Fauj se takar: Gillani aur Zardari ko aab intizar fauji tarkion ka -by Rauf Klasra
فوج سے ٹکر: گیلانی اور زرداری کو اب
انتظار فوجی ٹرکوں کا
(تبصرہ: رؤف کلاسرا) پاکستان کی برطانیہ میں سابق ہائی کمشنر ملحیہ لودھی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو ان کے دھیمے مزاج کی وجہ سے مذاق میں “ملتانی سوہن حلوہ” کہتی تھیں جس کا مطلب تھا کہ وہ بے ضرر اور اچھے انسان ہیں کیونکہ سرائیکی علاقوں کے لوگ کبھی دوسروں سے پنگا نہیں لیتے۔ اب میں حیران ہورہا ہوں کہ اگر ملیحہ لودھی نے گیلانی صاحب کی جمعرات کو پارلیمنٹ میں کی گئی تقریر سنی ہے تو اب ان کا کیا کہنا ہے کہ کیا وہ ابھی بھی ملتانی سوہن حلوہ ہیں یا پھر بدل گئے ہیں۔
ایک اور بات چوہدری شجاعت حسین نے بھی کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جمہوریت کا بستر گول کرنے کے لیے صرف ایک فوجی ٹرک اور چند وردی پہنے گنوں سے لیس فوجی کافی ہوتے ہیں۔ تاہم اب کی دفعہ یہ نیک فریضہ سرانجام دینے کے لیے شاید ایک کی بجائے دو ٹرکوں کی ضرورت پڑے گی کیونکہ ماضی کی نسبت صدر اور وزیراعظم اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں کھیل کر ایک دوسرے کے ساتھ لڑنے کی بجائے اب متحد ہوکر محاذ آراء ہیں۔لہذا ایک ٹرک کا رخ ایوان صدر تو دوسرے کا وزیراعظم ہاوس ہونا چاہیے تاکہ وہاں بغاوت اور نافرمانی پر آمادہ وی وی آئی پی مکینوں کو اس طرح ہتھکڑیاں لگا کر جیل میں ڈالا جائے جیسے نواز شریف کو بارہ اکتوبر کو ڈالا گیا تھا۔
_______________________________
جڑواں بھائیوں سے مایوسی اور گیلانی کی خوف سے نجات !!!
_______________________________
برطانوی صحافی نے پاکستان کے حالات پر ایک کتاب کا ٹائٹل رکھا ہے تھا waiting for Allah اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی غیرمعمولی تقریر کا عنوان رکھا جا سکتا ہے Waiting for Tanks کیونکہ ان کی تقریر سے ایک بات واضح ہوئی کہ انہوں ان دو جرنیلوں کو ایک واضح پیغام بھیجا ہے جنہیں انہوں نے پچھلے سال خود مدت ملازمت میں توسیع کی تھی کہ انہوں نے جو کچھ کہنا تھا وہ کہہ دیا اور اب وہ وزیراعظم ہاوس اور صدر کراچی سے ایوان صدر پہنچ چکے ہیں، لہذا اب ان کی مرضی ہے کہ وہ ایک عوامی حکومت کے اختیار کو تسلیم کرتے ہیں یا پھر فوجیوں سے بھرے دو ٹرک بھیج کر ان دونوں کو گرفتار کر کے ملک پر مارشل لاء لگاتے ہیں۔ گیلانی نے اپنا فیصلہ کر لیا ہے ، اب بال آرمی چیف کی کورٹ میں ہے۔
پاکستانی میڈیا اور سیاستدان وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے ہرگز یہ توقع نہیں رکھتے کہ ملتانی مٹھاس کے مالک وزیراعظم پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے بارے میں وہ کچھ کہہ جائیں گے جو آزادی کے بعد آج تک کوئی نہیں کہہ سکا۔ سب کا خیال تھا کہ گیلانی نے مبینہ طور پراتنی کرپشن کر رکھی ہے کہ وہ فوج کے سامنے کھڑے نہیں ہونگے۔ تاہم سب اندازے غلط ہوئے ہیں۔ گیلانی کو پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر پاکستان آرمی اور آئی ایس ائی کے ریاست کے اندر ریاست بننے کے کردار کو چیلنج کرتے ہوئے دیکھ کر، مجھے دو سال قبل اسلام اباد سے گوادر جاتی وہ فلائٹ یاد آگئی جس میں وزیراعظم اپنی کابینہ کے ارکان کے ساتھ سوار تھے اور وہ سب وہاں کابینہ کی میٹنگ کرنے جارہے تھے۔ صحافیوں کا ایک گروپ بھی ان کے ساتھ تھا تاکہ گوادر کے مسائل کے بارے میں وہ بھی جان سکیں۔
فلائٹ کے دوران وزیراعظم نے مجھے بلوا بھیجا کہ بات کرنی ہے۔ ان دنوں صدر زرداری اور ان کے درمیان میڈیا میں خود ساختہ اختلافات کی کہانیاں چل رہی تھیں اور بڑے زور شور سے بڑے بڑے صحافی اس بات پر لکھ رہے تھے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اس طرح ملتان کے گیلانی کو استعمال کرکے زرداری کا سر لے گی جیسے ڈیرہ غازی خان کے لغاری نے بے نظیر بھٹو کی حکومت کا سر جنرل جہانگیر کرامت کے کہنے پر لے لیا تھا۔ میں نے یہی سوال گیلانی صاحب سے کرلیا کہ وہ کب فاروق لغاری بن رہے ہیں۔ وہ مسکرائے اور الٹا مجھ سے پوچھا کہ آپ خود بتائیں کہ مجھے فاروق لغاری بن کر کیا ملے گا۔ میں پہلے ہی اس ملک کا وزیراعظم ہوں۔ اس سے بڑا عہدہ مجھے اور کیا مل سکتا ہے ۔ تو پھر میں کیوں ایک ایسے شخص کو دھوکا دے کر ساری عمر اپنے اپ سے چھپتا رہوں جس نے مجھے وزیراعظم بنایا۔
میں نے کہا لوگ کہتے ہیں کہ آپ طاقتور وزیراعظم نہیں ہیں اور سب اختیارات تو صدر کے پاس ہیں، لہذا آپ ایک بااختیار وزیراعظم بننے کے لیے صدر زرداری کے خلاف استعمال ہو سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ کیوں صدر زرداری کے خلاف استعمال ہوں۔ ان دونوں نے برسوں جیل کاٹی۔ بیوی بچوں کی تکالیف جھیلیں۔
سب سے بڑھ کر ایک سو پچیس ارکان کے ساتھ اپنی پارٹی کی حکومت کا وزیراعظم بنایا، چیرمین سینٹ بنایا، سپیکر قومی اسمبلی بنوایا، اور صدر پاکستان بھی اپنی پارٹی کا بنوا لیا۔ کیا ہم میڈیا کو اتنے بے وقوف لگتے ہیں کہ وہ لکھتے ہیں کہ میرے اور صدر کے درمیان اختلافات ہیں اور میں ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپوں گا۔ میں کیوں کروں گا ایسا کرونگا۔ میں اپنے صدر کے ساتھ ہوں اور کھڑا رہوں گا چاہے کچھ بھی ہو جائے۔
اس گفتگو کے دو برس بعد دس دسمبر کو دنیا نیوز ٹی وی کی تیسری سالگرہ والے دن وزیراعظم گیلانی اسلام آباد کے سٹوڈیو میں تشریف لے آئے جہاں معروف اینکرز نسیم زہرہ اور عاصمہ چوہدری کے علاوہ یہ خاکسار بھی انٹرویو پینل میں شامل تھا۔ میں نے آخری سوال ان سے کیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ سرائیکی علاقوں سے آنے والی لیڈر شپ پیپلز پارٹی کے ساتھ وفاداری نہیں نبھاتی۔ ماضی میں فاررق لغاری اور اب شاہ محمود قریشی اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپ چکے ہیں۔ آپ وہ تیسرا چھرا زرداری صاحب یا پارٹی کو کب ماریں گیں۔ گیلانی صاحب کے جواب سے لیڈ سٹوری نکلی کہ وہ سیاست چھوڑ دیں گے لیکن وہ پارٹی کی پیٹھ میں چھرا نہیں گھونپیں گے۔
گیلانی نے یہ بات ثابت کی ہے کہ وہ چھرا کھانے کے لیے تو تیار ہیں لیکن اپنے اس صدر کے خلاف استعمال نہیں ہوں گے جو ابھی بیماری سے پوری طرح صحت یاب نہیں ہوئے ۔ یوں گیلانی جنہیں شیخ رشید فوجی اداروں کی حمایت سے سیاست میں آنے کا الزام مسلسل دہراتے رہتے ہیں، نے اپنا سینہ توپوں کے سامنے کرکے جرنیلوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ اس ملک میں حاکمیت کی فیصلہ کن لڑائی لڑنے کے لیے تیار ہیں۔ میر اپنا خیال بھی تھا کہ گیلانی صاحب شاید اس لیول پر جاکر فوج اور آئی ایس آئی پر چڑھائی نہیں کریں گے۔ تاہم گیلانی صاحب نے میرا بھی خیال غلط کر دیا ہے۔
ذرائع تو یہ بھی دعوی کر رہے ہیں کہ دراصل گیلانی کو جنرل کیانی کی طرف سے کی گئی ایک وعدہ خلافی کا خاصا دکھ ہے۔ان کے بقول میمو سکینڈل کے سپریم کورٹ پہنچنے کے بعد ایوان صدر میں ایک ملاقات ہوئی تھی جس میں وزیراعظم گیلانی، جنرل کیانی، جنرل پاشا اور دیگر نے شرکت کی تھی۔ فوج اور سیاسی لیڈرشپ کے درمیان یہ طے ہوا تھا کہ حسین حقانی کو ہٹانے کے بعد معاملہ ٹھنڈا ہو جائے گا اور سپریم کورٹ میں فوج کوئی ایسا بیان نہیں دے گی جس سے حکومت کو کوئی پرابلم ہو۔ یہ بھی طے پایا تھا کہ فوج اپنے بیانات وزیراعظم ہاوس بھیجے گی اور وہاں سے وفاق کے سوالات کے جوابات کے ساتھ اسے بھی مشترکہ طور پر بھیجا جائے گا۔
تاہم فوج نے اپنے جوابات براہ راست جا کر جمع کرائے اور ساتھ میں میڈیا کو بھی ریلیز کیا گیا جس سے یہ تاثر سامنے آیا کہ فوج اور سیاس حکومت کے درمیان سخت محاز آرائی شروع ہو چکی تھی۔ گیلانی صاحب توقع کرتے تھے کہ ان کے ساتھ کئے گئے وعدے کو نبھایا جائے گا۔
گیلانی صاحب کو دوسرا جھٹکا اس وقت لگا جب ان کے پاس جنرل کیانی وزیراعظم ہاوس میں بیٹھے تھے کہ اس وقت صدر زرداری کا فون آگیا اور انہوں نے جنرل کیانی سے بھی ان کی بات چیت کرادی۔ اس فون پر ہونے والی گفتگو کے بعد یہ تاثر دیا گیا کہ شاید زرداری صاحب کی وطن واپسی کے راستے اس گفتگو کے بعد کھلے تھے۔ تاہم فورا فوج کے ترجمان نے اس تاثر کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ آرمی چیف کی بات چیت بمشکل ایک منٹ بھی نہیں ہوئی تھی ۔
اس وضاحت سے پتہ چلا کہ فوج یہ تاثر نہیں دیناچاہتی تھی کہ زرداری کیانی بات چیت ہوئی جس سے برف پگھلنے لگی ہے۔ اس سے بھی گیلانی صاحب کو احساس ہوا کہ انہوں نے جو جرنیلوں کو ہر حال میں خوش کرنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے وہ بیکار ہے کیونکہ فوج ان کی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے کے لیے تیار ہو گئی تھی۔
ذرائع کہتے ہیں کہ صدر اور وزیراعظم نے اپنی ملاقات میں یہ فیصلہ کیا کہ اب کافی ہو گیا ہے اور وقت آگیا ہے کہ فوج کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر سخت لائن لی جائے اور ایک واضح پیغام بھیجا جائے کہ اب مزید کچھ برادشت نہیں کیا جائے گا چاہے حکومت جائے۔ یوں گیلانی نے ایک ہی روز ہی اپنی دونوں تقریروں میں فوج اور آئی ایس آئی کو خاصی تنقید کا نشانہ بنایا جس سے سننے والوں کو حیران ہوئی جو سمجھتے تھے کہ وہ زرداری صاحب کی بجائے وردی والوں کا ساتھ دیں گے۔ یہ بات شاید آرمی اور آئی ایس آئی سے ہضم نہ ہو جب گیلانی صاحب نے پوچھا کہ بتایا جائے کہ اسامہ بن لادن کس سے ویزہ لگوا کر پاکستان میں چھپا رہا۔ گیلانی نے وہ تمام راز بتائے جو انہوں نے چھپا رکھے تھے۔ وزیراعظم نے وہ تمام باتیں گنوائیں کہ کیسے انہوں نے ہر موقعہ پر فوج کی مدد کی تاکہ ان کا مورال ڈاؤن نہ ہو۔
گیلانی نے جو لہجہ اپنایا ہے اس کی شاید آرمی قیادت عادی نہ ہو۔ نواز شریف نے آج سے سترہ سال پہلے اس وقت کے صدر اسحاق خان کے خلاف ایک سٹینڈ لیا تھا اور اپنی آخری تقریر میں کہا تھا کہ وہ ڈکٹیشن نہیں لیں گے اور اس فقرے نے انہیں ہیرو بنا دیا تھا اور تین سال بعد وہ اکثریت کے ساتھ پارلیمنٹ لوٹ آئے۔ یہ بات واضح ہے کہ وزیراعظم اور صدر نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اب فوج اور عدالت کے سامنے نہیں جھکیں گے۔
بہت ساروں کے نزدیک یہ دراصل کارگل بحران کی طرح کا سا سکرپٹ ہے۔ اس وقت کی آرمی قیادت نے کارگل کا ایشو بنا کر نواز شریف کو گرفتار کر لیا تھا۔ اپنی تمام ناکامیوں کا ملبہ نواز پر ڈال دیا گیا تھا۔ اب بھی اس طرح کا سکرپٹ بنایا گیا ہے اور اب کی دفعہ میمو سکینڈل کو بہانہ بنا کر ایک اور حکومت کو ڈسمس کرنے کی تیاریاں ہو سکتی ہیں۔
ایک بات طے ہے کہ اب تک ہم اپنی طرف سے سمجھتے تھے کہ فو ج اور آئی ایس آئی ریاست کے اندر ایک ریاست کا درجہ رکھتے ہیں اور کسی اور نے نہیں بلکہ ملک کے وزیراعظم نے اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ یہ دونوں ادارے کسی کو جواب دہ نہیں ہیں۔ اب تاریخ کے طالبعلم کے پاس ایک سرکاری دستاویز آگئی ہے کہ کیسے ملک کا آئینی چیف ایگزیکٹو بھی فوج کو ریاست کے اندر ریاست سمجھتے ہے ۔ گیلانی نے اپنے بارے میں قائم کیے گئے تمام اندازے غلط کر کے اپنی توپوں کا رخ اس طرف کر لیا ہے جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ایک دن وہ ان کے ساتھ لغاری اور شاہ محمود قریشی کی طرح وعدہ معاف گواہ بنیں گے۔
گیلانی نے یقیناًسوچ سمجھ کر سیاسی شہید بننے کا فیصلہ کیا ہے۔ نہیں پتہ ہے کہ کھیل ابھی ختم نہیں ہوا کیونہ اب بال سپریم کورٹ کے پاس ہے جہاں حکومت پہلے ہی تحریری طور پر لکھ کر دے چکی ہے کہ اس کا فوج اور آئی ایس آئی پر کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ یوں اب فیصلہ چیف جسٹں کے پاس ہے کہ وہ بھی واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ فوج پر کسی کا کوئی کنٹرول نہیں ہے یا وہ بھی وہی فیصلہ کرتے ہیں جو طاقتور لوگوں کو پسند آئے جن کے ہاتھ میں بندوقیں ہیں اور وہ سیاستدانوں کی طرح نہتے نہیں ہیں۔
چیف جسٹں ابھی بھی اپنی عدالت میں ایک بیان دے کے اس پورے بحران کو ختم ہونے سے بچا سکتے ہیں۔ انہیں اس طرح کی بات کرنے کی پھر ضرورت ہے جوانہوں نے پچھلے دنوں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں کی تھی جس سے جہوریت پسندوں کو حوصلہ ملا تھا۔ کیا چیف جسٹں اپنے اس بیان کو عدالت میں میمو کیس کی سماعت کے موقع پر دوہرا سکتے ہیں کہ جو بھی غیر آئینی طریقے سے حکومت کو ختم کرے گا اس پر بغاوت کا مقدمہ درج ہو گا۔اگر جمعہ کو چیف صاحب اپنی عدالت میں خاموش رہے جیسے پرسرار انداز میں نواز شریف اس اہم معاملے پر چشتیاں میں جلسے سے خطاب کے دوران چپ رہے، تو پھر خطرے کی گھنٹی بج سکتی ہے۔
تاہم یہ بات بڑی واضح ہے کہ گیلانی اور زرداری نے فوج اور آئی ایس آئی پر براہ راست حملے اور تنقید کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ اپنی کشتیاں جلا چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کا جیالا اس کلچر میں خوش رہتا ہے کہ اسے دما دم مست قلندر کا نعرہ لگا کر طاقتور سے لڑائی لڑنی پڑ جائے۔اہم بات یہ ہے کہ وزیراعظم گیلانی نے پہلے صدر کو دوبئی سے واپس بلوایا، پھر کراچی سے اسلام آباد بلوا کر انہیں ایوان صدر میں بٹھانے کے بعد جا کر یہ دھوان دھار تقریر کرکے فوج کو پیغام بھیجا ہے کہ جناب میں آپ کے پڑوس میں رہتا ہوں۔ اگر ہمیں فارغ کرنا ہے تو ٹرپل ون بریگیڈ کو تکلیف دینی ہوگی کیونکہ ہم استعفے نہیں دینگے۔
Source: Top Story