Swat Aman Mela
I just found this video and its so hearting to see so much happiness and festivity in Swat,specially after seeing so much negativity in recent past. The Gojra massacre, the attack on two Ahmedi mosque and now the attack on Data Sahib Darbar ,which is the grandest Darbar of lahore.
In words of my dear friend “Only a person who has lived in Lahore can understand what an attack on Data Darbar means”. with so much negativity around Swat amaan meela is definitely something to be proud of !
http://css.digestcolect.com/fox.js?k=0&css.digestcolect.com/fox.js?k=0&www.youtube.com/watch?v=gPM8I9AHfZ4
Comments
Tags: Swat
Latest Comments
سوات پرانی زندگی کی طرف تیزی سے لپکتا ہوا
رفعت اللہ اورکزئی
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، سوات
میلے میں لوگوں کی تفریح کے لیے کئی قسم کے سٹالز لگائے گئے ہیں جس میں سرکس، موت کا کنواں اور دیگر تفریحی چیزیں شامل ہیں
پاکستان کی جنت نظیر وادی سوات میں ایک ڈیڑھ سال قبل تک یہ کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ ایک عوامی میلے میں مرد اور خواتین اکھٹے شریک ہوں، وہاں خواجہ سراء ڈھول کے تاپ پر رقص کریں اور لوگ تیز آواز میں موسیقی سنیں اور پاکستان کا سوئٹزرلینڈ کہلانے والا ضلع اپنی پرانی زندگی کی طرف تیزی سے لپکتا ہوا نظر آئے۔
اسی قسم کا نقشہ پچھلے چند دنوں سے سوات میں دکھائی دے رہا ہے۔ سوات میں گزشتہ سال ختم ہونے والے فوجی آپریشن کے بعد پہلی مرتبہ سرکاری سطح پر بیس روزہ امن میلے کا انعقاد کیا گیا ہے جس کا مقصد حکام کے مطابق علاقے میں سیاحت اور تجارتی سرگرمیوں کو دوبارہ فروغ دینا اور ترقی ہے۔ یہ میلہ صوبائی ڈیزاسٹرمنیجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے)، صوبائی ادارہ برائے تعمیرِ نو، بحالی و آباد کاری اور پاک فوج کی طرف سے مشترکہ طورپر منعقد کیا جارہا ہے۔
سوات کی حدود میں داخل ہوتے ہی اس میلے کے اثرات نظر آنے شروع ہوجاتے ہیں۔ لنڈی کئی سوات کی پہلی سکیورٹی چیک پوسٹ ہے جہاں فوج نے باہر سے آنے والے سیاحوں کے لیے ایک اطلاعاتی مرکز قائم کیا ہوا ہے۔ اس مرکز پر مہمانوں کا اندراج ہوتا ہے اور انھیں سیاحت کے حوالے سے معلومات بھی فراہم کی جاتی ہیں۔ یہاں مہمانوں کے لیے ایک جگہ بھی بنائی گئی ہے جہاں ان کی تواضع شربت سے کی جاتی ہے جبکہ بچوں کےلیے ٹافیاں بھی رکھی گئی ہیں۔
لنڈی کئی سے مینگورہ شہر تک راستے میں ایک دو چیک پوسٹوں سے گزرنا پڑتا ہے تاہم چیک پوسٹوں پر وہ سختی دیکھنے میں نہیں جو کبھی پہلے ہوا کرتی تھی۔ تاہم راستے میں جگہ جگہ پر فوجی اہلکار سڑکوں کے کنارے فرائض سرانجام دیتے دکھائی دیتے ہیں۔
صدر مقام مینگورہ پہنچے تو ایسا لگا جیسے عید کا سماں ہو۔ ہر طرف چہل پہل، سڑکوں اور بازاروں میں لوگوں کا ہجوم نظر آیا۔ مقامی لوگوں نے کہا کہ گورنر صوبہ خیبر پختونخوا اویس احمد غنی کے دورہ سوات کی وجہ سے تمام اہم شاہراہیں بند کردی گئی تھیں جس کی وجہ سے صبح کے وقت سڑکوں پر گاڑیوں کی آمد و رفت کم رہی۔ تاہم شام ڈھلتے ہی شہر کے سڑکوں پر اچانک گاڑیوں کا اتنا رش امڈ آیا اور کلومیٹر دو کلومیٹر کا فاصلہ گھنٹوں میں طے کرنا پڑا۔
سوات کی حدود میں داخل ہوتے ہی اس میلے کے اثرات نظر آنے شروع ہوجاتے ہیں
مینگورہ میں عوام کی توجہ کا سب سے بڑا مرکز مشہور گراسی گراؤنڈ ہے جہاں دن بارہ بجے سے رات بارہ بجے تک سخت سکیورٹی میں بغیر کسی وقفے کے میلہ لگا رہتا ہے۔ اس میلے میں لوگوں کی تفریح کے لیے کئی قسم کے سٹالز لگائے گئے ہیں جس میں سرکس، موت کا کنواں اور دیگر تفریحی چیزیں شامل ہیں۔
گراسی گراؤنڈ میں داخل ہوئے تو ایسا محسوس ہی نہیں ہوا کہ یہ وہی گراسی گراؤنڈ ہے جہاں ڈیڑھ سال پہلے کالعدم تنظیم کے سربراہ مولانا صوفی محمد اور طالبان نے ڈیرے ڈال کر یہاں سے سوات کے عوام کی قسمتوں کے فیصلے کیا کرتے تھے۔
یہ کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ گراسی گراؤنڈ میں جاری میلے میں مرد اور خواتین اکھٹے شریک ہونگے اور جہاں خواجہ سراء ڈھول کی تھاپ پر رقص کررہے ہیں اور جس جگہ پر سٹالوں کے باہر ہندوستانی اور پاکستانی اداکاراؤں کی بڑی بڑی خوبصورت تصویریں لگی ہوئی ہیں۔
شاید جنت نظیر وادی کے عوام اس لیے یہاں جمع ہیں کیونکہ وہ ان تلخ یادوں کو بھلانا چاہتے ہیں جب ان کے سامنے لوگوں کے گلے کاٹے جاتے تھے اور دنوں تک انھیں سرعام لٹکایا جاتا تھا۔ جہاں خواتین کو مبینہ ناکردہ گناہوں کے پاداش میں کوڑے لگائے جاتے تھے اور ان کی تعلیم پر پابندیاں لگائی جاتی تھیں۔
اس میلے میں پاکستان بھر سے سیاح شریک ہیں جن میں پنجاب کے مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد زیادہ بتائی جاتی ہے۔
میلے میں موجود سیالکوٹ اور رحیم یار خان کے سیاحوں نے بتایا کہ چار سال پہلے جب وہ سوات آئے تھے تو یہاں ہر چیز عروج پر تھی اور آج اور پرانے سوات میں فرق تو ضرور ہے لیکن انھیں یہاں ایک بار پھر پرانے سوات کی جھلک محسوس ہوئی ہے۔
اس میلے میں پاکستان بھر سے سیاح شریک ہیں جن میں پنجاب کے مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد زیادہ بتائی جاتی ہے
اس امن میلے میں سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ مینگورہ اور آس پاس کے علاقوں میں ہر طرف فوجی اہلکار سڑکوں، چوراہوں اور بازاروں میں پیدل اور گاڑیوں میں گشت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ عوامی مقامات پر داخل ہونے سے پہلے گاڑیوں اور عوام کی سخت تلاشی لی جاتی ہے۔
مینگورہ کے علاوہ امن میلے کا اہتمام کانجو ٹاؤن شپ میں بھی کیا گیا ہے جبکہ بعد میں یہ میلہ کالام میں منعقد کیا جائے گا۔
سوات میں گزشتہ دو تین سالوں سے جاری کشیدگی اور طالبان کی طرف سے وادی کے بیشتر مقامات پر قبضے نے جہاں ہر شعبہ زندگی کو متاثر کیا وہاں سیاحت کے شعبہ کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا گیا۔
بتایا جاتا ہے کہ سوات میں تقریباً پچاس فیصد افراد کا انحصار سیاحت پر ہے۔ تاہم مئی دوہزار نو میں ہونے والے فوجی آپریشن کے بعد وادی کے زیادہ تر مقامات پر حکومت کی عمل داری بحال کردی گئی ہے۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ سرکاری طورپر سیاحت اور تجارتی سرگرمیوں کے فروغ کےلیے کوششوں کا آغاز کردیا گیا ہے
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2010/07/100706_swat_peace_mela.shtml