Obscurantism and undemocratic mindset – by Junaid Qaiser
قد ا مت پسند ی اور غیر جمہو ر ی اندا زِ فکر
قا ئدا عظم ، مذ ہب اور ر یا ست کے تعلق کے حوا لے سے کیا خیا لا ت ر کھتے تھے ، قر ۃ العین حید ر کی آ پ بیتی ’’کارجہا ں درا زہے ‘‘ سے یہ اقتبا س پیش خد مت ہے ۔ جس میں اُ نہو ں نے لکھا ہے ،کہ را جہ صاحب محمو د آ با د ’’ ایک جوشیلے مذہب پر ست اور اینٹی بر ٹش آ ئیڈ یلسٹ نو جوا ن تھے ۔اُ نہو ں نے تحر یک پا کستا ن میں بہت کا م کیا ۔ مگر پا کستا ن کی بجا ئے عرا ق جا کر آ باد ہو گئے ۔ قر ۃ العین حید ر نے اپنے آ با جا ن کے پرا نے دوست عبد الر حمن صد یقی سے در یا فت کیا ۔
’’ را جہ صا حب پا کستا ن میں کیو ں نہ ر ہے؟ ‘‘
’’ تقسیم سے چند ر و ز قبل نئی دہلی10 اور نگز یب رو ڈ کا وا قعہ ہے ۔ڈ نر کی میز پررا جہ صا حب نے
قا ئد اعظم سے دریا فت کیا ۔’’ پا کستا ن کا نظا م حکو مت کیا ہو گا ؟‘‘
قا ئد ا عظم نے پو چھا ’’ آ پ کے خیا ل میں کیا ہو نا چا ہیے۔؟؟‘‘
’’ اسلا م اور ملت کا سب سے دیندا ر ، متقی ، عا لم ، با عمل ، صا لح تر ین شخص ہمیشہ ملک کا سر برا ہ بنا یا جا ئے‘‘ را جہ صاحب نے جوا ب د یا ۔
’’ یہ تو شعبہ اما مت کا تصو ر ہے ۔‘‘ قا ئد نے تپا ئی پر پلیٹ ر کھتے ہو ئے کہا ۔
’’قطعی ‘‘ عبدا لر حمن صد یقی نے قا ئد کی تا ئید کی ۔
’’ اور اقبا ل کا مرد مو من ‘‘
’’ ہا ں قا ئدا عظم نے فر ما یا ’’ کیا تم بیسو یں صد ی میں قر و نِ وسطی کے حا لا ت کا تصو ر کر ر ہے ہو ۔؟‘‘ پا کستا ن میں سیکو لر جمہو ر یت ہو گی ۔
‘‘
قا ئد کے انتقا ل اور قرا ردا د مقا صد کی منظو ر ی کے بعد جب مذ ہب سر کا ر ی سر پر ستی میں چلا گیا ، اور حا کمو ں نے اپنے اقتدا ر کے استحکا م کے لئے فر قہ ورا نہ سیا ست پر یقین ر کھنے وا لے گر و ہو ں کو طا قتو ر کر نا شروع کیاتو اِ س کے نتیجے میں سب سے زیا دہ بے حر متی ، ’’ رینے سا نس‘‘ میں جنم لینے والے اُ ن تصو را ت اور اصطلا حا ت کی ہو ئی ، جن کی بنیا د ، جد ید فکر ، عوا می حقو ق اور انسا ن دوست نظر یا ت پرتھی۔یہی وجہ بنی کہ ہم آ ج سیکو لر از م ، لبر ل ازم اور جمہو ر یت جیسی اصطلا حا ت کی تحقیر سے مستقل فکر ی بحر ا ن میں ہیں۔ آ د ھی صد ی سے زا ئد کے سفر میں ہم نے اپنے اِ س خطے میں پیدا ہو نے وا لے رو شن خیا لی ، اخلا قی ، اور جمہو ر ی ور ثے کو گنوا دیا ہے ۔ جسے ہم انگر یز کا نظا م کہہ کر را ہ فرا ر اختیا ر کر تے ہیں ۔
یہ سو چے سمجھے بغیر کہ آج انگر یز کا تعلیمی، سیا سی ، سما جی ، معاشی اور ثقا فتی نظا م کس منز ل پر ہے ۔ اور ہم حقا ئق سے بھا گ کر کس اند ھیر ے را ستے میں بھٹک ر ہے ہیں ۔ جد ید مغر ب کی عما ر ت ہا رورڈیو نیو ر سٹی اورلائیبر یر ی آ ف کا نگر یس میں پڑ ی کر و ڑوں کتا بو ں پر ہے۔جبکہ ہم رٹی ر ٹا ئی چیز یں یا د کر کے عا لم فا ضل بننے کی کو شش کر ر ہے ہیں ۔ ہما رے ٹی وی چینلز پر اب بھی اُ نہیں موضوعا ت پر بحث و مبا حثے ہو ر ہے ہیں ۔جن سوا لا ت کو مغر ب 200 سا ل پہلے حل کر چکا ہے ۔ ہما رے مذ ہبی ر ہنما ما ضی کااحیا ء اور فکر نو کا سد با ب کر نے میں عمر یں ضا ئع کر چکے ہیں اور عوا م کنفیو ژ سے کنفیو ژ ہو تے جا ر ہے ہیں ۔
اِ س دنیا کو لا حا صل قر ا ر دے کر انسا نوں کا تعلق ، جب ایک ان دیکھی دنیا سے جو ڑ دیا گیا ہو ۔ تو اِ س دُ نیا کو بنا نے سنوا ر نے میں اُ ن کی دلچسپی ہو گی ؟ ہم انسا نو ں ، نئے نظا مو ں اور اُ ن سے جڑے جد ید تصو را ت کو سمجھنے سے قا صر معاشرے کی ایک جیتی جا گتی کہا نی ہیں ۔اِ س کہا نی میں عوا م کا کر دا ر اپنے حقو ق سے نا آشنا افرا د کا ہے ۔ اِ ن سو ئے ہو ئے افرا د کو جد ید معا شر وں میں اِ نسا نی حقو ق کی بجا ئے ، دو سری دنیا میں نجات کا خوا ب دکھا یا گیا ہے ۔ ہمیں ما ضی کی اتنی تعلیم دی گئی ہے کہ ہم حا ل کے تقا ضو ں سے با لکل لا علم ہو چکے ہیں ۔ اِ سی لئے ہما رے پا س مستقبل کا کو ئی لا ئحہ عمل نہیں ہے ۔ ر چر ڈ آ ر میٹج کو دھمکی دینے سے پہلے سمجھنا چا ہیے تھا۔ کہ ہمیں پتھر و ں کے عہد میں پہنچا نے کیلئے بمبا ر ی کی ضر و ر ت نہیں ؟ ہم ذ ہنی اعتبا ر سے آ ج بھی پتھر و ں کے عہد میں سا نس لیتے ہیں اور ہما ر ی رو حیں اور ذ ہن سب پتھر و ں کا ہے۔
یہا ں سر کا ر ی سر پر ستی میں مذ ہب کی دا ستا ن یہ ہے کہ اِ سے قدا مت پسند ی کو محفو ظ بنا نے ، جمہو ری حقوق سلب کر نے اور صو بو ں کی لسا نی ، علا قا ئی ، ثقا فتی شنا خت کو ختم کر نے کیلئے استعما ل کیا گیاہے۔مذ ہب کے نا م پر بنگا لیو ں کی زبا ن ، ادب اور صد یو ں پر پھیلی ہو ئی ثقا فت اور روا یتو ں کو جبراً بد لنے کی کو شش میں ملک دو لخت ہو گیا ۔ سیا ست جو سما ج کی عکا سی بھی کر تی ہے ۔’’ جیسا سما ج ویسی سیا ست ‘‘جب سما ج کی بنیا د یں ، فر سو د ہ ، جا گیر دا را نہ قبا ئلی اور عا لمی طو ر پر متر و ک ادارو ں پر رکھی گئی ہو ۔تو جمہو ر یت کا جنم لینا کٹھن ہو تا ہے ۔مز ید برا ں المیہ یہ بھی ہو کہ عا لمی سپر پا ور امر یکہ نے اپنے عا لمی ایجنڈ ے اور مفا دات کے حصو ل کیلئے پا کستا ن میں آ مر یت کونا گز یر قرار دے د یا ہو ۔
جمہو ر یت کے اِ س مستقل بحرا ن نے ز ند گی کے تما م شعبو ں اور ادارو ں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے ۔ اِ س بحرا ن کی بد صو ر تی ، خا ندا نی ز ند گی سے لے کر کھیل کی دنیا تک پھیلی ہو ئی ہے ۔ جہا ں د نیا بھر میں کر کٹ بو ر ڈ کے چئیر مین کا انتخا ب جمہو ر ی اندا ز میں کر کٹ کی علا قا ئی تنظیمو ں کے ذ ر یعے ہو تا ہے ۔و ہا ں پا کستا ن میں چیر مین کی تقر ر ی کے اختیارا ت صد ر کے پا س ہیں ۔ غیر جمہو ر ی اندا ز اور ایک فرد کی ذا ت میں اختیا را ت کے ارتکا ز سے ادارے کمز ور ہو تے ہیں ۔ اِ سی سے ہما رے ہا ں جمہو ر یت ، سیا ست اور کر کٹ کی نر سر یا ں بر با د ہو ر ہی ہیں ۔
تا ر یک یو ر پ میں مذ ہب اور ر یا ست کے رشتے سے عوا م کو جہا لت ، پسما ند گی ، غر بت ، استحصا ل ، ظلم و جبر اور ذ ہنی جمو د کے علا و ہ کچھ بھی تو نہیں ملا ۔ سر کا ر ی سر پر ستی میں مذ ہب کے نا م پر تا ر یک یو ر پ میں جس عقل دشمنی اور خرد سو ز ی پر مبنی جس رو یے نے فر و غ پا یا تھا ۔ اُس کا نتیجہ ذ ہنی افلا س ، علمی پسما ند گی اور عمو می جہا لت کی صو ر ت میں نکلا تھا ۔ پا کستا ن میں جمہو ر یت کے بحرا ن کی وجہ سے یہ رو یہ آ ج بھی یہا ں قائم ہے۔ہما رے غیر نما ئندہ حکمرا ن تصو را ت نو کے چر ا غ بجھاتے ، اور افکا ر نو کے را ستے میں ر کا و ٹیں کھڑ ی کر تے ر ہے ہیں ۔
ہما رے ادار ے عوا م کے جدید جمہو ر ی مسا ئل اور الجھنوں کو سلجھا نے وا لی بصیرتوں سے عا ر ی ر ہے ہیں۔ یہا ں روا یا ت ، مسلما ت ،بز ر گو ں کے اقوا ل ز ر یں کے نا م سے جد ید یت کو رو کنے کی ایک منظم سا ز ش نظر آ تی ہے ۔ جس سے یہ سر ز مین ، قدا مت پسند ی ،روا یا ت اور تقلید پر ستی کیلئے زرخیزسے زر خیز ہو تی ر ہی ہے ۔ اِ س فکر ی بحر ا ن کی بنیا د پر جو بے لچک سا ئیکی پیدا ہو ئی ہے ۔اُ س کی وجہ سے ہم بہت سے عقائد ، رسوما ت ، روا یا ت اور بز ر گو ں کے اقوا ل زر یں اور قوا نین کو غلط ثا بت ہو نے پر متر و ک قرار نہیں د یتے ، حد و د آرڈینینس ، امتیا ز ی قوا نین اور جا گیر دا ر ا نہ قبا ئلی رسو ما ت کو ختم نہ کر نے کے پیچھے بھی یہی سو چ کا ر فر ما ہے ۔
پا کستا ن میں جنر ل ضیا الحق کی 11 سا لہ آ مر یت نے نہ صر ف رو شن خیا لی کی شمع کو بجھا یا بلکہ فکر ی رو یو ں میں عدم استحکا م پیدا کیا ۔ سا ئنس اور فلسفے کے عد م فر و غ ، آ ز ا د ی تحر یر و تقر یر پر قد غنوں کے ساتھ ساتھ ، مذہبی تنگ نظر ی ، فکر ی کو تاہ بینی ، عقا ئد میں جبر یت اور را سخ العقید گی کے فر و غ سے ایک جا مد اور بنجر معا شر ہ وجو د میں آ یا ۔ ر یا ست میں عوا م کے بنیاد ی مسا ئل ، بھو ک ، غر بت ، نا دا ر ی ، بے کا ر ی کا خا تمہ ، ، احساس تحفظ اور عز ت نفس ہو تا ہے ۔ جب یا تقا ضے پو ر ے ہو جائیں ۔ تو انسا ن ’’ شہر ی ‘‘ کہلا تا ہے ۔ جبکہ ہما رے غیر نما ئند ہ حکمرا نو ں نے ٹی۔ وی پر عر یا نی ، فحا شی ، نیو ا ئیر نا ئیٹ تقریبات جیسے مو ضو عا ت اہم بنا د یئے ۔ جس طر ح سطحی قسم کی مصنو عی مذ ہبیت ما ضی میں عوا م کے دکھو ں کا مدا و ا نہ کر سکی ۔ ٹھیک اِ سی طر ح رو شن خیا لی اور اعتدا ل پسند ی کی مصنو عی مہم عوا م کی ز ند گی میں بہتر ی کی کو ئی نو ید نہ لا سکی۔
اگست 17، جنر ل ضیا الحق کی بر سی جو دبے پا ؤ ں گز ر گئی ہے ۔ ہما رے غیر نما ئند ہ حکمرا نو ں کیلئے لمحۂ فکریہ ہو نی چا ہیے ۔ اِ س د ن ٹی وی چینلز ، اور اخبا را ت میں جنر ل ضیا الحق اور جنر ل پر و یز مشر ف کے در میا ن مما ثلت اور فر ق کی گفتگو بھی سا منے آ ئی ، بہت سی مما ثلت اور طر یقہ کا ر کے ساتھ ساتھ ہما رے نز د یک ایک نما یا ں فر ق یہ بھی ہے ۔کہ جنر ل ضیاالحق نے مذ ہب کی ایک خا ص تشر یح کوسیا سی مقا صد کیلئے استعما ل کیا اور پا کستا ن کی بڑ ی مذ ہبی سیا سی جما عتیں اُ ن کے ساتھ ہو گئیں ۔اُ س کے بر عکس جنر ل پر و یز مشر ف نے روشن خیا لی اور اعتدا ل پسند ی کا نعر ہ بلند کیا مگر اب پا کستا ن کی سو ل سو سا ئٹی کی نما ئند ہ تنظیمیں اور روشن خیا ل ، اعتدا ل پسند سیا سی جما عتیں اُ ن کے سا تھ نہیں ہیں۔عوا م ، جمہو ر یت ، خر د افروزی ، انسا ن دوستی اور عوا می نظر یا ت کیلئے قر با نیا ں دینے وا لو ں کو تو یا د ر کھتے ہیں ۔ مگر غیر نما ئند ہ حکمرا نو ں کی قبر یں ہمیشہ عوا م کی منتظر ر ہتی ہیں ۔لو گو ں کو گلیلیواور کوپر نیکس کے نا م تو یا د رہتے ہیں مگر اُ س ز ما نے کے پو پ کے نا م اُ ن کی یا د اشتو ں میں اپنی جگہ نہیں بنا پا ئے۔
غیر جمہو ر ی معا شر و ں میں سر کا ر ی سر پر ستی میں مذ ہبی ادارو ں کے ذ ر یعے مخصو ص سو چ کے پر وا ن چڑ ھنے سے ہر و ہ غیر منطقی استد لا ل روا ج پا جا تا ہے ۔ جس سے غیر نما ئند ہ حکمرا نو ں کی اقتدا ر کی کر سی استحکا م حا صل کر تی ہے ۔ عمو می زبان بند ی ، سنسر شپ اور قدغنو ں کے ذر یعے سے بلوا سطہ یا بلا وا سطہ طو ر پر جی حضو ر ی کی فضا ء بنا ئے ر کھی جا تی ہے ۔ اِ س مخصو ص فضاء میں جمہور یت کی جو شکل بگا ڑ ی گئی ہے ۔ جس میں جمہو ر یت ، کم عقلو ں کی حکو مت ، ووٹ فر و شی ، نا اہل کرپٹ نما ئند ے ، بے ایما نی ، کر پشن ، سیا سی مفا دا ت اور ما ل دو لت بنا نے کی تصو یر نظر آ تی ہے ۔
در حقیقت جمہو ر یت ، لبرل از م اور سیکو لر ازم کے ساتھ ایک عوا می طرز حکمرا نی اور روا دا ری پر مبنی رو یے کا نا م ہے ۔ جمہو ر یت میں کسی کو قو ت کے بل پر اقتدا ر پر قا بض ہو کر خو د کو اعلیٰ ، افضل اور اکمل سمجھنے کی رو ایت نہیں ہو تی ۔ بلکہ یہ عا م آ د می کی حکو مت ہو تی ہے ۔جس میں عوا م کا کو ئی بھی نما ئند ہ سر برا ہِ حکو مت بن سکتا ہے ۔ اُ س کی ’’ ڈ گر ی ‘‘ بی اے کی بجا ئے عوا می قبو لیت ہو تی ہے ۔ عوا م ہی حکو مت کو بنا نے اور ختم کر نے کے مجا ز تصو ر کیے جا تے ہیں ۔ مگر ہما رے ہا ں عوا م کو کم عقل ، نا سمجھ ، غلا م اور بکا ؤ ما ل سے زیادہ حیثیت نہیں ملتی ۔ جمہو ر یت عوا م کو حکو مت بنا نے، نما ئند و ں کے ذر یعے اپنی پسند اور ضر و ر یا ت کے مطا بق پا لیسیا ں بنا نے کا اختیا ر دیتی ہیں ۔لبر ل از م ، انفر ا د ی آ ز ا د ی کے ساتھ سما جی ذ مہ دا ر ی ، نما ئند ہ ادارو ں کی با لا دستی ، عد لیہ کی آ ز ا د ی ، محد و د حکو مت ، قا نو ن کی حکمرا نی ، آ ز ا دا نہ تجا ر ت کے ساتھ نجی ملکیت کے تحفظ کو یقینی بنا تی ہے ۔ سیکو لر از م ، ر یا ست کو مذ ہب کے معا ملے میں غیر جا نبدا ر ر کھتے ہو ئے عوا م کے در میا ن تعصب اور امتیا زا ت کو ختم کر تا ہے ۔ اِ س نظا م میں انسا نو ں کو بلا امتیا ز رنگ و نسل ، عقید ہ و مذ ہب احترا م ملتا ہے ۔ اِ س میں کسی بھی عقید ے اور نسل سے تعلق ر کھنے وا لا شخص سر برا ہ حکو مت اور سر برا ہ مملکت بن سکتا ہے ۔
خر د دشمنی اور عقل کی تکذ یب سے جو غیر جمہو ر ی سو چ ، بنیا د پر ستی اور مذ ہبی شد ت پسند ی پیدا ہو ئی ہے ۔ اُ س نے ہما ری سیا سی ز ند گی ، جمہو ر یت اور اقلیتو ں کے حقو ق اورپا کستا نی معا شر ے میں اُ ن کی حیثیت کیلئے لا تعدا د مسا ئل اور چیلنجز پیدا کر د یئے ہیں ۔ ہما ری سو ل سو سا ئٹی اور سیا سی جما عتو ں پر آ ج یہ ذ مہ دا ر ی عا ئد ہو تی ہے کہ وہ عوا م کو عصر ی تقاضوی ، جد ید اصطلا حا ت اور اُ ن کے نتیجے میں آ نے وا لی سما جی تبدیلیو ں اور پھر اِ ن تبد یلیو ں کے افرا د پرعمر ا نی اور نفسیا تی اثرا ت کا شعو ر جد ید تنا ظر میں دے ۔
Excerpted from "(2007, October)پاکستانی اقلیتوں کا نو حہ, جنید قیصر"
پا کستا ن کی آ نکھو ں کے آ نسو ہما ر ے آ نسو ہیں اور اُ س کے ہو نٹو ں کی مسکر ا ہٹ ہما ر ی مسکر ا ہٹ ہے۔اِ س کے د کھ سکھ اِ س کا زوا ل و کما ل بد حا لی اور خو شحا لی کے مٹی گا ر ے ہی سے ہم سب کی ز ند گی گو ند ھی جا تی ہے۔
پیٹر جیکب نے بشپ جا ن جو ز ف کی بر سی پر لکھے جا نے وا لے اپنے ایک مضمو ن میں میر ی غز ل کے یہ شیر شا مل کئے تھے ۔
آسما ں آ سما ں بھٹکتا ہو ں
میں ز میں کا سو تیلا بیٹا ہو ں
خو ں میں بھیگی ہو ئی فصیلو ں پر
جو نہ لکھا گیا وہ نو حہ ہو ں
شا ید ہم سب جنید قیصر کے ساتھ مل کر و ہی نو حہ لکھ ر ہے جو ابھی تک خو ن میں بھیگی ہو ئی د یوا رو ں پر نہیں لکھا گیا ۔ اور شا ید ہم سب ابھی اپنی سر ز مین پر سو تیلے بیٹے کی طر ح ہیں ۔ ؟مگر ہم جا نتے ہیں کہ یہ ہی وہ مٹی ہے جو ہما ر ے جسم میں ستا ر ے کی طرح چمکتی اور خو شبو کی طر ح دمکتی ہے ۔ اِ سی مٹی میں بسنے وا لی رو ح ’’ پا کستا ن کی رو ح ‘‘ہے ۔ ہمیں اِ س رو ح کو ر نگ و نسل ز با ن و عقید ہ کی دیوا رو ں سے بلند کر کے رو ح عصر بنا نا ہو گا ۔ تا کہ ہما رے نو حے طر بیہ نغمو ں میں بد ل سکیں۔؟؟
جنید قیصر ایک حسا س نو جوا ن دا نشو ر ہے ۔ جس نے تا ر یخ کے صفحا ت میں اقلیتو ں کا نو حہ لکھ کر اپنا احتجا ج رجسٹر کیا ہے ۔ حسن نثا ر نے سچ کہا تھا ’’ جنید قیصر جیسے اہل قلم اپنی تا ر یخ کے سا منے کبھی شر مند ہ نہیں ہو تے ۔‘‘جنید قیصر اپنے اردگر د پھیلی ہو ئی زند گی سے بھی با خبر ہے اور بین الا قوا می منظر نا مے پر بھی گہر ی نظر ر کھتا ہے ۔ اِ س کے کا لم اور مضا مین میں تحقیق اور تشو یش کا اضطر ا ب بھی مو جذ ن ہے اور جلتے سلگتے مسا ئل کی حسیا تی لہر بھی ۔
جنید قیصر کی کتا ب پا کستا نی اقلیتو ں کا نو حہ ایک تا ریخی اور ز ند ہ دستا و یز کی حیثیت ر کھتی ہے ۔ یہ چھو ٹی سی کتا ب پڑ ھنے وا لے کا مُنہ تو کڑو ا کر د ے گی مگر اِ س کی تحر یر کے پگھلتے ہو ئے لفظ پڑ ھنے وا لے کا د ما غ ضرو ررو شن ہو گا۔
یسو ع نے کہا تھا ۔
چر ا غ جلا کر پیما نے کے نیچے نہیں ر کھتے
بلکہ چرا غ دا ن پر ر کھتے ہیں
جس سے گھر کے تما م لو گو ں تک رو شنی پہنچتی ہے ۔
جنید قیصر نے چر ا غ جلا کر چر ا غ دا ن پر ر کھ د یا ہے ۔
نذ یر قیصر ؔ