شیعہ نسل کشی، ایک حقیقت ۔ گل زہرا

20 ستمبر 2011 کو کوئٹہ مستونگ میں مسلح افراد کا ایک جتھہ زائرین کی بس کو روکتا ہے، اعلان کرتا ہے کہ سنی بس سے اتر جائیں اور تصدیق کےلئے شناختی کارڈ سے نام دیکھتا ہے۔ جس جس کی تشخیص حسن، عباس، حسین، مہدی ، نقی، جواد ، زینب، سکینہ، کلثوم اور دیگر شیعہ ناموں سے ہوتی ہے، انہیں گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے اور نتیجے میں 26 شیعہ شہید اور 6 زخمی ہوتے ہیں جن میں سے مزید 3 کو شہید کر دیا جاتا ہے۔ اسوقت کے وزیر اعلی بلوچستان اسلم رئیسانی ورثاٗ کے زخموں کو مندمل کرنے کےلئے کہتے ہیں ’دس لاکھ کی آبادی میں سے 40 کا مارے جانے اتنی بڑی بات نہیں ہے‘ ۔

جی جناب، یہ ذکر ہے پاکستان کی ہزارہ شیعہ کمیونٹی کا ، جنکی تعداد پاکستان میں دس لاکھ کے لگ بھگ ہے[یعنی واشنگٹن ڈی سی کی آبادی سے زیادہ]۔ ہزارہ قوم ’ہزارہ جات‘ سے ہجرت کر کے پاکستان آئی اور اس خطے میں ڈیڑھ صدی سے زیادہ عرصے سے آباد ہیں، یعنی کئی پاکستانیوں سے زیادہ نسلی پاکستانی۔
حالیہ شیعہ نسل کشی کے واقعات میں ہزارہ کمیونٹی پرقریبا 120 حملے ہوئے [صرف2012 میں 56 حملے] اور ڈیڑھ ہزار سے زیادہ ہزارہ شیعہ شہید جنکہ لگ بھگ ساڑھے تین ہزار زخمی ہوئے ہیں ۔ ان میں سے زیادہ تر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی ممتاز شخصیات تھیں تاہم ان میں ایک بڑی تعداد شیرخوار بچوں کی بھی ہے ۔ یہ صریحا نسل کشی نہیں تو اور کیا ہے؟ بچے کچے ہزارہ یا خوف و ہراس میں زندگی بسر کر رہے ہیں یا پاکستان سے ہجرت کرنے پر مجبور ہیں یہ نسل کشی نہیں تو کیا ہے ؟ صاف ظاہر ہے کہ دہشتگردوں کا واحد ایجنڈہ ہزارہ شیعہ نسل کشی کرنا ہے چاہے وہ کوئی ممتاز شخصیت ہو یا کوئی ہزارہ سبزی فروش۔

یہ بھی بتا دوں کہ اکثر حملوں میں کالعدم لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ ، اہلسنت و الجماعت کے دہشتگرد باقاعدہ پمفلٹس کے ذریعے ہزارہ شیعہ کمیونٹی کو کوئٹہ سے نکلنے اور بات نہ ماننے کی صورت میں سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکی دے چکے ہیں۔ جیسا کہ جنوری 2013 علمدار روڈ جس میں دو سو سے زیادہ شیعہ شہید ہوگئے تھے، کہ بعد لشکر جھنگوی کا بیان آیا کہ چونکہ انکی الٹی میٹم کی مدت ختم ہو چکی ہے اسلئے اب انکا نام صفحہ ہستی سے مٹانے کےلئے کاروائیاں کی جائیں گی ۔ یہ نسل کشی نہیں تو کیا ہے؟

ہزارہ نہ صرف محب وطن پاکستانی شیعہ ہیں بلکہ ایک طرح سے پاکستان کے محسن ہیں ۔ پاکستان ایئر فورس کی پہلی خاتون پائلٹ سائرہ بتول کا تعلق اس عظیم ہزارہ کمیونٹی سے ہے۔ تحریک پاکستان میں بلوچستان سے نمایاں کردار ادا کرنے والے قاضی محمد عیسیٰ کا تعلق بھی ہزارہ برادری سے تھاجبکہ 1958سے 1968تک پاکستانی فوج کے کمانڈر ان چیف رہنے والے جنرل محمد موسیٰ اور ایئر مارشل شربت علی چنگیزی کا تعلق بھی اسی بہادر قبیلے سے ہے۔

موجودہ حکومت سے تو کوئی امید ہی نہیں کہ وہ کالعدم گروہوں کے خاتمے کی جانب کوئی عملی قدم اٹھائے کہ یہ جماعتیں مسلم لیگ ن کی بغل بچہ ہیں ساتھ ہی ملک کی سکیورٹی ایجنسیاں بھی ان جماعتوں کی ہمدرد ہیں جیسا کہ ماضی میں کئی بار دیکھا جا چکا ہے ، کم سے کم اتنا شعور عوام تو پیدا کرے کہ پاکستان میں جاری شیعہ نسل کشی کا ادراک کرے اور اسکے خلاف ملکر آواز اٹھائے کہ اس مملکتِ خداداد میں آج میری تو کل تمہاری باری ہے !

Comments

comments