شیعہ سنی بھائی بھائی، تکفیری وہابی کی شامت آئی ۔ گل زہرا
شیعہ اور سنی اسلام کے دو مضبوط بازو ہیں جبکہ وہابیت اسلام کی پیشانی پر بدنما داغ ہے۔
بہت ضروری ہو گیا ہے کہ لوگوں کو بتایا جائے کہ شیعہ ، سنی اور وہابیت میں کیا فرق ہے ۔ بہت سے افراد اپنی نادانی کی بناء پر سمجھتے ہیں کہ وہابیت ، اہلسنت کی شاخ ہے اور وہابیت کے خلاف بات کرنا اہلسنت کیخلاف بات کرنا ہے ۔ یہ خیال سراسر جہالت و کم علمی پر مبنی ہے ۔ ہر ذی شعور اور باعلم انسان جانتا ہے کہ شیعہ اور سنی اسلام کی اصل ہیں جبکہ وہابیت کے اصول آج سے کچھ عشروں پہلے سعودی عرب میں امریکا و اسرائیل کی فرمائش پر وضح کئے گئے تھے ۔
بات یہ ہے صاحبو کہ جب جدید ٹکنالوجی نے اسلام کے متعلق ریسرچ کے ذرائع کثرت سے ہموار کر دئے تو غیر مسلم جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے۔ ایسے میں عالمی استکبار کے پاس سوائے اس کے کوئی دوسرا چارہ کار نہیں بچا تھا کہ وہ غیر مسلمانوں کو اسلام سے متنفر کر سکیں۔ ان کے پاس صرف ایک ہی چارہ کار تھا کہ وہ خود مسلمانوں کے درمیان ایسا فرقہ پیدا کریں جو بظاہر مسلمان ہوں لیکن باطنی طور پر ان کے مقاصد کو پورا کرتے ہوں۔ وہابیت امریکہ اور عالمی استکبار کا پیدا کردہ وہی فرقہ ہے جس کا مقصد صرف محمدی اسلام کو نابود کرنا اور امریکی اسلام کو دنیا میں نافذ کرنا ہے۔
یہ فرقہ آل سعود کا ایجاد کردہ ہے ؛ جی ہاں وہی آل سعود جس نے سر زمین وحی حجاز پر اپنا قبضہ جما کر اسکا نام بدل کر سعودی عرب رکھا اور دوسری طرف دشمنان اسلام کے ساتھ دوستانہ روابط قائم کر کے اسلامی سرمایے کو ان تک منتقل کر دیا۔ وہی آل سعود جسکی عشرت کوشی ، شراب نوشی ، عورت بازی اور کعبہ خوری کے تذکرے زبان زد عام ہیں ۔ وہی آل سعود جو آج خادمین حرم بنی اسرائیل میں اپنے سفارتکار بھیج رہی ہے ، یمن پر حملے کر رہی ہے اور اپنے اسرائیلی آقائوں کو راضی کرنے کے لئے آجتک فلسطین کے حق میں نہیں بولی اور وہی آل سعود جسکی پیشانی پر جنت البقیع کے انہدام کا داغ ہے جہاں رسول اکرم ص کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ زہرا سلام علیہا سمیت متعدد صحابہ و آلِرسول ص کی قبور ہیں۔
بر سبیل تذکرہ یہ بھی بتا دوں کہ اسلام میں فرقوں کی دو شاخیں ہیں : شیعہ اور سنی ۔ شیعوں میں جعفری ، اسماعیلی اور زیدیہ جبکہ سنیوں میں بریلوی ، حنفی ، شافعی ، مالکی فرقے ہیں ۔ یہ تمام فرقے کچھ دینی و تاریخی اختلافات رکھنے کے باوجود ایکدوسرے کا احترام کرتے ہیں ۔ مل جل کر رہتے ہیں ، یہی وہ فرقے ہیں جو “شیعہ سنی بھائی بھائی ہیں” ۔ ان میں وہابی دیوبندی شامل نہیں (اگرچہ دیوبند کی تاریخ الگ ہے لیکن اختصار کےلئے یہاں صرف وہابیت کا ذکر کر رہی ہوں) ۔ وہابی وہ ہیں جو مذہبی شدت پسند ہیں ، تکفیر کے قائل ہیں ، مزاروں پر جانا شرک سمجھتے ہیں ۔ پیارے نبی محمد ص بن عبداللہ کے اسلام اوروہابیت محمد ابن عبد الوہاب (وہابیت کا بانی) کے اسلام میں تین بنیادی باتوں کا فرق ہے۔
1۔حقیقی اسلام اور وہابیت میں پہلا فرق، بے رحمی، بے دردی اور تشدد ہے۔ جو کہ حقیقی اسلام کی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔ وہابیت کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنی خاندانی بادشاہت کے لیے جرم کی آخری حد تک بھی جا سکتے ہیں۔
2۔حقیقی اسلام اور وہابیت میں دوسرا بنیادی فرق یہ ہے کہ ہمارا ایمان ہے کہ کوئی بھی شخص جو شہادتین کا اقرار کرے نبوت اور قیامت پر ایمان کا اظہار کرے وہ مسلمان ہے اور اس کی جان و مال، عزت و آبرو محفوظ ہے ،چاہےوہ مرد ہو یا عورت ،جبکہ وہابیت کا نظریہ ہے کہ جو بھی وہابیت کے نظریے سے اختلاف کرے وہ کافر اور واجب القتل ہے (یعنی تکفیریت)
3۔تیسرا بنیادی فرق یہ ہے کہ اسلام اپنے ان مسلمان بہنوں اور بھائیوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کا حکم دیتا ہے جو اسلام کےخلاف کھلم کھلا دشمنی کا اظہار نہ کریں۔ قرآن کا بھی یہی حکم ہے لیکن اس کے برعکس سعودی حکمران اپنی ہی مسلمان بہنوں کا بازار میں سودا کرتے ہیں۔ جیسا کہ یمن، شام اور عراق میں مسلمان خواتین کے ساتھ ہو رہا ہے۔
آج دنیا میں جتنے شدت پسند گروہ ہیں جو اپنا تعلق اسلام سے بتاتے ہیں ان میں نہ کوئی شیعہ ہے نہ سنی بلکہ سبکے سب وہابی دیوبندی ہیں ۔ یہی داعش ، طالبان ، بوکوحرام ، سپہ صحابہ پاکستان ، لشکر جھنگوی ، اہلسنت و الجماعت نامی گروہوں کا مذہب ہے ۔
سنی بھائیو سے گزارش ہے کہ خود کو اس گمراہ فرقے سے الگ کریں اور اپنا دامن بچاتے ہوئے اس فرقے کے ساتھ بیزاری اختیار کریں تاکہ سب کے لیے یہ آشکار ہو جائے کہ وہابیت نامی ٹولے کا اسلام حقیقی سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ اور ہاں آخر میں بتا دوں کہ دنیا کے بیشتر ممالک کے اہلسنت علماء بشمول مصر کی جامعہ الازہر کے سربراہ شیخ احمد اطلیب نے واضح کر دیا ہے کہ وہابیوں کا اہلسنت سے کوئی تعلق نہیں