Representatives of all parties criticize judiciary in 18th amendment parliamentary debate
Source BBC
اٹھارویں آئینی ترمیم کے بل پر بدھ کو قومی اسمبلی میں بحث جاری رہی اور مختلف جماعتوں کے بیشتر اراکین نے ماضی میں عدلیہ کی جانب سے فوجی آمروں کو آئین میں ترمیم کی اجازت دینے اور ان کے آئین معطل کیے جانے کے اقدامات کو جائز قرار دینے پرعدلیہ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔
بحث کے دوران عدلیہ کے ماضی کے کردار پر تنقید کرنے والوں میں عوامی نیشنل پارٹی، مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے اراکین بھی شامل رہے۔ مسلم لیگ (ن) سمیت تمام جماعتوں کے بعض اراکین نے رضا کارانہ طور اپنے اختیارات پارلیمان کو سونپنے پر صدر آصف علی زرداری کو خراج تحسین پیش کیا۔
ہمارے نامہ نگار اعجاز مہر نے بتایا کہ ریلوے کے وفاقی وزیر غلام احمد بلور نے کہا کہ ’عدلیہ کو پارلیمان کے فیصلوں کا مذاق اڑانے نہیں دیں گے اور اگر عدلیہ پارلیمان کے فیصلوں کا احترام نہیں کرے گی تو ہم پر بھی عدلیہ کے فیصلوں کا احترام لازم نہیں ہوگا‘۔
بحث کے دوران مسلم لیگ (ق) کے اراکین نے صوبہ سرحد کا نام خیبر پختونخواہ رکھنے کی کھل کر مخالفت کی۔ صوبہ سرحد کے ہزارہ ڈویژن سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ (ق) کے ایک رکن شاہجان یوسف نے ایوان سے واک آؤٹ بھی کیا۔
مسلم لیگ قاف ہی کی رکن ماروی میمن نے کہا کہ انہیں اٹھارویں ترمیم کی کئی شقوں پر اتفاق نہیں ہے لیکن اس کے باوجود بھی وہ بل کی حمایت کریں گے۔ لیکن ان کے بقول صوبہ سرحد کا نام خیبر پختونخواہ رکھنے کے خلاف ووٹ دیں گے۔
ایم کیو ایم سمیت مختلف جماعتوں کے اراکین نے اٹھارویں ترمیم کی مختلف شقوں کے بارے میں اپنا اختلافی موقف تو کھل کر بیان کیا، لیکن مجموعی طور پر بل کی حمایت کی۔
بحث کے دوران اکثر جماعتوں کے اراکین نے کہا کہ حالات کے تقاضے کے تحت جو آج صوبوں کو خودمختاری ملنی چاہیے وہ اس بل کے ذریعے نہیں دی گئی۔ تاہم انہوں نے جو کچھ صوبائی خود مختاری دینے کی تجویز ہے اس پر اکتفا کرتے ہوئے اُسے درست سمت میں اہم قدم قرار دیا۔
متحدہ قومی موومنٹ سمیت بعض جماعتوں کے اراکین نے مشترکہ مفادات کی کونسل کو فعال بنانے اور صوبوں کو خودمختاری دینے کی شقوں پر عمل درآمد نہ ہونے کے خدشات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ آئینی پیکیج کی منظوری کے بعد اس پر مکمل عمل درآمد ہونے تک آئینی کمیٹی قائم رہے اور وہ اس کام کی نگرانی کرے۔
بدھ کو صبح اور شام قومی اسمبلی کا اجلاس چلایا گیا تاکہ زیادہ زیادہ سے اراکین بحث میں حصہ لے سکیں۔ مزید کارروائی جمعرات کی صبح تک ملتوی کردی گئی اور امکان ہے کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بل کی شق