Our intelligence agencies are patriot and can’t be involved in Baloch leaders’ killings – by Wusatullah Khan
! نا بابا نا
غلام محمد بلوچ ، شیر محمد بگتی اور لالہ منیر کو بلوچستان میں متحرک طالبان یا القاعدہ نے مارا ہے۔کیونکہ قوم
پرستی کی لہر عام بلوچوں میں امریکہ کے خلاف جذبہ جہاد پیدا کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔یہ کسی محبِ وطن انٹیلیجنس ایجنسی یا ادارے کا کام نہیں ہوسکتا۔
یا پھر ان تینوں قوم پرستوں کو انہی کے حریف بلوچ قوم پرستوں نے مارا ہے ۔یہ کسی محبِ وطن انٹیلیجنس ایجنسی یا ادارے کا کام نہیں ہوسکتا۔
یا پھر یہ تینوں قبائیلی دشمنی کا نشانہ بنے ہیں۔یہ کسی محبِ وطن انٹیلیجنس ایجنسی یا ادارے کا کام نہیں ہوسکتا۔
یا پھر انہیں را نے مارا ہے ۔تاکہ پاکستانی ریاست کے خلاف نفرت میں مزید اضافہ ہوجائے۔ یہ کسی محبِ وطن انٹیلیجنس ایجنسی یا ادارے کا کام نہیں ہوسکتا۔
یا پھر انہیں ایران نے مروایا ہے تاکہ سرحد پار سے ہونے والی جنداللہ کارروائیوں کا انتقام لیا جاسکے۔ یہ کسی محبِ وطن انٹیلیجنس ایجنسی یا ادارے کا کام نہیں ہوسکتا۔
یا پھر انہیں افغانستان نے مروایا ہے۔جو پاکستان کو کبھی بھی پرامن نہیں دیکھ سکتا۔ یہ کسی محبِ وطن انٹیلیجنس ایجنسی یا ادارے کا کام نہیں ہوسکتا۔
یا پھر یہ جان سولیکی کے اغوا کا بدلہ لینے کی کارروائی ہوسکتی ہے۔ سی آئی اے نے اس کے لیے جان سولیکی کے رہا ہونے تک انتظار کیا۔ یہ کسی محبِ وطن انٹیلیجنس ایجنسی یا ادارے کا کام نہیں ہوسکتا۔
یا پھر غلام محمد بلوچ ، شیر محمد بگتی اور لالہ منیر نے خود کو کوئٹہ میں کچکول علی ایڈوکیٹ کے دفتر سے اغوا کرنے کا ڈرامہ رچا کر مکران میں خودکشی کرلی۔تاکہ پاکستانی اداروں کو بدنام کیا جا سکے۔ یہ کسی محبِ وطن انٹیلیجنس ایجنسی یا ادارےکا کام نہیں ہوسکتا۔
یا پھر ان تینوں قوم پرستوں کو انہی کے حریف بلوچ قوم پرستوں نے مارا ہے ۔یہ کسی محبِ وطن انٹیلیجنس ایجنسی یا ادارے کا کام نہیں ہوسکتا۔
یا پھر یہ تینوں قبائیلی دشمنی کا نشانہ بنے ہیں۔یہ کسی محبِ وطن انٹیلیجنس ایجنسی یا ادارے کا کام نہیں ہوسکتا۔
یا پھر انہیں را نے مارا ہے ۔تاکہ پاکستانی ریاست کے خلاف نفرت میں مزید اضافہ ہوجائے۔ یہ کسی محبِ وطن انٹیلیجنس ایجنسی یا ادارے کا کام نہیں ہوسکتا۔
یا پھر انہیں ایران نے مروایا ہے تاکہ سرحد پار سے ہونے والی جنداللہ کارروائیوں کا انتقام لیا جاسکے۔ یہ کسی محبِ وطن انٹیلیجنس ایجنسی یا ادارے کا کام نہیں ہوسکتا۔
یا پھر انہیں افغانستان نے مروایا ہے۔جو پاکستان کو کبھی بھی پرامن نہیں دیکھ سکتا۔ یہ کسی محبِ وطن انٹیلیجنس ایجنسی یا ادارے کا کام نہیں ہوسکتا۔
یا پھر یہ جان سولیکی کے اغوا کا بدلہ لینے کی کارروائی ہوسکتی ہے۔ سی آئی اے نے اس کے لیے جان سولیکی کے رہا ہونے تک انتظار کیا۔ یہ کسی محبِ وطن انٹیلیجنس ایجنسی یا ادارے کا کام نہیں ہوسکتا۔
یا پھر غلام محمد بلوچ ، شیر محمد بگتی اور لالہ منیر نے خود کو کوئٹہ میں کچکول علی ایڈوکیٹ کے دفتر سے اغوا کرنے کا ڈرامہ رچا کر مکران میں خودکشی کرلی۔تاکہ پاکستانی اداروں کو بدنام کیا جا سکے۔ یہ کسی محبِ وطن انٹیلیجنس ایجنسی یا ادارےکا کام نہیں ہوسکتا۔
!بلوچوں کو سمجھاؤ
چلیے مان لیا کہ بلوچستان میں جو بھی بدامنی ہے اس کے پیچھے بھارت کا اسلحہ، تربیت اور پیسہ ہے تا کہ کشمیر کا سکور برابر
کیا جاسکے اور پاکستان کو مشرق اور مغرب سے گھیرا جا سکے۔ اور یہ کہ اس منصوبے کو امریکہ اور بعض امریکہ نواز خلیجی ممالک کی بھی خاموش تائید حاصل ہے۔
اگر یہ بات پچاس فیصد بھی درست ہے تو بھی بڑی خطرناک بات ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے کچھ فوری اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
یوں کریں کہ بلوچستان میں پچھلے آٹھ برس میں جتنے بھی زن و مرد غائب ہوئے ہیں انہیں تلاش کر کے کھلی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے تاکہ سولہ کروڑ پاکستانیوں کی یہ دیکھ کر آنکھیں کھل جائیں کہ کیسے کیسے لوگ غیرملکی ایجنٹ بنے ہوئے تھے۔ اس سے ان عناصر کا منہ بھی بند ہوجائے گا جو آنکھ بند کر کے کہہ دیتے ہیں کہ لوگوں کو سرکاری ایجنسیاں غائب کررہی ہیں تاکہ بلوچستان کے وسائل پر قبضے کی مخالف آوازوں کو خاموش کیا جاسکے۔
اس سے پہلے کے غلام محمد بلوچ ، شیرمحمد بلوچ اور لالہ منیر کی لاشوں کو تربت کے ویرانوں میں پھینکنے والے پاکستان دشمن سرحد پار افغانستان یا بھارت فرار ہوجائیں انہیں پکڑنے کے لیے پوری طاقت لگا دی جائے تاکہ آئندہ ایسے کام کرنے والے غیرملکی ایجنٹ دس بار سوچیں۔
اگر یہ بات پچاس فیصد بھی درست ہے تو بھی بڑی خطرناک بات ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے کچھ فوری اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
یوں کریں کہ بلوچستان میں پچھلے آٹھ برس میں جتنے بھی زن و مرد غائب ہوئے ہیں انہیں تلاش کر کے کھلی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے تاکہ سولہ کروڑ پاکستانیوں کی یہ دیکھ کر آنکھیں کھل جائیں کہ کیسے کیسے لوگ غیرملکی ایجنٹ بنے ہوئے تھے۔ اس سے ان عناصر کا منہ بھی بند ہوجائے گا جو آنکھ بند کر کے کہہ دیتے ہیں کہ لوگوں کو سرکاری ایجنسیاں غائب کررہی ہیں تاکہ بلوچستان کے وسائل پر قبضے کی مخالف آوازوں کو خاموش کیا جاسکے۔
اس سے پہلے کے غلام محمد بلوچ ، شیرمحمد بلوچ اور لالہ منیر کی لاشوں کو تربت کے ویرانوں میں پھینکنے والے پاکستان دشمن سرحد پار افغانستان یا بھارت فرار ہوجائیں انہیں پکڑنے کے لیے پوری طاقت لگا دی جائے تاکہ آئندہ ایسے کام کرنے والے غیرملکی ایجنٹ دس بار سوچیں۔
چونکہ بلوچستان کے وزیرِ اعلی اسلم رئیسانی اور وفاقی وزیر میر اسرار اللہ زہری نے بلوچستان میں غیرملکی اشاروں پر امن تباہ کرنے والوں سے اظہارِ یکجہتی کیا ہے اس لیے انہیں فوری طور پر برطرف کرکے محبِ وطن بلوچستانیوں کے دل جیتے جائیں۔ اسی طرح بلوچستان کے قوم پرست رہنماؤں اختر مینگل ، حاصل بلوچ اور سپریم کورٹ بار کونسل کے صدر علی احمد کرد پر بغاوت کا مقدمہ چلایا جائے کیونکہ ان تینوں نے قوم پرست رہنماؤں کے قتل کا الزام بلاتحقیق سرکاری ایجنسیوں پر عائد کیا ہے۔اور یوں یہ رہنما غیرملکی طاقتوں کے ہاتھوں میں کھیلے ہیں۔
وقت آگیا ہے کہ بلوچستان کی نئی نسل کو شرپسندوں کی برین واشنگ سے بچانے کے لیے تعلیمی نصاب اور سرکاری ذرائع ابلاغ کا بھرپور تعمیری استعمال کیا جائے۔ اس نسل پر یہ حقیقت واضح کی جائے کہ بلوچستان جو پاکستان بننے سے پہلے ریاست قلات تھی، اسے زبردستی فیڈریشن میں شامل ہونے پر مجبور نہیں کیا گیا تھا بلکہ سچ تو یہ ہے کہ خان آف قلات نے پاکستان میں شمولیت کے لیے روتے ہوئے گڑگڑا کر یہ کہتے ہوئے درخواست کی تھی کہ حضور اگر قلات پاکستان میں شامل نہیں ہوا تو ہم بلوچ کہیں کے نہیں رہیں گے۔
یہ حقیقت بھی نصاب کا حصہ بنائی جائے کہ ایوب خان نے باغی نواب نوروز خان اور ان کے ساتھیوں کو قران پر وعدہ کرنے کے باوجود پھانسی نہیں دی تھی بلکہ نواب نوروز خان اپنی بغاوت پر اتنے پشیمان تھے کہ انہوں نے مارے غیرت کے خود ہی اپنے گلے میں پھندا ڈال لیا۔
وقت آگیا ہے کہ بلوچستان کی نئی نسل کو شرپسندوں کی برین واشنگ سے بچانے کے لیے تعلیمی نصاب اور سرکاری ذرائع ابلاغ کا بھرپور تعمیری استعمال کیا جائے۔ اس نسل پر یہ حقیقت واضح کی جائے کہ بلوچستان جو پاکستان بننے سے پہلے ریاست قلات تھی، اسے زبردستی فیڈریشن میں شامل ہونے پر مجبور نہیں کیا گیا تھا بلکہ سچ تو یہ ہے کہ خان آف قلات نے پاکستان میں شمولیت کے لیے روتے ہوئے گڑگڑا کر یہ کہتے ہوئے درخواست کی تھی کہ حضور اگر قلات پاکستان میں شامل نہیں ہوا تو ہم بلوچ کہیں کے نہیں رہیں گے۔
یہ حقیقت بھی نصاب کا حصہ بنائی جائے کہ ایوب خان نے باغی نواب نوروز خان اور ان کے ساتھیوں کو قران پر وعدہ کرنے کے باوجود پھانسی نہیں دی تھی بلکہ نواب نوروز خان اپنی بغاوت پر اتنے پشیمان تھے کہ انہوں نے مارے غیرت کے خود ہی اپنے گلے میں پھندا ڈال لیا۔
اور یہ بھی کہ وفاقی حکومت نے ماضی کی بے وفائیوں کو معاف کرتے ہوئے جب سن ستر کی دہائی میں بلوچ قوم پرستوں کو صوبے میں حکومت بنانے کا موقع دیا تو انہوں نے سوویت یونین اور بھارت سے مل کر علیحدگی کی سازش شروع کردی۔ لہذٰا بھٹو حکومت کو مجبوراً اس غداری کے خلاف پاکستان کے مفاد میں مسلح ایکشن لینا پڑ گیا اور عطا اللہ مینگل اور نواب خیر بخش مری جیسے عناصر کو سزا دینی پڑی۔
نئی نسل کو اس پروپیگنڈے سے بھی بچایا جائے کہ نواب اکبر بگٹی کو مشرف حکومت نے مارا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مشرف حکومت نواب صاحب کو عزت و احترام سے ڈیرہ بگٹی لانا چاہتی تھی۔لیکن یہ نواب بگٹی تھے جنہوں نے خود پر پہاڑ گرا لیا۔تاکہ وہ مرتے مرتے بھی وفاق کے خلاف بغاوت کا الاؤ روشن کر جائیں۔
اگرچہ بلوچستان کے عوام کی اکثریت ہمیشہ سے مٹھی بھر شرپسندوں کے خلاف رہی ہے۔ لیکن وقت آگیا ہے کہ اب اس سوال پر صوبے میں ریفرینڈم کروایا جائے کہ کیا آپ بلوچستان کے لیے اب تک کیے گئے ترقی و فلاح و بہبود کے اقدامات سے خوش ہیں؟؟؟ امید ہے کہ اس ریفرینڈم کے نتائج سے شرپسندوں کا رہا سہا اخلاقی دیوالیہ بھی نکل جائے گا۔
اس سوال پر بھی تحقیق ہونی چاہیے کہ ایسا کیوں ہوا کہ مشرقی پاکستان کے ننانوے فیصد وفاق پرست عوام پر ایک فیصد پاکستان دشمن غالب آگئے حالانکہ پاکستان کی ہر حکومت نے مشرقی پاکستان کی ترقی اور فلاح و بہبود میں کبھی غفلت نہیں برتی۔
اس تحقیق کے نتائج کی روشنی میں وفاقی حکومت بلوچستان میں بھارتی اور امریکی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکے گی۔ دیکھیے جلدی سے ان تجاویز پر عمل کرلیجئے کہیں یہ نہ ہو کہ
نئی نسل کو اس پروپیگنڈے سے بھی بچایا جائے کہ نواب اکبر بگٹی کو مشرف حکومت نے مارا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مشرف حکومت نواب صاحب کو عزت و احترام سے ڈیرہ بگٹی لانا چاہتی تھی۔لیکن یہ نواب بگٹی تھے جنہوں نے خود پر پہاڑ گرا لیا۔تاکہ وہ مرتے مرتے بھی وفاق کے خلاف بغاوت کا الاؤ روشن کر جائیں۔
اگرچہ بلوچستان کے عوام کی اکثریت ہمیشہ سے مٹھی بھر شرپسندوں کے خلاف رہی ہے۔ لیکن وقت آگیا ہے کہ اب اس سوال پر صوبے میں ریفرینڈم کروایا جائے کہ کیا آپ بلوچستان کے لیے اب تک کیے گئے ترقی و فلاح و بہبود کے اقدامات سے خوش ہیں؟؟؟ امید ہے کہ اس ریفرینڈم کے نتائج سے شرپسندوں کا رہا سہا اخلاقی دیوالیہ بھی نکل جائے گا۔
اس سوال پر بھی تحقیق ہونی چاہیے کہ ایسا کیوں ہوا کہ مشرقی پاکستان کے ننانوے فیصد وفاق پرست عوام پر ایک فیصد پاکستان دشمن غالب آگئے حالانکہ پاکستان کی ہر حکومت نے مشرقی پاکستان کی ترقی اور فلاح و بہبود میں کبھی غفلت نہیں برتی۔
اس تحقیق کے نتائج کی روشنی میں وفاقی حکومت بلوچستان میں بھارتی اور امریکی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکے گی۔ دیکھیے جلدی سے ان تجاویز پر عمل کرلیجئے کہیں یہ نہ ہو کہ
مہلت تھی جب تو دل کو تھا بے کاریوں سے شغلاب کام یاد آئے تو ، مہلت نہیں رہی
Comments
Tags: Baloch Nationalism, Balochistan, ISI, Wusatullah Khan