یوم آزادی پر سوچیں کہ کیا ہم آزاد ہیں ؟
آج انہتر ویں سالگرہ ہے ہمارے اس پاک ارض وطن کی ۔ اڑسٹھ سال پہلے آزادی حاصل کی ہم نے بہت سی جانوں کو لٹا کر ‘مال و اسباب سے ہاتھ دھو کر بہت سے رشتوں کو داؤ پر لگا کر ۔ کیونکہ اس آزادی کو حاصل کرنے کی خواہش میں بھائی ‘ بھائی سے الگ ہوا ۔ مائیں اپنے جگر گوشوں سے الگ ہوئیں اور اس دھرتی کو بسا کر اس کو زینت دی۔ کیا وہ آزادی تھی ؟
جی ہاں وہ آزادی تھی ۔ وہ سوچ کی آزادی تھی ‘وہ ذہنوں کی آزادی ہی تھی جس نے اس قوم کو اپنے الگ تشخص کی حفاظت کے لئے کھڑا ہونے پر آمادہ کیا وہ آزادی کیلئے مر مٹنے کی خواہش ہی تھی جس نے مسلمانان برصغیر کو اپنے مقصد کو پانے کیلئے مضبوط قوت ارادی اور عزم و ہمت سے نوازا کہ ہر مصیبت و امتحاں سے ٹکرا جائیں گے لیکن اسکو مات دے کر ہی چھوڑیں گے۔ جی ہاں !وہ آزادی ہی تو تھی ۔ یہ تھا اپنےمقصد کو پا لینے کا یقیں ۔
~ غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں’
جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں ۔
آج سب کی زبانوں پر ایک ہی بات ہے کہ ہم نے ملک آزاد کروالیا لیکن ذہن ابھی بھی غلامی ذدہ ہیں ۔
لیکن کیا وہ ذہنی آزادی نہ تھی جس نے آزادی کیلئے آواز اٹھانے کی ہمت دی اور اپنا حق حاصل کرنے پر ابھارہ ؟
لیکن ہم نے یہ ذہنی آزادی ملک کو آزاد کروانے کے بعد تب کھوئی جب ہم نے قربانیاں دینے سے منہ موڑ لیا کہ بھئی بس بہت دے لیں قربانیاں اب تو عیش کرنے کے دن ہیں ۔
ہاں ! ہم اپنی ذہنی آزادی کو اسی دن کھو چکے تھے جب ہم خود غرضی کا شکار ہوگئے جب ہوس جاہ کا راستہ اپنا لیا ‘ جب ہمارے دل اخلاص سے خالی ہو گئے ۔ جب اقتدار کی لالچ نے دلوں میں گھر کر لیا ۔ جب ان قربانیوں کو (جو اس آزادی کی راہ میں دی گئی تھیں) وقعت دینے میں کو تاہی سے کام لیا گیا۔
قائد اعظم رح نے فرمایا تھا کہ ” اس وطن کو حاصل کرنے کیلئے ہم نے بہت سی قربانیاں دی ہیں لیکن اس کو قائم رکھنے کیلئے مزید قربانیاں دینا ہوں گی ۔”
اب ایسا بھی نہیں کہ اس قوم نے کوئی قربانی نہیں دی ۔ ہاں دی ہے ناں ! اپنی شرافت کی قربانی دی ہے سچائی کو قربان کیا ہے عدالت کو زندہ درگور کیا ہے ۔ انصاف کا قتل کیا ہے ۔ اخلاص کی اور دیانت داری کی قربانی دی ہے ۔اخوت اور محبت کو اپنی خود غرضی پر نثار کیا ہے۔ اپنی تاریخ اور اپنی تہذیب و ثقافت کو قربان کیا ہے۔ اپنے شعور کی قربانی دی ہے۔
جس نظریے پر یہ آزادی حاصل کی تھی اس نظریے کو اس ذہنی غلامی کے عوض بیچ دیا ہے ۔ یاد رہے !کہ اس نظریہ کا زندہ رہنا اس وطن کی زندگی کی ضمانت ہے۔ اور اس نظریے کو زندہ رکھنے کیلئے قربانیوں کی ضرورت ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کن چیزوں کی قربانی کی ضرورت ہے ؟؟
تو سنیے ! آج ہمیں اپنی خود غرضی کو قربان کر دینے کی ضرورت ہے ۔ بد دیانتی اور نا انصافی کی قربانی چاہیئے ۔ نخوت’ نفرت اور بد اخلاصی کو قربان کرنا ہے۔ اپنی ہوس اور نفس پرستی کو درگور کردینے کی ضرورت ہے۔ ہم اپنے فوجی جوانوں کی قربانیاں تو دے رہے ہیں مگر اپنی غفلتوں کو قربان کر دینے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔
کیا یہ قوم تیار ہے ان قربانیوں کیلئے ؟؟
~ ممکن نہیں محکوم ہو آزاد کا ہمدوش ‘
وہ بندہء افلاک ہے یہ خواجہء افلاک ۔
جب ہم یہ قربانیاں دیں گے تو وہ دن دور نہیں رہے گا جب ہم اس پاک سر زمیں کو رفعت اور عظمت کی بلندیوں پر دیکھیں گے۔ انشا اللہ ۔
~ نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے’
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی ۔
آپ تمام دوستوں کو آج یوم آزادی بے حد مبارک ہو ۔ خدا اس ارض پاک کو ہمیشہ قائم و دائم رکھے اورہمیں اپنے اس عظیم قائد کی خواہش کو سچ کر دکھانے کی توفیق دے ! آمین الٰہی آمین !
~ اے ارض پاک تیری حرمت پہ کٹ مرے ہم ‘
ہے خوں تیری رگوں میں اب تک رواں ہمارا ۔
تحریر :
سمانہ بتول
پاکستان !!!!!
زندہ باد !
قائد اعظم !!! پائندہ باد !