From Minus One to Minus Two Formula in Pakistan

Ali Salman’s analysis points towards the possibility that the anti-democracy establishment (military and civil bureaucracy) in Pakistan may be behind the campaigns to defame President Zardari and Nawaz Sharif.

مائنس ون نہیں اب مائنس ٹو

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ اس نکتے پر تو متفق ہیں کہ کسی بھی صورتحال سے باہمی اختلافات بھلا کر نبٹا جائے گا

مسلم لیگ نون کے سربراہ میاں محمد نواز شریف کو بظاہر اسٹیبلشمنٹ کے انہی ہتھکنڈوں کا سامنا ہے جو پاکستان میں اب تک صرف پیپلز پارٹی کا مقدر رہے ہیں۔

مسلم لیگ نون پر ہونے والے تابڑ توڑ میڈیا حملوں سے بظاہر یوں لگتا ہے کہ نواز شریف یا تو اسٹیبلشمنٹ میں اپنا اعتماد کھو بیٹھے ہیں یا پھر پاکستان کے بااثر حلقے ان سے کوئی ایسی بات منوانا چاہتے ہیں جس پر وہ اڑے ہوئے ہیں۔

مسلم لیگ کے رہنماؤں میں ایک عمومی تاثر ہے کہ یہ پیپلز پارٹی کی سازش ہے اور اس میں اس کے اتحادی ایم کیو ایم وغیرہ شامل ہیں۔ان کا یہ بھی خیال ہے کہ ایسا مسلم لیگ نون کے رہنما نواز شریف کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو کم کرنے کے لیےکیا جارہا ہے۔

پیپلز پارٹی کے حکمران رہنما، مسلم لیگ نون کے طرز تخاطب پر سیخ پا تو ہو رہے ہیں اور مولا جٹ کی بڑھک کے جواب میں نوری نت کا ڈائیلاگ بھی پھینک دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود پیپلز پارٹی والے الزام تراشی میں ایک حد کو عبور نہیں کررہے ہیں۔

پی پی کے رہنما کردارکشی کی مہم میں ملوث ہونے کی بار بار تردید کررہے ہیں اور مسلم لیگ کو مشورہ دے رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی سے جھگڑنے کی بجائے اسی حوصلے سے ان الزمات کا مقابلہ جس سے پیپلز پارٹی ان سے نمٹتی آئی ہے۔

مسلم لیگ نون میں کچھ رہنماؤں کا پیپلز پارٹی کے ساتھ رویہ نسبتاً مصالحانہ ہے لیکن وہ اس تشویش میں ضرور مبتلا ہیں کہ اچانک ہونے والے ان میڈیا حملوں کے پس پردہ وجوہات کیا ہیں؟ اور کیا یہ کسی گہری سازش کے ابتدائی تانے بانے تو نہیں ہیں؟

خفیہ ایجنسیوں کے ریٹائرڈ سربراہوں نے اچانک کس اشارے پر بیان بازی شروع کی ہے: وفاقی وزیر

بیس برس پرانی اور مسلم لیگ نون کے رہنماؤں کے بقول مردہ کہانیوں کا اچانک منظر عام پر آنا معمول کی صحافتی سرگرمی نہیں ہے۔

پیپلز پارٹی کے ایک وفاقی وزیر کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ اس بات پر غور کرے کہ خفیہ ایجنسیوں کے ریٹائرڈ سربراہوں نے اچانک کس اشارے پر بیان بازی شروع کی ہے۔

مسلم لیگ نون کے رہنما کردار کشی کی مہم کی جو بے شمار وجوہات بتاتے ہیں ان میں سے ایک سابق صدر پرویز مشرف کو بغاوت کے مقدمے سے بچانا بھی شامل ہے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پہلی بات تو یہ کہ حکمران پیپلز پارٹی کو سابق فوجی صدر پرویز مشرف کو بچانے میں اس کےسوا کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے کہ اس پیروں میں بھاری ذمہ داریوں کی بیڑیاں ہیں اور دوسرے یہ کہ پرویز مشرف کو بچانے کے لیے نواز شریف کے اس قسم کے میڈیا ٹرائل کی کوئی خاص ضرورت بھی نہیں تھی کیونکہ اپوزیشن جماعت کے رہنمامشاہد حسین کے بقول اس کے لیے سعودی عرب سے آنے والی ایک ٹیلی فون کال ہی کافی ہے۔

لندن میں صدر مملکت آصف زرداری کی الطاف حسین سے رحمان ملک میں معیت میں ملاقات ہوچکی ہے۔الطاف حسین سابق صدر پرویز مشرف کے ایک بڑے حامی مانے جاتے ہیں۔

اس ملاقات کے بعد وزیر داخلہ رحمان ملک کا سعودی عرب گئے ہیں جہاں ان کا غیر معمولی پرتپاک استقبال ہوا اور اس کے بعد پرویز مشرف کی بھی سعودی عرب موجودگی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ معاملات طے پانے والے ہیں کیونکہ بعض مبصرین کاکہنا ہے کہ سعودی عرب کے شاہی خاندان کے ممنون احسان نواز شریف کے لیے ان کی کوئی حاکمانہ فرمائش ٹالنا مشکل ہوگا۔ مسلم لیگ قاف کے رہنما مشاہد حسین کاکہنا ہے کہ یہ ’فرمائشی‘ کال بس آیا ہی چاہتی ہے۔

مقتدرحلقے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف سے مطمئن دکھائی دیتے ہیں

اگر ایک لمحے کے لیے یہ فرض کرلیا جائے کہ کردار کشی کی مہم کے پس پردہ نہ تو سو فی صد پیپلزپارٹی ہے اور نہ ہی پرویز مشرف کو بچانے کی کوششیں ہیں تو پھر اس نواز مخالف میڈیا مہم کا مقصد ڈھونڈنا اور مشکل ہوجاتا ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ سوات آپریشن کے سلسلے میں اپنا وزن پیپلز پارٹی کے پلڑے میں ڈال دینے اور فرینڈلی اپوزیشن کے خطاب حاصل کرلینے کے بعد اگرچہ نواز شریف کا ایک جارح باغی لیڈر کا امیج دھندلا سا گیا ہے لیکن ابھی تک اسٹیبلشمنٹ نواز شریف پراس طرح کا اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہے جیسا کہ انہیں ماضی میں حاصل رہا ہے۔

پاکستان میں جو لوگ اسٹیبلشمنٹ کی ریشہ دوانیوں سے تھوڑے بہت بھی آگاہ ہیں وہ جانتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے کچھ حلقے ہمیشہ بے نظیر بھٹو کو سیکیورٹی رسک قراردیتے رہے ہیں اور ان کے بعد اب یہ ’اعزاز‘ صرف صدر آصف زرداری کو حاصل ہے۔ نواز شریف اگرچہ اس ’عہدے‘ پر فائز نہیں ہوئے ہیں لیکن ان کی ضدی طبعیت اسٹیبلشمنٹ کےلیے اب خطرے کی گھنٹی بجانے لگی ہے۔

ایک طویل عرصے تک مارشل لاء کی سختیاں برداشت کرنے والی پاکستانی قوم جب بھی ملک میں بڑھتا ہوا سیاسی انتشار دیکھتی ہے تو وہ ایک نئے مارشل لاء کا خوف محسوس کرنے لگتی ہے۔

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ دونوں ہی اس نکتے پر تو متفق ہیں کہ ایسی کسی بھی صورتحال سے باہمی اختلافات بھلا کر نبٹا جائے گا۔خود فوجی قیادت بھی ملکی حالات کی وجہ سے بظاہر ایسے کسی ایڈونچر کے لیے تیار نظر نہیں آتی۔ کچھ دوسرے مقتدرحلقے بھی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف سے مطمئن دکھائی دیتے ہیں لیکن بعض مبصرین کاکہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی مطلب براری کا ایک درمیانی راستہ بھی ہوسکتا ہے جو مائنیس ون سے بڑھ کر اب مائنیس ٹو فارمولے ہوچکا ہے

Comments

comments