پاؤں زخمی سہی ڈگمگاتے چلو – از ریاض سہیل

131120192951_baloch_missing_persons__304x171_bbc_nocredit

کراچی سے کوئٹہ جانے والی سڑک پر ایک بچہ ٹرالی لیے چلا جا رہا ہے، اس ٹرالی میں پانی کی بوتلیں، کلر سپرے، تصاویر اور ایک سپیکر موجود ہے جبکہ آٹھ خواتین سمیت دو درجن کے قریب افراد اس کے پیچھے آ رہے ہیں۔

تپتی سڑک، بدلتے موسم کی ہوائیں اور ساڑھے سات سو کلو میٹر کا طویل پیدل سفر۔ کون ماں خوشی سے دس سال کے بیٹے کو اس سفر پر روانہ کرسکتی ہے؟ لیکن حیدر علی نے اس سفر اور اس ٹرالی کو اپنی ذمہ داری سمجھ کر قبول کیا۔

ٹرالی کا بوجھ حیدر کے وزن سے کہیں زیادہ ہے، اس ہی طرح اس کے خیالات بھی عمر کے لحاظ سے کہیں بھاری ہیں۔ وہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے جاری مارچ میں اپنی دو بہنوں کے ساتھ شریک ہے۔

حیدر کے والد رمضان بلوچ کو جب اٹھایا گیا تو وہ ان کے ساتھ موجود تھے، ان کا کہنا ہے کہ والدہ نے انھیں کہا تھا کہ ماما قدیر کے ساتھ جاؤ اس کے والد جلد رہا ہوجائیں گے۔

’پاؤں زخمی سہی ڈگمگاتے چلو، اپنی زنجیر کو جگمگاتے چلو۔‘

سندھ کے نامور شاعر شیخ ایاز کی سطور جیسے اس لانگ مارچ کے روح رواں ستر سالہ قدیر بلوچ کے لیے کہے گئے ہوں۔ ان کا ایک پاؤں زخمی ہونے کے بعد سوج چکا ہے ۔گڈانی کے قریب میں نے انھیں کہا کہ اس کی پٹی تبدیل کر لیں تو انھوں نے جواب دیا کہ دیر ہوجائے گی رات کو گڈانی پہنچ کر تبدیل کریں گے۔

قدیر بلوچ کے بیٹے عبدالجیل ریکی لاپتہ ہوئے بعد میں ان کی مسخ شدہ لاش ملی، لیکن یہ حادثہ ان کی جدوجہد کو روک نہیں سکا۔ قدیر بلوچ کے مطابق انھوں نے یہ غم دیکھا اور برداشت کیا تھا اس لیے انھوں نے عزم کیا کہ جو بھی لاپتہ نوجوان ہیں وہ سب ان کے بیٹے ہیں وہ ان کے لیے اپنی زندگی وقف کردیں گے۔

وندر کے قریب ایک کار قدیر بلوچ کے انتہائی قریب سے گذری اور آگے جا کر دوبارہ واپس آئی، مارچ میں شریک نوجوانوں کا ماننا ہے کہ یہ قدیر بلوچ پر حملے کی کوشش تھی، جس سے پولیس کو آگاہ کیا گیا جس کے بعد انھیں چار پولیس اہلکار اور ایک موبائل فراہم کی گئی۔

لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے 27 اکتوبر کو کوئٹہ سے اس پیدل لانگ مارچ کا آغاز کیا گیا تھا۔ پہاڑوں اور میدانی علاقوں کا سفر طے کرکے مارچ کے شرکا اب کراچی کے قریب پہنچ چکے ہیں، راستے میں خاموش دیواروں اور پہاڑوں پر رنگین سپرے کی مدد سے اپنا پیغام تحریر کرتے چلے جا رہے ہیں۔

وندر کے قریب کوسٹ گارڈ کے مقامی دفتر کی دیواروں پر بھی انھوں نے یہ مطالبے تحریر کرنا چاہے لیکن انھیں روک دیا گیا۔

مارچ میں شریک لڑکیوں نے عام گھریلو لباس اور ربڑ کی معمولی چپلیں پہن رکھی ہیں، خصدار سے لاپتہ ڈاکٹر دین محمد کی بیٹی سمی بلوچ بھی ان میں شامل ہیں، جن کا کہنا ہے کہ کوئی تو ان کے درد کو محسوس کرے گا یہ سوچ کر وہ مارچ کا حصہ بنی ہیں۔

’ صبح آٹھ بجے سے رات نو بجے تک سفر کرتے رہے، ہمارے پاؤں پر دانے نکل آئے، ٹانگیں دکھتی ہیں، ہم نے گرمی برداشت کی، اس سفر میں ہمیں کسی چیز کی کوئی پرواہ نہیں کی۔‘

پنجاب اور سندھ کے برعکس بلوچستان کی مرکزی شاہراہ آر سی ڈی پر چھوٹے قصبے اور دیہات ہیں، ابتدائی دنوں میں مارچ کے شرکا راستے میں ہی کھانا پکاتے تھے لیکن بعد میں دوپہر اور رات کو لوگ اپنے گھروں سے کھانا بنا کر ان کے لیے لا رہے ہیں ۔ اس عمل میں لاپتہ اور ہلاک شدہ افراد کے لواحقین آگے آگے رہے یہ دوسری بات ہے کہ وندر سمیت دیگر علاقوں میں بعد میں پولیس اور دیگر ادارے انھیں تنگ کرتے رہے ہیں۔

محدود افراد پر مشتمل یہ قافلہ ریاستی اداروں کے خوف کی بھی عکاسی کرتا ہے ، مارچ کی حمایت تو بلوچستان کی تمام جماعتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے کی ہے لیکن عملی طور پر وہ شریک نہیں، کہیں کہیں چند نوجوان اس مارچ میں شریک ہوکر یکجہتی کا اظہار کرتے رہے۔

مارچ میں شریک فرزانہ مجید کی زندگی کا تکلیف دہ سفر تو چار سال پہلے ہی شروع ہوگیا تھا جب ان کے بھائی ذاکر مجید کو اٹھایا گیا، ان کی جدوجہد نے انھیں ان کئی لڑکیوں کے لیے ماڈل بنادیا جن کے بھائی یا والد لاپتہ ہیں۔

’ ذاکر مجید یا دیگر نوجوانوں نے اگر ریاست کے خلاف پروپگنڈہ کیا ہے تو انھیں عدالت میں پیش کریں، اگر یہ قبول نہیں تو جنیوا کنوینشن اور انسانی حقوق کا عالمی چارٹر موجود ہے ان کی پیروی کریں، یہ تو نہیں کسی کو لاپتہ کردیں، اس پر جسمانی اور خاندان پر ذہنی تشدد کرتے رہیں۔‘

مارچ میں شریک نوجوان اپنے چہرے ڈھانپ کر چلتے ہیں تاکہ ان کی شناخت نہ ہوسکے کیونکہ ماضی میں احتجاج میں شریک نوجوان لاپتہ ہوتے رہے ہیں۔ ان میں سے ہی ایک نوجوان وائر لیس ساونڈ سسٹم کے ذریعے نعرے لگاتا رہا، جس کا سپیکر حیدر علی کی ٹرالی پر موجود تھا۔

یہ لانگ مارچ جمعرات کی شام کو حب سے کراچی میں داخل ہوگا، جہاں یوسف گوٹھ میں ایک روز قیام کے بعد کراچی پریسکلب تک مارچ کیا جائے گا

 

Source :

http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/11/131120_baloch_long_march_rwa.shtml

Comments

comments