ایران اور سعودی عرب کا تقابل؟ کچھ تو انصاف سے کام لیجیے – از امجد عباس
حبیبی ھنا صعوبات کثیرۃ:
حبیبی عرب لیگ، صرف بیان بازی سے کچھ نہیں ہوگا۔ ایران میں جمہوریت ہے، وہاں حکمران اور اندازِ حکمرانی بھی بدلتے رہتے ہیں۔ صدر محمد خاتمی معتدل مزاج سمجھے جاتے تھے جبکہ احمدی نژاد سخت نظریات کے حامل۔ ابھی ڈاکٹر حسن روحانی بھی معتدل فکر کے حامل شمار کیے جاتے ہیں۔
دیگر ایرانی صدور کی طرح موجودہ صدر بھی بہت اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، انہوں نے مذہبی تعلیم کے ساتھ یورپ سے جدید علوم میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی لے رکھی ہے۔ انہوں نے یورپ اور باقی دنیا کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کافی کوششیں کی ہیں۔ ایرانی “مُلائیت” افغان ملائیت کی طرح جاہل بالکل بھی نہیں، نہ اُن جیسی سخت گیر و قدامت پسند۔
ایران میں سیاسی حوالے سے کوئی بڑی تبدیلی آئی بھی تو نظام اتنا متاثر نہ ہوگا، کیونکہ وہاں پہلے بھی جمہوری ڈھانچہ موجود ہے، لیکن اصل مسئلہ عرب ممالک میں موجود “شہنشاہت” کا ہے۔ ذرا سی تبدیلی سے بھی اِس کی بساط لپیٹی جائے گی۔ اگر عرب سپرنگ جیسی کوئی عوامی تحریک دوبارہ سر اٹھاتی ہے تو ملوکیت کا باقی رہنا بہت دشوار ہوجائے گا۔
عرب ممالک کو ایران سے یہی ڈر ہے کہ یہ اِن ممالک میں عوامی بیداری کا باعث نہ بن جائے۔ شیخ باقر النمر کا جرم بھی ملوکیت کے خلاف آواز اٹھانا ہے، ورنہ سعودیہ میں شیعہ و سُنی فرقہ وارانہ اختلافات نہیں ہیں۔ امریکہ و مغرب پوری دنیا میں جمہوریت اور عوامی حکمرانی کی بات کرتے جبکہ اِن عرب ممالک کے متعلق اِن کی مناقفت دنیا پر عیاں ہے۔
عرب بادشاہو! اب وقت بدل چکا ہے، کب تک عوام کو مختلف کہانیاں سُنا کر خاموش کرو گے، حالیہ تحریک کو “فرقہ وارانہ” قرار دیکر خاموش کیا تو کوئی اور تحریک جنم لے لے گی، ایران کو دھمکانے کی بجائے تُم اقتدار عوام تک منتقل کرو، یہی مسئلے کا حل ہے۔
زیادہ عرصہ مختلف حیلوں، بہانوں سے عرب عوام کو تُم غلام نہیں رکھ سکتے، سو ایران کے خلاف بیانات سے تمہاری ملوکیت باقی نہیں رہ سکتی۔۔۔ عرب شہنشاہو! اصل مسائل پر توجہ دو۔
سادہ لوح احباب: بادشاہوں کا کوئی دین نہیں ہوتا، اُن کا ہدف صرف “تخت بچانا” ہوتا ہے