعفری جو شیعہ اثنا عشری کے نام سے مشہور ہے اس کی پیروی بھی اہل سنت کے مذاہب کی طرح جائز ہے۔ اس لئے مسلمانوںکو چاہئیے کہ اس حقیقت کو درک کریں اور کسی خاص مذہب کی پیروی میں تعصب سے پرہیز کریں اس لئے کہ خدا کا دین اور اس کی شریعت کسی خاص مکتب میں منحصر نہیں ہے۔ ” (١٠)

ﺷﯿﺦ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﺷﻠﺘﻮﺕ ﮐﺎ ﺗﺎﺭﯾﺨﯽ ﻓﺘﻮﯼ
ﺷﯿﺦ ﺷﻠﺘﻮﺕ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺱ ﻋﻈﯿﻢ ﻓﺘﻮﮮ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺣﺼﮧ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ:
“ﺍﻥّ ﻣﺬﮨﺐ ﺍﻟﺠﻌﻔﺮﯾﮧ ﺍﻟﻤﻌﺮﻭﻑ ﺑﻤﺬﮨﺐ ﺍﻟﺸﯿﻌﺔ ﺍﻻﻣﺎﻣﯿﺔ ﺍﻻﺛﻨﺎ ﻋﺸﺮﯾﮧ، ﻣﺬﮨﺐ ﯾﺠﻮﺯ ﺍﻟﺘﻌﺒﺪ ﺑﮧ ﺷﺮﻋﺎً، ﮐﺴﺎﺋﺮ ﻣﺬﺍﮨﺐ ﺍﮨﻞ ﺍﻟﺴﻨﺔ، ﻓﯿﻨﺒﻐﯽ ﻟﻠﻤﺴﻠﻤﯿﻦ ﺍﻥ ﯾﻌﺮﻓﻮﺍ ﺫﻟﮏ، ﻭ ﺍَﻥ ﯾﺘﺨﻠّﺼﻮﺍ ﻣﻦ ﺍﻟﻌﺼﺒﯿﺔ ﺑﻐﯿﺮ ﺍﻟﺤﻖ ﻟﻤﺬﺍﮨﺐ ﻣﻌﯿﻨﺔ، ﻓﻤﺎ ﮐﺎﻥ ﺩﯾﻦ ﺍﻟﻠﻪ ﻭ ﻣﺎ ﮐﺎﻧﺖ ﺷﺮﯾﻌﺘﮧ ﺑﺘﺎﺑﻌﺔ ﻟﻤﺬﮨﺐ، ﺍﻭ ﻣﻘﺼﻮﺭﺓ ﻋﻠﯽ ﻣﺬﮨﺐ، ﻓﺎﻟﮑﻞّ ﻣﺠﺘﮩﺪﻭﻥ ﻣﻘﺒﻮﻟﻮﻥ ﻋﻨﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﯾﺠﻮﺯ ﻟﻤﻦ ﻟﯿﺲ ﺍﮨﻼً ﻟﻠﻨّﻈﺮ ﻭ ﺍﻻﺟﺘﮩﺎﺩ ﺗﻘﻠﯿﺪﮨﻢ ﻭ ﺍﻟﻌﻤﻞ
ﺑﻤﺎ ﯾﻘﺮّﺭﻭﻧﮧ ﻓﯽ ﻓﻘﮩﮩﻢ، ﻭ ﻻ ﻓﺮﻕ ﻓﯽ ﺫﻟﮏ ﺑﯿﻦ ﺍﻟﻌﺒﺎﺩﺍﺕ ﻭ ﺍﻟﻤﻌﺎﻣﻼﺕ[55]” – “ﻣﺬﮨﺐ ﺟﻌﻔﺮﯼ ﺟﻮ ﺷﯿﻌﮧ ﺍﺛﻨﺎ ﻋﺸﺮﯼ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭘﯿﺮﻭﯼ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺍﻋﺘﻘﺎﺩ ﺭﮐﮭﻨﺎﺳﻨﯽ ﻣﺬﮨﺐ ﮐﮯ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺴﻠﮑﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺟﺎﺋﺰ ﮨﮯ ﻟﮩٰﺬﺍ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻻﺯﻡ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺁﮔﺎﮨﯽ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﺟﺎ ﺗﻌﺼﺐ ﺍﻭﺭ ﻋﻨﺎﺩﺳﮯ ﺑﺎﺯ ﺭﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﻣﺬﮨﺐ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﻣﺠﺘﮩﺪ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻓﺘﺎﻭﮮ ﻣﻘﺒﻮﻝ ﮨﯿﮟ۔ ﻟﮩٰﺬﺍ ﺟﻮ ﺧﻮﺩ ﻣﺠﺘﮩﺪ ﻧﮧ ﮨﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺗﻘﻠﯿﺪ ﮐﺮﻧﺎ ﺟﺎﺋﺰ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻓﻘﮧ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﺍﺣﮑﺎﻡ ﺩﺭﺝ ﮐﺌﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﻥ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﮐﺮﯾﮟ ﺍﺱ ﺳﻠﺴﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﻋﺒﺎﺩﺍﺕ ﺍﻭﺭ ﻣﻌﺎﻣﻼﺕ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺮﻕ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ”۔

ﺍﮨﻞ ﺳﻨﺖ ﮐﮯ ﺍﺳﺎﺗﺬﮦ ﺍﻭﺭ ﻋﻈﯿﻢ ﻣﻔﮑﺮﯾﻦ ﺟﯿﺴﮯ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﻓﺨﺎﻡ ﺟﺎﻣﻌﺔ ﺍﻻﺯﮨﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﺑﻖ ﺍﺳﺘﺎﺩ ،ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﯼ، ﻗﺎﮨﺮﮦ ﮐﯽ ﻣﺴﺎﺟﺪ ﮐﮯ ﻣﺘﻮﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻔﺘﺎﺡ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻤﻘﺼﻮﺩ ﻣﺼﺮ ﮐﮯ ﺯﺑﺮﺩﺳﺖ ﻣﻮٴﻟﻒ ﻭ ﻏﯿﺮﮦ ﻧﮯ ﺷﯿﺦ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﮐﮯ ﺍﺱ ﻓﺘﻮﮮ ﮐﯽ ﺗﺎﺋﯿﺪ ﮐﯽ ، ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺷﯿﺦ ﻓﺨﺎﻡ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ “ﺧﺪﺍ ﻭﻧﺪ ﻣﺘﻌﺎﻝ ﺷﯿﺦ ﺷﻠﺘﻮﺕ ﭘﺮ ﺭﺣﻤﺖ ﻧﺎﺯﻝ ﮐﺮﮮ ﮐﮧ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻋﻈﯿﻢ ﺍﻭﺭ ﺍﮨﻢ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﺗﻮﺟﮧ ﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﺑﮩﺎﺩﺭﯼ ﺳﮯ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺯﻧﺪﮦ ﺭﮨﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﻓﺘﻮﯼٰ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﻣﺬﮨﺐ ﺷﯿﻌﮧ ﺍﺛﻨﺎ ﻋﺸﺮﯼ ﺍﯾﮏ ﻓﻘﮩﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﻣﺬﮨﺐ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﻗﺮﺁﻥ ﻭ ﺳﻨﺖ ﮐﮯ ﺩﻻﺋﻞ ﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﭘﺮ ﺍﺳﺘﻮﺍﺭ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ﻟﮩٰﺬﺍ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﺟﺎﺋﺰ ﮨﮯ”۔

ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ: “ﻣﯿﮟ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﺎ ﻓﺘﻮﯼ ﻣﺬﮨﺐ ﺍﺭﺑﻌﮧ ﻣﯿﮟ ﻣﻨﺤﺼﺮ ﻧﮧ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺷﯿﺦ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﺷﻠﺘﻮﺕ ﮐﮯ ﻓﺘﻮﮮ ﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﭘﺮ ﻓﺘﻮﯼٰ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺷﯿﺦ ﺷﻠﺘﻮﺕ ﺍﻣﺎﻡ ﻭﻣﺠﮩﺘﺪ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺭﺍﺋﮯ ﻋﯿﻦ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﮨﻮﺍ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ”۔

ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻔﺘﺎﺡ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻤﻘﺼﻮﺩ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ: “ﻣﺬﮨﺐ ﺷﯿﻌﮧ ﺍﺛﻨﺎ ﻋﺸﺮﯼ ﺍﺱ ﻻﺋﻖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺳﻨﯽ ﻣﺬﮨﺐ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺴﺎﻟﮏ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﭘﯿﺮﻭﯼ ﮐﯽ ﺟﺎﺋﮯ، ﺳﻨﯽ ﻣﺬﮨﺐ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻋﻤﻞ ﺻﺮﻑ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺻﺤﯿﺢ ﮨﻮﮔﺎ ﺟﺐ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﺴﻠﮏ ﮐﯽ ﭘﯿﺮﻭﯼ ﮐﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﺟﻮ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺍﻓﻀﻞ ﻭﺑﺮﺗﺮ ﮨﻮ ،ﺟﺐ ﮨﻤﯿﮟ ﯾﮧ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﭼﮑﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺷﯿﻌﮧ ﻣﺬﮨﺐ ﮐﮯ ﺍﺻﻞ ﻣﻨﺒﻊ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﻇﺎﮨﺮ ﺳﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺧﺪﺍ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺁﻟﮧ ﻭ ﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﺣﮑﺎﻡ ﺩﯾﻦ ﺟﺎﻧﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺗﮭﮯ

(COMPARATIVE FIQH CHAIR)
فقہ مقارن کرسی کی بنیاد

اسلامی اتحاد کے سلسلے میں آپ کی کوششوں میں ایک لائق صد تحسین کوشش ”جامعة الازھر” میں فقہ کے تقابلی مطالعہ اور مباحثہ کی بنیاد ہے جسے فقہ کی اصطلاح میں ”فقہ مقارن” کہا جاتا ہے۔ جسمیں استاد تمام فقہی مذاہب کا تقابلی مطالعہ کرتا ہے اور طلباکو اسی روش کے مطابق درس دیتا ہے۔ اس میں تمام مذاہب کے مشترکات اور اختلافات کو مدنظر رکھا جاتا ہے مشترکات کو الگ کرکے اختلافات میں تمام مذاہب کے دلائل کی تحلیل اور تجزیہ کیا جاتا ہے ۔پھرجس مذہب کی دلیل قوی اور محکم ہوتی ہے اسے اخذ کیا جاتا ہے۔

علامہ شیخ محمود شلتوت نے تمام مذاہب کے فقہی نظریات کے مطالعہ کیا اور اپنی تحلیل کی روشنی میں بہت سے فقہی نظریات کو فقہ جعفری سے لیا ہے اور انہیں دوسرے تمام مذاہب فقہی پر برتری دی ہے جن میں تین طلاق کا حکم، طلاق معلق کا حکم، رضاعت (دودھ پلانے) کا مسئلہ اور دوسرے مسائل قابل ذکر ہیں۔ (١١) اس کے علاوہ آپ کے بہت سے مجاہدانہ کارنامے ہیں جن کے ذریعہ آپ نے تا دم حیات مسلمانوں کے درمیان اخوت وبرادری پیدا کرنے اور اختلاف کو دور کرنے کی کوشش کی اور زندگی کا ایک ایک لمحہ خدا کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے ٢٧، رجب ١٣٨٣ء کو اس دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کر گئے۔

١۔ سورہ حجرات آیہ ١٠ ، ٢۔کلمات قصار از رسول اکرمۖ ،٣۔ شیخ شلتوت آیت شجاعت ص١٥ تا ٢٣ ، ٤۔ الاسلام عقیدة والشیعة ص٤٤٥ ، ٥۔ نہج الفصاحة ح ١١٣٩، ٦۔ شیخ شلتوت آیت شجاعت ص٥٢، ٧۔ مردم ودین ص١٦، ٨۔ شیخ شلتوت آیت شجاعت ص٧٥، ٩۔ شیخ شلتوت طلایہ دار تقریب ص٤١، ١٠۔ شیخ شلتوت آیت شجاعت ص ٨٠، ١١۔ شیخ شلتوت آیت شجاعت ص٨٥

Sources:

http://alhaider.net/index.php?option=com_content&view=article&id=116&Itemid=35

http://www.azannet.com/index.php?option=com_content&view=article&id=120:2010-01-15-21-52-21&catid=112:2010-01-15-21-08-50&Itemid=50

http://www.shiastudies.com/library/Subpage/Book_Matn.php?syslang=4&id=569&id_matn=24692

Comments

comments

Latest Comments
  1. Muhammad Ali
    -
  2. Ch. Azmat
    -
  3. Abdallah
    -
  4. Iklil Husayn
    -
  5. Iklil Husayn
    -
  6. Iklil Husayn
    -
  7. Iklil Husayn
    -
  8. Iklil Husayn
    -
  9. jafari
    -