Lynching of two brothers in Sialkot – Where was the conscience of onlookers? By Ahmed Iqbalabadi
I was terrified when I saw disturbing pictures of an unruly mob beating two boys with sticks, killing them, hanging their bodies with poles and then parading their bodies in the back of a tractor trolley around the industrialized, progressive and apparently well managed city of Sialkot. The city which is known as Shehr-e-Iqbal and a place renowned world over for its quality sports goods, the heinous act negated one most repeated mantra: tolerance is bred by economic troubles. What has happened is a blot on Sialkot, Punjab and Pakistan. The PML-N needs to pull its act together as this has happened in a city which is majority controlled by the party. The party’s senior leadership like Khwaja Asif, Ahsan Iqbal belong to this city. Being educated, urbane and suave, and demanding change in the way Pakistan is operating, I am sure they must be feeling terrible to see what transpired in their city.
Coming to what happened, let’s look at some points:
- The incident happened on 15th August, which was the 4th day of the fasting and holy month of Ramadan.
- The teenagers, Mughees (19 years old) and Muneeb (17 years old) were both Hafiz-e-Quran and students of colleges in Sialkot
- Both brothers had a fight with their killers on a cricket match few days earlier. The killers accused them of being robbers and then incited vigilante justice on them
- The police has been accused as aiders and abettors in the killing because of their inaction.
- The footage of the gruesome incident has been aired first on 19th August, four days after the killing
- The media started relaying the incident which has caused all of us shame and then given twists by taking interviews of the deceased family.
- All the blame has been shifted to policemen for their inaction.
Why is only the police being blamed for their inaction? What about all the people who just looked on at the scenes and preferred to record the incident with naked eyes or their phone cameras? Was there not one or two sane people who could knock sense into the crowd? Could no one dare stop the attackers? Nations are built by the people and not police officers and judges. We as people have failed our country and the basis on which it was established.
The family had to approach the Supreme Court for their support. The Supreme Court has ordered Anti-Corruption Director General Justice (retd) Kazim Malik to investigate the matter with 1st September as the date for next hearing. I hope that the killers are all arrested and sentenced in the speediest of manner.
We must all condemn this gruesome incident and hope that this increasing level of intolerance in our society subsides. No way on earth can one kill another soul. Doing this in the month of Ramadan, what sort of people are we? Are we Muslims? For sure not.
مرحوم ضیاء الحق نے پاکستان میں جس تباہی کی بنیاد رکھی تھی سیالکوٹ کا واقعہ اسی کا تسلسل ہے. انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کی منظوری سے کئی دہائیوں کے بعد مرحوم نے سرعام پھانسی دینے اور کوڑے ما رنے کی قرون وسطیٰ کی روا یت کا احیاء کیا تھا ، مرحوم کے دور مین لاہور میں ایک مجرم ‘غیاث’ کی پھانسی پر اکٹھے ہونے والے ذہنی مریضوں کے اللہ اکبر کے نعرے اور سیالکوٹ کے موضع بٹرکے لوگوں کی سیالکوٹ کے محلہ حاجی پورہ سے ان کے گاؤں مین …………………کی وجہ سے آنے والے لڑکوں پر بہیمانہ تشدد کی لذت آمیز تماش بینی دونوں پاکستانی معاشرے کی اقدار کے نظام کی تباہی کا اظہار ہیں ،ان لوگوں کے پاس ان لڑکوں کے خلاف ایک ‘الزام’ تھا ، یہ لوگ اس معاشرنے میں رہتے ہیں جہاں خفیہ ایجنسیاں لوگوں کو عدالت مین لے جانے کی بجائے ان کو گرفتار کرکے خود سزائیں دیتی ہیں ، جہاں ملّا آئے دن لوگوں کو خود کش دھماکوں کی سزائیں دیتے ہیں ، اسی پاکستان کے ایک گاؤں بٹر کے لوگوں نے بھی فیصلہ سنانے اور سزا دینے کا حق خود کو دے دیا، یہ وہی سیالکوٹ ہے جہا ں ابھی کچھ عرصہ قبل ذاتی دشمنی کی وجہ سے توہین رسالت کے مقدمے مین ملوث اسی عمر کے ایک مسیحی کو مقدمہ شروع ہونے سے پہلے ہی حوالات مین پھانسی دے د ی تھی، اس کیس میں انسانی حقوق کے چند کارکنوں کے علاوہ پورا سیاکوٹ ہی تماشبین تھا ، مموجوده واقعہ اور ایسے دوسرے وا قعات مین صرف ایک فرق ہے کہ اس واقعے میں درندگی کا نشانہ بننے والے بچے جماعت اسلامی کے ایک اہم لیڈر سجاد بٹ صاحب کے بچے تھے اور جماعت اسلامی اور سیالکوٹ کی ایک برادری اس وا قعہ پر سراپا احتجاج ہے ، ورنہ پاکستان میں روزانہ ایسے بہت سے واقعات ہوتے ہیں لیکن میڈیا اور عدالتیں ان کو نظر انداز کردیتی ہیں، محض اس لیے کہ یا تو ان مین اعلی ادارے ملوث ہوتے ہیں یا ان واقعات مین تشہیر کا پہلو نہیں ہوتا . شفاف اور انصاف پر مبنی ٹرائل ہر شخص کا بنیادی حق ہے نہ تو لوگوں کے مجمع ، نہ پولیس، نہ خفیہ ایجنسیوں اور نہ ہی جانبدار عدالت کو یہ حق دیا جا سکتا ہے کہ وہ لوگوں کی زندگیوں کے فیصلے کرے، لیکن کیا موجودہ پاکستانی معاشرہ اور اس کے ارتقاء پر انتھائی زیادہ اثر ڈالنے والی قوتیں اس اصول کو ماننے کے لیے تیار ہیں؟
اس اندوہناک واقعہ کی وڈیو دیکھنے کے بعد انتہائی جذباتی رد عمل ایک فطری چیز ہے ، بنی نوع انسان کی بچوں سے محبت کا ایک عالمی اور اجتما عی اظہار بچوں کے حقوق کا کنونشن ہے جو بچوں کو بالغوں سے کہیں زیادہ حقوق دیتا ہے .تا ہم یہ مجموعی طور ملا وں کے اثراور ضیاء الحق مرحوم کے بوئے ہوئے بیجوں کا پھل ہے کہ کم عمری کی شادی ، بچوں کی مشقت وغیرہ پر پابندی کو مغرب کی کا رستانی کہہ کر رد کر دیا جا تا ہے ، تشویش کی بات یہ ہے کہ ہماری اعلیٰ عدالتوں میں بیٹھے ہوئے لوگ بھی ایسی ہی سوچ کے حامل ہیں .اس صدی کی ابتداء میں جب پاکستان نے بچوں کے لیے انصاف کے عالمی میعاروں کی طرف بڑھتے ہوئے بچوں کی سزائے موت پر پابندی لگائی تو دسمبر دو ہزار چار میں لاہور ہائی کورٹ کے فل بنچ نے اسے غیر قانونی قرار دے دیا. اس نظام میں جہاں جرنیل کے حکومت پر قبضے، چھوٹے صوبے کے وسائل پر مرکز کے قبضے ،ایجنسیوں کے ہاتھوں لوگوں کے اغوا اور قتل اور پولیس مقابلوں میں ملزموں کو ما ر نے جیسے اقداما ت کے لیے تا ویلیں موجود ہوں، جہاں بچوں کے لیے علیحدہ جیلوں کی موجودگی میں بھی جج بچوں کو بالغوں کی جیلوں میں بھجوا دیں، جہاں ملک کے سب سے بڑے صوبے کی عدالت بچوں کی سزائے موت پر پابندی کو غیر آئینی قرار دے دے وہاں چوری کے معمولی واقعات پر نوجوانوں کو زندہ جلانے اور ذاتی دشمنی کی بنا پر بچوں کو ڈنڈے ما ر کر ہلاک کرنا کوئی غیر متوقع عمل نہیں
گزشتہ سے پیوستہ
پولیس مقا بلوں میں مجرموں کو مارنا یا ملزموں کو گدھے پر بٹھا کر شہر کا چکر لگوانا پاکستان کی ایک پرا نی روایت ہے لیکن پولیس مقابلوں کو ادارتی شکل میاں بردران کے دور میں دی گئی،اسی طرح پولیس مقابلے میں ہلاک کیے گے ملزموں کی لاشوں کو شہر کا چکر لگوانے کی روا یت بھی میاں برادران کے دور میں شروع ہوی. ملزمان کو پولیس مقابلے میں ما رنے کا موجودہ نظام خاصا مربوط ہے جس میں آخری منظوری لاہور سے آتی ہے اور پھر خالد سعید جیسے پولیس مقابلہ کے ماہر کو کا روائی کرنے کی ذمہ داری دے دی جاتی ہے، بہت سے لوگوں کو یاد ہو گا کہ جب شفیق پا پا کو پولیس مقابلے میں ہلاک کیا گیا تھا تو اسے دوبئی سے کراچی اور پھر لاہور لا یا گیا تھا ، کراچی سے لاہور کے سفر کے دوران ایک شخص نے انسپکٹر خالد سعید کی ملزمان کے ساتھ تصویر لے لی تھی جو اخبار میں شائع بھی ہوئی لیکن بعد میں یہی ثابت کیا گیا کہ شفیق پا پا کا ٹھکانہ لاہور میں ہی تھا اور وہ پولیس مقابلے میں مرے.
سیالکوٹ کی تاریخ میں مجمع کی موجودگی میں لاش کی بے حرمتی کا پہلا وا قعہ پنجاب میں میاں برادران کی سابقہ حکومت کے دوران پیش آیا جب ببو خان نامی ملزم کو پولیس مقابلے میں ہلاک کیا گیا ، اس کی لاش کا منہ کالا کیا گیا اور اسے گدھا گاڑی پر شہر کا چکر لگایا گیا. اس واقعے کے بعد سیالکوٹ اور گجرانوالہ میں ایسے واقعات ایک معمول بن گئے، وڈو ، کالا گجر ، ننھو گورایا وغیرہ کی لاشوں کو سرعام گھمایا گیا اور دوسرے دن اخباروں میں خبریں لگیں کہ عوام نے پولیس پر پھولوں کی پتیاں نچہا ور کیں.
پچھلے سال گجرانوالہ پولیس نے انٹرپول کی مدد سے ننھو گورایا کو ملائشیا سے گرفتار کیا لیکن تیسرے ہی دن اسے پولیس مقابلے میں ما ر دیا گیا. یہ وہ موقع تھا جب اعلی عدلیہ پولیس مقابلوں کو روکنے کا عمل شروع کر سکتی تھی لیکن پنجاب حکومت نے ما رنے سے پہلے نتھو گورایا سے جسٹس بلال کے خلا ف بیان لے لیا تھا اور اس طرح جسٹس افتخار چوہدری کے ایک مخالف کے خلاف ثبوت حاصل کر لیے تھے ا علی عدالتوں نے پنجاب حکومت سے جسٹس بلال کے خلاف بیان تو مانگا لیکن اس کی وضاحت طلب نہیں کی کہ ایک ملزم جو پولیس کی حراست میں تھا وہ پولیس مقابلے میں کیسے مر گیا
میاں شہباز شریف کی موجودہ حکومت کے دوران جب پولیس مقابلے پھر عروج کو پہنچنے لگے تو کسی نے لاہور کے ایک پولیس مقابلے کی ایک وڈیو فلم بنا لی، اس وڈیو فلم میں دکھایا گیا کہ کس طرح ایک عمارت میں پولیس مقابلے کی تیاری کی گئی اور پھر وہاں جائیداد کے ایک جھگڑے میں ملوث نوجوانوں کو لا کر قتل کیا گیا ، یہ وہی نوجوان تھےجن کو پولیس کی ایک پریس کانفرس میں پولیس نے پولیس مقابلے میں مرنے والوں کے طور پر پیش کیا گیا تھا، اس وڈیو کو مبشر لقمان نے اپنے پروگرام دو بار پیش کیا اور چیف جسٹس سے درخواست کی اس پر کاروائی کی جائے لیکن کوئی کاروائی نہیں ہوئی
Interior Minister Rehman Malik has said that 14 people including four policemen have been held in the brutal public killing of two brothers in Sialkot.
Addressing the media in Sialkot, Malik said the culprits involved in the heinous crime would be duly punished. He appealed to the citizens of Sialkot to come forward and provide any information they had regarding the incident. He added that authorities have compiled a list of names of those under investigation and the federal government will be providing support in terms of intelligence and logistics as investigations continue.
Strike announced
Jamaat-e-Islami leader Liaqat Baloch also visited the family of the two brothers who were beaten to death by a mob in Sialkot. He said the party has announced a nationwide strike on Friday against this atrocity.
Qais Sahab,
Very detailed comments. Thank you. If you want, you can compile your comments in form of an article and we will publish it. Please also try to include references in your article of newspaper dates etc.
The family of these two boys belong to Jamaat Islami who as we all know introduced and promoted this psyche of mob rule, and brutality on streets and in educational institutions in the first place. JI should realise that the culture they have inducted in the society has come back to bite them. Hope this tragedy becomes an opportunity for Jamaat Islami to mend their ways and they in all sincerity try to undo this mob justice mentality. Although I’m not holding my breath.
Laanat Khad-e-Aala teray ‘Good Governance’ pay. Laanat.
گزشتہ سے پیوستہ
سیالکوٹ برصغیر کے چند قدیم ترین زندہ شہروں میں سے ایک ہے. کاشتکاری اور ذاتی استمعال کے لیے زیر زمین میٹھے پانی کی موجودگی اور نالہ ایک کے ایک ہی راستے پر بہاؤ نے اس شہر کو اجڑنے نہیں دیا ، برصغیر کے بہترین باسمتی چاول کی پیداوار ، فالتو اناج ،اور سبزیوں، پھلوں اور پھولوں کی کاشت کے لیے سازگار ماحول کی وجہ سے یہ شہر تاریخ کے مختلف ادوار میں ایک خوشحا ل شہر کے طور پر مشہور رہا. عمومی خوشحالی نے شہر میں علمی سرگرمیوں کو ہمیشہ زندہ رکھا قدیم دور سے لے کر قیام پاکستان کے کچھ عرصہ بعد تک سیالکوٹ شرح خواندگی کے حوالے سے بر صغیر کے صف اول کے شہروں میں شامل رہا ہے. عمومی خوشحالی نے اس شہر میں صنعت و حرفت کو بہت ترقی دی، یہاں کے کاغذ اور چھوٹی اینٹ کی مانگ پورے برصغیر میں تھی. لیکن لکڑی کا فرنیچر اور آرایشی سامان بنانے والے ترکھان اور پورے ہندوستان اور افغانستان کے سپاہیوں کے لیے تلواریں اور ڈھالیں بنانے والے لو ہار وہ لوگ تھے جنہوں نے اس شہر کی جدید کھیلوں کے سامان اور سرجیکل کے آلات کی صنعت کی بنیاد رکھی. سیالکوٹ اور اس کی نواحی بستیوں کوٹلی لوہاراں وغیرہ میں وہ لوگ ابھی تک زندہ ہیں جو انگریز اور پاکستان آرمی کو اسلحے کے اضافی پرزہ جات خراد کی مشین پر تیار کر دیتے تھے
شہر میں جگہ جگہ اکھاڑے ہوتے تھے جو ہر سھ پہر نوجوانوں کو کھیل کے زریعے پنجہ آزمائی کا موقع فراہم کرتے تھے، گتکا اور تلوار زنی کی تربیت شہر میں کئی جگہوں پر میسر تھی. قیام پاکستان کے وقت سیالکوٹ کے دیہات سے سکھ جا ٹوں اور شہر سے راجپوت اور جاٹ صنعتکاروں کی بڑی تعداد بھارت خصوصاّ جالندھر چلی گئی . اس خلا کو زیادہ تر پیشہ ور گروہوں سے تعلق رکھنے والے کاریگروں نے پر کیا.ساٹھ اور ستر کی دھائی میںجب سیالکوٹ میں کھیلوں کے سامان اور آلات جراحی کی صنعت پھیل رہی تھی اور سیالکوٹ کے لوگ پیسہ کمانے کے لیے مشرق وسطی کا رخ کر رہے تھے تو سیالکوٹ کے دیہات کا ہزاروں سال پرانا معاشی ڈھانچہ تیزی سے تبدیل ہو رہا تھا . زمیندار لوگ نسل در نسل تقسیم ہوکر چھوٹے ٹکڑوں مین تقسیم ہو جانے والی زرعی زمین کی وجہ سے ما لی مسائل کا شکار تھے جبکہ ذات پات کے روایتی نظام میں نچلے درجے سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنے بیوی بچوں کی مدد سے گھر میں فٹ با ل بنا کر یا آلات جراحی کا ایک چھوٹا سا یونٹ لگا کر یا پھر مشرق وسطی میں نوکری کرکےمعقول پیسہ کما رہے تھے. سرعت کے ساتھھ ہونے والی معاشی ترقی نے سماجی ڈھانچے کو بھی بہت تیزی سے تبدیل کیا . دیہات مین روایتی پیشہ ور گروہوں سے تعلق رکھنے والے لوگ بڑی ذاتوں کی ہزاروں سال پرانی اطاعت گزاری سے آزاد ہو گئے اور انہوں نے انڈسٹری کے ما لک ” باؤ” سے اطاعت کا نیا رشتہ استوار کیا باؤ اپنے بیٹوں میں سے ایک بیٹے کو غنڈے کے طور پر تیار کرتا تاکہ وہ بوقت ضرورت گاؤں جا کر کاریگر کو دھمکا سکے .شہر کے مضافات یا شہر میں کسی ذاتی لڑائی میں اگر کوئی نوجوان بہادر بن کر سامنے آتا تو اسے بھی پیسے دے کر دوسروں کو دھمکانے کے لیے استعمال کیا جاتا . اکھاڑے سے باہر طاقت کے استعمال پر پہلوانوں کو بھی ادائیگی ہونے لگی ان میں سے کچھ بہادر آخر میں اپنے سرپرستوں سے ہی ٹیکس کا مطالبہ شروع کر دیتے . ستر کی دہائی ایسے جن لوگوں نے سیالکوٹ میں بہت نام کمایا ان میں اشفاق قصائی ، بھولا تین سو دو ، پیجا حرامدا ، اور راجو راکٹ کا نام نمایاں ہیں ان میں سے زیادہ تر لوگ یا تو طبعی موت مرے یا اپنے مخالفوں کے ہاتھوں انجام تک پہنچے
ستترکے مارشل لا کے بعد ملک کے دوسرے شہروں کی طرح سیالکوٹ کا ترقی پسند اور لبرل دانش ور اور سیاسی طبقہ منظر سے غائب ہو گیا. پرانی سیاسی قیادت کی جگہ نئے صنعت کار نے لینا شروع کردی. اس نئے طرز سیاست میں “لڑا کوں ” اور پیسے والوں کے لیے ایک کردار طے پا یا. نوے کی دہائی میں پہلی بار پنجاب اسمبلی میں کسی اسمبلی ممبر کو توہین آمیز گالیاں دی گئیں اور تھپڑ ما را گیا لیکن تھپڑ ما رنے والے کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی. تھپڑ ما رنے والا سیالکوٹ کا صنعت کا ر ایم پی اے شیخ اعجاز تھا اور تھپڑ کھانے والا فیصل آباد کا ایم پی اے فضل حسین راہی تھاجس کے بھائی فیصل آباد میں ریڑھی لگاتے تھے. جلد ہی یہ غنڈہ گردی تعلیمی اداروں تک پہنچ گئی . مرے کالج سیالکوٹ کی حلف وفاداری کے دوران اسلامی جمیعت طلبہ کے ایک لیڈر نے ایک سیاسی کارکن اور وکیل واحد بخاری پر اس لیے حملہ کیا کھ وہ انتخاب جیتنے والی تنظیم کی دعوت پر کالج کی تقریب حلف وفاداری میں کیوں گئے تھے. اسلامی جمیت طلبہ کی اس غندہ گردی نے رد عمل کو جنم دیا اور جلد ہی سیالکوٹ کے تعلیمی ادارے ‘ غندہ گردی کی درس گاہوں” میں تبدیل ہو گئے. اسی دور اور اس کے بعد کے غنڈوں میں سے ایک پنجاب بار کونسل کے معزز رکن اور افتخار حسین چوہدری کے قریبی دوست ہیں جبکہ ایک اور صاحب پیپلز پارٹی کے معزز رکن اسمبلی ہیں.
اسی دور میں تعلیمی اداروں سے باہر غنڈوں کی ایک نئی کھیپ ببو خان ، پپو برف والا وغیرہ کی شکل میں سامنے آئ . ببو خان وہی غندہ ہے جس کی لاش گدھا گا ڑی پر شہر میں گھما کر ملزم کو سزا دینے اور لاشوں کو دیکھ کر لذت لینے کی روآیت شروع کی گئی
اوپر میں مختصر طور پر ان مقامی عوامل کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے جنہوں نے چالیس سال کے مختصر عرصے میں سیالکوٹ کے شہریوں کو اس سطح پر لا کھڑا کیا جہاں مرتے ہوئے بچوں کو بچانے کی بجایے خاموش تماشائی بننےکو ترجیح دی گئی
جناب احمد اقبال آبادی. ابھی تک میں ان سوالوں کا جواب دینے کی کوشش کر رہا ہوں جو مختلف ویب سائٹس پر اٹھائے جا رہے ہیں. آخر میں اگر ضروری ہوا تو میں ان تبصروں کو ایک مضمون کی شکل میں اکٹھا کر دوں گا
If govt:is sincerely to punish the culprits of this brutal crime,it shall start from I.G punjab,DPO Sailkot and all people who were witnessing this crime,but they did not do anything to save this innocent boys.
Just wondering if the beating of these Jamaat Islami related boys was any different from Islami Jamiaat-e-Talba beating to almost death of the professor recently in PU, and beating to death of a student in Peshawar University over music by IJT recently. May be some JI person can elaborate.
The murderers of two brothers reminds me of Islami Jamiat-e-Tulba in Punjab University,Lahore.Jamiat guys use to beat us in the same style in 80’s.Only differnce was that they will keep you alive and torture for days.These two brothers were tortured for one our and after they were dead and not feeling anything.Khalid Qayyum who is chief reporter of Daily Express was our fellow in Punjab university andwas tortured by Jamiat in the same style for six days and remained unconcious for 10 daya after he was found on the road side of PU.If some one will do a background check of these murderers I am sure they will turn out to be same kind of religious fanatics as Jamiat people are.I believe only Jamiat trained mindset can do such inhuman act.
Many of my Christian friends is asking and it is very valid question to ask? where was our popular right wing media on that time when two innocent Christian were killed at Faisalabad, where was chief justice? Geo and dunyia news? Shahbaz and nawaz sharif? and other governmental and administrative apparatus? unfortunately I’ve no answer….
یہ ایک حقیقت ہے کھ اس المناک حادثہ کا شکا ر ہونے والے بچوں کے والد سجاد بٹ صا حب کا تعلق جماعت اسلامی سے ہی ہے. اگرچہ ایسے موا قع پر ماضی کا ذکر اچھا نہں لگتا لیکن یہ ایک دردناک حقیقت ہے کھ جس شخص نے پنجاب یونیورسٹی میں مخالف طلبہ تنظیموں کے ارکان پر وحشیانہ تشدد کی بناید رکھی تھی وہ امیر جماعت اسلامی سیالکوٹ پروفیسرامیں جاوید صاحب کا سالا تھا. ہمایوں مجاہد وہ پہلا شخص تھا جس نے انیس سو چوہتر کے نزدیک پنجاب یونیورسٹی میں غیر انسانی تشدد کی بنیاد رکھی . اسی تشدد کے رد عمل میں چوہدری اعظم، ارشد اعوان ، فاروق ٹیرر وجود مین آئے اور پھر آہستہ آہستہ پاکستان کی طلبہ تحریک مین تشدد کا عنصر لازمی جزو بن گی
محترم حدود کی سزواں کے سرعام انعقاد کا حکم قرآنی ہے، ضیاء الحق کی ایجاد نہیں ہے اور اس انسانیت سوز واقعہ کو مذہبی انتہاپسندی کے ساتھ جوڑنا، لبرل انتہاپسندی اور اسلام بیزاری کی بدترین مثال ہے۔
وہ جو مسیح نوجوان کے ساتھ ہوا وہ بھی دہشت گردی تھی، وہ جو کراچی میں دو برس قبل ہوا تھا وہ بھی دہشت گردی تھی اور خلاصہ یہ ہے کہ ماورائے عدالت کوئی بھی قدم دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے۔ چاہے وہ ریاستی عناصر کے ہاتھوں ہو یا انکی سرپرستی میں، یا عوامی سطح یا غیر ریاستی عناصر کے ہاتھوں
یہی نہیں اس شہر کراچی میں تو آئے دن ایسا ہی ہورہا ہے، ہفتہ کے روز اورنگی ٹاون کے تین محاجر محنت کش نوجوانوں کو میڑویل کے مختلف علاقوں قتل کردیا گیا، ان میں سے ایک کو چھریوں سے قتل کیا گیا، ان نوجوانوں کو بھی سڑک پر ایک مجمعہ کے سامنے بے دردی سے قتل کیا گیا صرف اس لئے کہ وہ مہاجر تھے اور نسلی کشیدگی کے دوران پختون علاقے میں پائے گئے تھے۔، ردعمل کے طور پر اسی روز اورنگی ٹاون سیکٹر ساڑے اگیارہ میں ایک پختون ٹیکسی ڈرائیور اور ایک پختون راہگیر کو بھی صرف اس لئے قتل کردیا گیا کہ وہ پختون تھے اور نسلی کشیدگی کے دوران مہاجر علاقے میں پائے گئے تھے۔ ان چھ قتل کی روزنامہ جنگ کے پچھلے صفحہ پر دو سطری خبر بنی اور ارباب اختیار نے ان اس خبر کو اس طرح نظر انداز کردیا جیسے مقتولین کسی اور ملک کے شہری ہوں۔ ایم کیو ایم کو صرف رضا حیدر کے اور اے این پی کو صرف عبید اللہ کی فکر ہے باقی 80/ 90 لوگ جو پچھلے دو ہفتوں میں مارے گئے نامعلوم ہیں کہ نامعلوم افراد نے، نامعلوم جگہ ہر نامعلوم طریقہ سے قتل کردیا اور نامعلوم افراد افراد نے نامعلوم جگہ تدفین کردی۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں برداشت ختم ہوچکی ہے اور بڑی اکثریت خونخوار ہوچکی ہے۔ یہاں ہر کوئی ہی کسی نہ کسی جرم میں مبتلہ ہے لیکن اپنے جرم کر نظر انداز کر کر وہ دوسروں کو گناہوں اور خطا کا مجسمہ سمجھتے ہیں اور بس نہ چلے کہ چیر پھاڑ شروع کردیں۔ ااسکی وجہ کچھ بھی لیکن اس کو ختم صرف اور صرف عدل اور انصاف کے زریعہ اور اسلام کے آفاقی اور پر امن پیغام کو پھیلا کر ہی کیا جاسکتا ہے۔
اگر مسیح افراد یہ سوال کر رہے ہیں تو بے تکا کر رہے ہیں کیونکہ صرف مسیح ہی نہیں بہت سے مسلمانوں کے ساتھ ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا لیکن کوئی عدالتی تحقیات یا حکومتی رد عمل سامنے نہیں آیا۔ مثال کے طور پر کراچی میں کچھ برس قبل دو ڈاکوں کو رنگے ہاتھوں پکڑنے کے بعد نطرآتش کیا جانا، یا حال ہی میں میٹرویل سائٹ ائریا میں ایک چھبیس سالہ نوجوان کے کھلے عام چھریوں سے بیہمانا قتل وغیرہ۔
کیونکہ اس کی ویڈیو بنی، انتہائی بے دردی سے قتل کیا گیا، لعش کی بے حرمتی کی گئی اور تمام کی تمام پولیس (جو قانون کی رکھوالی ہوتی ہے) بھی بھرپور معاون نظر آئی اس لئے اس معاملے پر عدالت نے سو موٹیو ایکشن لیا۔
http://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1101035445&Issue=NP_LHE&Date=20100823
As per news DPO sialkot is son of law of RPO Rawalpindi Rao Iqbal, and a influental NA member of Rawalpindi is on their back.. Who is this NA member, people of Rawalpindi will tell you that Rao Iqbal is a man of Ch. Nisar Ali Khan of Noon League. According to one TV channel suspended DPO Sialkot has escaped and it is understandable that no one can detain him if Chaudhary Nisar is on his back
Once again Hypocricy of N league is evident , they always have two faces , Shahbaz and Nawaz doing foto sessions in Sialkot by shedding crocodie´s tears and their MNA Nisar was main culprit for politically backing Rao and his son in law.
Mians are worst hypocrite and I wonder which anchor has courage to expose Nisar
Dirty Thana Patwari Politics is trademark of Chauhdary Nisar
محترم کشف نصیر صاحب، آپ کے بہت سے ارشادات بجا ہیں اور مین ان سے مکمل اتفاق کرتا ہوں . میں صرف دو معاملات پر بات کو آگے بڑھانا چاہوں گا :
ضیاء الحق صاحب نے صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کے لیے سرعا م کوڑوں کی سزا کا اہتمام کیا . کیا آپ کوئی حوالہ دینا پسند کریں گے کھ یہ سزائیں کس طرح حدود اللہ میں شمار ہوتی ہیں ؟ جدید دور میں حدود اللہ کی تعریف کیا ہو گی اور ان کا اطلاق کیسے ہو گا اس پر کیا آپ کوئی غیر سلفی حوالہ دینا پسند کریں گے ؟
برداشت اور عمل کے حوالے سے اسلام کا آفاقی پیغام کیا ہے اس وقت اس کی سلفی اور غیر سلفی توجیحات خاصی مختلف ہیں . بدقسمتی سے پچاس سے اسی کی دہائی کے دوران سی آئ اےاور سعودی عرب نے اسلا م کی جس شکل کی سرپرستی کی وہ بڑی حد تک ہمارے مسائل کی ذمہ دار ہے . کیا ہم ایسے کر سکتے ہیں کھ جب تک آپ جیسے اصحاب دانش اسلام کی صحیح تصویر کو دنیا کے سامنے لائیں ہم انسانی حقوق کے عالمی علامیے کی پابندی کریں . یہ ایک ایسی دستاویز ہے جس کا بظا ہر اسلام سے کوئی جھگڑا نہیں اور مسلم اور غیر مسلم مما لک اس کی تائید کر چکے ہیں
کاشف صاحب ، آپ کا نام غلط ٹائپ ہو گیا اس کے لیے معزرت خواہ ہوں
I will not be donating to any pk flood appeals. as a british muslim and a resident of pk also i am today ashamed that this happened in pakistain….land of pure?…is it really?
no wonder Allah is punishing ppl of pk and its the Azzaab that they are suffering for acts like this.
can some one translate what qais is saying?… (unfortunately cant read urdu) then we can all be filled in.
alot jahil did this and police are not better.
pakistan is a very backwards country especially in and around the villages. from my personal experience these ppl live for the day rather than think for the future. so plz ppl get it sorted.
they should all be caught and hanged till they are dead.
I am having to think twice to whom i should be donating to: palestine siege of pakistan flood appeal.
I dont want jahils like this getting my money, they are better of dead.
Where is the mercy?… are these lot muslim?….i would very much doubt it.
@Ikhlaq,
I would like to translate Mr Qais Anwar’s very prudent comments, should Qais sb, has no objection to it?
Could this event be a divine message to Jamaat Islami that ‘as you sow so shall you reap’? After all its the Jamaatis who started and are experts in this sort of lynching.
Jehangir Hafsi
حضور یہ تو آپ کی مہربانی ہو گی ، اگر آپ اس میں تھوڑا سا تسلسل پیدا کرکے ایک مضمون بنا دیں تو یہ سونے پر سہا گہ ہو گا. مجھے بھت خوشی ہو گی کھ اگر اس مضمون کے تدوین کا ر کے طور پر آپ کے نام کا حوالہ ساتھ آئے ، ایک بار پھر بھت شکریہ
Why are all Lal Masjid supporters so distraught over this event? After all it’s the culture of taking the law in one’s hand that Lal Masjid people exhibited is what is responsible here.
Brother Humayoun, you are extremely wrong!
The Lal Masjid buddies did not initiate this practice, They did not give punishment to any one at all.
But this is the common couture in Pakistan since ages. When ever any Robbers and thieves are caught by the public, they beat them. In Rural Panjab specially south Punjab it is very common, but very few cases are reported.
I live in Karachi, I know how MQM and ANPs’ activist took law in there hand on the name language and race.How MQM, ST and Haqiqi Group run Bhatta Unit. But now it has become very common and easy to just criticize religious People and forget all secular fanatics.
@Kashif
I am not sure which south Punjab you are talking about but I spent a good part of my life in dgkhan kot addu Multan and Bahawalpur and never heard such an incident. In fact Khwaja Fareed and many of the great saints from that part of Punjab tell how to deal with ‘choors’ ….
Brother Qais Anwar
آپ نے حوالہ طلب کیا تھا جو ہ حاضر ہے، یہ قرآن کریم کی ایک سورت کا لفظی ترجمعہ اور مندرجہ بالا آیت کو کسی بھی عاقل اور بالغ شخص کے لئے سمجھنا بہت ہی آسان ہے اور اس آیت کو سمجھنے کے لئے کسی تشریح کی ضرورت نہیں ہے۔
24.002
The woman and the man guilty of adultery or fornication,- flog each of them with a hundred stripes: Let not compassion move you in their case, in a matter prescribed by God, if ye believe in God and the Last Day: and let a party of the Believers witness their punishment.
وہ مرد اور عورت جو زنا کریں کو ستر کوڑے لگائو، یہ حکم خدا کا ہے اور اس کام میں کسی رعایت کا مظاہرہ مت کرو۔ اگر تم خدا اور روز آخرت
پر یقین رکھتے ہو تو تم میں ایک جماعت سزا کہ وقت وہاں موجود ہو۔
مغرب کی چکاچوند سے مرعوب طبقے کا آخری حربہ ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ وہ وقت کے تقاضوں اور زمانے کی مصلحت کی بات کرے، لیکن میرے نزدیک یہ دلیل ہی کمزور اور ناقص ہے اور اس دلیل کے دیتے ہی تجدد پسند افراد چاروں طرف سے گھر جاتے ہیں۔ جس اللہ پر ہم ایمان رکھتے ہیں اسکے بارے میں ہمارا عقیدہ ہے کہ وہ حال و ماضی سب باتوں کا علم رکھتا ہے، تو ایسا زبر دست اللہ کیونکر ایک ایسا دین دے جس کی تشریح ہی میں امت ہمہ وقت پریشان رہے اور جو بدلتے زمانے کے ساتھ ناقص ہوتا جائے اور جسے تجدد کی ضرور پڑتی رہے۔
نہیں جی نہیں اگر ریاست کا حدود کے جرم میں کوڑے لگانا آج غیر انسانی ہے تو آج سے چودا سو سال پہلے بھی غیر انسانی ہی تھا اور اگر چودہ سو سال پہلے انصاف کے لئے ضروری تھا تو آج بھی ضروری ہے۔
لیکن، لیکن، لیکن
یہ کام اسلامی حکومت کا ہے کہ وہ تمام عدالتی کاروائی اور کڑی شہادتوں کے بعد جرم ثابت ہونے پر اس طرح کی سزا کا اطلاق کریں، عام عوام کو کسی صورت نہیں۔ اور جو کراچی و سیالکوٹ میں ہوا وہ تو سفاکانہ اور وحشیانہ طرز عمل تھا اور اسکا اسلام سے کوئی تعلق نہیں کہ اسلام میں جلانا، تشدد کرکے ہلاک کرنا اور نعش کی بے حرمتی کردینا تو حرام ہے۔ عوام الناس جب قانون پانے ہاتھ میں لیتے ہیں تو تجاوز کرتے ہیں۔
صرف پانچ جرم اسلام میں ایسے ہیں جن کو حدود کے زمرے میں لیا جاتا ہے اور اس میں صرف ایک بلکہ آدھی صورت میں انتہائی سخت شرائط یعنی چار راست باز گواہ کی شہادت پر ہی عدالت رجم کی سزا دے سکتی ہے۔
اس لئے سیالکوٹ کے واقعے کو حدود اللہ کے ساتھ منسلک کرنا ایک گھنونا عمل ہے، ہندوستان میں بھی ڈاکوں کو پکڑ کر اس طرح کی سزائیں دی گئی ہیں۔ تیسری دنیا کے اور ملکوں میں بھی ایسا ہوتا رہا، خود یورپ اور امریکہ کی تایخ انسانیت سوز واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ابوغریب جیل، گوانتانوبے اور بگرام جیل اسکی تازہ مثالیں ہیں۔ گجرات میں مسلم کش فسادات کے دوران ایسے لاتعداد واقعات رونما ہوئے جب کھلم کھلا حاملہ مسلمان خواتین کے رحم چاک کرکے انکے نامکمل بچوں کو نکالا گیا اور ناجانے کیا کیا ،کیا گیا۔ لیکن افسوس صد افسوس کچھ لوگوں نے قسم کھائی ہے کہ وہ صرف مذہبی لوگوں کے خلاف لکھے اور بولیں گے، شاید اسی پر انہیں جنت مل جائے گی۔
Kashif Naseer says:
August 23, 2010 at 5:14 pm
“Brother Humayoun, you are extremely wrong!
The Lal Masjid buddies did not initiate this practice,”
They may not have initiated this partcice (actually Mullahs notably Jamaat Islami/Islami Jamiat Talba did since many decades) but they did contribute to it and Lal Masjid supporters are hypocrites when they support Lal Msjid goons taking law into their own hands but condemned Sialkot incident. If one is wrong then other is wrong too.
“They did not give punishment to any one at all.”
Absolutely wrong! This is completely untruthful. Islamists always try to lie their way out of everything hoping that people will not notice. The Lal Masjid incident was not too long ago that facts have faded from people’s memories. Lal Masjid guys did attack many people and they did attack and kill without any provocation the defenceless ranger(s) who were merely standing outside Lal Masjid. It’s this incident that put the pressure on government to take action who until now were very lenient with Lal Masjid terrorists. No country allows killing of its law enforcement people. Government did well to teach the Lal Masjid terrorists the lessons to avoid complete breakdown of law and order in the capital.
“I live in Karachi, I know how MQM and ANPs’ activist took law in there hand”
Only proves we need to be more strict with people like Lal Masjid and not give them any credence to encourage even more groups to act the same way.
جناب کا شف نصیر صاحب ،
میں نے اپنی بات کی ابتدا ” حدود ” کی بجائے ” سر عام پھانسی اور کوڑے ما رنے کی قرون وسطی کی ر وا یت کے احیا ” سے کی تھی ، قرون وسطی زمانہ جدید اور زمانہ قدیم کے درمیان کا زمانہ ہے جس میں مختلف تہذیبوں میں کچھ مخصوص انسانی روئیے پائے جاتے تھے . آپ نے اس کا تعلق حدود کے ساتھ بنا یا تو میں نے اپنے علم میں اضافے کے لیے آپ سے دو ضمنی سوالات پوچھ لیے ، اب مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے کھ آپ نے مجھے ایک ” خانے ” میں رکه لیا ہے . اگر مغرب سے آپ کا مطلب ” سرمایہ دارانہ نظام ” ہے تو میں مغرب کی چکاچوند سے بالکل متاثر نہیں ہوں . ہاں اسی نظام کے تحت ہونے والی جدید سائنسی ترقی سے میںبھی آپ کی طرح مستفید ہوتا ہوں .سرمایہ دارانہ نظام کے حوالے سے ایک عام پاکستانی کی طرح میں ” “مغرب کی چکا کوند سے متاثر” نہیں بلکہ “مغرب گزیدہ” ہوں.
میرے لڑکپن میں جب مجھ جیسے غریب گھروں کے بچے سماجی انصا ف کے لیے چلنے والی تحریکوں سے وابستہ ہو جاتے تھے تو مذہبی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے ہما رے دوست ہمیں بتاتے تھے کھ غریب اور امیر اللہ تعالی نے پیدا کیے ہیں اور اس فرق کو مٹانے کی بات کرنے والے کا فر ہیں. یہ وہ وقت تھا جب ” مکر کی چا لوں سے بازی لے جانے والے سرما یہ دار ” نے ہانگ کا نگ اور بیروت میں اسلامی تحقیقا تی مراکز قائم کر رکھے تھے جو انقلابی تحریکوں کو روکنے کے لیے اشاعت اسلام مین مدد کرتے تھے . اس زمانے میں ہمیں سکولوں کا لجوں اور یونیورسٹیوں میں اس لیے ما را جاتا تھا کھ ہم مغرب کے باغی تھے اب جب میری نسل بڑہا پے کی حدود میں داخل ہو چکی ہے تو ہم روز تی وی پر دیکھتے ہیں کھ امریکہ کو گالیاں ں دی جاتی ہیں اور اسی دوران مغرب کی مصنوعات کے اشتہار چلائے جاتے ہیں .ہما رے بچپن کا اسلام ” مغرب ” کا سپانسرڈ تھا اور آج کی “اینٹی امریکہ تحریک ” بھی مغرب کی سپانسرڈ ہے میری عمر کے “آدرش پسند” مقامی چیزیں استمعال کیا کرتے تھے کھدر کے کپڑے پہنتے تھے ہم لوگ با ٹا کے جوتے نہیں پہنتے تھے کوک نہیں پپتے تھے. کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب ہم لوگوں سے عہد لیا کرتے تھے کھ مللٹی نیشنلز کی کم از کم پانچ چیزوں کا بائیکاٹ کریں اور مقامی کمپنیوں کی مصنوعات استعمال کریں. لیکن آج کا مغرب دشمن مغرب ہی کی کمپنیوں کے اشتہاروں کی کمائی کہا تا ہے اور مغرب کو گالیاں دیتا ہے . اور رہے مذہبی لوگ میں نے ابھی تک پاکستان میں علما کرم کی طرف سے ملتی نیشنل کے بائیکاٹ کی کوئی موثر مہم نہیں دیکھی
اگر میرا انداز کچھ تلخ ہو گیا ہو تو اس کے لیے معزرت چاہتا ہوں مقصد صرف یہ بتا نا تھا کھ ہم لوگ “سامراج بیزار” ہیں ” اسلام بیزار” نہیں
رہا حدود کا سوال آپ نے ابھی تک نہیں بتا یا کھ جنرل ضیاء کی ظالمانہ سزائیں حدود اللہ کیسے تھیں؟ آخر میں یہ بتا تا چلوں کھ ضیاء الحق کے روحانی مرشد مولانا مودودی کا بھی ان سزاؤں سے متعلق خیال تھا :
اسلامی قانون فوجداری کی دفعات اس ملک کے لیے ہیں جس میں پورا اسلامی نظام زندگی قائم ہو نہ کھ اس مملکت کے لیے جس میں سارا نظام کفر کے طریقوں پر چل رہا ہو اور صرف ایک چوری کی سزا یا زنا کی سزا اسلام سے لی جائے
حا ل ہی میں ایران مین جس کا دعویٰ ہے کھ وہاں اسلا می نظام ہے ایک حد …سنگ سا ر ی کی سزا معطل کی گئی ہے اور اس کے لیے بھی مذہب سے ہی دلیل لی گئی ہے
قیص صاحب
اسلامی قانون فوجداری کی دفعات اس ملک کے لیے ہیں جس میں پورا اسلامی نظام زندگی قائم ہو نہ کھ اس مملکت کے لیے جس میں سارا نظام کفر کے طریقوں پر چل رہا ہو اور صرف ایک چوری کی سزا یا زنا کی سزا اسلام سے لی جائے
I am 100% agree with this opinion
دوسری بات یہ ہے کہ آمریکہ اور روس دونوں ہی استعماری طاقتیں تھیں، مسلمان حکمرانوں کی اکثریت نے آمریکہ کے آگے گھٹنے ٹیک دئے اور دانش وروں کی اکثریت نے روس کو نجات دہندہ سمجھ لیا ، دنوں انتہائی غلط تھے۔ جبکہ مذہبی
لوگ اس وقت بھی مادر پدر آزادمغربی تہذیب کے خلاف تھے اور آج بھی ہیں۔
ہمایوں صاحب
ایم کیو ایم نے اپنے مقامی دفتر پر حملے کی ایف آئی آر اے این پی کے خلاف درج کرائی ہے اور رضا حیدر کے قتل کا الزام بھی اے این پی پر ڈالا ہے۔ دوسری طرف اے این پی کے صوبائی صدر نے ایک بار نہیں بار بار ایم کیو ایم کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔ اگر پھر بھی یقین نہ آئے تو رمضان کے آخری عشرے یا بقرعید کے دنوں میں کراچی تشریف لائیں، میں آپ کو بھتہ خوری اور زبردستی فطر، زکوۃ اور قربانی کھال جمع کراتے الطاف بھائی کے آدمیوں سے ملاوں گا۔ دوسری با ت میں چینلج کرتا ہوں کہ لال مسجد محب وطن طلبہ نے کبھی کسی کو بھی خود سے سزائیں نہیں دی، وہ آنٹی شمیم اور برہنہ مساج پالر والیوں کو اٹھا کے ضرور لائے لیکن اسکو عزت کے ساتھ چھوڑ دیا، سزا نہیں دی، اسی طرح میں یہ بھی چیلنج کرتا ہوں کہ ۳ جولائی تک جب فوج نے لال مسجد پر چھڑائی کی اس سے پہلے تک ایک گولی مسجد یا اہلیان مسجد سے نہیں چلی، طالبات نے پرامن طور اپنے جائز مطالبات کے لئے ملحقہ چلڈرن لائبریری پر جابیٹھی، انہوں نے کسی کو کتب خانے میں جانے سے منع نہیں کیا تھا، انہوں نے وہاں کوئی چیز توڑی نہیں تھی۔ انکے ہاتھ میں ڈنڈے ضرور تھے لیکن وہ ڈنڈے کسی پر چلائے نہیں گئے یہاں تک کہ کسی پر پتھر بھی نہیں پھیکا گیا۔
ہمارے یہاں منافقت ہے، ہماری آزاد خیال، آمریکہ پرست اور اسلام بیزار سیاسی جماعتوں کے کارکنان بڑے مزے سے قانون اپنے ہاتھوں میں لیتے ہیں۔ کراچی میں انتخابات کے دوران ایم کیو ایم والے پولنگ اسٹیشنز پر قبضہ کرلیتے ہیں۔ بھتہ لیتے ہیں، زبردستی فطرہ، زکوۃ اور چرم قربانی چھین لے جاتے ہیں۔کالج اور یونیورسٹی میں بدمعاشیاں عام ہیں، میں نے وفاقی جامعہ اردو سے “ایم بی اے” کیا ہے، اس ادارے کو پی ایس ایف پختون اور آئی ایس او نامی نام نہاد طلبہ تنظیموں نے یرغمال بنایا ہوا ہے,جب زارا میڈیا کسی جماعت کے خلاف بول دے، کارکنان کیبل بند کروادیتے ہیں، سب جانتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے زبانیں لوگوں کی صرف مذہبی لوگوں کے خلاف کھلتی ہیں کہ شاید اسی پر حج اور عمرہ کا ثواب ملتا ہے اور مرادیں پوری ہوتی ہیں۔
میں یہ نہیں کہتا کہ مذہبی لوگ فرشتہ ہیں، غلطیاں ان سے بھی ہوتی ہیں۔ کراچی میں جی سی ٹی کالج میں جمیعت والے زیادتیاں کرتے ہیں۔ لیکن مذہبی لوگوں کے خلاف چیزیں ڈھونڈ کر انہیں نمایاں انداز میں بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ میں سپہ صحابہ کے طرز فکر اور طرز عمل دونوں سے متفق نہیں، لیکن ایک بات جو اس جماعت برا بھلا کہتے ہوئے نظر انداز کردیتی جاتی ہے کہ اس جماعت کے سب سے زیادہ لیڈران مارے گئے لیکن رد عمل کے طور پر کبھی کوئی بلوا نہیں ہوا، میں بحثیت صحافی کراچی میں عبدل غفور ندیم اور الیاس زبیر کے جنازے کی رپورٹینگ کے لئے موجود تھا، دنوں جنازے میں دسیوں ہزار لوگ موجود تھے لیکن مجال ہے جو کوئی ایک شیشہ توٹا ہو، سنی تحریک کے ساتھ نشتر پارک میں ایک بہت بڑا سانحہ ہوا لیکن مجال ہے کہ رد عمل کے طور پر کوئی جلاو گھراو ہوا ہو۔ لیکن ادھر کوئی سیاسی رہبر مارا جائے پھر دیکھیں حمایتی کیا کرتے ہیں۔ چند گھنٹوں میں تباہی مچادیتے ہیں،
اسلام کو انتہاپسندی اور دہشت گردی کے ساتھ نتھی کردیا گیا ہے، بلوچستان میں بھی دہشت گردی ہوتی ہے لیکن اس پر انکھیں بند کر لی جاتی ہیں کہ آزاد خیال لوگ ملوث ہیں۔ الحمد اللہ مذہبی لوگ دونوں جگہ آپریشن کے خاتمے اور انصاف کی بات کرتے ہیں۔
شاید میری منطقی دلائل کو بھی آپ مسترد کردیں، تو صاحب شریں رحمان کی پریس کانفرنس جو یوٹیو پر آج بھی موجود ہے وہ سن لیں، وہ کس طرح ایم کیو ایم کو دہشت گرد جماعت قرار دے رہی ہیں، نواز شریف اور انکی جماعت کا موقف اب بھی بعض اوقات سامنے آجاتا ہے، اے این پی کراچی والے خود جو باچا خان کے عدم تشدد والے نظرئے اور پختون روایات کو اپنے پاوں کے نیچے روند چکے ہیں اور جو بارہ لاکھ کی آبادی والے اورنگی ٹاون کو ہمیشہ باقی شہر سے کاٹ کر محصور لرلیتے ہیں بھی ایم کو ایم کے خلاف کھل کر بولتے ہیں۔
1992 اور 1993 سے 1996 تک کراچی میں پی پی اور لیگ حکومت کے دوران بھی جو کچھ کہا جاتا رہا اسے بھی یاد کریں۔ اس کھجی گراونڈ کو بھی یاد کریں جو پی پی پی کے وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر نے دریافت کیا تھا اور کہا تھا کہ یہاں ایم کیو ایم والے اپنے مخالفین کو لاکر ازیت دے کر مارتے ہیں۔ وہ زمانہ بھی یاد کریں جب کراچی پولیس ارشد پپو، فہیم کمانڈو جیسے کرداروں کو مار کر اپنے سینے پر بہادری کا تمغہ سجاتی تھی۔
یا تو قبول کریں 1993 -96 ایم کیو ایم کے خلاف جو ریاستی آپریشن ہوا وہ سراسر غلط تھا یا بینظیر صاحبہ کی وہ پالیسی غلط تھی یا قبول کریں کہ آج آپ غلط ہیں۔ میں تو اس وقت بھی فوجی آپریشن کے خلاف تھا اور آج بھی ہوں۔
بہت افسوس کی بات ہے کہ کراچی سے باہر کے لوگ خاص طور پر سیاست دانوں کو صرف بارہ مئی یاد ہے کہ سارے سیاسی کارکنان مارے گئے۔
باقی ایم کیو ایم اور اے این پی جو دہشت گردی عام عوام کے ساتھ کرتی ہے وہ سب معاف،
ایم کیوایم یہاں کراچی میں جو زبردستی فطرہ، زکوۃ اور چرم قربانی جمع کرتی ہے معاف۔
ایم کیوایم اور اے این پی کے ہاتھوں جو غریب پختون اور مہاجر نسلی بنیاد پر قتل کردئے جاتے ہیں وہ بھی معاف۔
اے این پی والے بارہ لاکھ کی آبادی والے اورنگی ٹاون کو باقی شہر سے کاٹ کر لیتی ہے اور وہاں کے لوگوں کے روزگار جو داو پر لگے ہیں وہ سب معاف۔
اے این پی کے کر توت بھی سننے ہوں تو پیلز پارٹی کے سابق رکن اسمبلی آفاق خان شاہد اور اورنگی ٹاون سے پیپلز پارٹی کے سابق ناظم شاہد عالم کے پاس جائیں، یہ حضرات مجھ سے زیادہ واقف ہیں اور سچ بھی بولتے ہیں
As per Islamic Law “Administering Punishment” is the Responsibility of State and vigilante actions like above is Haram in Islam.
Ibn Muflih al-Hanbali (may Allaah have mercy on him) said in al-Furoo’ (6/53): It is haraam for anyone to carry out a hadd punishment except the ruler or his deputy. This is something on which the fuqaha’ of Islam are unanimously agreed, as was stated in al-Mawsoo’ah al-Fiqhiyyah (5/280): The fuqaha’ are unanimously agreed that the one who should carry out hadd punishments is the ruler or his deputy, whether the punishment is transgressing one of the limits of Allaah, may He be exalted, such as zina, or a transgression against another person, such as slander. [For Further Reference Buloogh Al Maram by Ibn Hajar and Durrurul Beyh by Imam Shawkani]