سیلابی ریلا یا سیاسی رولا – by Syed Ahsan Abbas Rizvi

سیلابی ریلا تباہی مچاتا گُذر گیا ۔۔ جن علاقوں میں پانی کھڑا تھا اب سوکھنا شروع ہو گیا لیکن اِس سے قبل کے غریبوں کے ریسکیو اور ریلیف کے بعد مرحلہء آبادکاری پر توجہ دی جاتی، اندرونِ مُلک اُٹھنے والے سیاسی ریلے نے سب کو اپنی طرف متوجہ کر لیا۔۔۔
تبدیلی یا اَنقلاب، ایڈونچرازم کی خواہشات کونِت نئے نام دئیے جا رہے ہیں۔۔ کہیں مسلم لیگوں کے گٹھ جوڑ کو ایڈونچرازم کی موثر دَلیل گردانا جارہا ہے تو کبھی ڈار اور ڈارلنگ کی مُلاقات کو پیپلزپارٹی کے لیے وارننگ تصور کیا جا رہا ہے۔۔۔ سابق صدر پرویز مشرف بھی اب اپنی آل پاکستان مُسلم لیگ کا جھنڈا اُس ڈنڈے پر چڑھاتے نظر آرہے ہیں جس ڈنڈے کے سہارے انھوں نے ٨ سال حکومت میں ون مین شو چلایا۔۔  عدلیہ ہو یا میڈیا پرویز مُشرف اِسی ڈنڈے سے مُلک کے تمام ادارے کنٹرول کرتے رہے مگر آج جب اُسی ڈنڈے کے اوپر نام نہاد سیاسی جماعت کا جھنڈا چڑھا لیا ہے تو یہ نہ تو کسی  عاقل و بالغ اینکر کو نظر آتا ہے اور نہ ہی قابل و فاضل ججز کو۔۔
دہشت گردی ، انتہا پسندی اور فرقہ واریت کی ہولناک لہر یں بھی مُلک کے چاروں اطراف بنے حفاظتی پشتوں سے ٹکرا رہی ہیں۔ خاص طور پر پیر تا جمعرات شام ٧ سے رات ١١ بجے تک وسوسے، خواہشات اور مفروضات پر مبنی ٹاک شوز مُلک میں جاری بے چینی کے موجد ہیں۔کسی مُلک میں خواہش کے اظہار کی اتنی آزادی نہیں جتنی کے پاکستانی میڈیا کو موجودہ جمہوری دور میں میسر آسکی ہے۔۔
یہ الگ بات ہے کہ اِن خواہشات پر دَم نہیں نکلتا مگر دُم ضرور نکل آتی ہے۔
سیاستدان بھی ایڈونچر کے کارِ خیر میں پیش پیش ہیں، کبھی وفاقی وزارتِ قانون  تختِ لاہور کو تڑیاں لگاتے ہیں ، تو کبھی پنجاب کے وزیرِ داخلہ شہباز شریف ۔۔ وفاقی وزیرِ داخلہ کو ڈبو دینے کے غیر ذمہ دارانہ بیانات سے میڈیا کے بھوکے پیٹ کو بھرتے ہیں۔۔۔ الطاف بھائی اور بڑے میاں صاحب کے بیانات سے تبدیلی کی افواہ کو مزید تقویت ملی ۔۔۔ اور حالات اِس نہج پر پہنچا دیئے گئے کہ وزیرِ اعظم پاکستان کو جلالی لہجہ میں اپنا مؤقف دُہرانا پڑا۔۔ بس پھر تھا کیا؟
سارے میڈیا نے اس تقریر کو لے کے ڈھنڈورا پیٹ ڈالا۔۔ دوسری طرف عدالتی اور حکومتی ورکنگ ریلیشن شپ میں اعتماد کے فُقدان کو بھی ایڈونچرازم کی بُنیاد بنایا جا رہا ہے۔۔
عالمی دُنیا ہماری مدد کے لیے اپنے وسائل بروئے کار لا رہی ہے۔۔۔ پاکستان کی یورپی یونین کی منڈیوں تک رسائی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ مگر کیا یہ سیاسی و انقلابی ریلے سب کچھ بہا لے جائیں گے؟
کیا میرے بے گھر ہم وطن سیلاب زدہ کیمپوں سے گھر مُنتقل ہونے کا حق نہیں رکھتے؟
کیا نظام یا نظامِ حکومت میں کوئی تبدیلی متاثرین ِ سیلاب کو آناََ فاناََ گھر فراہم کر سکے گی؟

کسی ایڈونچر نُما انقلاب کی صورت میں نُقصان اگر پیپلز پارٹی کا ہوتا ہے تو یہ وفاقِ پاکستان کا نقصان ہوگا۔ اور اگر کسی کو فائدہ پہنچ سکتا ہے تو وہ عسکریت پسند و انتہا پسند قؤتیں ہوں گی جو کہ پنجاب میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں اپنا اتنا اثر رسوخ رکھتی ہیں کہ چار و نا چار وزیرِ اعلیٰ پنجاب کو بھی یہ بات کہنی پڑتی ہے کہ یہ تنظیمیں اپنے اثر رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے سیلاب زدہ لوگوں کی مدد کر رہی ہیں تو یہ مثبت سرگرمی ہے۔
ضرورت اس اَمر کی ہے کہ ہماری اولین ترجیح اپنے بے گھر ہم وطنوں کو اُن کے گھروں میں بسانا ہو۔۔
نہ کہ خود اپنی خواہشات کو عملی جامعہ پہنانے کے لیے وزیرِ اعظم ہاؤس میں بسنا۔۔۔

!

Comments

comments

Latest Comments
  1. Aamir Mughal
    -
  2. Nosheen Naqvee
    -
  3. akmal
    -
  4. Muhammad Amjad Rashid
    -