Pakistan: Ladder and freedom
Pakistan is a blessed country to have a written constitution enshrined human rights guarantees, with diverse political representation and a respect for difference of opinion. The media in Pakistan are enjoying freedom of expression, political parties and civil society groups are enjoying freedom of association, and the women have the right to drive here. We are in a much better place than other countries, but despite all those liberties there are section of society that don’t accept it, and they are continuously cursing democracy.
Some of the countries that have the worst human rights records, are trying to aquire a ladder that will reach the freedom and we are denouncing it by assuming snake.
Following is an article for those who curse democracy in Pakistan
پاکستان، سیڑھی اور آزادی
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
یہ درست ہے کہ آج کا پاکستان ہر طرح کی لاقانونیت میں مبتلا ہے۔اٹھارہ کروڑ لوگ ہر صبح یہ خدشہ لے کر اٹھتے ہیں کہ کہیں آج کچھ اور برا نہ ہو جائے۔یہ ٹھیک ہے کہ اس ملک کی بے حال اکثریت کو ریاست نے’جہاں رہو خوش رہو‘ کی دعا دے کر اپنے حال پر چھوڑ رکھا ہے۔لیکن اس گئی گذری صورت کے باوجود پاکستانیوں کو بہت سی ایسی آزادیاں اور سہولتیں حاصل ہیں جنہیں بہت سے ممالک میں آج بھی عیاشی یا مہم جوئی سمجھا جاتا ہے۔
مثلاً پاکستان میں کہنے سننے دیکھنے کی آزادی،
پاکستان اگرچہ صحافیوں کے لیے سب سے خطرناک ملک ہے پھر بھی میڈیا جسے چاہے رگیدنے کا موقع نکال ہی لیتا ہے۔بڑھتے ہوئےشدت پسند رجحانات کے باوجود مصنف، ڈرامچی، اداکار، مصور اور رقاص سسٹم کے بخیے ادھیڑ سکتے ہیں اور اسے اب بھی روزمرہ زندگی کا لازمی اور معمول کا حصہ سمجھ کر فار گرانٹڈ لیا جاتا ہے۔ لیکن بیشتر مشرقِ وسطائی، ایشیائی، روسی، افریقی اور لاطینی میڈیا اور اہلِ ہنر کے لیے اس سے آدھی آزادی آج بھی ایک خواب ہے۔کئی ممالک میں ڈش انٹینا غیرقانونی ہے اور انٹرنیٹ کی سٹریم بھی جاسوس نگاہوں سے بچ کر نہیں گذر سکتی۔
پاکستان میں صنعتِ لطائف سازی،
اس تناظر میں صدر آصف علی زرداری پاکستان کے ایس ایم ایس بازوں کی محبوب شخصیت ہیں۔لیکن شاہ عبداللہ، آیت اللہ خامنای، کم یونگ ال، راجہ مہندرا پکسے اور نور سلطان نذر بایوف سمیت بیسیوں حکمرانوں کے لطائف زرا ان کی رعایا ایس ایم ایس پر بھیج کر تو دیکھے۔بھیجنے والا موبائل فون سمیت اگلے روز کسی کو نظر آجائے تو معجزہ سمجھئے گا۔
بحرین کو ہی لے لیں جہاں گذشتہ ہفتے ہی ایک بائیس سالہ شاعرہ آیت القرمزی کو یہ حکومت مخالف نظم لکھنے اور کھلے عام پڑھنے کی پاداش میں ایک سال سزائے قید سنا دی گئی۔
سنو ہم لوگ وہ ہیں
جو کبھی محلوں میں رہنے کی کوئی خواہش نہیں رکھتے
نہ ایوانوں میں گردش کی تمنا دل میں پلتی ہے
ہماری جستجو ہے بس خودی زندہ رہے ہم میں
ہماری جنگ ہے افلاس سے
کہ ہم وہ لوگ ہیں جن کا اسلحہ
بس امن ہے صرف امن
یہ ظلمت کی جڑوں کو کاٹ ڈالے گا
سو ظالم کو کھٹکتا ہے
ہماری اور سب لوگوں کی یہ بد بختی
ہمیشہ کے لیے کب ہے
پاکستان میں آزادیِ احتجاج،
آج کے پاکستان میں مسئلہ حل ہو نہ ہو لیکن کوئی بھی سڑک پر ٹائر جلا سکتا ہے، دھرنا دے سکتا ہے، سرکاری املاک پر پتھراؤ کر سکتا ہے، ریلی نکال سکتا ہے اور پھٹے پے کھڑے ہو کر جہاں چاہے تقریر کر سکتا ہے۔
زرا سرکاری حکام کی جانب سے تحریری اجازت کے بغیر ایسی عیاشی مناما، ہوانا، ہنوئی، بیجنگ، ماسکو، اشک آباد یا مسقط وغیرہ میں تو فرمائیے۔ کھال میں بھوسہ نہ بھروا دیا جائے تو بات ہی کیا ہے۔
پاکستان میں ووٹ کی آزادی،
پاکستان کا انتخابی نظام جتنا بھی لنگڑا لولا سہی پھر بھی کثیر الجماعتی ہے اور بوگس انتخابی فہرستوں کے باوجود بھانت بھانت کا امیدوار انتخابی مہم چلانا اپنا پیدائشی حق سمجھتا ہے۔لیکن ایران میں صرف وہی امیدوار انتخابات میں کھڑا ہوسکتا ہے جسے اعلیٰ سرکاری مذہبی قیادت نے چھان بین کے بعد اجازت دی ہو۔قزاقستان، ازبکستان، کرغیزیہ اور تاجکستان جیسے ممالک کی انتخابی دوڑ میں صرف ایک ہی گھوڑا دوڑتا ہے۔
کینیا، یوگنڈا ، کانگو، زمبابوے، موزمبیق یا مڈغاسگر جیسے ممالک میں کہنے کو کثیر الجماعتی نظام ہے لیکن حکمراں پارٹی کے زیادہ تر امیدواروں کا بلامقابلہ منتخب ہو جانامعمول ہے۔بس سرکاری کارندے مخالف امیدوار سے صرف یہ درخواست کرتے ہیں کہ جنابِ والا آپ ہمارے حق میں بیٹھنا پسند کریں گے یا پھر لیٹنا پسند کریں گے۔جبکہ مشرقِ وسطی کے کئی ممالک میں عام انتخابات کی اصطلاح ہی بدعت سمجھی جاتی ہے۔
پاکستان میں ڈرائیونگ کی آزادی،
سعودی عرب میں انیس سو نوے میں سینتالیس خواتین کو کار ڈرائیو کرنے کے جرم میں جیل بھیج دیا گیا اور اکیس برس کے لیے خاموشی چھا گئی۔لیکن گذرے جمعے بیسیوں سعودی خواتین نے یہ پابندی اجتماعی طور پر توڑتے ہوئےگاڑیاں ڈرائیو کر کے امتیازی قوانین کو چیلنج کیا۔
کیا آج کے لاہور، کراچی، اسلام آباد یا پشاور میں کسی متوسط خاتون کو یہ بات سمجھائی جا سکتی ہے کہ ڈرائیونگ کی آزادی کروڑوں عورتوں کے لیے کتنا بڑا خواب ہے۔
پر عجب ہے کہ جن کے پاس یہ آزادیاں نہیں وہ ان کی خاطر مار کھانے، جیل جانے اور مرنے کے لیے بھی آمادہ ہیں اور جنہیں یہ آزادیاں جیسےتیسے میسر ہیں وہ انہیں ایک مضبوط سیڑھی بنا کر اور اوپر جانے کے بجائے سیڑھی کو ہی سانپ سمجھ رہے ہیں یا سانپ بتا رہے ہیں۔
Source: BBC URDU