Are Taliban a bunch of criminals? – by Ali Arqam

تحریک طالبان افغانستان اور تحریک طالبان پاکستان ایک ہی سکّے کے دو رخ ہیں، ان میں کسی طرح کا خطِ امتیاز کھینچنا اسی گمراہ کن اور کنفیوژکرنے والی حکمت عملی کا حصّہ ہے جس کے زیرِ سایہ ہم آج تک مذہب کی انتہا پسندانہ تشریح کا سہارا لے کرتشدّد اور قتل وغارت گری کا طوفان برپا کرنے والے مسلّح جنگجوُوں کی واضح لفظوں میں مذمّت نہیں کرپاتے چہ جائیکے ان کے مقابل کوئی متبادل طرز فکر وضع کرپاتے۔

اس حوالے سے دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں کئی طرح کے ذہنی خلجانات کا شکار ہیں۔

وہ لفظ “طالبان” کے تقدّس کی پامالی پر افسردہ ہیں اسی لئے وہ ان کو ظالمان، باطلان وغیرہ کے خطابات سے نوازتی ہیں اور کبھی انہیں ایک جرائم پیشہ ٹولہ قرار دے کران کے انسانیت سوزمظالم پر خجالت کو چھپانے کی سعیَ لاحاصل کرتی نظر آتی ہیں

انہیں تشدّد اور حیوانیت کا یکساں اظہار جغرافیائی حد بندیوں اور متنازع سرحدی لکیروں کے پیرائے میں مختلف نظر آتا ہے

انہیں پاکستانی طالبان ایک انتہائی منظّم ، اپنے مقاصد واہداف میں کسی کنفیوژن اور جھجک سے عاری اور ہر سطح پر کامیابی سے وار کرنے کی صلاحیت رکھنے والی ایک تنظیم کے بجائے جرائم پیشہ افراد کا ایک گروہ نظر آتی ہے کیوں کہ درج بالا تمام خواص تو انہیں سرحد کے اُس پار درکار ہیں اور اس سے طالبان کی بربریت کو عام جرائم پیشہ افراد کے مساوی دکھانا مقصود ہے۔

اسی لئے توجب طالبان ان ٹیکٹکس کا استعمال کابل، اورزگان، ہلمند، قندھار اور ممبئی میں دیکھتے ہیں تویہ پاکستانی پرستار عش عش کر اٹھتے ہیں لیکن اگر اس کا نشانہ مہران بیس، کامرہ بیس، مناواں، جی ایچ کیو یا حسّاس ایجنسیوں کے مراکز بنتے ہیں تو ان کو اختلاجِ قلب لاحق ہونے لگتا ہے۔

دوسری طرف پاکستان کے آئینی دائرہ کار میں رہ کر کام کرنے والی سیاسی مذہبی جماعتیں بھی طالبان اور ان کے تصوّر اسلام سے خود کو الگ نہیں کر پائیں اور ہر محاذ پر ان کا دفاع کرتی نظر آتی ہیں۔

حالیہ دنوں میں ملالہ یوسفزئی کے دلخراش واقعے نے ہر دردِدل رکھنے والے پاکستانی بلکہ پوری دنیا میں جس طرح سے توجّہ حاصل کی ہےاور ہر طرف تشویش اور فکرمندی کی نمایاں لہر نظر آئی ہے اسی کے برعکس پاکستان میں مسلّح مذہبی غنڈہ گردی کی سرپرست جماعت جماعت اسلامی پاکستان کے سابق امیر قاضی حسین احمد، ان کی بیٹی سمعیہ راحیل قاضی اور اُن کی پوری جماعت نے جس ڈھٹائی سے اس پورے معاملے میں طالبان کا دفاع کیا،اور دائیں بازو کی دیگر جماعتوں اور ان کے پرجوش حامیوں نے جس طرح سے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر اس حوالے سے گمراہ کن پروپیگنڈے کا سہارا لے کر ملالہ اور اس کے خاندان پرالزام تراشی اور بہتان سازی کا طوفان کھڑا کیے رکھا یہ اس بات کی واضح علامت ہے کہ مسئلے کی جڑِیں بہت گہری ہیں

یہ بات سمجھ لینی چاہیئےکہ طالبان کی تمام تر کاروائیوں، دہشت گردی کی وارداتوں کو کسی بھی طرح سیاسی مقاصد کے حصول کی خاطر مذہب کی سیڑھی استعمال کرنے والی ان جماعتوں سے الگ نہیں کیا جاسکتا فرق اگر ہے تو وہ شدّت پسندانہ حکمت عملی کے مختلف مدارج کا ہے نہ کہ کسی نظریاتی اختلاف کا نتیجہ۔

مختلف محاذوں پر سرگرم سیاسی مذہبی جماعتوں اور طالبان میں اپنے نظریاتی مخالفین کے خلاف تشدّد کو بطور حربے استعمال میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور یہ تمام حتی المقدور تشدّد کو روا رکھتی رہی ہیں ،

کیا سرحد کے دونون اطراف موجود طالبان میں اس حوالے سے کوئی فرق روا رکھا جاسکتا ہے؟

کیا جو کچھ آج طالبان کررہے ہیں اس میں اور جو کچھ جماعت اسلامی پاکستان کے جوشیلے “البدر” اور “الشمس″ کے نام سے بنگالیوں کے ساتھ کرتے رہے، اس میں کوئی فرق ہے؟

کیا “البدر” اور “الشمس″ کی صفوں میں ایک معتدبہِ حصّہ بنگالی بولنے والوں کا نہیں تھا؟

کیا آج بلوچستان میں بلوچ قوم پرست نوجوانوں کو پاکستانی سیکیورٹی اداروں اور ان کے تشکیل دیے گئے پراکسی گروپس کے ہاتھوں اسی طرح کے سلوک کا سامنا نہیں کرنا پڑھ رہا، کیا ان نوجوانوں کی مسخ شدہ ، ادھڑی ہوئی اور جنگلی جانوروں اور آوارہ کتّوں کی بھنبھوڑی ہوئی لاشیں کچھ کم دل خراش ہیں؟

بلاشبہ طالبان نے بربریت اور درندگی کو نئے مفاہیم دے دیئے ہیں لیکن یہ سب کرنے کے لئے وہ مذہب کو اور مذہبی جماعتوں کو موَثّر طور پر استعمال کرنے میں کامیاب ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھِی مذہبی کتب خانے میں آپ کو مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر، فرقوں اور مسالک کے باہمی تنازعات پر مواد بکثرت ملے گا لیکن آپ کو طالبانی ھتکھنڈوں کو رد کرتی کوئی کتاب  نہیں ملے گی۔

بشکریہ: روشنی

Comments

comments

Latest Comments
  1. Muhammad
    -