آل محمد پر مسلمان حکمرانوں اور درباری مورخوں کے مظالم
جو قوم اپنی تاریخ کو یاد نہیں رکھتی اس کا مستقبل مخدوش ہو جاتا ہے – برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی تاریخ کو مسخ کرنے کی روایت بہت عرصے سے جاری ہے – لٹیروں، ڈاکوؤں اور ظالم حملہ آوروں جیسا کہ محمد بن قاسم ، محمود غزنوی، شہاب الدین محمد غوری، احمد شاہ دررانی ابدالی ، شاہ ولی الله، مجدد الف ثانی اور اورنگزیب عالمگیر (جس نے نہ کوئی نماز چھوڑی نہ کوئی بھائی ) کو مسلمانوں کے ہیرو کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جبکہ انہی لوگوں کے سنی اور شیعہ مسلمانوں کے خلاف مظالم، ہندو مت اور دوسرے مذھب کے ماننے والوں کے قتل عام اور خود اپنے خاندان کے لوگوں کے بہیمانہ قتل جسے جرائم کو تاریخ سے حذف کرنے کی کوشش کی جاتی ہے
اسلام کی اولین تاریخ کا حال بھی اس سے مختلف نہیں – خلافت راشدہ کے بعد مسلمانوں کے تاریک ترین دور کا آغاز ہوا جس میں رسول اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد اور خاندان پر مسلمانوں نے بے انتہا مظالم کیے – شاید کسی اور نبی کی آل (اولاد اور خاندان ) کے ساتھ اتنے مظالم نہیں کیے گئے جتنے رسول اکرم کی آل کے ساتھ کیے گئے – اسی دور میں جب بنو امیہ اور اس کے بعد بنو عباس کے ظالم حکمران آل محمد کو چن چن کر شہید کر رہے تھے درباری مورخین اور محدثین نے جن کی بڑی تعداد ناصبی حضرات (یعنی دشمنان آل محمد ) کی تھی ایسی روایتیں گھڑیں جن سے آل محمد کے تعین اور ان کی فضیلت کو مشکوک بنانے کی کوشش کی گئی
یہ سلسلہ سینکڑوں سال تک جاری رہا اور خصوصی طور پر حضرت فاطمہ کی اولاد کو مسلمان حکمرانوں اور اہلبیت کے دشمن گروہوں نے بے دردی کے ساتھ شہید کیا – امام حسن کو زہر دیا گیا ، امام حسین اور ان کے ساتھ خاندان محمد کی کثیر تعداد کو کربلا میں شہید کیا گیا – حضرت زید بن زین العابدین کو شہید کیا گیا ان کی قبر کوکھود کر لاش کو دو سال تک لٹکایا گیا اور پھر جلا دیا گیا اہلبیت کے باقی تمام آئمہ کو قید و بند اور ظلم کا نشانہ بنا کر اعلانیہ یا خفیہ طور پر اذیتیں دی گئیں وغیرہ – یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے آج بھی مدینہ منورہ میں آل محمد کے بنو ہاشم کے محلہ پر نجد کے آل سعود کی جانب سے بے انتہا سختی کی جاتی ہے – پاکستان، عراق اور چند دوسرے ممالک میں ناصبی حضرت آل محمد سے نسبت رکھنے والے تمام مزارات اور ان کی اولاد سادات کو خاص طور پر بہیمانہ ظلم کا نشانہ بناتے ہیں وغیرہ
مدینہ میں اہلبیت کے گھروں اور رسول الله کے خاندان سے تعلق رکھنے والے آثار کو مٹانے کی کوشش کی گئی، جنت البقیع میں حضرت فاطمہ کے مزار کو منہدم کر دیا گیا – کربلا میں امام حسین کی قبر اطہر کو مسمار کر دیا گیا – حال ہی میں سامرہ میں عسکری مسجد کو القائدہ سے تعلق رکھنے والے ناصبی سلفی دہشت گردوں نے شہید کر دیا جس میں آل محمد کے دو آئمہ کی پاک قبریں موجود ہیں وغیرہ
یہ طرز عمل اہل سنت کے اکابر کے عقیدے کے خلاف بھی ہے – ناصبی حضرت اپنے آپ کو اہلسنت کے طور پر پیش کرتے ہیں لیکن در حقیقت ان کہ مکتب اہل سنت سے کوئی واسطہ نہیں – اہلسنت کے سب سے جلیل القدر فقیہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ الله آل محمد صلی الله والہ وسلم کے سچے محب تھے اور آل محمد سے عقیدت رکھنے کے جرم میں اس وقت کے ناصبی خلیفہ اور سرکاری علما ان کے خلاف ہو گئے اور ان کو قید میں ڈال دیا گیا – امام ابو حنیفہ نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی شاگردی اختیار کی اور حضرت زید بن امام زین العابدین علیہ السلام کے اموی حکومت کے خلاف قیام اور جہاد کی بھر پور معاونت کی
ناصبی دشمنان آل محمدکا دعوی ہے کہ “آلِ محمد” سے مراد “پوری امت” ہے
چونکہ درود سے بھی آلِ محمد کی فضییلت ثابت ہوتی ہے جس سے ہر انسان کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اتنے افضل اور اعلیٰ لوگ موجود تھے تو پھر مسلمان حکمرانوں نے ان کو اتنی بے دردی سے شہید کیوں کیا اور مسلمان امت ان پر ہونے والے مظالم پر اٹھ کھڑی کیوں نہ ہوئی؟
مکتبِ ناصبی کے لیے یہ ایسا مشکل ترین اور پریشان کن سوال ہے جس کی وجہ سے انہیں لفظ آل میں مغالطہ پیدا کرنا لازمی ہو گیا اور انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ “آلِ محمد” سے مراد پوری امت ہے۔ اور ثبوت کے طور پر یہ دلیل دی کہ
قران میں لفظ “مومن آلِ فرعون” آیا ہے۔ مگر فرعون کی کوئی اولاد نہیں تھی اس سے ثابت ہوا کہ وہ شخص فرعون کا بیٹا نہیں تھا، بلکہ اُس کی قوم کا ایک شخص تھا۔ اور قران نے اُس قوم کے شخص کے لئے “آل” کا لفظ لگا کر ثابت کر دیا ہے کہ “آل” سے مراد “پوری امت” ہے۔
آئیےدیکھتے ہیں کہ اس ناصبی دعویٰ میں کتنی صداقت ہے۔
قران میں آّل سے مراد “اولاد/ نسل/خاندان” ہے
قران میں “آل” سے مراد کہیں بھی “پوری امت” نہیں ہے، بلکہ صرف اور صرف “اولاد/نسل/خاندان”ہے۔
جہاں تک “مومن آلِ فرعون” کا تعلق ہے، تو یہ باتیں ذہن نشین فرمائیں کہ
اُس وقت مصر کے تمام کے تمام حکمرانوں کا لقب فرعون تھا۔
اور سارے فرعون بے اولاد نہیں تھے۔
اور انہیں فرعونوں کی نسلوں سے مل کر ایک خاندان بن گیا تھا جو کہ “آلِ فرعون” کے نام سے جانا جاتا تھا۔
اللہ نے اسی آلِ فرعون کے خاندان کے ایک شخص کو “مومن آلِ فرعون” کہا ہے۔
بعض مرتبہ حکمران مختلف القاب اختیار کرتے ہیں، جیسے قیصر، کسریٰ، سیزر وغیرہ۔ آج اگر ہم سے کوئی پوچھے کہ سعودی عرب پر کون حکمران ہے تو ہم یہی کہیں گے کہ آلِ سعود حکمران ہیں، اور انکا لقب ملک ہے.
سعودیہ میں مرحوم شاہ فہد بادشاہ اور ان کے بھتیجے عبد اللہ ولیعہد قرار پائے ۔ جبکہ اس سلطنت کی بنیاد عبد العزیز ابن عبد الرحمان بن فیصل السعود نے رکھی تھی۔ اس وقت سے ان کے جانشین، بلکہ تما م خاندان کو آلِ سعود کے نام سے جانا جاتا ہے۔ تو ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ شاہ عبداللہ کا تعلق آلِ سعود سے ہے اور انہی کی حکومت ہے اور اسی طرح اور جتنے شہزادے ہیں وہ سب بھی آلِ سعود کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
مگر یہ سعودی عرب کے ہر شہری کے متعلق نہیں کہا جا سکتا کہ اس کا تعلق بھی آلِ سعود سے ہے۔
حکمرانوں کا ملک ہوتا ہے،قوم ہوتی ہے مگر امت نہیں۔ امت تو صرف انبیاء کی ہوتی ہے۔ جبکہ فرعون نبی اور رسول نہیں تھا، بلکہ کافر حکمران تھا۔ اولاد کی اولاد کے سلسلہ کو نسل کہتے ہیں اور ان ہی سے خاندان کا وجود ہے۔ قران میں آّل سے مراد یہی اولاد، نسل یا خاندان ہے۔
قران میں “آل” کی مزید مثالیں
ناصبی حضرات حسبِ عادت قران کا صرف ایک حصہ لیتے ہیں جسے وہ توڑ مروڑ کر اپنی خواہشات کے مطابق ڈھال سکیں، اور باقی قران کو یکسر ٹھکرا دیتے ہیں۔
قران میں لفظ “آل” کے استعمال کے ساتھ بھی انہوں نے یہی رویہ اختیار کیا ہے۔
ذیل میں ہم قران کی وہ آیات پیش کرنے جا رہے ہیں جنہیں ناصبی حضرات نے ٹھکرایا ہوا ہے۔
ان آیات کا اردو ترجمہ و تفسیر سعودی عرب کے شائع کردہ قران سے دیا جا رہا ہے۔ (اس قران کو سعودی حکومت نے لاکھوں کی تعداد میں چھپوا کر پاکستان میں مفت تقسیم کرایا ہے۔ اس قران کے ’مقدمہ‘ میں اس کے مترجم اور مفسر کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے:
خادمِ حرمین الشریفین کی انہی ہدایات اور وزارت برائے مذہبی امور کے اسی احساس کے پیشِ نظر مجمع الملک فھد لطباعۃ المصحف الشریف المدینہ المنورہ اردو دان قارئین کے استفادہ کے لیے قران مجید کا یہ اردو ترجمہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے۔
یہ ترجمہ مولانا جوناگڑہی کے قلم سے ہے اور تفسیری حواشی مولانا صلاح الدین یوسف کے تحریرکردہ ہیں۔ مجمع کی جانب سے نظر ثانی کا کام ڈاکٹر وصی اللہ بن محمد عباس اور ڈاکٹر اختر جمال لقمان نے انجام دیا ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ سعودی عالم آلِ فرعون کا ترجمہ اردو میں کیا کر رہا ہے۔
وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَن يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ وَقَدْ جَاءكُم بِالْبَيِّنَاتِ مِن رَّبِّكُمْ
(القران ٤٠:٢٨)
اور ایک مومن شخص نے، جو کہ فرعون کے خاندان سے تھا، کہا کہ کیا تم ایک شخص کو محض اس بات پر قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے؟ اور تمہارے رب کی طرف سے دلیلیں لے کر آیا ہے۔
اردو ترجمہ از سعودی مطبوعہ قران
صرف یہیں ایک جگہ نہیں، بلکہ جہاں جہاں قران میں آل کا لفظ آیا ہے، وہاں پر ایک دفعہ بھی ان سعودی علماء نے اس کا ترجمہ کبھی قوم یا امت نہیں کیا ہے بلکہ ہمیشہ ترجمہ کے لیے خاندان والے یا گھر والے استعمال کیا ہے۔
مثلاً سورہ یوسف میں اللہ سبحانہ تعالیٰ آلِ یعقوب استعمال کر رہا ہے
وَكَذَلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ وَيُعَلِّمُكَ مِن تَأْوِيلِ الأَحَادِيثِ وَيُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَعَلَى آلِ يَعْقُوبَ كَمَا أَتَمَّهَا عَلَى أَبَوَيْكَ مِن قَبْلُ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ إِنَّ رَبَّكَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
(القران ١٢:٦)
اور اسی طرح تیرا پروردگار تجھے برگزیدہ کرے گا اور تجھے معاملہ فہمی (یا خوابوں کی تعبیر)سکھائے گا اور اپنی نعمت تجھے بھرپور عطا فرمائے گا۔ اور یعقوب کے گھر والوں کو بھی۔ جیسے کہ اس نے اس سے پہلے تیرے دادا اور پردادا یعنی ابراہیم و اسحاق کو بھی بھرپور اپنی نعمت سے نوازا۔
ترجمہ از سعودی مطبوعہ قران
اور آلِ یعقوب کے ذیل میں ان سعودی علماء نے جو تفسیر کی ہے، وہ بھی قابلِ غور ہے
’اس (نعمت) سے مراد نبوت ہے، جو یوسف (ع) کو عطا کی گئی۔ یا وہ انعامات ہیں جن سے یوسف علیہ السلام مصر میں نوازے گئے۔ اور آلِ یعقوب سے مراد یوسف علیہ السلام کے بھائی اور ان کی اولاد وغیرہم ہیں، جو بعد میں انعاماتِ الہیٰ کے مستحق بنے۔
آل سے مراد قوم یا امت ہرگز نہیں ہے کیونکہ اللہ نے قران میں “آل” کے لفظ کے ساتھ “قوم” کا لفظ استعمال کر کے آل اور قوم دونوں کو الگ الگ کر دیا ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ قران کیسے “آل” اور “قوم” میں فرق کر رہا ہے:
كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوطٍ بِالنُّذُرِ إِنَّا أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ حَاصِبًا إِلَّا آلَ لُوطٍ نَّجَّيْنَاهُم بِسَحَرٍ
(القران ٥٤:٣٤)
قومِ لوط نے بھی ڈرانے والوں کی تکذیب کی۔ بیشک ہم نے ان پر پتھر برسانے والی ہوا بھیجی، سوائے لوط (علیہ السلام) کے گھر والوں کے، انہیں ہم نے سحر کے وقت نجات دے دی۔
ترجمہ از سعودی مطبوعہ قران
پھر ملاحظہ فرمائیں کہ کس طرح سعودی مطبوعہ قران آل کا ترجمہ قوم یا امت کرنے کی بجائے گھر والوں کر رہا ہے۔
اگر آل سے مرادامت یا قوم ہوتی تو پھر حضرت لوط (ع) کی امت تو اسی رات عذاب سے دفن ہو گئی تھی جبکہ اللہ کہہ رہا ہے کہ اس نے آلِ لوط کو بچا لیا ہے۔
ایک اور جگہ اللہ قران میں کہہ رہا ہے
قَالُواْ إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَى قَوْمٍ مُّجْرِمِينَ إِلاَّ آلَ لُوطٍ إِنَّا لَمُنَجُّوهُمْ أَجْمَعِينَ لاَّ امْرَأَتَهُ قَدَّرْنَا إِنَّهَا لَمِنَ الْغَابِرِينَ فَلَمَّا جَاء آلَ لُوطٍ الْمُرْسَلُونَ
(القران، سورہ ١٥، آیات ٥٨ تا ٦١)
(فرشتوں) نے کہا کہ ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ سوائے خاندانِ لوط کے (آلِ لوط) کے کہ ان سب کو بچا لیں گے۔ مگر سوائے (لوط ) کی بیوی کے، کہ اسے ہم نے رکنے اور باقی رہ جانے والوں میں مقرر کر دیا ہے۔ جب بھیجے ہوئے فرشتے آلِ لوط کے پاس پہنچے تو لوط (علیہ السلام) نے کہا کہ تم لوگ تو انجان معلوم ہو رہے ہو۔
ترجمہ از سعودی مطبوعہ قران
اور دوسری جگہ اللہ فرما رہا ہے
فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَن قَالُوا أَخْرِجُوا آلَ لُوطٍ مِّن قَرْيَتِكُمْ إِنَّهُمْ أُنَاسٌ يَتَطَهَّرُونَ
(القران ٢٧:٥٦)
تو ان کی قوم کا کوئی جواب نہیں تھا سوائے اس کے کہ لوط کے خاندان (آلِ لوط) کو اپنی بستی سے نکال باہر کرو کہ یہ لوگ بہت پاکباز بنتے ہیں۔
ترجمہ از سعودی مطبوعہ قران
قوم تو خود کہہ رہی ہے کہ آلِ لوط کو اس بستی سے نکال دو اور مولوی حضرات قران کی مخالفت میں کہتے ہیں کہ آل سے مراد پوری امت ہے۔ آخر لوگوں کو آلِ محمد سے اتنی دشمنی کیوں ہے کہ قران کے احکامات ماننے کے لیے بھی تیار نہیں۔
اور اس مفروضہ کو کہ آل سےمراد امت یا قوم ہے، قران نے کئی اور جگہ پر واضح طور پر رد کیا ہے۔ اللہ قران میں فرماتا ہے:
إِنَّ اللّهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ ذُرِّيَّةً بَعْضُهَا مِن بَعْضٍ وَاللّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
(القران، سورہ ٣، آیات ٣٣ تا ٣٤)
بے شک اللہ تعالیٰ نے تمام جہانوں کے لوگوں میں سے آدم (علیہ السلام) اور نوح (علیہ السلام) کو، اور ابراہیم (علیہ السلام) کےخاندان اور عمران کے خاندان کو منتخب فرما لیا۔کہ یہ سب آپس میں ایک دوسرے کی نسل (ذریت) سے ہیں اور اللہ تعالیٰ سنتا اور جانتا ہے۔
ترجمہ از سعودی مطبوعہ قران
اللہ نے خود اس آیتِ مبارکہ میں آل کا مطلب نسل کہہ کر اور قرانی آیت میں ذریت کا لفظ استعمال کر کے آلِ محمد کے دشمنوں کا منہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا ہے۔
قران تو کہہ رہا ہے کہ
اعْمَلُوا آلَ دَاوُودَ شُكْرًا
(سورہ سبا، آیت١٣)
اے اولادِ داؤد اللہ کا شکر ادا کرتے رہو۔
ترجمہ از سعودی مطبوعہ قران
اسی طرح دوسری جگہ کہہ رہا ہے کہ
يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا
(سورہ مریم، آیت ٦)
جو میرا بھی وارث ہواور یعقوب علیہ السلام کے خاندان کا بھی جانشین ہو۔ اے میرے رب اسے پسندیدہ بندہ بنانا
ترجمہ از سعودی مطبوعہ قران
اور اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں یہ سعودی عالم لکھتا ہے کہ
’انبیاء علیھم السلام کے خاندانوں میں دو عمران ہوئے ہیں ایک حضرت موسیٰ و ہارون علیھما السلام کے والد دوسرے حضرت مریم علیہا السلام کے والد۔ اس آیت میں اکثر مفسرین کے نزدیک یہی دوسرے عمران مراد ہیں اور اس خاندان کو بلند درجہ حضرت مریم علیہا السلام اور ان کے بیٹے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وجہ سے حاصل ہوا اور حضرت مریم علیہا السلام کی والدہ کا نام مفسرین نے حنۃ بنت فاقوذ لکھا ہے (تفسیر قرطبی و ابن کثیر) اس آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے آل عمران کے علاوہ مزید تین خاندانوں کا تذکرہ فرمایا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے وقت میں جہانوں پر فضیلت عطا فرمائی۔ ان میں پہلے حضرت آدم علیہ السلام ہیں ، جنہیں اللہ نے اپنے ہاتہ سے بنایا اور اس میں اپنی طرف سے روح پھونکی، انہیں مسجود ملائک بنایا، اسما کا علم انہیں عطا کیا اور انہینں جنت میں رہاش پذیر کیا، جس سے پھر انہیں زمین میں بھیج دیا گیا جس میں اس کی بہت سی حمتیں تھیں۔ دوسرے حضرت نوح علیہ السلام ہیں، انہیں اس وقت رسول بنا کر بھیجا گیا جب لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو معبود بنا لیا، انہیں عمر طویل عطا کی گئی، انہوں نے اپنی قوم کو ساڑھے نو سو سال تک تبلیغ کی، لیکن چند افراد کے سوا، کوئی آپ پر ایمان نہیں لایا۔ بالآخر آپ کی بددعا سے اہل ایمان کے سوا، دوسرے تمام لوگوں کو غرق کر دیا گیا۔ آل ابراہیم کو یہ فضیلت عطا کی کہ ان میں انبیاء و سلاطین کا سلسلہ قائم کیا اور بیشتر پیغمبر آپ ہی کی نسل سے ہوئے۔ حتیٰ کہ علی الاطلاق کائنات میں سب سے افضل حضرت محمد (ص) بھی حضرت ابراہیم (ع) کے بیٹے، اسمٰعیل (ع) کی نسل سے ہوئے۔ ُ
اب یہ ناصبی حضرات کس کس آیت کا انکار کریں گے؟
اگر ہمیں اسلام کے دائرہ میں رہنا ہے تو آل سے مراد جو قران میں ہے وہی ہمیں بھی قبول کرنا پڑے گا۔ مزید دیکھئے کہ قران کیا کہہ رہا ہے
وَقَالَ لَهُمْ نِبِيُّهُمْ إِنَّ آيَةَ مُلْكِهِ أَن يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ آلُ مُوسَى وَآلُ هَارُونَ تَحْمِلُهُ الْمَلآئِكَةُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
(سورہ بقرہ ٢:٢٤٨)
ان کے نبی نے ان سے کہا کہ اس کے بادشاہ ہونے کی پہچان یہ ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق آجائے گا جس میں تمہارے رب کہ طرف سے تسکین دہ چیزیں اور ان تبرکات سے بچی ہوئی کچھ چیزیں ہونگی جو آلِ موسیٰ اور آلِ ہارون چھوڑ گئے ہیں اور اس صندوق کو فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ اور اس میں تمہارے لیے نشانی پوری ہے اگر تم مومنین میں سے ہو۔
اگر آل سے مراد امت ہو تو پھر صندوق میں ساری امت کے تبرکات ہونے چاہئے جب کہ ایسا نہیں ہے۔ قران میں ہی ہے کہ:
فَقَدْ آتَيْنَا آلَ إِبْرَاهِيمَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَآتَيْنَاهُم مُّلْكًا عَظِيمًا
(سورہ النساء ٤:٥٤)
ہم نے آل ابراہیم کو کتاب و حکمت دی اور ہم نے ان کو ملک عظیم عطا فرمایا۔
سوچئے کہ کیا اللہ نے پوری قوم کو کتاب دی اور کیا پوری قوم کو حکیم بنایا (یعنی حکمت دی)۔ اور اسی طرح کیا پوری امت کو حکومت دی گئی؟
یا پھر صرف یہ چار کتب زبور، توریت، انجیل اور قران دیا؟ اب اگر آل سے مراد اولاد ہو گی تو جن کو کتب ملی وہ سب حضرت ابراہیم(علیہ السلام) کی نسل میں سے ہونگے؟ اور اگر آل سے مراد قوم ہو گی تو پھر اللہ نے چار لاکھ کتب آل ابراہیم کو دی ہونگی۔ تلاش کیجئے۔
حدیث میں آلِ محمد کا ثبوت
حدثنا هارون بن معروف حدثنا عبد الله بن وهب قال قال حيوة أخبرني أبو صخر عن يزيد بن قسيط عن عروة بن الزبير عن عائشة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمر بكبش أقرن يطأ في سواد ويبرك في سواد وينظر في سواد فأتي به ليضحي به فقال لها يا عائشة هلمي المدية ثم قال اشحذيها بحجر ففعلت ثم أخذها وأخذ الكبش فأضجعه ثم ذبحه ثم قال باسم الله اللهم تقبل من محمد وآل محمد ومن أمة محمد ثم ضحى به
رسول (ص) نے حضرت عائشہ کو حکم دیا کہ ایک کالی ٹانگوں والا بھیڑ کا بچہ لایا جائے، جس کا پیٹ بھی کالا ہو اور جس کی آنکھوں کے گرد کالے حلقے ہوں تاکہ وہ اُس کی قربانی کر سکیں۔ پھر آپ (ص) نے حضرت عائشہ سے فرمایا: مجھے ایک بڑی چھری دو اور ایک پتھر پر اس کی دھار لگاؤ۔ حضرت عائشہ نے یہ کر دیا۔ پھر رسول(ص) نے چاقو اور بچھڑے کو لیا، اسے زمین پر لٹایا اور پھر یہ الفاظ کہتے ہوئے ذبح فرمایا: “بسم اللہ، اللھم تقبل من محمد و آل محمد و من امتی محمد” (یعنی اے اللہ! اس قربانی کو قبول فرما محمد کی طرف سے، اور آلِ محمد کی طرف سے اور امتِ محمد کی طرف سے)۔
صحیح مسلم، کتاب الاضاحی
اگلی حدیث بھی امام مسلم نے نقل کی ہے
حدثنا قتيبة بن سعيد حدثنا عبد العزيز يعني ابن أبي حازم عن أبي حازم عن سهل بن سعد قال استعمل على المدينة رجل من آل مروان قال فدعا سهل بن سعد فأمره أن يشتم عليا قال فأبى سهل فقال له أما إذ أبيت فقل لعن الله أبا التراب فقال سهل ما كان لعلي اسم أحب إليه من أبي التراب
ترجمہ
سہل بن سعد کہتے ہیں کہ مدینہ میں مروان کے خاندانمیں سے ایک شخص حاکم ہوا تو اس نے سہل کو بلایا اور حضرت علی کو گالی دینے کا حکم دیا۔ سہل نے انکار کیا تو وہ شخص بولا کہ اگر تو گالی دینے سے انکار کرتا ہے تو کہہ کہ ابوتراب پر اللہ کی لعنت ہو۔ سہل نے کہا کہ علی کو ابوتراب سے زیادہ کوئی نام پسند نہ تھا اور وہ اس نام کے ساتھ پکارنے والے شخص سے خوش ہوتے تھے
صحیح مسلم، کتاب فضائل صحابہ، فضائل علی ابن ابی طالب
اب مروان کی کوئی قوم نہیں تھی اور آلِ مروان سے مراد صرف اور صرف مروان کے خاندان کا ایک شخص ہے۔ مگر ناصبی حضرات ابھی تک آل کو قوم بنانے پر تلی ہوئی ہے۔
نماز میں آلِ محمد کا ثبوت
اس بات کا ثبوت قران میں بھی موجود ہے کہ آل سے مراد قوم یا امت نہیں ہے کیونکہ ہر مسلمان نماز میں درود کے علاوہ الگ سے السلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحین پڑھتا ہے۔ اگر آل سے مراد امت ہوتی تو الگ سے صالحین پر سلام نہ ہوتاکیونکہ تمام صالحین تو خود رسول (ص) کی امت سے ہیں۔
درود میں آلِ محمد کا ثبوت
اور اسی طرح اگر آل سے مراد امت ہو تو پھر مکتبِ صحابہ والے درود میں اپنی طرف سے ازواج و اصحاب اجمعین کا اضافہ نہ کرتے- ازواجِ رسول اور اصحابِ رسول امت سے باہر تو نہیں؟ اس کا صاف مطلب ہے کہ آل سے مراد امت ہرگز نہیں ہے۔
حضرت مہدی آلِ محمد سے ہیں
سنن ابو داؤد، کتاب المہدی میں عبد اللہ ابن مسعود سے روایت ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا کہ
اگر دنیا کی عمر میں بس صرف ایک دن بھی باقی رہ جائے تب بھی اللہ تعالیٰ اس دن کو اسقدر طولانی کرے گا کہ یہاں تک کہ میری نسل سے ایک شخص کو ظاہر کرے۔
ابن حجر اپنی کتاب صواعقِ محرقہ کے صفحہ ٩٨ پر رسول اللہ (ص) کی اس حدیث کو نقل کرتے ہیں جسے طبرانی اور دوسرے محدیثین نے نقل کیا ہے
آپ (ص ) نے فرمایا ’مہدی میری اولاد میں سے ہو گا۔
نور الابصار صفحہ ٢٣٠ پر ابن شیرویہ سے اور وہ حذیفہ بن الیمان سے اور وہ رسول اللہ سے اسی طرح کی حدیث نقل کرتے ہیں۔
ایضاً اسی کتاب کے سفحہ ٢٣١ پر حضرت علی ابن ابی طالب(ع) سے روایت ہے
میں نے رسول اللہ سے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا مہدی ہم آل محمد میں سے ہے یا ہمارے علاوہ کسی اور کی نسل سے؟ تو رسول اللہ (ص) نے جواب دیا: ہرگز نہیں! بلکہ ہم ہی سے ہے۔
صاحب مطالب السؤل اپنی کتاب میں رقمطراز ہیں کہ
آل کے کلمہ کی تعریف کے بارے میں لوگوں کے اقوال مختلف ہیں۔ کچھ کا کہنا ہےکہ کسی کی آل ، اس شخص کے گھر والے ہیں، جبکہ بعض نے یہ رائے دی ہے آلِ نبی وہ لوگ ہیں جن پر زکوۃ حرام ہے۔ لیکن اس کی بجائے خمس حلال ہےاور بعض نے یہ قول اختیار کیا ہے کہ کسی شخص کی آل یعنی جو اس شخص کے دین اور مسلک پر چلے اور پیروی کرے۔
اب پہلے نظریے کے حامی اس چیز کے ذریعے استدلال کرتے ہیں جس کو قاضی الحسین بن مسعود بغوی نے اپنی کتاب شرح سنت الرسول میں رقم کیا ہے اور ایسی احادیث کی تشریح کی ہے کہ جن کی صحت متفق علیہ ہے۔
مذکورہ مصنف نے جس حدیث کو اپنی کتاب میں نقل کیا ہے اس کو اپنی سند کا ذکر کرتے ہوئے عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ سے متصل کیا ہے کہ ابن ابی لیلیٰ نے کہا کہ
میں نے کعب بن عجرہ سے ملاقات کی تو انہوں نے کہا کہ آیا میں تحفہ میں تمہیں ایسی حدیث سناؤں جو کہ میں نے ختم مرتبت سے سنی ہے؟
عبد الرحمٰن نے کہا کہ بالکل سنائیے۔ تو پھر کعب نے کہا کہ ہم نے رسول اللہ (ص) سے پوچھا کہ ہم آپ اہلبیت پر درود کیسے بھیجیں؟ تو آپ (ص) نے فرمایا کہ کہو
اللھم صل ، علی محمد وا علی آل محمد کما صلیت علی ابراہیم و آل ابراہیم و بارک علی محمد و علی آل محمد کما بارکت علی ابراہیم و آل ابراہیم انک حمید مجید۔
پس آنحضرت (ص) نے اس حدیث میں آل اور اہل کی تفسیر و تشریح ایک دوسرے کے ذریعے فرمائی۔ اس طرح تفسیر شدہ اور تفسیر کنندہ لفظ ایک دوسرے کے ہم معنی ہیں۔ (یعنی آ ل اور اھل) پس لفظ کو بدلا گیا ہے مگر معنی کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے۔
اس طرح آل النبی، اہل بیت ہیں اور اہل بیت آل النبی۔ اس حساب سے الفاظ تو مختلف ہیں لیکن معنی کے لحاظ سے متحد۔
اس کے علاوہ ایک دوسری حقیقت جو سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ عربی زبان میں کلمہ آل کو کلمہ اہل سے لیا گیا ہے۔ اور کلمہ اہل میں موجود ہائے ھوز، ھمزہ میں تبدیل ہو گئی۔
اس امر کی نشاندہی اس وقت ہوتی ہے جب ہم کلمہ آل کی تصغیر بنائیں کیونکہ تصغیر کے وقت آل کی ھاء پلٹ آتی ہے اور آل کا تلفظ اھیل ہو جاتا ہے۔
اب کلمہ آل کے معنی کرتے ہوئے جن لوگوں نے دوسرے قول کو اختیار کیا ہے اور انکا استدلال وہ روایت ہےکہ جس کو ائمہ حدیث نے اپنی مسانید میں ذکر کہا ہے۔ اور امام مسلم بن حجاج، ابو داؤود اور نسائی ان سب نے مذکورہ حدیث کی سند کو اپنی صحیح میں ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے اور آخر میں عبد المطلب بن ربیعہ بن الحارث سےمتصل کیا ہے کہ عبد المطلب کہتے ہیں میں نے رسول اللہ (ص) سے سنا کہ تمام صدقات میل کچیل کی مانند ہیں ۔ اور محمد اور آل محمد میں کسی پر حلال نہیں۔
اور دوسرا استدلال اس حدیث کے ذریعے ہے جس کو امام دارالھجرۃ مالک بن انس اپنی کتاب میں سند کا ذکر کرتے ہوئے رسول اللہ سے روایت کرتے ہیں کی آپ (ص) نے فرمایاصدقہ آلِ محمد کے لئے حلال نہیں ہے کیونکہ یہ لوگوں کے اموال کا میل ہے۔
پس رسول اللہ نے حرمتِ صدقات کو اپنی آل کی خصوصیات میں سے قرار دیا۔ لہذا وہ لوگ جن پر صدقہ حرام ہے، بنو ہاشم، اور پھر بنو عبد المطلب ہیں۔ اور جب زید بن ارقم سے پوچھا گیا کہ وہ کون آلِ رسول ہیں کہ جن پر صدقہ حرام ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا: وہ آل علی، آل جعفر، آل عباس اور آل عقیل ہیں (یعنی خاندان والے)۔ اور آل کے یہ معنی پہلے معنی سے ملتے جلتے ہیں۔
صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ
ذیل میں ہم صحیح مسلم، کتاب فضائلِ الصحابہ کی اس حدیث کا عربی ٹیکسٹ دے رہے ہیں۔
6378 –
حدثني زهير بن حرب، وشجاع بن مخلد، جميعا عن ابن علية، قال زهير حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، حدثني أبو حيان، حدثني يزيد بن حيان، قال انطلقت أنا وحصين، بن سبرة وعمر بن مسلم إلى زيد بن أرقم فلما جلسنا إليه قال له حصين لقد لقيت يا زيد خيرا كثيرا رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وسمعت حديثه وغزوت معه وصليت خلفه لقد لقيت يا زيد خيرا كثيرا حدثنا يا زيد ما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم – قال – يا ابن أخي والله لقد كبرت سني وقدم عهدي ونسيت بعض الذي كنت أعي من رسول الله صلى الله عليه وسلم فما حدثتكم فاقبلوا وما لا فلا تكلفونيه . ثم قال قام رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما فينا خطيبا بماء يدعى خما بين مكة والمدينة فحمد الله وأثنى عليه ووعظ وذكر ثم قال ” أما بعد ألا أيها الناس فإنما أنا بشر يوشك أن يأتي رسول ربي فأجيب وأنا تارك فيكم ثقلين أولهما كتاب الله فيه الهدى والنور فخذوا بكتاب الله واستمسكوا به ” . فحث على كتاب الله ورغب فيه ثم قال ” وأهل بيتي أذكركم الله في أهل بيتي أذكركم الله في أهل بيتي أذكركم الله في أهل بيتي ” . فقال له حصين ومن أهل بيته يا زيد أليس نساؤه من أهل بيته قال نساؤه من أهل بيته ولكن أهل بيته من حرم الصدقة بعده . قال ومن هم قال هم آل علي وآل عقيل وآل جعفر وآل عباس . قال كل هؤلاء حرم الصدقة قال نعم
Source: Adapted from Answering Ansar
نبیاکرم کی “ آل “ سے مراد کون لوگ ہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے “آل “ سے کون سے مراد ہیں
پہلا قول آل نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ لوگ مراد ہیں جن پر صدقہ کو حرام کر دیا گیا ہے اور جب لوگوں کے لئے صدقہ کو حرام کیا گیا ہے ان کی تعیین میں تین اقوال ہیں
ایک تو یہ کہ وہ بنو ہاشم اور بنو مطلب ہیں ۔امام شافعی کا یہی قول ہے اور امام احمد سے منقول دو اقوال میں سے ایک قول یہی ہے
دوسرا یہ کہ جن کے لئے صدقہ کو حرام کر دیا گیا ہے وہ صرف بنو ہاشم ہیں ۔ امام ابوحنیفہ کا یہی قول ہے اور امام احمد کا دوسرا قول یہی ہے ۔نیز امام مالک کے اصحاب میں ابن القاسم نے اسی قول کو اختیار کیا ہے ۔
چانچہ آل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے میں پہلا قول ، یعنی یہ کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے لئے صدقہ کو حرام کر دیا گیا ہے ۔ امام شافعی ، امام احمد اور دوسرے بہت سے فقہا سے منصوصا نقل کیا گیا ہے اور جمہور اصحاب امام احمد اور اصحاب امام شافعی کی اختیار کردہ یہی رائے ہے
دوسرا قول آل نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خاص طور پر آپ کی ذریت اور ازواج مطہرات مراد ہیں ۔ ابن عبد البر نے اپنی کتاب “ التمہید “ میں اس رائے کو اختیار کیا ہے ۔ انھوں نے عبدااللہ بن ابی بکر سے متعلق باب میں ابوحمید ساعدی کی روایت کردہ حدیث کی تشریح کرتے ہو ئے لکھا ہے کہ بہت سے لوگوں نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہا کہ “ آل محمد “ سے مراد آپ کی ازواج مطہرات اور ذریت ہے ، کیونکہ ابوحمید ساعدی کی روایت کردہ حدیث میں یہ الفاظ منقول ہیں کہ ( اللھم صل علی محمد وازواجہ و ذریتہ ) لہزا یہ حدیث آپ کے قول 🙁 اللھم علی محمد و علی آل محمد ) کی تشریح بیان کرتی ہے ، کہ “ آل محمد “ سے آپ کی ازواج مطہرات اور ذریت ہی مراد ہیں ۔ ان لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسی وجہ سے کسی شخص کا سامنا جب آپ کی ازواج مطہرات یا ذریت میں سے کسی سے ہو تو ان کے لئے دعائیہ کلمات کے طور پر “ صلی اللہ علیک “ کہنا جائز ہے ۔، ان کے غائبانہ میں ان ک لئے “ صلی علیہ علیہ “ بھی کہنا جائز ہے ۔ لیکن آپ کی ذات اور آپ کی ازواج و ذریت کے علاوہ کسی ور شخص کے حق میں اس طرح کے دعائیہ کلمات کہنا جائز نہیں ہے ۔
ان کایہ بھی کہنا ہے کہ “ آل “ اور “ اھل “ میں کوئی فرق نہیں ۔ کیوں کہ کسی شخص کے اہل ہی کو آل کہا جاتا ہے ۔ اور اس سے مراد اس کی ازواج اور ذریت ہوتی ہے ۔ اس دعوے کی دلیل مذکورہ بالا حدیث (اللھم صلی علی محمد و ازواجہ و ذریتہ ) ہے
تیسرا قول آپ کے “آل “ سے مراد قیامت تک آپ کے نقش قدم پر چلنے والے امتی مراد ہیں ۔ ابن البر بعض اہل علم سے یہ قول نقل کیا ہے ، اور جابر بن عبد اللہ ان اولین لوگوں میں ہیں جن سے یہ قول منقول ہے ۔ ۔ ابوالطیب الطبری نے اپنی تعلیق میں امام شافعی سے یہی قول نقل کیا ہے
فضل الصلاتہ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم
امام شمس الدین ابن القیم رحمہ اللہ
ترجمہ : فضل الرحمن ندوی
http://www.urduvb.com/forum/showthread.php?t=3948
|
اہل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کون ہیں ؟
حدیث ثقلین میں ہے کہ فاطمہ ، علی ، حسن ، حسین رضي اللہ تعالی عنہم ہی اہل بیت ہیں ۔
الحمد للہ
علماء کرام نے اہل بیت کی تحدید میں کئ ایک اقوال ذکر کيۓ ہیں :
بعض کا کہنا ہے کہ اہل بیت سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات ، ان کی اولاد اوربنوھشم اور بنو مطلب اوران کے موالی ہیں ۔
اورکچھ کا کہنا ہے کہ :
ازواج مطہرات اہل بیت میں شامل نہیں ۔
اورایک قول یہ بھی ہے کہ :
اہل بیت قريش ہیں ۔
بعض علماء کا کہنا ہے :
امت محمدیہ میں سے متقی لوگ آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہيں ۔
اورکچھ نے کہا ہے کہ :
ساری کی ساری امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔
ازواج مطہرات کے بارہ میں راجح قول یہ ہے کہ وہ اہل بیت میں داخل ہيں اس لیے کہ اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کوپردہ کا حکم دینے کے بعد فرما یا ہے کہ :
{ اللہ تعالی یہی چاہتا ہے کہ اے اہل بیت تم سے وہ ( ہرقسم کی ) گندگی کودورکردے اور تمہیں خوب پاک کرے } الاحزاب ( 33 ) ۔
اورابراھیم علیہ السلام کی زوجہ سارہ رضی اللہ تعالی عنہا کوبھی اہل بیت کہنا جیسا کہ اس فرمان ہے :
{ فرشتوں نے کہا کیا تم اللہ تعالی کی قدرت سے تعجب کررہی ہو ؟ اے گھروالوں تم پر اللہ تعالی کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں } ھود ( 73 ) ۔
اوراس لیے بھی کہ اللہ تعالی نے لوط علیہ السلام کی بیوی کوآل لوط سے خارج کرتے ہوۓ فرمایا :
{ سواۓ لوط علیہ السلام کی آل کے ہم ان سب کوتو ہم ضرور بچا لیں گے مگر اس کی بیوی ۔۔۔ } الحجر ( 59 – 60 ) ۔
تویہ سب آیات اس پردلالت کرتی ہیں کہ زوجہ اہل بیت اورآل میں داخل ہے ۔
اورآل مطلب کے بارہ میں امام احمد سے روایت ہے کہ وہ اہل بیت میں سےہیں اورامام شافعی رحمہ اللہ تعالی نے بھی یہی کہا ہے ۔
امام ابوحنیفہ اورامام مالک رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ آل مطلب آل نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں داخل نہيں اورامام احمد رحمہ اللہ تعالی سے یہ قول بھی مروی ہے ۔
اس مسئلہ میں راجح قول یہی ہے کہ بنو عبدالمطلب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آل میں شامل ہیں اس کی دلیل مندرجہ ذیل حدیث ہے :
جبیربن مطعم رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں اورعثمان بن عفان رضي اللہ تعالی عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گۓ اورہم نے کہا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے بنومطلب کودیا اورہیں محروم رکھا ہے حالانکہ ہمارا اوران کا مرتبہ آپ کے ہاں ایک ہی ہے ۔
تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : بلاشبہ بنومطلب اوربنوھاشم ایک ہی چیز ہیں ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2907 ) سنن نسائ حدیث نمبر ( 4067 ) وغیرہ نے بھی روایت کی ہے ۔
اہل بیت میں بنوھاشم بن عبدمناف جو کہ آل علی ، آل عباس ، آل جعفر ، آل عقیل ، اورآل حارث بن عبدالمطلب شامل ہیں اس کا ذکر اس حدیث میں موجود ہے جسے امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے زيد بن ارقم رضي اللہ تعالی عنہ سے بیان کیا ہے ۔
زیدبن ارقم رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتےہیں کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ اورمدینہ کےدرمیان ماءخما کے مقام پر ہمیں خطبہ ارشادفرمایا اللہ تعالی کی حمدوثنا بیان کی اوروعظ ونصیحت فرمائ پھر فرمانے لگے :
اما بعد : اے لوگو بلاشبہ میں ایک بشر اورانسان ہوں قریب ہے کہ میرے پاس میرے رب کا بھیجا ہوا آجاۓ تومیں اس کی دعوت پرلبیک کہوں ( موت کی طرف اشارہ ہے ) اوریقینا میں تم میں دواشیاء چھوڑ کر جارہا ہوں ان میں سے پہلی اللہ عزوجل کی کتاب جس میں نورو ھدایت ہے ، اللہ تعالی کی کتاب کوتھام لو اوراس پرمضبوطی اختیار کرو ، توانہوں نے کتاب اللہ پرعمل کرنے کی ابھارا اوراس میں رغبت دلائ ۔
اورفرمایا : میرے اہل بیت ، میں تمہیں اہل بیت کے بارہ میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں ، میں تمہیں اہل بیت کے بارہ میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں ، میں تمہیں اہل بیت کے بارہ میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں ، حصین نے کہا کہ اے زيد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کون ہیں ؟ کیا ان ازواج مطہرات اہل بیت نہیں ، توانہوں نے کہ ازواج مطہرات اہل بیت میں شامل ہیں ، لیکن اہل بیت وہ ہیں جن پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صدقہ حرام ہے ، انہوں نے کہا وہ کون ہیں ؟ وہ کہنے لگے :
وہ آل علی اور آل عقیل ، اورآل جعفر ، اور آل عباس رضي اللہ تعالی عنہم ہیں ، انہوں نے پوچھا کیاان سب پر صدقہ حرام ہے ؟ زید نے جواب دیا جی ہاں ۔ مسند احمد حدیث نمبر ( 18464 ) ۔
اورموالی کے متعلق حدیث میں کچھ طرح ذکر ہے :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مولی ( غلام ) مھران بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
بلاشبہ ہم آل محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پرصدقہ حلال نہیں اورقوم کے مولی انہیں میں سے ہوتے ہیں ۔ مسند احمد حديث نمبر ( 15152 ) ۔
تواس طرح نبی صلی اللہ علیہ کی آل اوراہل بیت میں ان کی ازواج مطہرات ، ان کی اولاد ، اوربنو ھاشم ، اوربنو عبدالمطلب ، اوران کے موالی شامل ہوۓ ۔
واللہ تعالی اعلم .
الشیخ محمد صالح المنجد
http://islamqa.info/ur/ref/10055
Who are Ahl al-Bayt (the members of the Prophet’s family)?
ar – en – fr – ur – es
Share |
who are Ahl al bayt? Hadith ethakalayn stated that fatima, Ali,Hassan &Hussein are ahl bayt arrasoul()?
Praise be to Allaah.
There are several views among the scholars (may Allaah have mercy on them) concerning the definition of Ahl al-Bayt. Some said that the members of the Prophet’s family are his wives, his children, Banu Haashim, Banu ‘Abd al-Muttalib and their freed slaves. Some said that his wives were not part of the Ahl al-Bayt. Some said that the Ahl al-Bayt are Quraysh; some said that the family of Muhammad are the pious among his ummah; and some said that they are all of the ummah of Muhammad (peace and blessings of Allaah be upon him).
With regard to the wives of the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him), the most correct view is that they are included among the members of the family of the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him), because Allaah says, after commanding the wives of the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) to observe hijaab (interpretation of the meaning):
“Allaah wishes only to remove Ar-Rijs (evil deeds and sins) from you, O members of the family (of the Prophet), and to purify you with a thorough purification”
[al-Ahzaab 33:33]
And the angels said to Saarah the wife of Ibraaheem (peace be upon him) (interpretation of the meaning):
“The Mercy of Allaah and His Blessings be on you, O the family [of Ibraaheem (Abraham)]”
[Hood 11:73]
And because Allaah excluded the wife of Loot from the family of Loot (peace be upon him) with regard to survival, when He said (interpretation of the meaning):
“(All) except the family of Loot. Them all we are surely, going to save (from destruction). Except his wife…”
[al-Hijr 15:59-60]
This indicates that the wife is part of the family.
With regard to the family of al-Muttalib, it was stated in a report from Imaam Ahmad that they are among them [among the Ahl al-Bayt]. This is also the view of Imaam al-Shaafa’i. Imaam Abu Haneefah and Imaam Maalik were of the view that the family of Muttalib are not included in the family of the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him); there is also a report to this effect from Ahmad. The correct view is that Banu ‘Abd al-Muttalib are among the Ahl al-Bayt. The evidence for that is the report narrated from Jubayr ibn Mut’im (may Allaah be pleased with him) who said: “ ‘Uthmaan ibn ‘Affaan and I went to the Messenger of Allaah (peace and blessings of Allaah be upon him) and said: ‘O Messenger of Allaah, you have given to Banu’l-Muttalib and not to us, but we and they are the same in status with regard to you.’ The Messenger of Allaah (peace and blessings of Allaah be upon him) said: ‘Banu’l-Muttalib and Banu Haashim are the same thing.’” (Narrated by al-Bukhaari, no. 2907; al-Nasaa’i, 4067; and others).
Included among the Ahl al-Bayt are Banu Haashim ibn ‘Abd Manaaf, who are the family of ‘Ali, the family of ‘Abbaas, the family of Ja’far, the family of ‘Aqeel and the family of al-Haarith ibn ‘Abd al-Muttalib. This was stated in the report narrated by Imaam Ahmad from Zayd ibn Arqam (may Allaah be pleased with him), in which he said: “The Messenger of Allaah (peace and blessings of Allaah be upon him) stood up and addressed us one day at a well called Khum, between Makkah and Madeenah. He praised Allaah and exhorted and reminded us. Then he said: ‘O people, I am a human being; soon the messenger of my Lord [i.e., the Angel of death] will come to me and I will answer his call. I am leaving among you two important things: the first of which is the Book of Allaah, in which there is guidance and light, so adhere to it and follow it’ – and he urged us to adhere to the Book of Allaah, then he said: ‘And the people of my household (ahl bayti). I remind you of Allaah with regard to the people of my household, I remind you of Allaah with regard to the people of my household, I remind you of Allaah with regard to the people of my household.’” Husayn said to him [Zayd], “Who are the people of his household, O Zayd? Are not his wives among the people of his household?” Zayd said: “His wives are among the people of his household, but the people of his household are those who are forbidden to receive sadaqah (charity) after his death.” He (Husayn) said: “Who are they?” He said: “They are the family of ‘Ali, the family of ‘Aqeel, the family of Ja’far and the family of ‘Abbaas.” Husayn said: “Are all of these forbidden to receive sadaqah?” Zayd said, “Yes.”
(Narrated by Ahmad, no. 18464)
With regard to the freed slaves, it was narrated that Mihraan the freed slave of the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) said: the Messenger of Allaah (peace and blessings of Allaah be upon him) said; “We are the family of Muhammad: the sadaqah is not permissible for us, and the freed slave of a people is one of them.” (Narrated by Ahmad, no. 15152).
So the family of the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) are: his wives, his children, and Banu Haashim, Banu ‘Abd al-Muttalib and their freed slaves. And Allaah knows best.
Sheikh Muhammed Salih Al-Munajjid
http://islamqa.info/en/ref/10055
ازدوا ج پیغمبر ا کرم اور مفہوم اہلبیت (ع)
1 ۔ ام سلمہ (ع)
1 ۔ عطا ء بن یسار نے جناب ام سلمہ(ع) سے روایت کی ہے کہ آیت ” اِنّمَا یُرِید اللہ لیذھب عنکم الرجس اہل البیت و یطہرکم تطہیرا ۔ میرے گھر میں نازل ہوئی ہے، جب رسول اکرم نے علی (ع) فاطمہ (ع) ، حسن (ع) اور حسین (ع) کو طلب کرکے فرمایا کہ ”خدایا یہ میرے اہلبیت (ع) ہیں“۔ (مستدرک علی الصحیحین 3 ص 158 / ص 4705 ، سنن کبریٰ 2 ص 214 / ص 2861 )۔
2 ۔ عطاء بن یسار راوی ہیں کہ جناب ام سلمہ (ع) نے فرمایا کہ آیت انّما یرید اللہ …… میرے گھر میں نازل ہوئی ہے جب رسول اکرم نے علی (ع) فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) کو طلب کرکے فرمایا کہ خدایا یہ میرے اہلبیت (ع) ہیں جس کے بعد ام سلمہ (ع) نے عرض کی یا رسول اللہ کیا میں اہلبیت (ع) میں نہیں ہوں؟ تو آپ نے فرمایا تم ” اَھلِی خَیْر“ ہو اور یہ اہلبیت (ع) ہیں خدایا میرے اہل زیادہ حقدار ہیں۔
( یہ لفظ مستدرک میں اسی طرح وارد ہوا ہے حالانکہ بظاہر غلط ہے اور اصل لفظ ہے ” علیٰ خیر“ جس طرح کہ دیگر روایات میں وارد ہوا ہے)۔
3 ۔ ابوسعید خدری نے جناب ام سلمہ سے نقل کیا ہے کہ آیت تطہیر میرے گھر میں نازل ہوئی ہے جس کے بعد میں نے عرض کی کہ یا رسول (ع) اللہ کیا میں اہلبیت میں نہیں ہوں ؟ تو آپ نے فرمایا کہ تمھارا انجام خیر ہے اور تم ازدواج رسول میں ہو۔ (تاریخ دمشق حالات امام حسن (ع) ص 70 ، ص 127 ، حالات امام حسین (ع) ص 73 ، ص 106 تاریخ بغداد ص 9 ص 126 ، المعجم الکبیر 3 ص 52 / 2662)۔
4 ۔ ابوسعید حذری جناب ام سلمہ سے نقل کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اکرم نے علی (ع) ، فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) کو طلب کرکے ان کے سرپر ایک خیبری چادر اوڑھادی اور فرمایا خدایا یہ ہیں میرے اہلبیت (ع) لہذا ان سے رجس کو دور رکھنا اور اس طرح پاک رکھنا جو تطہیر کا حق ہے۔ جس کے بعد میں نے پوچھا کہ کیا میں ان میں سے نہیں ہوں؟ تو فرمایا کہ تمہارا انجام بخیر ہے۔( تفسیر طبری 22 ص 7)۔
5 ۔ابوسعید خدری نے جناب ام سلمہ سے نقل کیا ہے کہ یہ آیت ان کے گھر میں نازل ہوئی ہے اور میں دروازہ پر بیٹھی تھی ، جب میں نے پوچھا کہ کیا میں اہلبیت (ع) میں نہیں ہوں تو فرمایا کہ تمہارا انجام بخیر ہے اور تم ازواج رسول میں ہو، اس وقت گھر میں رسول اکرم ، علی (ع) ، فاطمہ (ع) ، اور حسن (ع) اور حسین (ع) تھے ” رضی اللہ عنہم“ ( تفسیر طبری 22 ص 7)۔
6 ۔ ابوہریرہ نے جناب ام سلمہ سے روایت کی ہے کہ جناب فاطمہ (ع) رسول اکرم کے پاس ایک پتیلی لے کر آئیں جس میں عصیدہ (حلوہ) تھا اور اسے ایک سینی میں رکھے ہوئے تھیں، اور اسے رسول اکرم کے سامنے رکھدیا۔
تو آپ نے فرمایا کہ تمھارے ابن عم اور دونوں فرزندکہاں ہیں ؟ عرض کی گھر میں ہیں فرمایا سب کو بلاؤ تو فاطمہ (ع) نے گھر آکر علی (ع) سے کہا کہ آپ کو اور آپ کے دونوں فرزندوں کو پیغمبر اکرم نے طلب فرمایاہے۔
جس کے بعد ام سلمہ فرماتی ہیں کہ حضور نے جیسے ہی سب کو آتے دیکھا بستر سے چادر اٹھاکر پھیلادی اور اس پر سب کو بٹھاکر اطراف سے پکڑ کر اوڑھادیا اور داہنے ہاتھ سے طرف پروردگار اشارہ کیا مالک یہ میرے اہلبیت (ع) ہیں لہذا ان سے رجس کو دور رکھنا اور انھیں مکمل طور پر پاک و پاکیزہ رکھنا ( تفسیر طبری 22 ص 7)۔
7۔ حکیم بن سعد کہتے ہیں کہ میں نے جناب ام سلمہ کے سامنے علی (ع) کا ذکر کیا تو انھوں نے فرمایا کہ آیت تطہیرانھیں کے بارے میں نازل ہوئی ہے، واقعہ یہ ہے کہ رسول اکرم میرے گھر تشریف لائے اور فرمایا کہ کسی کو اندر آنے کی اجازت نہ دینا ، اتنے میں فاطمہ (ع) آگئیں تو میں انھیں روک نہ سکی، پھر حسن (ع) آگئے تو انھیں بھی نانا اور ماں کے پاس جانے سے روک نہ سکی، پھر حسین (ع) آگئے تو انھیں بھی منع نہ کرسکی اور جب سب ایک فرش پر بیٹھ گئے تو حضور نے اپنی چادر سب کے سر پر ڈال دہی اور کہا خدایا یہ میرے اہلبیت (ع) ہیں، ان سے رجس کو دور رکھنا اور انھیں مکمل طور پر پاکیزہ رکھنا جس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی اور میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ اور میں ؟ تو حضور نے ہاں نہیں کی اور فرمایا کہ تمہارا انجام خیر ہے( تفسیر طبری 22 ص 8)۔
8 ۔ شہر بن حوشب جناب ام سلمہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم نے علی (ع) ، حسن (ع) ، حسین (ع) اور فاطمہ (ع) پر چادر اوڑھادی اور فرمایا کہ خدایا یہ میرے اہلبیت (ع) اور خواص ہیں لہذا ان سے رجس کو دور رکھنا اور انھیں پاک و پاکیزہ رکھنا ۔
جس پر میں نے عرض کی کہ کیا میں بھی انھیں میں سے ہوں ؟ تو فرمایا کہ تمھارا انجام خیر ہے ( مسند احمد بن حنبل 10 ص 197 / 26659 ، سنن ترمذی 5 ص 699 /3871 ، مسند ابویعلیٰ 6 ص290 / 6985 ، تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) 62 / ص88 تاریخ دمشق حالات امام حسن (ع) 65 ص 118 )۔
واضح رہے کہ ترمذی میں انا منہم کے بجائے انا معہم؟ ہے اور آخری تین مدارک میں خاصتی کے بجائے حامتی ہے۔
9 ۔ شہر بن حوشب ام سلمہ سے راوی ہیں کہ فاطمہ (ع) بنت رسول پیغمبر اکرم کے پاس حسن (ع) و حسین (ع) کو لے کر آئیں تو آپ کے ہاتھ میں حسن (ع) کے واسطے ایک برمہ (پتھر کی بانڈی) تھا جسے سامنے لاکر رکھدیا تو حضور نے دریافت کیا کہ ابوالحسن (ع) کہاں ہیں، فاطمہ (ع) نے عرض کی کہ گھر میں ہیں ! تو آپ نے انھیں بھی طلب کرلیا اور پانچوں حضرات بیٹھ کر کھانے لگے۔
جناب ام سلمہ کہتی ہیں کہ حضور نے آج مجھے شریک نہیں کیا جبکہ ہمیشہ شریک طعام فرمایا کرتے تھے ، اس کے بعد جب کھانے سے فارغ ہوئے تو حضور نے سب کو ایک کپڑے میں جمع کرلیا اور دعا کی کہ خدایا ان کے دشمن سے دشمنی کرنا اور ان کے دوست سے دوستی فرمانا۔ (مسند ابویعلی 6 ص 264 / 6915 ، مجمع الزوائد 9 ص 262 / 14971 )
10 ۔ شہر بن حوشب نے جناب ام سلمہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم نے فاطمہ (ع) سے فرمایا کہ اپنے شوہر اور فرزندوں کو بلاؤ اور جب سب آگئے تو ان پر ایک فدک کے علاقہ کی چادر اوڑھادی اور سر پر ہاتھ رکھ کر فرمایا خدایا یہ سب آل محمد ہیں لہذا اپنی رحمت و برکات کو محمد و آل محمد کے حق میں قرار دینا کہ تو قابل حمد اور مستحق مجد ہے۔
اس کے بعد میں نے چادر کو اٹھاکر داخل ہونا چاہا تو آپ نے میرے ہاتھ سے کھینچ لی اور فرمایا کہ تمہارا انجام بخیر ہے۔ ( مسند احمد بن حنبل 10 ص 228 / 26808۔ المعجم الکبیر 3 ص 53 / 2664 ۔ 23 ص 336 / 779 ، تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) 64 ص 93، حالات امام حسن (ع) 65 ، ص 116 67 ،ص 120 ، مسند ابویعلی ٰ 6 ص 248 / 6876 ۔
11 ۔ شہر بن حوشب ام سلمہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم میرے پاس تھے اور علی (ع) و فاطمہ (ع) و حسن (ع) و حسین (ع) بھی تھے، میں نے ان کے لئے غذا تیار کی اور سب کھاکر لیٹ گئے تو پیغمبر اکرم نے ایک عبا یا چادر اوڑھادی اور فرمایا کہ خدایا یہ میرے اہلبیت (ع) ہیں، ان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انھیں مکمل طور سے پاک و پاکیزہ رکھنا ( تفسیر طبری 22 ص 6 )۔
12 ۔ زوجہ پیغمبر جناب ام سلمہ کے غلام عبداللہ بن مغیرہ کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ آیت تطہیر ان کے گھر میں نازل ہوئی جبکہ رسول اکرم نے مجھے حکم دیا کہ میں علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) کو طلب کروں اور میں نے سب کو طلب کرلیا ، آپ نے داہنا ہاتھ علی (ع) کے گلے میں ڈال دیا اور بایاں ہاتھ حسن (ع) کے گلے میں ، حسین (ع) کو گود میں بٹھایا اور فاطمہ (ع) کو سامنے، اس کے بعد دعا کی کہ خدایا یہ میرے اہل اور میری عترت ہیں لہذا ان سے رجس کو دور رکھنا اور انھیں مکمل طریقہ سے پاک و پاکیزہ رکھنا … اور یہ بات تین مرتبہ فرمائی تو میں نے عرض کی کہ پھر میں ؟ تو فرمایا کہ انشاء اللہ تم خیر پر ہو ۔( امالی طوسی (ر) 263 / 482 ۔ تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) 67 / 97 لیکن اس میں راوی کا نام عبداللہ بن معین ہے جیسا کہ امالی کے بعض نسخوں میں پایا جاتاہے)
13 ۔ عطا ابن ابی رباح کہتے ہیں کہ مجھ سے اس شخص نے بیان کیا جس نے جناب ام سلمہ کو یہ بیان کرتے سنا تھا کہ رسول اکرم ان کے گھر میں تھے اور فاطمہ (ع) ایک برمہ (ہانڈی) لیکر آئیں جس میں ایک مخصوص غذا تھی اور رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوگئیں تو حضرت نے فرمایا کہ اپنے شوہر اور بچوں کو بلاؤ اور جب سب آگئے اور کھانا کھالیا تو ایک بستر پر لیٹ گئے جس پر خیبری چادر بچھی ہوئی تھی اور میں حجرہ میں مشغول نماز تھی تو آیت تطہیر نازل ہوئی اور آپ نے اس چادر کو سب کے اوپر ڈھانک دیا اور ایک ہاتھ باہر نکال کر آسمان کی طرف اشارہ کیا کہ خدایا یہ میرے اہلبیت (ع) اور خواص ہیں، ان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انھیں مکمل طور پر پاکیزہ رکھنا ، خدایا یہ میرے اہلبیت (ع) ہیں ان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انھیں مکمل طور سے پاک و پاکیزہ رکھنا ۔ ام سلمہ کہتی ہیں کہ میں نے اس گھر میں سرڈال کر گذارش کی کہ کیا میں بھی آپ کے ساتھ ہوں یا رسول اللہ ؟ تو آپ نے فرمایا کہ تمھارا انجام خیر ہے، تمہارا انجام بخیر ہے ۔(مسند احمد بن حنبل 10 ص 177 / 26570۔ فضائل الصحابہ ابن حنبل 2 ص 587 / 994 ۔ تاریخ دمشق حالات امام حسن (ع) 68 ص 123 ، مناقب ابن مغازلی 304 / 348 ، مناقب امیر المومنین کوفی 2 ص 161 / 638 بروایت ابویعلی ٰ کندی)۔
14 ۔ عمرہ بنت افعلی کہتی ہیں کہ میں نے جناب ام سلمہ کو یہ کہتے سنا کہ آیت تطہیر میرے گھر میں نازل ہوئی ہے جبکہ گھر میں سات افراد تھے۔
جبرئیل ، میکائیل، رسول اللہ ، علی (ع) ، فاطمہ (ع) ، حسن (ع) ، حسین (ع) ۔
میں گھر کے دروازہ پر تھی ، میں نے عرض کی حضور کیا میں اہلبیت (ع) میں نہیں ہوں تو فرمایا کہ تم خیر پر ہو لیکن تم ازواج پیغمبر میں ہو ، اہلبیت (ع) میں نہیں ہو ( تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) 69 ص 102 ، 68 ص 101 ، در منثور 6 ص 604 از ابن مردویہ ، خصال 403 / 113 ، امالی صدوق (ر) 381 / 4 روضة الواعظین ص 175، تفسیر فرات کوفی 334 / 454 ،از ابوسعید)۔
15 ۔ امام رضا (ع) نے اپنے آباء و اجداد کے حوالہ سے امام زین العابدین (ع) کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ جناب ام سلمہ نے فرمایا ہے کہ آیت تطہیر میرے گھر میں اس دن نازل ہوئی ہے جس دن میری باری تھی اور رسول اکرم میرے گھرمیں تھے، جب آپ نے علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) کو بلایا اور جبریل بھی آگئے آپ نے اپنی خیبری چادر سب پر اوڑھاکر فرمایا کہ خدایا یہ میرے اہلبیت (ع) ہیں، ان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انھیں مکمل طور سے پاک و پاکیزہ رکھنا جس کے بعد جبریل نے عر ض کی کہ میں بھی آپ سے ہوں ؟ اور آپ نے فرمایا کہ ہاں تم ہم سے ہوا ہے جبریل … اور پھر ام سلمہ نے عرض کی یا رسول اللہ اور میں بھی آپ کے اہلبیت (ع) میں ہوں اور یہ کہہ کر چادر میں داخل ہونا چاہا تو آپ نے فرمایا کہ اپنی جگہ پر رہو، تمہارا انجام بخیر ہے ، لیکن تم ازواج پیغمبر میں ہو جس کے بعد جبریل نے کہا کہ یا محمد ! اس آیت کو پڑھو ” انما یرید اللہ لیذہب عنکم الرجس اہل البیت و یطہرکم تطہیرا“ کہ یہ آیت نبی ، علی (ع) ، فاطمہ (ع) ، حسن (ع) اور حسین (ع) کے بارے میں ہے ( امالی طوسی (ر) 368 / 783 از علی بن علی بن رزین)۔
2 ۔ عائشہ
16 ۔ صفیہ بنت شیبہ عائشہ سے روایت کرتی ہیں کہ رسول اکرم ایک صبح گھر سے برآمد ہوئے جب آپ سیاہ بالوں والی چادر اوڑھے ہوئے تھے اور اتنے میں حسن (ع) آگئے تو آپ نے انھیں بھی داخل کرلیا، پھر حسین (ع) آگئے اور انھیں بھی لے لیا ، پھر فاطمہ (ع) آگئیں تو انھیں بھی شامل کرلیا اور پھر علی (ع) آگئے تو انھیں بھی داخل کرلیا، اور اس کے بعد آیت تطہیر کی تلاوت فرمائی ( صحیح مسلم 4 / 1883 / 2424 ، المستدرک 3 ص 159 / 4707 ، تفسیر طبری 22 ص 60 اس روایت میں صرف امام حسن (ع) کا ذکر ہے، السنن الکبری ٰ 2 ص 212 / 2858 ، المصنف ابن ابی شیبہ 7 ص 502 / 39 مسند اسحاق بن راہویہ 3 ص 278 / 1271 ، تاریخ دمشق حالات امام حسن (ع) 63 / 113 )
17 ۔ عوام بن حوشب نے تمیمی سے نقل کیا ہے کہ میں حضرت عائشہ کے پاس حاضر ہوا توانھوں نے یہ روایت بیان کی کہ میں نے رسول اکرم کو دیکھا کہ آپ نے علی (ع) ۔ حسن (ع) ۔ حسین (ع) کو بلایا اور فرمایا کہ خدا یہ میرے اہلبیت (ع)ہیں، ان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انھیں مکمل طور پر پاک و پاکیزہ رکھنا ۔ (امالی صدوق (ر) 5 ص 382)
18 ۔ جمیع بن عمیر کہتے ہیں کہ میں اپنی والدہ کے ساتھ حضرت عائشہ بنت ابی بکر کی خدمت میں حاضر ہوا تو میری والدہ نے سوال کیا کہ آپ فرمائیں رسول اکرم کی محبت علی (ع) کے ساتھ کیسی تھی ؟ تو انھوں نے فرمایا کہ وہ تمام مردوں میں سب سے زیادہ محبوب تھے اور میں نے خود دیکھا ہے کہ آپ نے انھیں اور فاطمہ (ع) و حسن (ع) و حسین (ع) کو اپنی ردا میں داخل کرکے فرما یا کہ خدا یا یہ میرے اہلبیت (ع) ہیں، ان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انھیں مکمل طور پر پاک و پاکیزہ رکھنا ۔
جس کے بعد میں نے چاہا کہ میں بھی چادر میں سرڈال دوں تو آپ نے منع کردیا تو میں نے عرض کی کیا میں اہلبیت (ع) میں نہیں ہوں؟ تو فرمایا کہ تم خیر پر ہو، بیشک تم خیر پر ہو ، (تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) 2 ص 164 ، 642 ، شواہد التنزیل 2 ص 61 / 682 ، 684 ، العمدة 40 / 23 مجمع البیان 8/ 559 ۔
واضح رہے کہ تاریخ دمشق میں راوی کا نام عمیر بن جمیع لکھا گیا ہے جو کہ تحریف ہے اور اصل جمیع بن عمیر ہے جیسا کہ دیگر تمام مصادر میں پایا جاتاہے اور ابن حجر نے تہذیب میں تصریح کی ہے کہ جمیع بن عمیر التیمی الکوفی نے عائشہ سے روایت کی ہے اور ان سے عوام بن حوشب نے نقل کیا ہے ۔!
آیت تطہیر کا نزول بیت ام سلمہ (ع) میں
آیت تطہیر کے نزول کے بارے میں وارد ہونے والی روایات کا جائزہ لیا جائے تو صاف طور پر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ آیت جناب ام سلمہ کے گھر میں نازل ہوئی ہے اور اس کا خود حضرت عائشہ نے بھی اقرار کیا ہے جیسا کہ ابوعبداللہ الحدبی سے نقل کیا گیا ہے کہ میں حضرت عائشہ کے پاس حاضر ہوا اور میں نے سوال کیا کہ آیت ” انما یرید اللہ “ کہاں نازل ہوئی ہے؟ تو انھوں نے فرمایا کہ بیت ام سلمہ میں ! ( تفسیر فرات کوفی 334 / 455)
دوسری روایت میں جناب ام سلمہ کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ اگر خود عائشہ سے دریافت کروگے تو وہ بھی یہی کہیں گی کہ ام سلمہ کے گھر میں نازل ہوئی ہے۔ ( تفسیر فرات الکوفی 334)
شیخ مفید ابوعبداللہ محمد بن محمد بن النعمان فرماتے ہیں کہ اصحاب حدیث نے روایت کی ہے کہ اس آیت کے بارے میں عمر سے دریافت کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ عائشہ سے دریافت کرو اور عائشہ نے فرمایا کہ میری بہن ام سلمہ کے گھر میں نازل ہوئی ہے لہذا انھیں اس کے بارے میں مجھ سے زیادہ علم ہے۔ ( الفصول المختارہ ص 53 ، 54)
مذکورہ بالا اور عبداللہ بن جعفر کی روایت سے واضح ہوتاہے کہ جناب ام سلمہ کے علاوہ عائشہ اور زینب جیسے افراد اس واقعہ کے عینی شاہد بھی ہیں اور انھوں نے ام سلمہ کی طرح چادر میں داخلہ کی درخواست بھی کی ہے اور حضور نے انکار فرمادیا ہے لہذا بعض محدثین کا یہ احتمال دینا کہ یہ واقعہ متعدد بار مختلف مقامات پر پیش آیاہے ، ایک بعید از قیاس مسئلہ ہے۔
اصحاب پیغمبر اور مفہوم اہلبیت (ع)
1 ۔ ابوسعید خدری (ع)
19 ۔ عطیہ نے ابوسعید الخدری سے رسول اکرم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ یہ آیت پانچ افراد کے بارے میں نازل ہوئی ہے، میں ، علی (ع) ، فاطمہ (ع) ، حسن (ع) ،حسین (ع) ۔(تفسیر طبری 12 / 6، در منثور 6 ص 604 ، العمدة 39 ص21)۔
20۔ عطیہ نے ابوسعید خدری سے آیت تطہیر کے بارے میں روایت نقل کی ہے کہ رسول اکرم نے علی (ع) ، فاطمہ (ع) ، حسن (ع) اور حسین (ع) کو جمع کرکے سب پر ایک چادر اوڑھادی اور فرمایا کہ یہ میرے اہلبیت (ع) ہیں، خدایا ان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انھیں مکمل طور پر پاک و پاکیزہ رکھنا ۔
اس وقت ام سلمہ دروازہ پر تھیں اور انھوں نے عرض کی یا رسول اللہ کیا میں اہلبیت (ع) میں نہیں ہوں ؟ تو آپ نے فرمایا کہ تم خیر پر ہو، یا تمہارا انجام بخیر ہے، ( تاریخ بغداد 10 ص 278 ، شواہد التنزیل 2 ص 38 / 657 ۔ 2 ص 139 / 774 ، تنبیہ الخواطر 1 ص 23)۔
21 ۔ ابوایوب الصیرفی کہتے ہیں کہ میں نے عطیہ کوفی کو یہ بیان کرتے ہوئے سناہے کہ میں نے ابوسعید خدری سے دریافت کیا تو انھوں نے بتایا کہ یہ آیت رسول اکرم ، علی (ع) ، فاطمہ (ع) ، حسن اور حسین (ع) کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔( امالی طوسی (ر) 248 / 438 ۔ المعجم الکبیر 3 ص 56 / 2673، تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) 75 / 108 ، اسباب نزول قرآن 368 / 696 )۔
2 ۔ ابوبرزہ اسلمی
22 ۔ ابوبرزہ کا بیان ہے کہ میں نے ، 17 مہینہ تک رسول اکرم کے ساتھ نماز پڑھی جب آپ اپنے گھر سے نکل کر فاطمہ (ع) کے دروازہ پر آتے تھے اور فرماتے تھے، نماز ! خدا تم پر رحمت نازل کرے اور یہ کہہ کر آیت تطہیر کی تلاوت فرماتے تھے ( مجمع الزوائد 9 ص 267 / 14986 )۔
3 ۔ ابوالحمراء
23 ۔ ابوداؤد نے ابوالحمراء سے نقل کیا ہے کہ میں نے پیغمبر اسلام کے دور میں سات مہینہ تک مدینہ میں حفاظتی فرض انجام دیا ہے اور میں دیکھتا تھا کہ حضور طلوع فجر کے وقت علی (ع) و فاطمہ (ع) کے دروازہ پر آکر فرماتے تھے ، الصلٰوة الصلٰوة ، اور اس کے بعد آیت تطہیر کی تلاوت فرماتے تھے۔ ( تفسیر طبری 22 ص 6)۔
4 ۔ ابولیلیٰ انصاری
24 ۔ عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے اپنے والد کے حوالہ سے پیغمبر اسلام کا یہ ارشا د نقل کیا ہے کہ آپ نے علی (ع) مرتضیٰ سے فرمایا کہ میں سب سے پہلے جنّت میں داخل ہوگا اور اس کے بعد تم اور حسن (ع) ، حسین (ع) اور فاطمہ (ع) … خدا یا یہ سب میرے اہل ہیں لہذا ان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انھیں مکمل طور پر پاک و پاکیزہ رکھنا ، خدایا ان کی نگرانی اور حفاظت فرمانا، تو ان کا ہوجا ، ان کی نصرت اور امداد فرما… انھیں عزت عطا فرما اور یہ ذلیل نہ ہونے پائیں اور مجھے انھیں میں زندہ رکھنا کہ تو ہر شے پر قادر ہے۔ ( امالی طوسی (ر) ص 352 / 272 ، مناقب خوارزمی 62 / 31)۔
5 ۔ انس بن مالک
25 ۔ انس بن مالک کا بیان ہے کہ رسول اکرم 6 ماہ تک فاطمہ (ع) کے درواز ہ سے نماز صبح کے وقت گذرتے تھے، الصلٰوة یا اہل البیت … اور اس کے بعد آیت تطہیر کی تلاوت فرماتے تھے( سنن ترمذی 5 ص 352 / 3206 ، مسند احمد بن حنبل 4 ص 516 / 13730 ، فضائل الصحابہ ابن حنبل 2/761 / 1340 ، مستدرک 3 / 172 / 4748 ، المعجم الکبیر 3 / 65 / 2671 ، المصنف 7/427 ، تفسیر طبری 22 ص 6 اس کتاب میں اذاخرج کے بجائے کلما خرج ہے کہ جب بھی نماز کے لئے نکلتے تھے)۔
6 ۔ براء بن عازب
26 ۔ براء بن عازب کا بیان ہے کہ علی (ع) و فاطمہ (ع) و حسن (ع) و حسین (ع) رسول اکرم کے دروازہ پر آئے تو آپ نے سب کو اپنی چادر اوڑھادی اور فرمایا کہ خدایا یہ میری عترت ہے ( تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) 2 / 437 / 944 ، شواہد التنزیل 2 / 26 / 645)۔
7۔ ثوبان
27۔ سلیمان المبنہی نے غلام پیغمبر اسلام ثوبان سے نقل کیا ہے کہ حضور جب بھی سفر فرماتے تھے تو سب سے آخر میں فاطمہ (ع) سے رخصت ہوتے تھے اور جب واپس آتے تھے تو سب سے پہلے فاطمہ (ع) سے ملاقات کرتے تھے، ایک مرتبہ ایک غزوہ سے واپس آئے تو دروازہ پر ایک پردہ دیکھا اور حسن (ع) حسین (ع) کے ہاتھوں میں چاندی کے کڑے … تو گھر میں داخل نہیں ہوئے، جناب فاطمہ (ع) فوراً سمجھ گئیں اور پردہ کو اتار دیا اور بچوں کے کڑے بھی اتارلئے اور توڑ دیے، بچے روتے ہوئے پیغمبر کی خدمت میں حاضر ہوئے ، آپ نے دونوں سے لے لیا اور مجھ سے فرمایا کہ اسے لے جاکر مدینہ کے فلاں گھر والوں کو دیدو کہ میں اپنے اہلبیت (ع) کے بارے میں یہ پسند نہیں کرتا کہ یہ ان نعمتوں سے زندگانی دنیا میں استفادہ کریں، پھر فرمایا ثوبان جاؤ فاطمہ (ع) کے لئے ایک عصب (…) کا ہار اور بچوں کے لئے دو عاج ( ہاتھی دانت) کے کڑے خرید کر لے آؤ ( سنن ابی داؤد 4/ 87 / 4213 ، مسند احمد بن حنبل 8/ 320 / 22426، السنن الکبری ٰ 1 / 41 / 91 ، احقاق الحق 10 /234 ، 291)۔
واضح رہے کہ روایت کے جملہ تفصیلات کی ذمہ داری راوی پر ہے، مصنف کا مقصد صرف لفظ اہلبیت (ع) کا استعمال ہے، جوادی ۔
28۔ ابوہریرہ اور ثوبان دونوں نے نقل کیا ہے کہ حضور اکرم اپنے سفر کی ابتدا اور انتہا بیتِ فاطمہ (ع) پر فرمایا کرتے تھے ، چنانچہ ایک مرتبہ آپ نے اپنے پدر بزرگوار اور شوہر نامدار کی خاطر ایک خیبری چادر کا پردہ ڈال دیا جسے دیکھ کر حضور آگے بڑھ گئے اور آپ کے چہر ہ پر ناراضگی کے اثرات ظاہر ہوئے اور منبر کے پاس آکر بیٹھ گئے، فاطمہ (ع) کو جیسے ہی معلوم ہوا انھوں نے ہار ۔ بُندے اور کڑے سب اتار دیے اور پردہ بھی اتارکر بابا کی خدمت میں بھیج دیا اور عرض کی کہ اسے راہ خدا میں تقسیم کردیں، آپ نے یہ دیکھ کر تین بار فرمایا، یہ کارنامہ ہے۔ فاطمہ (ع) پر ان کا باپ قربان ۔ آل محمد کو دنیا سے کیا تعلق ہے، یہ سب آخرت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور دنیا دوسرے افراد کے لئے پیدا کی گئی ہے۔ ( مناقب ابن شہر آشوب 3 ص 343)۔
نوٹ: تفصیلات کے اعتبار کے لئے حضرت ابوہریرہ کا نام ہی کافی ہے ۔ جوادی
8 ۔ جابر بن عبداللہ انصاری
29۔ ابن ابی عتیق نے جابر بن عبداللہ انصاری سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم نے علی (ع) ۔ فاطمہ (ع) اور ان کے دونوں فرزندوں کو بلاکر ایک چادر اوڑھادی اور فرمایا ، خدا یا یہ میرے اہل ہیں، یہ میرے اہل ہیں، (شواہد التنزیل 2/ 28 / 647 ، مجمع البیان 8/ 560 ، احقاق الحق 2 ص 55 نقل از عوالم العلوم)۔
30 ۔ جابر بن عبداللہ انصاری کہتے ہیں کہ میں ام سلمہ کے گھر میں رسول اکرم کی خدمت میں حاضر تھا کہ آیت تطہیر نازل ہوگئی اور آپ نے حسن (ع) حسین (ع) اور فاطمہ (ع) کو طلب کرکے اپنے سامنے بٹھایا اور علی (ع) کو پس پشت بٹھایا اور فرمایا ، خدایا یہ میرے اہلبیت ہیں ، ان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انھیں مکمل طور پر پاکیزہ رکھنا۔
ام سلمہ نے عرض کی یا رسول اللہ کیا میں بھی ان میں شامل ہوں ؟ فرمایا تمھارا انجام بخیر ہے۔
تو میں نے عرض کی ، حضور ا! اللہ نے اس عترت طاہرہ اور ذریّت طیبہ کو یہ شرف عنایت فرمایاہے کہ ان سے ہر رجس کو دور رکھاہے ، تو آپ نے فرمایا ، جابر ایسا کیوں نہ ہوتا، یہ میری عترت ہیں اور ان کا گوشت اور خون میرا گوشت اور خون ہے ، یہ میرا بھائی سید الاولیاء ہے۔
اور یہ میرے فرزند بہترین فرزند ہیں اور یہ میری بیٹي تمام عورتوں کی سردار ہے اور یاد رکھو کہ مہدی بھی ہمیں میں سے ہوگا ( کفایة الاثر ص 66)۔
9 ۔ زید بن ارقم
31 ۔ یزید بن حیان نے زید بن ارقم سے حدیث ثقلین کے ذیل میں نقل کیا ہے کہ میں نے دریافت کیا کہ آخر یہ اہلبیت (ع) کون ہیں ، کیا یہ ازواج ہیں تو انھوں نے فرمایا کہ ہرگز نہیں، عورت تو مرد کے ساتھ ایک عرصہ تک رہتی ہے ، اس کے بعد اگر طلاق دیدی تو اپنے گھر اور اپنی قوم کی طرف پلٹ جاتی ہے ” اور رشتہ ختم ہوجاتاہے“… اہلبیت (ع) وہ قرابتدار ہیں جن پر صدقہ حرام کردیا گیا ہے ( صحیح مسلم 4 ص 37 /1874)۔
10 ۔ زینب بنت ابی سلمہ
32۔ ابن لہیعہ کہتے ہیں کہ مجھ سے عمرو بن شعیب نے نقل کیا ہے کہ وہ زینب بنت ابی سلمہ کے یہاں وارد ہوئے تو انھوں نے یہ قصہ بیان کیا کہ رسول اکرم ام سلم ہکے گھر میں تھے کہ حسن (ع) و حسین (ع) اور فاطمہ (ع) آگئیں، آپ نے حسن (ع) کو ایک طرف بٹھایا اور حسین کو دوسری طرف ، فاطمہ (ع) کو سامنے جگہ دی اور پھر فرمایا کہ رحمت و برکات الہی تم اہلبیت (ع) کے لئے ہے، وہ پروردگار حمید بھی ہے اور مجید بھی ہے(المعجم الکبیر 24 ص 281 / 713 ) ۔
11 ۔ سعد بن ابی وقاص
33۔ عامر بن سعد بن ابی وقاص نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ جب آیت مباہلہ نازل ہوئی تو حضور نے علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) کو طلب کرکے فرمایا کہ یہ میرے اہل ہیں( صحیح مسلم 4 / 32 / 1871 سنن ترمذی 5 / 225 / 2999 ، مسند ابن حنبل 1 / 391 / 1608 ، مستدرک 3/ 163 / 4719 ، السنن الکبریٰ 7 ص 101 / 13392 ، الدرالمنثور 2 ص 233 ، تاریخ دمشق حالات اما م علی (ع) 1 ص 207 / 271 ، امالی طوسی (ر) ص 307 / 616)۔
34 ۔ عامر بن سعد نے سعد سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم پر وحی نازل ہوئی تو آپ نے علی (ع) ، فاطمہ (ع) اور ان کے فرزندوں کو چادر میں لے کر فرمایا کہ خدایا یہی میرے اہل اور اہلبیت (ع) ہیں (مستدرک 3 ص 159 / 4708 السنن الکبریٰ 7 ص 101 / 13391، تفسیر طبری 33 / 8 ، الدرالمنثور 6 ص 605)۔
35۔ سعید بن جبیر نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ میں منزل ذی طویٰ میں معاویہ کے پاس موجود تھا جب سعد بن وقاص نے وارد ہوکر سلام کیا اور معاویہ نے قوم سے خطاب کرکے کہا کہ یہ سعد بن ابی وقاص ہیں جو علی (ع) کے دوستوں میں ہیں اور قوم نے یہ سن کر سر جھکالیا اور علی (ع) کو بُرا بھلا کہنا شروع کردیا ، سعد رونے لگے تو معاویہ نے پوچھا کہ آخر رونے کا سبب کیا ہے؟ سعد نے کہا کہ میں کیونکر نہ رؤوں ، رسول اکرم کے ایک صحابی کو گالیاں دی جارہی ہیں اور میری مجبوری ہے کہ میں روک بھی نہیں سکتاہوں !
جبکہ علی (ع) میں ایسے صفات تھے کہ اگر میرے پاس ایک بھی صفت ہوتی تو دنیا اور مافیہا سے بہتر سمجھتا!۔
یہ کہہ کر اوصاف علی (ع) کو شمار کرنا شروع کردیا … اور کہا کہ پانچویں صفت یہ ہے کہ جب آیت تطہیر نازل ہوئی تو پیغمبر اکرم نے علی (ع) حسن (ع) ، حسین (ع) اور فاطمہ (ع) کو بلاکر فرمایا کہ خدایا یہ میرے اہل ہیں ان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انھیں حق طہارت کی منزل پر رکھنا ( امالی طوسی (ر) ص 598 / 1243)۔
36 ۔ سعد بن ابی وقاص کا بیان ہے کہ جب معاویہ نے انھیں امیر بنایا تو یہ سوال کیا کہ آخر تم ابوتراب کو گالیاں کیوں نہیں دیتے ہو؟ تو انھوں نے کہا کہ جب تک مجھے وہ تین باتیں یاد رہیں گی جنھیں رسول اکرم نے فرمایاہے ۔ میں انھیں بر انہیں کہہ سکتاہوں اور اگر ان میں سے ایک بھی مجھے حاصل ہوجاتی تو سرخ اونٹوں سے زیادہ قیمتی ہوتی … ان میں سے ایک بات یہ ہے کہ جب آیت مباہلہ نازل ہوئی تو حضور نے علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) کو جمع کرکے فرمایا کہ خدایا یہ میرے اہل ہیں۔ (سنن ترمذی 5 ص 638 / 3724 ، خصائص امیرالمؤمنین (ع) للنسائی 44 / 9 شواہد التنزیل 332 / 36 ، تفسیر عیاشی 1 ص 177 / 69)۔
12 ۔ صبیح مولیٰ ام سلمہ
37۔ ابراہیم بن عبدالرحمن بن صبیح مولی ٰ ام سلمہ نے اپنے جد صبیح سے نقل کیا ہے کہ میں رسول اکرم کے دروازہ پر حاضر تھا جب علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) آئے اور ایک طرف بیٹھ گئے، حضرت باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ تم سب خیر پر ہو، اس کے بعد آپ نے اپنی خیبری چادر ان سب کو اوڑھا دی اور فرمایا کہ جو تم سے جنگ کرے میری اس سے جنگ ہے اور جو تم سے صلح کرے میری اس سے صلح ہے ( المعجم الاوسط 3 / 407 / 2854، اسد الغابہ 3 / 7 /2481)۔
13۔ عبداللہ بن جعفر
38۔ اسماعیل بن عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ جب رسول اکرم نے رحمت کو نازل ہوتے دیکھا تو فرمایا میرے پاس بلاؤ میرے پاس بلاؤ … صفیہ نے کہا یا رسول اللہ کس کو بلانا ہے؟ فرمایا میرے اہلبیت (ع) علی (ع) ، فاطمہ (ع) ، حسن، حسین (ع)۔
چنانچہ سب کو بلاگیا اور آپ نے سب کو اپنی چادر اوڑھادی اور ہاتھ اٹھاکر فرمایا خدایا یہ میری آل ہے لہذا محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما اور اس کے بعد آیت تطہیر نازل ہوگئی (مستدرک 3 ص 160 / 4709 ۔ شواہد التنزیل 2 ص 55 / 675 ، اس روایت میں صفیہ کے بجائے زینب کا ذکر ہے)۔
39۔ اسماعیل بن عبداللہ بن جعفر طیار نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ جب رسول اللہ نے جبریل کو آسمان سے نازل ہوتے دیکھا تو فرمایا کہ میرے پاس کون بلادے گا ، میرے پاس کون بلادے گا …؟ زینب (ع) نے کہا کہ میں حاضر ہوں کسے بلانا ہے ؟ فرمایا علی (ع) ، فاطمہ (ع) حسن (ع) اور حسین (ع) کو بلاؤ ۔!
پھر آپ نے حسن (ع) کو داہنی طرف ، حسین (ع) کو بائیں طرف اور علی (ع) و فاطمہ (ع) کو سامنے بٹھاکر سب پر ایک چادر ڈال دی اور فرمایا خدایا ہر نبی کے اہل ہوتے ہیں اور میرے اہل یہ افراد ہیں جس کے بعد آیت تطہیر نازل ہوگئی اور زینب (ع) نے گزارش کی کہ میں چادر میں داخل نہیں ہوسکتی ہوں تو آپ نے فرمایا کہ اپنی جگہ پر رہو انش تم خیر پر ہو ۔ (شواہد التنزیل 2 ص53 / 673 ، فرائد السمطین 2/ 18 / 362 ، العمدة 04 / 24 ، احقاق الحق 9 ص 52 )۔
14 ۔ عبدالبہ بن عباس
40۔ عمرو بن میمون کا بیان ہے کہ میں ابن عباس کے پاس بیٹھا تھا کہ نو افراد کی جماعت وارد ہوگئی اور ان لوگوں نے کہا کہ یا آپ ہمارے ساتھ چلیں یا یہیں تنہائی کا انتظام کریں؟ ابن عباس نے کہا کہ میں ہی تم لوگوں کے ساتھ چل رہاہوں۔ اس زمانہ میں ان کی بینائی ٹھیک تھی اور نابینا نہیں ہوئے تھے، چنانچہ ساتھ گئے اور ان لوگوں نے آپس میں گفتگو شروع کردی، مجھے گفتگو کی تفصیل تو نہیں معلوم ہے، البتہ ابن عباس دامن جھاڑتے ہوئے اور اف اور تف کہتے ہوئے واپس آئے، افسوس یہ لوگ اس کے بارے میں برائیاں کررہے ہیں جس کے پاس دس ایسے فضائل ہیں جو کسی کو حاصل نہیں ہیں۔
یہ اس کے بارے میں کہہ رہے ہیں جس کے بارے میں رسول اکرم نے فرمایا تھا کہ عنقریب اس شخص کو بھیجوں گا جسے خدا کبھی رسوا نہیں ہونے دے گا اور وہ خدا و رسول کا چاہنے والا ہوگا … یہاں تک کہ یہ واقعہ بھی بیان کیا کہ حضور نے اپنی چادر علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) پر ڈال دی اور آیت تطہیر کی تلاوت فرمائی ۔( مستدرک 3 / 143 / 4652 ، مسند ابن حنبل 1 / 708 / 3062 ، خصائص نسائی 70 / 23 ، تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) / 189 / 250 ۔
41 ۔ عمرو بن میمون نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم نے حسن (ع) و حسین (ع) اور علی (ع) و فاطمہ (ع) کو بلاکر ان پر چادر ڈال دی اور فرمایا کہ خدایا یہ میرے اہلبیت اور اقرباء ہیں، ان سے رجس کو دو رکھنا اور انھیں حق طہارت کی منزل پر رکھنا ۔( تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) 1 ص 184 / 249 ، شواہد التنزیل 2 / 50 / 670 ، احقاق الحق 15 ص 628 ۔ 631)۔
42 ۔ سعید بن جبیر ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم نے فرمایا کہ خدا یا اگر تیرے کسی بھی نبی کے ورثہ اور اہلبیت (ع) ہیں تو علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) میرے اہلبیت (ع) اور میرے سرمایہ ہیں لہذاان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انھیں کمال طہارت کی منزل پر رکھنا۔
43۔ سعید بن المسیب نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ ایک دن رسول اکرم تشریف فرماتھے اور آپ کے پاس علی (ع) اور فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) بھی تھے کہ آپ نے دعا فرمائی خدایا تجھے معلوم ہے کہ یہ سب میرے اہلبیت (ع) ہیں اور مجھے سب سے زیادہ عزیز ہیں لہذا ان کے دوست سے محبت کرنا اور ان کے دشمن سے دشمنی رکھنا ، جو ان سے موالات رکھے تو اس سے محبت کرنا جو ان سے دشمنی کرتے تو اس سے دشمنی کرنا ، ان کے مددگاروں کی مدد کرنا اور انھیں ہر رجس سے پاک رکھنا ، یہ گناہ سے محفوظ رہیں اور روح القدس کے ذریعہ ان کی تائید کرتے رہا۔
اس کے بعد آپ نے آسمان کی طرف ہاتھ بلندکیا اور فرمایا خدایا میں تجھے گواہ کرکے کہہ رہاہوں کہ میں ان کے دوستوں کا دوست اور ان کے دشمنوں کا دشمن ہوں، ان سے صلح رکھنے والے کی مجھ سے صلح ہے اور ان سے جنگ کرنے والے سے میری جنگ ہے، میں ان کے دشمنوں کا دشمن ہوں اور ان کے دوستوں کا دوست ہوں۔ (امالی صدوق (ر) 393 / 18 ، بشارة المصطفیٰ ص 177)۔
44 ۔ ابن عباس حضرت علی (ع) و فاطمہ (ع) کے عقد کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم نے دونوں کو سینہ سے لگاکر فرمایا کہ خدایا یہ دونوں مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں… خدایا جس طرح تو نے مجھ سے رجس کو دور رکھاہے اور مجھے پاکیزہ بنایاہے، اسی طرح انھیں بھی طیب و طاہر رکھنا ۔( معجم کبیر 24 ص 134 / 362 ۔22/ 412 / 1022 ، المصنف عبدالرزاق 5/ 489 / 9782)۔
15 ۔ عمر بن ابی سلمہ
45 ۔ عطاء بن ابی ریاح نے عمر بن ابی سلمہ (پروردہٴ رسالتمآب) سے نقل کیا ہے کہ آیت تطہیر رسول اکرم پر ام سلمہ کے گھر میں نازل ہوئی ہے، جب آپ نے فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) کو طلب کیا اور سب پر ایک چادر اوڑھادی اور علی (ع) پس پشت بیٹھے تھے انھیں بھی چادر شامل کرلیا اور فرمایا خدایا یہ میرے اہلبیت (ع) ہیں، ان سے رجس کو دور رکھنا اور پاک و پاکیزہ رکھنا ۔
جس کے بعد ام سلمہ نے فرمایا کہ یا نبی اللہ کیا میں بھی انھیں میں سے ہوں؟ تو آپ نے فرمایا کہ تمھاری اپنی ایک جگہ ہے اور تمھارا انجام بخیر ہونے والا ہے(سنن ترمذی) 5/663 / 3787 اسدالغابہ 2/ 17 ، تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) 71 / 104 ، تفسیر طبری 22 /8 احقاق الحق 3 ص 528 2 ص 510)۔
16 ۔ عمر بن الخطاب
46 ۔ عیسی بن عبداللہ بن مالک نے عمر بن الخطاب سے نقل کیا ہے کہ میں نے رسول اکرم کو یہ کہتے سنا ہے کہ میں آگے آگے جارہاہوں اور تم سب میرے پاس حوض کوثر پر وارد ہونے والے ہو، یہ ایسا حوض ہے جس کی وسعت صنعاء سے بصریٰ کے برابر ہے اور اس میں ستاروں کے عدد کے برابر چاندی کے پیالے ہوں گے اور جب تم لوگ وارد ہوگے تو میں تم سے ثقلین کے بارے میں سوال کروں گا لہذا اس کا خیال رکھنا کہ میرے بعد ان کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے، یاد رکھو سبب اکبر کتاب خدا ہے جس کا ایک سرا خدا کے پاس ہے اور ایک تمھارے پاس ہے، اس سے وابستہ رہنا اور اس میں کسی طرح کی تبدیلی نہ کرنا اور دوسرا ثقل میری عترت اور میری اہلبیت (ع) ہیں، خدائے لطیف و خبیر نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ دونوں حوض کوثر تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے ۔
میں نے عرض کی یا رسول اللہ یہ آپ کی عترت کون ہے ؟ تو آپ نے فرمایا میرے اہلبیت(ع) اولاد علی (ع) و فاطمہ (ع) ہیں، جن میں سے نو حسین (ع) کے صلب سے ہوں گے ، یہ سب ائمہ ابرار ہوں گے اور یہی میری عترت ہے جو میرا گوشت اور میرا خون ہے۔ (کفایة الاثر ص 91 ، تفسیر برہان ، 1/9 نقل از ابن بابویہ در کتاب النصوص علی الائمة)۔
17۔ واثلہ بن الاسقع
47۔ابو عمار نے واثلہ بن الاسقع سے نقل کیا ہے کہ میں علی (ع) کے پاس آیا اور انھیں نہ پاسکا تو فاطمہ (ع) نے فرمایا کہ وہ رسول اکرم کے پاس انھیں مدعو کرنے گئے ہیں۔ اتنے میں دیکھا کہ حضور کے ساتھ آرہے ہیں، دونوں حضرات گھر میں داخل ہوئے اور میں بھی ساتھ میں داخل ہوگیا ، آپ نے حسن (ع) و حسین (ع) کو طلب کرکے اپنے زانو پر بٹھایا اور فاطمہ (ع) اور ان کے شوہر کو اپنے سامنے بٹھایا اور سب پر ایک چادر ڈال دی اور آیت تطہیر کی تلاوت کرکے فرمایا کہ یہی میرے اہلبیت (ع) ہیں، خدایا میرے اہلبیت (ع) زیادہ حقدار ہیں۔( مستدرک 3 / 159 / 4706 ۔ 451 / 3559)۔
48 ۔ شدادابوعمار ناقل ہیں کہ میں واثلہ بن الاسقع کے پاس وارد ہوا جبکہ ایک قوم وہاں موجود تھی، اچانک علی (ع) کا ذکر آگیا اور سب نے انھیں بُرابھلا کہا تو میں نے بھی کہہ دیا ، اس کے بعد جب تما م لوگ چلے گئے تو واثلہ نے پوچھا کہ تم نے کیوں گا لیاں دیں۔ میں نے کہا کہ سب دے رہے تھے تو میں نے بھی دیدیں۔ واثلہ نے کہا کیا میں تمھیں بتاؤں کہ میں نے رسول اکرم کے یہاں کیا منظر دیکھا ہے؟ میں نے اشتیاق ظاہر کیا … تو فرمایا کہ میں فاطمہ (ع) کے گھر علی (ع) کی تلاش میں گیا تو فرمایا کہ رسول اکرم کے پاس گئے ہیں، میں انتظار کرتارہا یہاں تک کہ حضور مع علی (ع) و حسن (ع) و حسین (ع) کے تشریف لائے اور آپ دونوں بچوں کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے، اس کے بعد آپ نے علی (ع) و فاطمہ (ع) کو سامنے بٹھایا اور حسن (ع) و حسین (ع) کو زانو پر اور سب پر ایک چادر ڈال کر آیت تطہیر کی تلاوت فرمائی اور دعاکی کہ خدایا یہ سب میرے اہلبیت (ع) ہیں اور میرے اہلبیت زیادہ حقدار ۔ (فضائل الصحابہ ابن حنبل 2 ص 577 ، مسند احمد بن حنبل 6 / 45 ، المصنف ابن ابی شیبہ، العمدة 40 / 25 ، معجم کبیر 3 / 49 / 2670 ، 2669)۔
49 ۔ شداء بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے واثلہ بن الاسقع سے اس وقت سنا جب امام حسین (ع) کا سرلایا گیا اور انھوں نے اپنے غیظ و غضب کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ خداکی قسم میں ہمیشہ علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) سے محبت کرتا رہوں گا کہ میں نے ام سلمہ کے مکان میں حضور سے بہت سی باتیں سنی ہیں، اس کے بعد اس کی تفصیل اس طرح بیان کی کہ میں ایک دن حضرت کے پاس حاضر ہوا جب آپ ام سلمہ کے گھر میں تھے اتنے میں حسن (ع) آگئے آپ نے انھیں داہنے زانو پر بٹھایا اور بوسہ دیا ، پھر حسین (ع) آگئے اور انھیں بائیں زانو پر بٹھاکر بوسہ دیا ، پھر فاطمہ آگئیں انھیں سامنے بٹھایا اور پھر علی (ع) کو طلب کیا اور اس کے بعد سب پر ایک خیبری چادر ڈال دی اور آیت تطہیر کی تلاوت فرمائی … تو میں نے واثلہ سے پوچھا کہ یہ رجس کیا ہے ؟ فرمایا ۔ خدا کے بارے میں شک ۔( فضائل الصحابہ ابن حنبل 2 / 672 / 1149 ، اسدالغابہ 2 / 27 ، العمدة 34 / 15 )۔
50 ۔ ابوعمار الشداد واثلہ بن الاسقع سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم نے علی (ع) کو داہنے بٹھایا اور فاطمہ (ع) کو بائیں، حسن (ع) و حسین (ع) کو سامنے بٹھایا اور سب پر ایک چادر اوڑھاکر دعا کی کہ خدایا یہ میرے اہلبیت (ع) ہیں اور اہلبیت (ع) کی بازگشت تیری طرف ہے نہ کہ جہنم کی طرف ( مسند ابویعلی 6 / 479 / 7448 ، نثر الدرا/ 236 ، السنن الکبریٰ 2 /217 / 2870)۔
51۔ ابوالازہر واثلہ بن الاسقع سے نقل کرتے ہیں کہ جب رسول اکرم نے علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) کو چادر کے نیچے جمع کرلیا تو دعا کی کہ خدایا تو نے اپنی صلوات و رحمت و مغفرت و رضا کو ابراہیم اور آل ابراہیم کے لئے قرار دیا ہے اور یہ سب مجھ سے ہیں ان سے ہوں لہذا اپنی صلوات و رحمت و مغفرت و رضا کو میرے اور ان کے لئے بھی قرار دیدے۔
(مناقب خوارزمی 63 / 32 ، کنز العمال 13 / 603 / 37544 ، 12 / 101 /34186)
اہلبیت (ع) اور مفہوم لفظ اہلبیت (ع)
52 ۔ موسیٰ بن عبدر بہ کا بیان ہے کہ میں نے امیر المومنین (ع) کی زندگی میں امام حسین (ع) کو مسجد پیغمبر میں یہ کہتے سنا ہے کہ میں نے رسول اکرم سے سنا ہے کہ میرے اہلبیت (ع) تم لوگوں کے لئے باعث امان ہیں لہذا ان سے میری وجہ سے محبت کرو او ران سے متمسک ہوجاؤ تا کہ گمرا ہ نہ ہوسکو۔
پوچھا گیا یا رسول اللہ آپ کے اہلبیت (ع) کون ہیں ؟ فرمایا کہ علی (ع) اور میرے دونوں نواسے اور نو اولاد حسین (ع) جو ائمہ معصوم اور امانتدار مذہب ہوں گے ، آگاہ ہوجاؤ کہ یہی میرے اہلبیت (ع) اور میری عترت ہیں جن کا گوشت اور خون میرا گوشت اور خون ہے ۔ (کفایہ الاثر ص 171)۔
53۔ امام صادق (ع) نے اپنے آباء کرام کے واسطہ سے رسول اکرم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑ ے جاتاہوں ایک کتاب خدا اور ایک میری عترت جو میرے اہلبیت (ع) ہیں، یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر وارد ہوجائیں اور اس حقیقت کو دو انگلیوں کو آپس میں جوڑ کر واضح کیا ، جس کے بعد جابر بن عبداللہ انصاری نے اٹھ کر دریافت کیا کہ حضور آپ کی عترت کو ن ہے ؟ فرمایا علی (ع) ، حسین (ع) ، حسین (ع) اور قیامت تک اولاد حسین (ع) کے امام ( کمال الدین ص 244 معانی الاخبار 5 / 91)۔
54 ۔ امام صادق (ع) سے ان کے آباء کرام کے واسطہ سے نقل کیا گیاہے کہ امیر المؤمنین (ع) سے رسول اکرم کے اس ارشاد گرامی کے بارے میں دریافت کیا گیا کہ میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جاتاہوں ایک کتاب خدا اور ایک عتر ت… تو عترت سے مراد کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ میں ، حسن (ع) ، حسین (ع) ، نو اولاد حسین (ع) کے امام جن کا نواں مہدی اور قائم ہوگا، یہ سب کتاب خدا سے جدا نہ ہوں گے اور نہ کتاب خدا ان سے جدا ہوگی یہاں تک کہ رسول اکرم کے پاس حوض کوثر پر وارد ہوجائیں۔( کمال الدین 240 / 64 ، معانی الاخبار 90 /4 ، عیون اخبار الرضا 1 ص 57 / 25 ۔
55 ۔ امیر المؤمنین (ع) فرماتے ہیں کہ رسول اکرم آرام فرمارہے تھے اور آپ نے اپنے پہلو میں مجھے اور میری زوجہ فاطمہ (ع) اور میرے فرزند حسن (ع) و حسین (ع) کو بھی جگہ دیدی اور سب پر ایک عبا اوڑھادی تو پروردگار نے آیت تطہیر نازل فرمادی اور جبریل نے گذارش کی کہ میں بھی آپ ہی حضرات سے ہوں جس کے بعد وہ چھٹے ہوگئے۔( خصال صدوق (ر) بروایت مکحول)۔
56 ۔ امیر المؤمنین (ع) کا ارشاد ہے کہ رسول اکرم نے مجھے اور فاطمہ (ع) و حسن (ع) و حسین (ع) کو ام سلمہ کے گھر میں جمع کیا اور سب کو ایک چادر میں داخل کرلیا اس کے بعد دعا کی کہ خدایا یہ سب میرے اہلبیت (ع) ہیں لہذا ان سے رجس کو دور رکھنا اور انھیں حق طہارت کی منزل پر رکھنا ، جس کے بعد ام سلمہ نے گذارش کی کہ میں بھی شامل ہوجاؤں؟ تو فرمایا کہ تم اپنے گھر والوں سے ہو اور خیر پر ہو اور اس بات کی تین مرتبہ تکرار فرمائی ( شواہد التنزیل 2 / 52 )۔
57 ۔ امیر المؤمنین (ع) ہی کا ارشاد ہے کہ میں رسول اکرم کے پاسس ام سلمہ کے گھر میں وارد ہوا تو یہ آیت نازل ہوئی اور آپ نے فرمایا کہ یا علی (ع) یہ آیت تمھارے، میرے دونوں فرزند اور تمھاری اولاد کے ائمہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔(کفایة الاثر ص 156 از عیسی بن موسیٰ الہاشمی …)۔
58۔ امام حسن (ع) کا بیان ہے کہ آیت تطہیر کے نزول کے وقت رسول اکرم نے ہم سب کو جناب ام سلمہ کی خیبری چادر کے نیچے جمع فرمایا اور دعا کی کہ خدایا یہ سب میری عترت اور میری اہلبیت (ع) ہیں لہذا ان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انھیں مکمل طور پر پاک و پاکیزہ رکھنا ۔( مناقب ابن مغازلی ص 372 ، امالی طوسی (ر) 559 / 1173 ، مجمع البیان 8/ 560 بروایت زاذان)۔
59 ۔ امام صادق (ع) نے اپنے پدر بزرگوار اور جد امجد کے واسطہ سے امام حسن (ع) سے آیت تطہیر کی شان نزول اس طرح نقل کی ہے کہ رسول اکرم نے مجھے، میرے بھائی ، والدہ اور والد کو جمع کیا اور جناب ام سلمہ کی خیبری چادر کے اندر لے لیا اور یہ دعا کی کہ خدایا یہ سب میرے اہلبیت (ع) ہیں، یہ میری عترت اور میرے اہل ہیں، ان سے رجس کو دور رکھنا اور انھیں حق طہارت کی منزل پر رکھنا ، جس کے بعد جناب ام سلمہ نے گزارش کی کہ کیا میں بھی داخل ہوسکتی ہوں تو آپ نے فرمایا خدا تم پر رحمت نازل کرے، تم خیر پر ہو اور تمہارا انجام بخیر ہے لیکن یہ شرف صرف میرے ا ور ان افراد کے لئے ہے۔
یہ واقعہ ام سلمہ کے گھرمیں پیش آیا جس دن حضور ان کے گھر میں تھے۔ ( امالی طوسی (ر) 564 / 2274 بروایت عبدالرحمان بن کثیر ، ینابیع المودہ 3 / 368)۔
60 ۔ امام حسن (ع) نے اپنے اکی خطبہ میں ارشاد فرمایا ، عراق و الو ! ہمارے بارے میں خدا سے ڈرو۔ ہم تمھارے اسیر اور مہمان ہیں ہم وہ اہلبیت (ع) ہیں جن کے بارے میں آیہٴ تطہیر نازل ہوئی ہے… اور اس کے بعد اسقدر تفصیل سے خطبہ ارشاد فرمایا کہ ساری مسجد میں ہر شخص گریہ و زاری میں مشغول ہوگیا ۔ معجم کبیر 3 ص 96 / 2761 ، مناقب ابن مغازلی 382 / 431 ، تاریخ دمشق حالات اما م حسن (ع) 180 / 304 بروایت ابی جمیلہ)۔
61 ۔ امام حسین (ع) نے مروان بن الحکم سے گفتگو کے دوران فرمایا کہ دو ر ہوجا۔ تو رجس ہے اور ہم اہلبیت (ع) مرکز طہارت ہیں، اللہ نے ہمارے بارے میں آیت تطہیر نازل کی ہے ۔( مقتل الحسین (ع) خوارزمی 1 ص 185 ، الفتوح 5 ص 17)۔
62 ۔ ابوالدیلم کا بیان ہے کہ اما م زین العابدین (ع)نے ایک مرد شامی سے گفتگو کے دوران فرمایا کہ کیا تو نے سورہٴ احزاب میں آیہٴ تطہیر نہیں پڑھی ہے تو اس نے کہا کہ کیا آپ وہی ہیں ؟ فرمایا بیشک ( تفسیر طبری 22 / 8)۔
63 ۔ ابونعیم نے ایک جماعت کے حوالہ سے نقل کیا ہے جو کربلا کے اسیروں کے ساتھ تھی کہ جب ہم دمشق پہنچے اور عورتوں اور قیدیوں کو بے نقاب داخل کیا گیا تو اہل شام نے کہنا شروع کیا کہ ہم نے اتنے حسین قیدی نہیں دیکھے ہیں، تم لوگ کہاں کے رہنے والے ہو تو سکینہ (ع) بنت الحسین (ع) نے فرمایا ہم آل محمد کے قیدی ہیں، جس کے بعد سب کو مسجد کے زینہ پر کھڑا کردیا گیا اور انھیں کے درمیان حضرت علی (ع) بن الحسین (ع) بھی تھے، آپ کے پاس ایک بوڑھا آدمی آیا اور کہنے لگا ، خدا کا شکر ہے کہ اس نے تمھیں اور تمھارے گھر والوں کو قتل کردیا اور فتنہ کی سینگ کاٹ دی ، اور پھر یونہی بُرا بھلا کہتا رہا ، یہاں تک کہ جب خاموش ہوا تو آپ نے فرمایا تو نے کتاب خدا پڑھی ہے؟ اس نے کہا بے شک پڑھی ہے ! فرمایا کیا آیت مودت پڑھی ہے ؟ اس نے کہا بیشک ! فرمایا ہم وہی قرابتدار ان پیغمبر ہیں ۔
فرمایا ۔ کیا آیت ” آت ذا القربیٰ حقہ “ پڑھی ہے؟ کہا بیشک ! ۔ فرمایا ہم وہی اقربا ہیں۔
فرمایا کیا آیت تطہیر پڑھی ہے؟ اس نے کہا بیشک ! فرمایا ہم وہی اہلبیت (ع) ہیں۔
یہ سن کر شامی نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھایا اور کہا خدایا میں تیری بارگاہ میں توبہ کرتاہوں اور دشمنان آل محمد سے بیزاری کا اظہار کرتاہوں اور ان کے قاتلوں سے برائت کرتاہوں، میں نے قرآن ضرور پڑھا تھا لیکن سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ حضرات وہی ہیں ۔(امالی صدوق (ر) 141 ، الاحتجاج 2 / 120 ، ملہوف 176 ، مقتل خوارزمی 2 ص 61)۔
64 ۔ امام محمد باقر (ع) نے آیت تطہیر کے بارے میں فرمایا ہے کہ یہ آیت علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور اس کا نزول ام سلمہ کے گھر میں ہوا ہے جب حضور نے علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) کو جمع کرکے ایک خیبری رداکے اندر لے لیا اور خود بھی اس میں داخل ہوکر دعا کی کہ خدایا یہ میرے اہلبیت (ع) ہیں جن کے بارے میں تو نے وعدہ کیا ہے لہذا اب ان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انھیں حق طہارت کی منزل پر فائز رکھنا ، جس کے بعد ام سلمہ نے درخواست کی کہ مجھے بھی شامل فرمالیں؟ تو آپ نے فرمایا تمھارے لئے یہ بشارت ہے کہ تمھارا انجام خیر ہے۔
اور ابوالجارود نے جناب زین بن علی (ع) بن الحسین (ع) کا یہ قول نقل کیا ہے کہ بعض جہلاء کا خیال ہے کہ یہ آیت ازواج کے بارے میں ہوئی ہے حالانکہ یہ جھوٹ اور افترا ہے، اگر مقصود پروردگار ازواج ہوتیں تو آیت کے الفاظ ” عنکن“ ، ” یطہرکن“ ہوتے اور کلام مونث کے انداز میں ہوتا جس طرح کہ دیگر الفاظ ایسے ہیں ” واذکرون “ ، ” بیوتکن“ ، ”تبرجن“ ، ” لستن“ …! (تفسیر قمی 2 ص 193 )۔
65 ۔ اما م جعفر صادق (ع) نے ایک طویل حدیث میں آیہ تطہیر کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس وقت علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع)تھے جنھیں رسول اکرم نے ام سلمہ کے گھر میں ایک چادر میں جمع کیا اور فرمایا کہ خدا یا ہر نبی کے اہل اور ثقل ہوتے ہیں اور میرے اہلبیت (ع) اور میرا سرمایہ یہی افراد ہیں، جس کے بعد ام سلمہ نے سوال کیا کہ کیا میں آ پ کے اہل میں نہیں ہوں؟تو آپ نے فرمایا کہ بس یہی میرے اہل اور میرا سرمایہ ہیں۔( کافی 1 / 287 از ابوبصیر)
66 ۔ابوبصیر کا بیان ہے کہ میں نے امام صادق (ع) سے دریافت کیا کہ آل محمد کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ ذریت رسول !
میں نے پوچھا کہ پھر اہلبیت (ع) کون ہیں ؟ فرمایا ائمہ اوصیاء۔ پھر میں نے دریافت کیا کہ عترت کون ہیں ؟ فرمایا اصحاب کساء پھر عرض کی کہ امت کون ہے ؟ فرمایا وہ مومن جنھوں نے آپ کی رسالت کی تصدیق کی ہے اور ثقلین سے تمسک کیا ہے یعنی کتاب خدا اور عترت و اہلبیت (ع) سے وابستہ رہے ہیں جن سے پروردگار نے رجس کو دور رکھا ہے اور انھیں پاک و پاکیزہ بنایاہے، یہی دونوں پیغمبر کے بعد امت میں آپ کے خلیفہ اور جانشین ہیں۔( امالی صدوق (ر) 200 / 10 ، روضہ الواعظین ص 294)۔
67۔ عبدالرحمان بن کثیر کا بیان ہے کہ میں نے امام جعفر صادق (ع) سے دریافت کیا کہ
There is still a Banu Hashim suburb in Madina where some descendants of the Prophet Muhammad (pbuh) live. A few months ago, one of their major Shia scholar Sheikh Muhammad Al Amri died, his funeral was one of the biggest in the Banu Hashim’s recent history in Madina.
On 26 Jan 2011, Sheikh Muhammad Ali al Amri, top Saudi Shia religious figure and leader of Shias in Medina was buried in the cemetery of Jannat ul Baqee near the Shiite holy Imams and other faithful people.
Despite the high-security of Saudi wahhabi forces, hundres of thousands Shias and non-Shias attended the ceremony.
http://www.abna.ir/data.asp?lang=3&id=222951
http://www.youtube.com/watch?v=3MDJJsu3yt0
wahabi scholar changed many text of books written by famous sunni scholars.for example they changed and deleted many paragraphs in tafseer “rooh ul maani “written by a hunfi scholar syed muhmud alosi and tried to show him as sulfi writer,thereby the book of amam bukhari named “kitab ul adab”was also changed and a paraghraph telling about Ashab rasool calling “ya rasool allah”in difficult period.it is very interesting thing that text of old religious books of muslims scholars published from wahabi publishers of saodia arabia are distorted as ompare to books published from egypt and beriut.wahabi or nasbi are trying to distort whole history and culture of muslims and wahabization of text and history is going on.
Well written and impeccably cited from Quran. I greatly appreciated the tremendous effort of the writer. This is also need of hour to impart true knowledge based on Quranic injunctions not merely on false and wrong aberrations. Once again I greatly applauded the writer.