Nawaz Sharif versus Musharraf and the Saudi King: “Lussay da ki zore Muhammad?”

Tailpiece:

Musharraf’s trial not possible even in PML-N govt: Fazl

LAHORE: The Pakistan Muslim League-Nawaz (PML-N) could not have put Gen (r) Pervez Musharraf on trial even if it were in power, a private TV channel quoted Jamiat Ulema-e-Islam (JUI-F) chief Fazlur Rehman as saying on Saturday. Fazl said his party had demanded Musharraf’s trial however, under the present circumstances there could be no trial at all. He said parliament’s performance was poor, as it has passed only one resolution regarding terrorism, but could not even implement that in letter and spirit. daily times monitor

نواز عبداللہ ملاقات: سیاسی گفتگوسے پرہیز

آصف فاروقی

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

فائل فوٹو ، نواز شریف

مسلم لیگ نواز وفاقی حکومت سے پرویز مشرف کے خلاف آئین سے سنگین بغاوت کا مقدمہ قائم کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے

پاکستان میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف نے ہفتے اور اتوا کی درمیانی شب سعودی عرب کے فرمانروا شاہ عبداللہ سے ملاقات کی۔

شاہی محل میں ہونے والی اس ملاقات میں سابق وزیراعظم کے ہمراہ ان کے صاحبزادے حسین نواز اور اہم پارٹی راہنما اسحٰق ڈ ار بھی موجود تھے جبکہ سعودی کابینہ اور شاہی کابینہ کے بعض ارکان نے بھی رات بارہ بجے شروع ہونے والی اس ایک گھنٹہ طویل ملاقات میں شرکت کی۔

ملاقات میں موجود کسی راہنماء سے براہ راست رابطہ نہیں ہو سکا لیکن پاکستان میں موجود مسلم لیگی قیادت کا کہنا ہے کہ شاہ عبداللہ کے ساتھ پاکستانی سیاست سے جڑے کسی موضوع پر گفتگو نہیں ہوئی۔

واضح رہے کہ میاں نواز شریف اپنے اہل خاندان کے ہمراہ عمرے کی ادائیگی کے سلسلے میں گزشتہ ہفتے سعودی عرب روانہ ہوئے تھے جہاں چند روز قبل ہی ان کے مخالف سابق صدر پرویز مشرف نے بھی سعودی فرمانروا سے ملاقات کی تھی۔

ضمانت دی گئی ہے کہ پاکستان میں نواز شریف کی جماعت کے پرزور مطالبے کے باوجود ان پر بغاوت کا مقدمہ نہیں چلایا جائے گا

پرویز مشرف

پرویز مشرف نے بعد ازاں ایک پاکستانی ٹیلی وژن چینل کو انٹرویو میں کہا تھا کہ انہیں ضمانت دی گئی ہے کہ پاکستان میں نواز شریف کی جماعت کے پرزور مطالبے کے باوجود ان پر بغاوت کا مقدمہ نہیں چلایا جائے گا۔

مسلم لیگ نواز کے ترجمان پرویز رشید نے پارٹی سربراہ کی شاہ عبداللہ سے ملاقات کے حوالے سے صحافیوں کو بتایا کہ اس ملاقات میں پاکستانی سیاست پر کوئی براہ راست گفتگو نہیں ہوئی لیکن ملکی اور علاقائی سلامتی سے متعلق امور پر بات کی گئی۔ انہوں نے وضاحت نہیں کی کہ سلامتی امور سے ان کی مراد کیا ہے لیکن پرویز رشید نے بتایا کہ ملکی اقتصادی اور سیاسی استحکام کے بارے میں بھی بات کی گئی۔

’نواز شریف خطے کے اہم ترین سیاسی راہنما ہیں اور اس حوالے سے خطے میں سلامتی سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔‘

سیاسی تجزیہ کار اور بین الاقوامی تعلقات کے ماہر پروفیسر رسول بخش رئیس نے ملاقات کے بارے میں کہا کہ ’مشرف کے خلاف بغاوت کا مقدمہ چلانے کا براہ راست تعلق ملکی سیاسی استحکام سے بنتا ہے اس لیے یہ عین ممکن ہے کہ اس موضوع پر بھی اس ملاقات میں اگر براہ راست نہ سہی تو بلواسطہ بات کی گئی ہو۔‘

سعودی عرب میں گزشتہ چند روز میں شاہ عبداللہ کے ساتھ ہونے والی ان دو اہم ملاقاتوں (پرویز مشرف اور نواز شریف) کے بعد بظاہر اب ایسا لگتا ہے کہ پرویز مشرف پر بغاوت کا مقدمہ چلنے کے امکانات خاصے کم ہوگئے ہیں

رسول بخش رئیس

رسول بخش رئیس کا کہنا تھا کہ سعودی عرب میں گزشتہ چند روز میں شاہ عبداللہ کے ساتھ ہونے والی ان دو اہم ملاقاتوں (پرویز مشرف اور نواز شریف) کے بعد بظاہر اب ایسا لگتا ہے کہ پرویز مشرف پر بغاوت کا مقدمہ چلنے کے امکانات خاصے کم ہوگئے ہیں۔

واضح رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے سنہ انیس سو ننانوے میں اپنی حکومت کا تختہ الٹنے والے فوجی سربراہ کے خلاف دو برس قبل اعلٰی عدلیہ کے ججوں کو برطرف کر کے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے پر ان کے خلاف آئین سے سنگین بغاوت کا مقدمہ قائم کرنے کا مطالبہ کر رکھا ہے۔

آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت آئین توڑنے والے کے خلاف سنگین بغاوت کا مقدمہ صرف وفاقی حکومت ہی دائر کر سکتی ہے۔

صدر مشرف کے ہاتھوں معزول ہونے والے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی زیر سربراہی سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے ایمرجنسی کے خلاف اپنے فیصلے میں سابق صدر کو آئین کی خلاف ورزی کا مجرم قرار دے چکی ہے۔

اس کے باوجود وفاقی حکومت کی جانب سے سابق صدر پر بغاوت کا مقدمہ درج کرنے میں پس و پیش کرنے پر مسلم لیگ نواز اور حکومت کے درمیان کشیدگی کی فضا قائم ہے جس پر پرویز مشرف کے مطابق، سعودی فرمانروا نے اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے کیونکہ ان کے بقول پاکستان میں اس نوعیت کی سیاسی کشیدگی موجودہ حالات میں ملکی استحکام اور معیشت کے لیے اچھا شگون نہیں ہے

بات نکلے گی تو دور تلک جائے گی

اعجاز مہر

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

مشرف

سابق صدر نے ایکسپریس ٹی وی کو انٹرویو میں صاف صاف کہا کہ انہیں کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا

پاکستان میں بہت سارے لوگوں کو پہلے ہی شبہہ تھا کہ آئین توڑنے کے الزام میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف نہ تو بغاوت کا مقدمہ چلےگا اور نہ ہی انہیں کوئی سزا ملے گی۔ لیکن سعودی عرب کے بادشاہ شاہ عبداللہ کی پرویز مشرف، میاں نواز شریف اور رحمٰن ملک سے ہونے والی حالیہ ملاقاتوں کے بعد یہ یقین ہوگیا ہے کہ سابق صدر کا احتساب اب دیوانے کا خواب بن گیا ہے۔

جن لوگوں کو سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف کارروائی نہ ہونے کا شبہہ تھا ان کی دلیل یہ تھی کہ پاکستان میں دکھاوے کا حکمران کوئی بھی ہو لیکن اصل حکمرانی ’سیکیورٹی ایسٹیبلشمینٹ‘ کی ہے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ’سیکورٹی سٹیٹ‘ میں فوج کے سابق سربراہ کے خلاف اتنا بڑا مقدمہ بنے؟

یہ پاکستان جیسے کئی ممالک کا المیہ ہے کہ وہاں ’قومی سلامتی‘ کی آڑ میں سیاہ و سفید کی مالک قوتوں کے اعلٰی افسر تو کجا ان کے کسی جونیئر افسر کے خلاف بھی سرکاری فرائض کے سلسلے میں ان کے خلاف مقدمہ چلے یا انہیں سزا ملے۔

آپ ’مڈنائٹ جیکالز‘ کو ہی دیکھ لیجئے کہ آج بھی سینہ ٹھوک کر کہتے ہیں کہ ’میں نے فلاں کو پیسہ دیا اور فلاں سے یہ کام کروایا‘۔ برگیڈیئر (ر) امتیاز عرف بِلا ہوں یا میجر ریٹائرڈ عامر، جو کچھ وہ اقرار کرچکے ہیں بھلا ان سے کسی نے پوچھا کہ یہ سب کچھ کیوں کیا یا اس میں کون سا قومی مفاد چھپا ہوا تھا؟۔

مجھے شاہ عبداللہ نے بھائی کہا ہے اور یہ یقین دلایا ہے کہ میاں نواز شریف میرے خلاف بغاوت کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ نہیں کرے گا

پرویز مشرف

یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ایک نئی کہاوت زباں زد عام ہورہی کہ ’ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی پر تو سزا ملے گی لیکن آئین توڑنے والوں کو سلامی ملے گی‘۔

جب سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف بغاوت کا مقدمہ بنانے کی بات چلی اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک طوفان اٹھا تو صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے وزیر داخلہ رحمٰن ملک کو راتوں رات اپنا خصوصی ایلچی بنا کر سعودی عرب روانہ کیا اور اگلے ہی روز بادشاہ سلامت نے لندن سے اپنے شاہی طیارے میں سابق صدر پرویز مشرف کو بھی بلا لیا۔ ان کی ملاقات کے بعد یہ خبریں بھی شائع ہوئیں کہ بادشاہ سلامت نے پرویز مشرف سے کہا ہے کہ وہ پاکستانی قوم سے معافی مانگیں اور سیاسی معاملات کے متعلق اپنی زبان بند رکھیں۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی خبریں آئیں کہ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی بلکہ بادشاہ سلامت نے تو پرویز مشرف کو یقین دلایا ہے کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔ ایسی متضاد خبروں کی وجہ سے جو گو مگو والی صورتحال پیدا ہوئی وہ میاں نواز شریف کی شاہ عبداللہ سے ہونے والی ملاقات اور پرویز مشرف کے ایکسپریس ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو سے واضح ہوگئی۔

سابق صدر نے انٹرویو میں صاف صاف کہا کہ انہیں کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ ’مجھے شاہ عبداللہ نے بھائی کہا ہے اور یہ یقین دلایا ہے کہ میاں نواز شریف میرے خلاف بغاوت کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ نہیں کریں گے‘۔ پرویز مشرف کے اس دعوے کی تاحال مسلم لیگ (ن) نے کوئی تردید نہیں کی۔ میاں نواز شریف کی اپنے صاحبزادے حسین نواز اور سمدھی اسحاق ڈار کے ہمراہ بادشاہ سلامت سے جو ملاقات ہوئی اس میں جو بھی بات چیت ہوئی اس کا علم تو انہیں ہی ہوگا۔

مشرف

’حکمران کوئی بھی ہو لیکن اصل حکمرانی ’سیکیورٹی سٹیبلشمینٹ‘ کی ہے‘

لیکن پرویز مشرف اور میاں نواز شریف سے ہونے والی ملاقات اور دونوں کو ملنے والے پروٹوکول کو اگر دیکھا جائے تو بظاہر پرویز مشرف کے دعوے کو تقویت ملتی ہے۔ پرویز مشرف کو لندن سے لانے کے لیے شاہی طیارہ بھیجا گیا اور چار گھنٹے کی طویل ملاقات ہوئی۔ جبکہ میاں صاحب کی ایک ہفتے تک سعودی عرب میں موجودگی کے باوجود ملاقات نہ ہونے پر ان کے ترجمان پرویز رشید نے پہلے کہا کہ یہ ان کا ’عبادتی دورہ‘ ہے اور میاں صاحب ہر سال اہل خانہ کے ہمراہ رمضان کے آخرے عشرے میں وہاں جاتے ہیں۔

جب ملاقات ہوئی تو ترجمان نے کہا کہ اس میں پاکستان کے سیاسی امور یا پرویز مشرف کے بارے میں کوئی بات نہیں ہوئی بلکہ ان کی ملکی اور علاقائی سلامتی کے امور پر بات ہوئی ہے۔ ان کا یہ بیان سن کر مجھے کراچی کے وہ ملباری ہوٹل یاد آئے جن کی دیواروں پر لکھا ہوتا ہے کہ ’یہاں سیاسی گفتگو کرنا منع ہے’۔ نصف شب کو ایک گھنٹے کی ملاقات جس میں نصف گھنٹہ عربی ترجمان کا نکالیں تو باقی نصف گھنٹہ اور اس میں بھی عافیت کا حصہ نکالیں تو باقی بچنے والے وقت میں تو صرف چند کلمات ہی بچتے ہیں۔ پتہ نہیں اس میں نصیحت تھی یا فرمائش، گزارش تھی یا کچھ اور۔

بحرحال میاں نواز شریف کی بادشاہ سلامت سے ہونے والی ملاقات کے بعد پرویز مشرف کا احتساب ممکن نہیں کیونکہ اس سارے تماشے میں اس بات کی بھی تقریباً تصدیق ہوگئی کہ موجودہ حکمرانوں نے عوامی طاقت کے بل بوتے پر پرویز مشرف کو نہیں نکالا بلکہ انہیں ان سے ایک اور ’ڈیل‘ کرنی پڑی اور اس نئے معاہدے کے ضامن بھی بظاہر سعودی عرب، امریکہ اور برطانیہ ہی معلوم ہوتے ہیں۔ اس سارے تماشے سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ پاکستان اور اس کے کرتا دھرتا چاہے وہ سکرین پر ہوں یا پردے کے پیچھے وہ کتنے آزاد ہیں۔!!

پرویز مشرف کے احتساب کے معاملے میں سپریم کورٹ پہلے ہی گیند پارلیمان میں پھینک چکی ہے۔ کیونکہ اسے پتہ تھا کہ اگر پرویز مشرف کے آئین توڑنے کی بات چِھڑی تو وہ تین نومبر سنہ دو ہزار سات کے اقدامات تک نہیں رُکے گی بلکہ بات نکلے گی تو بارہ اکتوبر سنہ انیس سو ننانوے تک جائے گی



No trial, Saudis assure Musharraf

* Former president says he wants to put superior judiciary on trial
* Present govt still pursuing past regime’s policies with regard to US

Daily Times Monitor

LAHORE: Saudi King Abdullah bin Abdul Aziz has assured former president Pervez Musharraf that Pakistan Muslim League-Nawaz (PML-N) chief Nawaz Sharif will not demand a treason trial for him under Article 6 of the constitution, a private TV channel reported on Sunday.

Musharraf told the channel he would demand that all the judges of the superior judiciary who had approved his steps also be tried for treason if the government charged him with sedition. He said the country’s national interest would have been compromised if he had not sided with the US in the war on terror after 9/11.

To a question, the former president said it was wrong to assume he had forced Dr Abdul Qadeer Khan to apologise for distributing nuclear secrets. He said Pakistan must fight and eradicate the Taliban and Al Qaeda.

Same policies: Musharraf said the present government was following the same strategic policies with regards to the US that his government had pursued, adding there were only minor differences in the modalities of official dealings. He said the military aid given to Pakistan for the war on terror had also been used to strengthen Pakistan’s defence against India. (Daily Times)

Nawaz Sharif calls on Saudi King Abdullah

LAHORE: PML-N chief Nawaz Sharif on Sunday met Saudi King Abdullah Bin Abdul Aziz in Makkah to discuss Pak-Saudi relations and issues facing Muslims around the world, a private TV channel reported. Sources said Saudi authorities had asked Nawaz to withdraw his demand for trying former president Pervez Musharraf under Article 6 of the constitution. Also, Gulf Times claimed that Nawaz was not given the highest level of protocol, which implied that the Saudis were not happy with him. daily times monitor/app

Comments

comments

WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.