Sifarish udooli ka haq – by Anwar Sin Rai

سفارش ‘عدولی’ کا حق
انور سِن رائے

اگرچہ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ پاکستان کے چیف جسٹس صاحب، لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں تقرریاں روایت کے برخلاف کیوں چاہتے ہیں اور حکومت یا صدر کو ان کی اِس ‘سفارش’ کی تعمیل میں کیا خرابی دکھائی دیتی ہے۔

لیکن جناب چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے حکومت کی جانب سے ججوں کی تقرری کے معاملے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے ایک تین رکنی بینچ تشکیل دیا جس نے ‘سرسری سماعت’ کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کے سربراہ جسٹس خواجہ شریف کو سپریم کورٹ کا جج اور جسٹس ثاقب نثار کو لاہور ہائی کورٹ کا قائم مقام چیف جسٹس مقرر کرنے کا صدارتی حکم معطل کر دیا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ صدر نے چیف جسٹس آف پاکستان کی سفارش ‘عدولی’ کی ہے اور ان کی خواہش کا احترام نہیں کیا۔ جب کہ پاکستان کے وزیر اطلاعات قمر الزمان کائرہ نے دعویٰ کرتے ہیں کہ ججوں کی تقرری کے بارے میں حکومت کے پاس چیف جسٹس کی تحریری مشاورت موجود ہے اور صدر نے جو بھی حکم جاری کیا ہے وہ آئین اور قانون کے مطابق ہے۔

انہوں نے بی بی سی سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کہ ‘چیف جسٹس کے ساتھ خط و کتابت میں جو مشاورت ہوئی ہے وہ ریکارڈ پر موجود ہے’۔

انہوں نے بتایا کہ پہلے چیف جسٹس نے اپنی سفارشات صدر کو بھیجیں اور صدر نے انہیں اپنی آرا کے ساتھ واپس بھیجا اور اس کے بعد چیف جسٹس نے جو دوبارہ اپنی رائے دی اس پر صدرِ مملکت نے آئین کے تحت اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے فیصلہ دیا اور وزارت قانون نے نوٹیفکیشن جاری کیا۔

حالات اور دونوں ججوں کے پس منظر دیکھ کر میاں نواز شریف صاحب کی تندی و تیزی بھی سمجھ میں آتی ہے اور لاہور ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس کا حلف اٹھانے سے خود جسٹس ثاقب نثار کا انکار اور یہ کہنا بھی کہ ‘وہ وہی کریں گے جو چیف صاحب کہیں گے’۔

کیسی افسوسناک بات ہے کہ جناب چیف جسٹس افتخار چوہدری خود اپنے ہی لوگوں کے سامنے مدعی بھی بننا پڑ رہا ہے۔ اب اگر چیف جسٹس صاحب اپنی سفارش پر عمل نہ کیے جانے کا نوٹس خود بھی نہ لیں گے تو کون لے گا اس لیے انہوں نے کسی کو بھی اس تکلیف میں نہیں ڈالا ۔ خود ہی نوٹس لیا اور خود ہی بینچ بنایا۔ جس نے وہی کیا جس کے لیے اسے بنایا گیا تھا یعنی آتے ہی فیصلہ معطل کر دیا۔ اسے کہتے ہیں انصاف، بلکہ تیز ترین انصاف۔ خرابی اس میں صرف یہ ہے کہ جیسے کتے کے کاٹے پانی سے ڈرتے مجھے بھی اس میں ضیاالحق کے بو آتی ہے۔ اگر آپ اپنی سفارش پر عمل نہ کیے جانے پر کارروائی کرتے ہوئے خود ہی نوٹس لیں گے اور خود ہی بنچ بنائیں گے تو اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہو گا: کہ آپ مدعی بھی ہیں اور منصف بھی۔

ساری دنیا جانتی ہے یہ طریقہ جنرل ضیاالحق کے دور سے ہی نہیں، ہر مارشل لا دور کی شناخت رہا ہے بلکہ ہر آمریت کی ہے۔ عراق کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں امریکہ جوتوں سمیت آنکھوں میں گھس گیا اور کوئی کچھ نہیں کر سکا۔

بہت سے پاکستانی یقیناً چاہتے ہوں گے جو برا بیت گیا ہے اس کی یاد نہ دلائی جائے۔ سپریم کورٹ کو کام کرنے کے لیے جج چاہیں تو دونوں جج حضرات ایسے ہیں کہ انہیں کوئی بھی ذمہ داری سونپی جا سکتی ہے۔ یعنی اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اگر خواجہ شریف سپریم کورٹ آ جائیں گے یا جسٹس نثار۔

اگر چیف جسٹس یہ سمجھتے ہیں کہ جسٹس خواجہ شریف سپریم کورٹ میں آنے کے اہل نہیں ہیں اور جسٹس ثاقب زیادہ اہل ہیں تو یہ بات حکومت کو بھی سمجھا دیتے اتنا ہنگامہ کھڑا کرنے کی کیا ضرورت تھی اور ہمارے خیال میں تو آئین میں مشاورت کی شق کا مطلب بھی شاید یہی ہے۔

اگر یہ بھی پسند نہیں تو کوئی اور رستہ ڈھونڈ لیں لیکن ضیا الحق اور بش کا طرزِ عمل نہ اپنائیں۔

Some comments from BBC Urdu.com

Abbas Khan :
اسی طرح کا نوٹيفيکشن مياں صاحب نے بھی 1999 ميں جاری کروايا تھا، جسکا نتيجہ وہ آج تک بھگت رہے ہيں- پہلے صرف فوج تھي، اب عدليہ نے بھي اپني يونين بنا لي ہے- وہ توشکر ہے کہ ججوں کےپاس ٹرپل ون بريگيڈ نہيں، اسی ليۓ حکومت ابھی تک بچی ہوئی ہے- دراصل سياستدان ابھی تک نہيں سمجھے کہ انکا کام بجلي، پٹرول، اور گيس وغيرہ کي قيمتيں بڑھا کر اسٹيبلشمنٹ کا خرچہ پورا کرنا، اگر موقع ملے تو کچھ مال اڑانا اور عوام سے گالياں کھانا رہ گيا ہے۔-

Anwar Hussain :
فوجی مارشل لاء تو بہت ديکھے اب عدالتی مارشک لاء کی باری ہے- چيف جسٹس` فوج اور نواز شريف کا مثلث جمہوريت کو تابع کرنے کی کوشش ميں ہے- زرداری جتنے بھی کرپٹ صحيح مگر چيف جسٹس کا عدالتی حکمرانی کا خواب شايد اب پورا نا ہو سکے کيونکہ اب ان کے عزاۂم مکمل طور سے بے نقاب ہو چکے ہيں۔

Najeeb-ur-Rehman:

’لائے ہیں نقطہ داں یہ کوڑی بڑی دور سے‘
صد احترام انور سِن رائے صاحب، آداب! سب سے پہلے تو ایک خالصتاً تخلیقی بلاگ لکھ کر قارئین کے سامنے لانے پر آپ کا بہت شکریہ۔ خاکسار کے خیال میں آپ نے ‘ججز بحران‘ کی جڑوں کو یہ لکھ کر تن آسان اور سہل پسند عوام کے سامنے لا کھڑا کیا ہے کہ ’اس میں ضیاءالحق کی بو آتی ہے‘۔ یہی وہ نایاب الفاظ ہیں جو ‘قصہ کہانی‘ کو سمجھنے، اسکی تہہ تک جانے اور ‘ہِز ایکسیلینسی‘ صدرِ پاکستان جناب آصف علی زرداری کے خلاف ‘ٹرائیکا‘ یعنی میڈیا، بحال شدہ عدلیہ اور ن لیگ کے ’گٹھ جوڑ‘ کی وجوہات تک رسائی پانے کے لیے درست ’روڈ میپ‘ مہیا کرتے ہیں۔ یہ ’روڈ میپ‘ اس لیے بھی درست نظر آتا ہے کہ صدرِپاکستان نے ججوں کی تقرری کا حکم، آئین، قانون، میرٹ، سنیارٹی اور جمہوری بنیادوں پر جاری کیا تھا لیکن اس کے باوجود صدرارتی حکم کو رات کے اندھیرے میں ہنگامی طور پر عدالت لگا کر گویا ‘مسئلہ کشمیر‘ ہو، چند ہی گھنٹوں میں معطل کر دیا گیا۔ ’سرسری سماعت‘ کرکے، دوسرے فریق کی عدم موجودگی میں یا اس کو سنے بغیر فیصلہ کر دینا انصاف کے ہاتھوں انصاف کے خون کے مترادف ہے۔ نہ صرف بیک وقت بلکہ خالصتاً ملائیت و آمریت کی پیداوار، سرمایہ داروں کے ٹولے، تاجروں کے جتھے، آڑھتیوں اور بزنس مینز کے جمگھٹے پر مشتمل ن لیگ کا بجائے ’میرٹ‘ کو سپورٹ کرنے کے ’سرسری سماعت‘ کے گُن گانے سے بھی دال میں صاف طور پر نہ صرف کالا کالا بلکہ ہرا چِٹا نیلا پیلا سرخ بھی نظر آتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ جیسے ایک طرف نواز شریف اپنے لیے صدارتی محل کا دروازہ کھول رہے ہیں اور دوسری طرف اپنے ’سیاسی گُرو‘ کی روح کو خوش کرنے کا ثبوت دے رہیں ہیں۔ ایسے حالات میں ضیاءالحق کی بو آ جانا اور اس کی ’روح‘ کا ’ان ایکشن‘ ہو جانا قطعاً نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چئرپرسن آصف علی زرداری کے خلاف ’میڈیا وار‘ اور ’ادارہ جاتی‘ آمریت کے تسلسل سے دہرائے جانے سے خاکسار کی نظر بھٹو کے ’عدالتی قتل‘ کی طرف چلی جاتی ہے جو کہ بہت ہی افسوسناک ہے۔ لیکن یہ دیکھ کر دل کو ڈھارس اور اطمینان بھی ہوتا ہے کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ملک، عوام اور پارٹی کے لیے درست سمت گامزن ہیں اور انہوں نے اپنی سیاست سے واضح کر دیا ہے کہ سیانے کا کہا اور اولے کا کھایا بعد میں سواد دیتا ہے۔ اعتزاز احسن کو گیلانی صاحب سے جلد ہی کچھ سیکھنا ہو گا ورنہ وہ دن دور نہیں جب ان کا نام لینے والا کوئی نہیں ہو گا۔ بہرحال، صدارتی حکم کی معطلی کے باوجود جیالوں میں یہ احساس ایک دفعہ پھر پیدا ہوا ہے کہ وہ ابھی ’یتیم‘ نہیں ہوئے۔
’جب تک سورج چاند رہے گا
زرداری کا نام رہے گا‘

Farooq:

ہمارے ہاں کہاوت ہے کہ جس کے پاس طاقت ہوتی ہے گمراہ ہو جاتا ہےجیسے کہ اب افتخار ہو گئے ہیں لیکن ان کا انجام بھی مشرف جیسا ہی ہو گا۔

Source: BBC Urdu

Comments

comments

WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.