Ishq-e-Rasool Day riots: Thought provoking columns of Wusatullah Khan, Abbas Ather, Haroon ur Rasheed and Shahzeb Khanzada
پاکستان میں جمعہ کو پرتشدد مظاہروں میں پولیس اہلکاروں سمیت بیس کے قریب افراد ہلاک ہو گئے تھے
بی بی سی کے ایک تبصرہ کے مطابق، خود اذیتی کا عنصر سب سے زیادہ صرف پاکستان میں ہی دیکھنے کو ملا ہے۔
دنیا میں اور بھی کئی ممالک میں اسلام مخالف فلم پر مظاہرے ہوئے ہیں۔ اس لمبی فہرست میں مصر، اردن، اسرائیل، یمن، لبنان، تیونس، سوڈان، بھارت، عراق، ایران، بحرین، افغانستان، ملائیشیا، انڈونیشیا، نائجیریا، لیبیا اور شام شامل ہیں۔ ان میں کئی ایک جگہوں پر یہ مظاہرے پرتشدد بھی ہو گئے لیکن کیا وجہ ہے کہ خود اذیتی کا عنصر سب سے زیادہ صرف پاکستان میں ہی دیکھنے کو ملا ہے۔
پاکستانیوں کو اکثر یہ شکایت رہتی ہے کہ دنیا انہیں یا تو صحیح طور پر سمجھتی نہیں یا دانستہ انہیں صحیح رنگ میں پیش نہیں کرتی۔ لیکن کیا یہ جلاؤ گھیراؤ کرنے والے لوگ دنیا کو سمجھا سکتے ہیں کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔ دنیا کو تو کیا وہ پاکستان میں بسنے والے کروڑوں عاشقان رسول کو نہیں سمجھا پا رہے جیسا کہ ہماری ویب سائٹ پر قارئین کی رائے سے صاف ظاہر ہے۔
سو پاکستان سے جو مناظر آج دنیا بھر میں نشر ہوئے ہیں ان سے تو شاید یہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ ان مظاہرین کو عشق نہیں۔ اپنے آپ سے بھی، قوم سے بھی، ملک سے بھی، مذہب سے بھی اور اپنے محبوب سے بھی۔
ہو گیا ہے دل ٹھنڈا؟ وسعت اللہ خان
تو پھر طے یہ ہوا کہ کوئی بھی ایک پاگل ہم سب کو پاگل کر سکتا ہے۔ عقل کو کوٹھے پر بٹھا سکتا ہے۔ دماغ کو انگلیوں پر نچا سکتا ہے۔
محبوبِ خدا موسیٰ، عدمِ تشدد کے داعی عیسیٰ اور رحمت العالمین محمد کے نام پر وہ وہ کیا جا سکتا ہے جو جو نہ کرنے کے لیے منع فرمایا گیا ہے۔
میرے والد کہتے تھے گلی میں کتا بھونکے تو نظرانداز کرو۔ جواباً بھونکو گے تو وہ اور بھونکے گا۔ راہگیر کتے کی بجائے تمہیں عجب نگاہوں سے دیکھیں گے۔ شکر ہے میرے والد بروقت انتقال کرگئے۔
کیا روزانہ لاکھوں مسلمان مساجد، مدارس اور گھروں میں سورہ فیل تلاوت نہیں کرتے۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ کعبے کو ابرہہ کے لشکر سے آسمانی ابابیلوں نے بچایا تھا یا عبدالمطلب اور ان کے قبیلے نے؟ مگر اب خدا پر اتنے بھروسے کی کیا ضرورت؟ ہم تو خود ابا بیلیں ہیں۔
جتنی توہینِ رسالت خود رسول کی زندگی میں ہوئی اس حساب سے تو مکہ اور مدینہ میں کھوپڑیوں کے مینار بن جانے چاہیے تھے۔
کم ازکم اس بڑھیا کی گردن تو اڑ ہی جانی چاہیے تھی جو روزانہ اپنے چوبارے سے آپ پر کوڑا پھینکتی تھی۔
کم ازکم طائف میں آپ پر پتھراؤ کرنے والوں کو دو پہاڑوں کے پاٹوں میں پیس دینے کی اجازت تو جبرائیل کو مل ہی جانی چاہیے تھی۔
کم از کم مدینے میں آپ کے قتل کی سازش کرنے والے یہودیوں کو دس روز کے اندر اندر شہر چھوڑنے کی مہلت تو بالکل نہیں دینی چاہیے تھی۔
کم ازکم فتحِ مکہ کے بعد ہندہ کو تو زبح ہونا ہی چاہیے تھا۔ اور جو بدر اور احد کے حملہ آور اور قاتل زندہ بچ گئے تھے انہیں تو بالکل معاف نہیں کرنا چاہیے تھا۔ مگر ہوا کیا ؟
کیا پورے دورِ نبوت میں سوائے ایک ہجو گو یہودی کعب بن اشرف کی گردن اڑانے کے علاوہ کسی اور کے قتل کے فرمان پر عمل ہوا یا معاف کردیا گیا؟
کیونکہ حکم دے دیا گیا تھا کہ تمہارا کام صرف پیغام پہنچانا ہے۔ باقی خدا پر چھوڑ دو۔ لہٰذا ابو لہب کے دونوں ہاتھ توڑنے اور گلے میں آگ کی رسی ڈالنے کا کام بھی خدا کو اپنے ہی ذمے لینا پڑا۔
مگر اتنا دل اور اس دل میں اتنا صبر تو صرف پیغمبر کا ہی حق ہے۔ اس کے وارثوں میں اتنی تاب و برداشت کہاں؟ لہٰذا اس پر کان دھرنے کی کیا پڑی کہ غصہ آدمی کو یوں کھا جاتا ہے جیسے آگ بھوسے کو۔ یہ بات سمجھنے کی کیا جلدی ہے کہ غصے میں کھڑے ہو تو بیٹھ جاؤ۔ بیٹھے ہو تو لیٹ جاؤ۔
بھلا آصف زرداری، راجہ پرویز اشرف، رحمان ملک، مولانا فضل الرحمان، منور حسن، جنرل حمید گل، مولانا سمیع الحق، عمران خان، نواز و شہباز شریف، غلام احمد بلور سمیت سب معزز و محترم عاشقانِ رسول دورِ رسالت کے یہ پہلو کیوں اجاگر کریں؟
کیونکہ نمازِ جمعہ کے بعد مردہ موبائیل فون پکڑے اپنے اپنے ڈرائنگ رومز اور حجروں میں ریموٹ کنٹرول پر چینلز بدل بدل کر عشق اور دیوانگی کی کشتی دیکھنے اور رات گئے پرامن رہنے کی اپیل کا جو لطف ہے وہ دھوپ میں سڑک پر نکل کے قیادت و تلقینِ امن کی بیگاری میں کہاں؟ اور ابھی انیس لاشوں کو بیچنے کا کام بھی تو آن پڑا ہے؟
ہستیاں مٹا آئے، اپنا گھر جلا آئے
آپ اپنے لوگوں کو خاک میں ملا آئے
ہوگیا ہے دل ٹھنڈا؟
چین مل گیا تم کو؟
Source: BBC Urdu
Source: Daily Express
Source: Roznama Dunya
Source: Daily Express