The captain is however a principled man – by Kashif Naseer
Source: Kashif Naseer ka blog
کپتان مگراصول پسند بہت ہیں
لاہور کے سیاسی منظرنامہ پر ضمنی انتخابات کا شوربہت سی نئی تلخیوں کے ساتھ تھم چکا ہے۔ واقعات بتا رہے ہیں کہ لیاقت بلوچ جو چاہتے تھے وہی ہوا لیکن یہ وہ بھی جانتے ہیں کہ باجود ق لیگ سے اس نئی بے تکی قرابت داری کے، نتیجہ جماعت کےْ حق میں نہ نکلنا تھا نہ نکلا ہے، دوسری طرف عمران خان تھے ہاں کپتان مگراصول پسند بہت ہیں۔ ن لیگ کا معاملا مختلف ہے کہ پارٹی کم اور چو چو کا مربع زیادہ ہے۔ جیت چونکہ ہمیشہ چو چوں اور مربعوں کی ہوتی ہے اس لئے سیف الملوک 26859 ووٹ لے کر پنجاب اسمبلی پہنچنے کی تیاری کر رہے ہیں اور تحریک و جماعت کے امیدوار بیلٹ بکس سے نکلے بلترتیب 18812 اور7542 ووٹ لئے ہمیشہ کی طرح منہ لٹکائے بیٹھے ہیں۔
عام انتخابات کے دوران پورے ملک کے سیاسی فضاء میں زبردست گرما گرمی پھیلی ہوتی ہے اسلئے کوئی ایک حلقہ اخبارات اور ٹی وی پروگرام میں اس طرح تفصیلی بحث کا موضوں نہیں بنتا جس طرح کے لاہور سے پنجاب اسمبلی کا نیم شہری حلقہ پی ایس 160 بنا۔ سنجیدہ سیاسی مبصرین کی اکژیت ضمنی انتخابات کوبہت زیادہ اہمیت نہیں دیتی کہ اکثر جیت اہل اقتدار کے ہی حصہ میں آتی ہے اور ایوان کے اعداد و شمار پر کوئی زیادہ اثر نہیں پڑتا لیکن میڈیا اور ارباب صحافت میں اسکا خوب تذکرہ ہوتا ہے اور تجزیہ فیکٹری بدلتے سیاسی رجہانات پر نہایت سیرحاصل گفتگو کرتی ہے۔ خاص طور پر جب تک سنئیر تجزیہ نگار ہارون رشید اور نذیر ناجی جیسے سنئیر ترین کلم نگاروں کے دانش و بصیرت سے بھرپورایک آک کالم روزنامہ جنگ کے صفحات کی زینت نہ بنیں، پنجاب میں ضمنی انتخاب کی کسی خبر کا یقین نہیں آتا۔
حلقہ پی ایس 160 بھی تنخوا دار تجزیہ فیکڑی کے لئے نقطہ نگاہ بنی ہوئی ہے۔ کہیں شرفاء برادران پر عوام کے برقراراعتماد کی بات بھی ہورہی، کہیں دھاندلی کے ٹھوس ثبوت سامنے لائے جائے رہے ہیں اور کہیں عمران خان اور جماعت اسلامی کی کلاس بھی لی جارہی ہے۔ جب سب، سب کچھ کہ رہے ہیں تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ میں بھی اس بہتی گنگا میں اشنان نہ سہی ہاتھ ہی دھو لوں۔ صاحب میرے مطابق دھاندلی اور دھاندلی کے الزمات دونوں ہی پاکستانی سیاست کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں لیکن اگر میں غلط نہیں ہوں تو اتنے بھی نہیں کہ نتائج کو ہی بدل دیں۔ چنانچہ خلق خدا نے جسے اپنی نمائندگی کاحق تجویز کیا وہ شرفاء برداران سے مبارکباد سمیٹنے میں مصروف ہے۔ احسن رشید لاکھ دیہی علاقوں میں انتظامی بددیانتی اور تیرا سال پرانے ووٹر لسٹوں کا رونہ روئیں،حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف اکیلے یہ معرکہ سر کرنے کے قابل کبھی بھی نہ تھی۔ میرے سامنے نتائج دھرے ہیں اور میری چھٹی حس کہ رہی ہے کہ اگر عمران خان اور منور حسین کے بیچ دوریاں کچھ کم ہوجاتیں تو دونوں مل کریہ نشست ضرور نکال لیتے مگر منور حسین میں قاضی حسین احمد والی بات نہیں کہ وہ ٹھیٹ جماعتی ہیں اور لیاقت بلوچ جیسے بھی انکے اعصاب پر سوار ہیں اور کپتان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اصولی بہت ہیں۔
ہماری سیاست میں اگر مگر کی بحث بہت ہے، اخباری کالموں سے لیکر گلی کوچے کی بیٹھکوں تک ہر جگہ امکانات پر بہت بات ہوتی ہے۔ چالیس سال سے اسی امکان کی بحث نے جماعت کو سہارا دئے رکھا اور پندرہ سال ہوتے ہیں کہ عمران خان بھی اسی امید کو اپنی متاع بنائے ٹی وی چینلز پر ہردلعزیز بنے ہوئے ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ جماعت اسلامی شہری علاقوں کی بڑی جماعت ہے مگر اگر لاہور سے ن لیگ اور کراچی سے ایم کیو ایم انتخابات سے باہر ہواور پشاور وااسلام آباد میں دیوبندی مولویوں سے اسکی کچھ ایڈجیسمنٹ ہوجائے ورنہ تقریبا ہرشہری حلقے سے دس سے بیس فیصد تک مذہبی ووٹ لینے کے باوجود اسمبلیوں میں اسکے ایک فیصد ارکان بھی پہنچ نہیں پاتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں جماعت اسلامی کو چاہئے کہ وہ پاکستان میں بھی ترکی کے انتخابی ماڈل کی تقلید کے لئے تحریک چلائے اور اگر اسکے دھرنے ہمیشہ کی طرح ناکام نہیں رہے تو آئندہ انتخابات میں اسے اکیلے ہی تیس چالیس نشست نکالنے میں کوئی مشکل نہیں ہوگی۔ میرے خیال میں عمران خان کامستقبل بھی اسی ماڈل سے وابستہ ہے، کپتان مگر اصول پسند بہت ہیں کہ تین دفعہ وہ نواز شریف کے قائل ہوئے اور اتنے ہی دفعہ انسے بدزن بھی، دو ایک دفعہ محترمہ کے پہلو میں بھی بیٹھے لیکن ہر دفعہ بدعنوانی کی بدبو کے مارے منہ پہ ہاتھ رکھے نکل آئے، پرویز مشرف سے انکی دوستی اگر تھی تو کیا ہوا کہ مخالفت بھی ڈٹ کے کی اور الطاف حسین کو لندن سے ایک مہینے میں وہ بے دخل کیوں نہ کرادیتے، وہ تو الطاف حسین خود ہی! اب آپ ہی بتائیں کہ کپتان ٹی وی پر آکرانہیں بھائی نہ کہیں تو کیا کہیں۔
قاضی اور کپتان کی دوستی آج بھی مثالی ہے،جب جامعہ پنجاب میں جماعتیوں نے انکی درگت بنائی تو وہ قاضی صاحب کے لحاظ میں ہی چپ رہے۔ مذہبی طبقوں میں بھی انکی عزت ہے اور طالبان کی سفوں میں بھی انکی شہرت ہے کہ ہمیشہ استعمار اورفوجی آپریشن کے خلاف قولی جہاد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ اسی لئے کپتان کو عام طور پر دائیں بازو کا لیڈر سمجھا جاتا مگر حسین امتزاج ہے کہ لیمس کے کئی برگر، ترقی پسند طلبہ اور یوسف ہارون جیسے رنگین مزاج دوست، بھی انکے ساتھ ہیں جن میں خود کو وہ بھٹو کابڑا مداح بتاتے ہیں ۔ کپتان کو اب کون بتائے کہ انقلاب لیمس کے برگرطلبہ کے کاندھوں پر بیٹھ کر نہیں، غریب مزدوروں اور محنت کشوں میں احساس زیاں جگا کرانہیں رخ سحر دکھلا کربرپا کیا جاتا ہے، اس کام میں کپڑے بھی گندے ہوتے ہیں اور استری بھی خراب ہوتی ہے۔ کپتان کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ اب قاضی نہیں ہیں جوکپتان کے نخرے اٹھائیں، اب منور حسین ہیں جو ٹھیٹ جماعتی ہیں اور لیاقت بلوچ جیسے بھی انکے اعصاب پر سوار ہیں۔ وہ منور حسین جوڈیرہ اسماعلیل خان کے اسلام آباد پرست مولوی، مولانا فضل الرحمان سے اتحاد کرنا نہیں چاہتے اورکپتان سے جنہیں پرانی چڑ ہے اور ق لیگ کا در جنکے لئے خلا ہے۔
منور حسن اور انکی جماعت اپنے پرانے اتحادیوں کے ساتھ ایک نئی آئی جے آئی بنانا چاہتی ہے جو نواز شریف کی شریفانہ اقداراور قاضی حسین کی دیوبندیت سے محفوط ہو۔ ایسی فضاء میں پاکستان میں دائیں بازو کی سیاست تقسیم کا شکار نظر آتی ہے اور ماحول فل حال بائیں بازو کے لئے سازگار ہے۔ پیپلز پارٹی، ایم کیوایم اور اے این پی کو مبارک ہو کہ لاہور کے سیاسی منظرنامہ پر ضمنی انتخابات کا شوربہت سی نئی تلخیوں کے ساتھ تھم چکا ہے۔ واقعات بتا رہے ہیں کہ لیاقت بلوچ جو چاہتے تھے وہی ہوا لیکن یہ وہ بھی جانتے تھے کہ باجود ق لیگ سے اس نئی بے تکی قربت کے نتیجہ جماعت کےْ حق میں نہ نکلنا تھا نہ نکلا ہے، دوسری طرف عمران خان تھے ہاں کپتان مگراصول پسند بہت ہیں۔
Kashif, well written and good logic. I would suggest that some words you should write in English for ease of understanding.
gud Kashif bhai gud u r going well