Mian de nare wajan ge
In the last few days, it is really refreshing to see Nawaz Sharif’s bold stance on various issues including the 18th amendment and also on the Ahmadi massacre in Lahore. We provide below excerpts from some news reports from national and international press in appreciation of Nawaz Sharif.
According to daily Dawn:
“Pakistan Muslim League-N chief Nawaz Sharif on Thursday severely criticised the media, saying that it tolerated eight years of rule by a dictator but could not bear six months of an elected government.
While talking to TV anchors in Punjab House, Sharif said that he was not a hypocrite and did not have any back door contacts with the army, judiciary or with President Zardari.”
Daily Times reports that:
“The PML-N chief, talking to media at the Punjab House, said that the National Judicial Commission had been formed according to the Charter of Democracy. A single person should not have the authority to appoint the judges of the superior courts, he said, and therefore the commission was very appropriate for this purpose. He said that the supremacy of the parliament must be maintained, adding that all the institutions should play their role within their set parameters. The situation of the country is worsening due to ineligibility and botched policies of the government, he added.”
Finally, this excellent article from BBC Urdu:
نواز شریف کی بدلتی سیاست
اعجاز مہر
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آبادججوں کی بھرتی کا اختیار کسی فرد واحد کے پاس نہیں ہونا چاہیے: نواز شریف
پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ (ن) لاہور میں احمدیوں پر حملوں کی مذمت نہ کرنے اور اٹھارویں آئینی ترمیم کا سپریم کورٹ میں دفاع نہ کرنے کے حوالے سے کئی روز سے تنقید کی زد میں تھی لیکن میاں نواز شریف نے دونوں معاملات پر کھل کر اپنا موقف پیش کرکے اب ایک نیا محاذ کھول دیا ہے۔
سابق وزیر اعظم کی دونوں معاملات پر پہلے خاموشی اختیار کرنے پر ترقی پسند سوچ رکھنے والے سیاسی، سماجی اور صحافتی حلقوں سے تنقید کا سامنا رہا لیکن جب انہوں نے احمدیوں کو اپنا بھائی اور برابر کا شہری ماننے کا بیان دیا تو اس کے بعد انہیں دائرہ اسلام سے خارج کرنے جیسے فتوؤں اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
آئے روز متحدہ تحریک ختم نبوت اور دیگر مذہبی جماعتوں کے تنقیدی بیانات میں ان پر طرح طرح کے الزام لگائے جاتے رہے ہیں۔ میاں نواز شریف کے بعض مخالفین یہ بھی کہتے رہے ہیں کہ انہیں احمدیوں سے ہمدردی کا بیان عالمی دباؤ پر دینا پڑا ہے۔
میاں نواز شریف نے اس بارے میں تو ہونے والی تنقید کا جواب نہیں دیا لیکن اٹھارویں آئینی ترمیم جو اتفاق رائے سے پارلیمان نے منظور کی اس کا سپریم کورٹ میں دفاع نہ کرنے کے متعلق ہونے والی تنقید کا کھل کر جواب دیا اور ایک ہی بیان سے اپنے ناقدین کو خاموش کردیا۔
پنجاب حکومت کی جانب سے شاہد حامد نے جب سپریم کورٹ میں اٹھارویں ترمیم کو چیلینج کیے جانے کے خلاف اپنا تحریری جواب دائر کیا تھا اس سے مسلم لیگ (ن) کے موقف کی وضاحت ہوگئی تھی۔ لیکن اس کے باوجود بھی میاں نواز شریف کو کہنا پڑا کہ ’ہم اٹھارویں ترمیم کا سپریم کورٹ میں دفاع کریں گے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ججوں کی بھرتی کا اختیار کسی فرد واحد کے پاس نہیں ہونا چاہیے۔‘
انہوں نے آئین میں ترمیم کے متعلق پارلیمان کے اختیار کو تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام اداروں کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے اور اپنے اپنے دائرے میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔
ان کا یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب سپریم کورٹ میں اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعےججوں کی بھرتی کا وضح کردہ نئےطریقہ کار کو چیلینج کیا گیا ہے اور دوران سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سمیت دیگر جج صاحبان کے جو تبصرے سامنے آچکے ہیں اور ان سے صورتحال کا بخوبی اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے۔
بعض مبصرین کہتے ہیں کہ میاں صاحب کے ایسے بیان سے بظاہر ایک تو حکومت کا اٹھارویں ترمیم کے دفاع میں اکیلے پن کا احساس ختم ہوگا اور انہیں ایک ٹھوس حمایت ملے گی اور دوسرا یہ کہ دیگر فریقین کو بھی واضح پیغام ملتا ہے کہ اگر پارلیمان کی حدود میں مداخلت ہوئی تو اُسے وہ برداشت نہیں کریں گے۔
لیکن کچھ مبصرین کہتے ہیں کہ احمدیوں سے ہمدردی ہو یا پھر اٹھارویں ترمیم کا دفاع میاں نواز شریف نے سوچ سمجھ کر بیانات دیے ہیں اور ان کے ایسے بیانات سے جو بظاہر ان کے خلاف مذہبی جماعتوں کا ایک نیا محاذ کھلا ہے وہ عارضی ہے اور ’لانگ ٹرم‘ میں ان کے لیے یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہوگا۔
http://www.thenews.com.pk/daily_detail.asp?id=244866