‘Generals can be served notices.’ Really? When?
جرنیلوں کو بھی نوٹسز جاری کیے جائیں گے
شہزاد ملک
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
عدالت نے بینچ کی تشکیل پر اُٹھائے جانے والے اعتراضات کو مسترد کردیا
سپریم کورٹ کے جج جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا ہے کہ تین نومبر سنہ دوہزار سات کے سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ کی حکم عدولی کرنے والے جرنیلوں کو بھی توہین عدالت کے نوٹسز جاری کیے جائیں گے۔
پیر کے روزسابق ملٹری ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے دوسرے عبوری آئینی حکم نامے کے تحت حلف اُٹھانے والے ججوں کو توہین عدالت کے نوٹسز کی سماعت کے دوران انھوں نے کہا کہ اس ضمن میں قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے سات رکنی بنچ نے تین نومبر سنہ دو ہزار سات کو پرویز مشرف کی نافذ کردہ ایمرجنسی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اپنے فیصلے میں چیف آف آرمی سٹاف، کمانڈروں، سٹاف افسروں اور تمام متعلقہ سول اور فوجی حکام کو بھی عبوری آئین پر عمل درآمد سے روک دیا تھا۔ ان کو سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں سے عبوری آئین کے تحت حلف لینے اور کوئی بھی ایسا کام کرنے سے بھی روک دیا گیا تھا جو عدلیہ کی آزادی کے منافی ہو۔
حسنات احمد اور شبر رضا کے وکیل عبدالباسط کا کہنا تھا کہ سات رکنی بینچ کے حکم کی خلاف ورزی کرنے پراعلٰی عدالتوں کے جج صاحبان کو تو نوٹس جاری ہوگئے لیکن جب تک اُن فوجی جرنیلوں کو بھی توہین عدالت کے نوٹسز جاری نہیں ہوتے تو انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوں گے۔
جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ عدالت اس ضمن میں تمام حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون کے مطابق اقدام کرے گی۔
جسٹس ایم شاہد صدیقی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے چار رکنی بینچ نے اُن سات جج صاحبان کی درخواستوں کی سماعت کی جنہیں توہین عدالت کے نوٹسز جاری ہوئے ہیں۔
اکتیس جولائی سنہ دوہزار نو کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں غیر آئینی قرار دیے جانے والے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کے علاوہ لاہور ہائی کورٹ کے دو جج صاحبان حامد علی اورافتخار حسین کے علاوہ پشاور ہائی کورٹ کے جج جہانزیب رحیم نے ان نوٹسز کی سماعت کرنے والے بینچ کی تشکیل پر اعتراض کیا تھا۔
اعلٰی عدلیہ کے جن جج صاحبان کو توہین عدالت کے نوٹسز جاری کیے گئے ہیں اُن سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہے بلکہ اُن کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہور ہی ہے
عدالت
ان ججوں کے وکلاء کا کہنا تھا کہ توہین عدالت کے نوٹسز کی سماعت کرنے والے جج صاحبان میں وہ جج بھی شامل ہیں جنہوں نے عبدالحمید ڈوگر سے بھی حلف لیا ہے۔ ان وکلاء کا کہنا تھا کہ عبدالحمید ڈوگر غیر آئینی تھے تو پھر اُنہوں نے جن ججوں سے حلف لیا ہے وہ کیسے آئینی ہوسکتا ہے۔
اس کے علاوہ اس بینچ میں شامل کچھ ججوں کے ساتھ اُن کے موکلوں کے ذاتی اختلافات بھی رہے ہیں۔
عدالت نے بینچ کی تشکیل پر اُٹھائے جانے والے اعتراضات کو مسترد کردیا اور کہا کہ اعلٰی عدلیہ کے جن جج صاحبان کو توہین عدالت کے نوٹسز جاری کیے گئے ہیں اُن سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہے بلکہ اُن کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہور ہی ہے۔
بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ تین نومبر سنہ دوہزار سات کو جج تقسیم ہوئے تھے ایک طرف وہ جج صاحبان تھے جنہوں نے سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ کے فیصلے پر عمل کیا جبکہ دوسری طرف وہ جج صاحبان تھے جنہوں نے ملٹری ڈکٹیٹر کے حکم کو تسلیم کرتے ہوئے عبوری آئینی حکم نامے کے تحت حلف اُٹھایا۔
ان نوٹسز کی سماعت منگل تک ملتوی کردی گئی۔ان ججوں کے وکلاء نے بینچ میں شامل تین جج صاحبان کی شمولیت پر اعتراضات اٹھائے۔ ان تین ججوں میں بینچ کے سربراہ کے علاوہ جواد ایس خواجہ اور طارق پرویز شامل ہیں۔
یاد رہے کہ اس سے پہلے بھی ان ججوں کے وکلاء کی طرف سے بینچ کی تشکیل پر اُٹھائے جانے والے اعتراضات پر دو مرتبہ ان نوٹسز کی سماعت کرنے والے بینچ ٹوٹ چُکے ہیں
Source: BBC Urdu
‘Generals can be served notices’
By: Terence J Sigamony | Published: December 14, 2010
ISLAMABAD – A four-member bench of the Supreme Court on Monday dismissed the objection raised by the PCO judges in a contempt of court case and rejected their plea for reconstitution of new bench.
Head of the bench Justice Mahmood Akhtar Shahid Siddiqui while announcing the verdict, remarked that the objection raised by PCO judges’ counsel are not valid. Therefore, the request is dismissed, the objections are not enough for the recusal of the judges from the bench and to reconstitute the bench, he added.
Dr Abdul Basit, counsel for Justice Hasnat Ahmed Khan and Justice Shahbar Raza Rizvi, asked, “Why only the judges, who had taken oath under PCO, and not the Army Generals were actually involved in the November 3, 2007 unconstitutional step, were not served contempt of court notices.
Justice Jawwad S Khawaja said, “They would also be called if need arises.”
Basit argued that people would that the decision by this bench would reflect bias against the PCO judges. But Justice Shahid stated, “Not people but you are saying it.”
Justice Jawwad asked the counsel to tell out of 17 members of the Supreme Court, whom you trust and was not part of the movement for the restoration of judges.
Justice Shahid said that usurper and those who had violated the Constitution were right but those who had followed the Constitution and refused to take oath under PCO are wrong. He said on July 31 the issue of PCO judges was decided.
Justice (Retd) Abdul Hameed Dogar voiced concern over Justice Tariq Pervaiz and Justice Khilji Arif Hussain, saying that they have taken oath from him, while Justice Rahim has sought the recusal of Justice Mahmood Akhtar Shahid Siddiqui, Justice Jawwad S Khawaja and Justice Tariq Parvez. Justice (retd) Iftikhar Hussain Chaudhry and Justice Hamid Ali Shah have also objected to judges of four-member bench.
Source: The Nation