سندھی زبان لازمی کیوں نہیں؟ ریاض سہیل
Source BBC Urdu
سندھ ہائی کورٹ نے صوبائی حکومت سے معلوم کیا ہے کہ اڑتیس سال گذرنے کے باوجود سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں سندھی زبان لازمی قرار دینے کے قانون پر عمل کیوں نہیں ہوسکا ہے۔
عدالت نے یہ حکم اقبال کاظمی نامی شہری کی درخواست پر دیا ہے۔ درخواست میں بتایا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل دو سو اکیاون کے تحت پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور اس کے ساتھ صوبے علاقائی زبان بھی اختیار کرسکتے ہیں۔
درخواست گذار کے مطابق سن انیس بہتر میں سندھ اسمبلی نے سندھی زبان کو لازمی قرار دینے کے لیے قانون پاس کیا تھا جس پر گورنر نے دستخط کیئے اور سندھی زبان ایکٹ انیس سو بہتر ٹو عمل میں لایا گیا مگر اس پر عمل نہیں ہوسکا ہے۔
سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس مشیر عالم اور جسٹس طفیل ایچ ابراہیم پر مشتمل ڈویژن بینچ کے روبرو بدھ کو اس درخواست کی سماعت ہوئی۔ درخواست گزار اقبال کاظمی نے عدالت کو بتایا کہ ایکٹ کے تحت سندھ میں سندھی زبان کو تمام سرکاری و نجی اداروں میں نافذ کرنا اور ملازمت کے لیے سندھی زبان کا سمجھنا اور لکھنا ضروری ہے تاہم اس پر عمل نہیں کیا جارہا جس پر عمل درآمد کے احکامات جاری کیئے جائیں۔
“سندھی زبان ایکٹ کے شیڈول پانچ کے مطابق قواعد و ضوابط بنانے تھے اور سندھی زبان کو چوتھی جماعت سے بارہویں جماعت تک لازمی قرار دینا تھا۔میں نے سیکرٹری تعلیم سے معلوم کرنا ہے کہ اس قانون پر عملدرآمد ہوا ہے یا نہیں اور چیف سیکریٹری پالیسی ساز ہیں ان کی بھی رائے لینی ہے اس لیے وقت طلب کیا ہے”
میراں محمد شاہ
عدالت نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ میراں محمد شاھ سے دریافت کیا کہ سندھی زبان ایکٹ پر عمل کیوں نہیں ہوسکا ہے، جس پر انہوں نے جواب دائر کرنے کے لیے وقت طلب کیا۔ عدالت نے انہیں چار ہفتوں کا وقت فراہم کیا اور سماعت ملتوی کردی۔
میراں محمد شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ سندھی زبان ایکٹ کے شیڈول پانچ کے مطابق قواعد و ضوابط بنانے تھے اور سندھی زبان کو چوتھی جماعت سے بارہویں جماعت تک لازمی قرار دینا تھا۔ ان کے مطابق انہوں نے سیکرٹری تعلیم سے معلوم کرنا ہے کہ اس قانون پر عملدرآمد ہوا ہے یا نہیں اور چیف سیکریٹری پالیسی ساز ہیں ان کی بھی رائے لینی ہے اس لیے انہوں نے وقت طلب کیا ہے۔
انیس سو بہتر میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں جب ان کے کزن ممتاز بھٹو سندھ کے وزیر اعلیٰ تھے تو سندھی زبان کو صوبے کی سرکاری زبان بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ جس پر ایک اردو اخبار میں ’اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے‘ کے عنوان سے اداریہ لکھا گیا تھا جس کے بعد کراچی میں لسانی فسادات پھوٹ پڑے تھے اور کئی لوگ جان گنوا بیٹھے۔
سیاسی تجزیہ نگار جی این مغل کے مطابق اس صورتحال کے بعد وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اردو اور سندھی دانشوروں کو اسلام آباد طلب کیا تھا۔
سندھی وفد کی قیادت شیخ ایاز اور قاضی فیض محمد کر رہے تھے جبکہ اردو ادیب رئیس امروہی کی قیادت میں آئے تھے جن سے مذاکرات کے بعد سندھ اسمبلی سے ترمیمی قانون پاس کیا گیا جس کو سندھی زبان ایکٹ ٹو کہا جاتا ہے۔
جی این مغل کا کہنا ہے کہ مذاکرات میں یہ طے ہوا تھا کہ اردو زبان کو نہیں چھیڑا جائے گا۔ اردو کے ساتھ سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں سندھی زبان بھی لازمی مضمون کے طور پر پڑھائی جائے گی اور صوبے کی سرکاری زبان سندھی ہوگی۔ مگر بھٹو کی حکومت جانے کے بعد اس پر عمل درآمد رک گیا۔
سندھ میں قوم پرستوں کا یہ بھی ایک دیرینہ مطالبہ رہا ہے کہ سندھی کو سرکاری زبان کے طور پر نافذ کیا جائے۔ رواں سال سترہ فروری کو سندھ اسمبلی نے بھی ایک قرار داد میں مطالبہ کیا تھا کہ سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں سندھی تعلیم لازمی کو یقینی بنایا جائے۔
ہائی کورٹ میں سندھی زبان لازمی قرار دینے کے لیے پٹیشن دائر کرنے والے اقبال کاظمی بارہ مئی کے واقعے کے بھی درخواست گزار ہیں۔ ان سے جب یہ سوال کیا گیا کہ جس معاملے پر فسادات ہوچکے ہیں اس پر انہوں نے عدالت سے رجوع کرنا کیوں ضروری سمجھا تو اقبال کاظمی کا کہنا تھا کہ ستر کی دہائی میں لسانیت کا رجحان تھا مگر اب قوم متحد ہے اور اجتماعیت کی بات کی جا رہی ہے۔ ان کے مطابق حکومت قانون پر عمل نہیں کر رہی اس لیے انہوں نے عدالت سے رجوع کیا ہے۔