Insaf – Zehra Nigah

انصاف

(اُس اندھی لڑکی کے نام جسے حدود میں سزا سنائ گئ تھی)

مَیں اِس چھوٹے سے کمرے میں
آزاد بھی ہوں، اور قید بھی ہوں
اِس کمرے میں اک کھڑکی ہے
جو چھت کے برابر اونچی ہے
جب سورج ڈوبنے لگتاہے
کمرے کی چھت سے گزرتا ہے
مٹٌھی بھر کرنوں کے زرٌے
کھڑکی سے اندر آتے ہیں
میں اس رستے پر چلتی ہوں
اوراپنے گھرہوآتی ہوں

مِرا باپ ابھی تک میرے لیے
جب شھر سے واپس آتا ہے
چادر، کنگھی، کاجل، چُوڑی
جانے کیا کیا لے آتا ہے

میرے دونوں بھائ اب بھی
مسجد میں پڑھنے جاتے ہیں
احکام خُداوندی سارے
پڑھتے هیں اور دُهراتے هیں
آپا مِرے حصٌے کی روٹی
چنگیر میں ڈھک کر رکھتی ہے
اور صبح سویرے اُٹھ کر وه
روٹی چڑیوں کو دیتی ہے
ماں میری کچھ پاگل سی ہے
یا پتٌھر چُنتی رہتی ہے
یا دانه چگُتی چڑیوں سے
کچھ باتیں کرتی رہتی ہے

وه کہتی ہے جب یه چڑیاں
سب اس کی باتیں سمجھ لیں گی
چونچوں میں پتھر بھر لیں گی
پنجوں میں سنگ سمولیں گی

پھر وه طوفاں آجاٴے گا
جس سے ھر منبر، ھر منصف
پاره پاره ہو جاےٴ گا
میرا انصاف کرے گا وه
جو سب کا حاکم اعلٰی ہے
سب جس کی نظر میں یکساں ہیں
جو مُنصف عزٌت والا ہے

میں ماں کو کیسے سمجھاوٴں
کیا میں کوئ خانهٴ کعبه ہوں؟

Translation By Junaid Zuberi

Imprisoned,
I am also free
in this little room;
the sun moves across
a window in the ceiling
before it sets;
rays of light,
sparingly enter;
on the path they make,
I walk home;
my father, even now,
returning
from the city,
brings along for me,
a shawl, a comb, bangles and kohl,
and so much more;
both my brothers,
study in the mosque,
as they did;
God’s edicts
they read, memorise;
my sister puts away in a basket,
my share of bread;
feeds it to the sparrows
at dawn;
my mother is kind of crazy,
gathering stones
or talking to sparrows
as they pick the grain;
she says:
when the sparrows will fathom the truth,
in their beaks and claws
they would clutch the stones;
then would rage a storm
to ravage law-givers,
tear down the pulpits;
justice He would deliver Himself,
the Supreme Lord,
the same for one and all,
the revered, the exalted.

How should I tell my mother,
am I the Kaaba,
the House of the Lord?

Courtesy : Junaid Zuberi FB Notes

Comments

comments

Latest Comments