کوہاٹی گیٹ میں آل سینٹ چرچ میں اتوار کو سنڈے ماس کرنے والے مرد،عورتوں اور بچوں کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی مذمت کرنے والوں میں پوری قوم شامل ہے-مسلمان گھروں کے اندر صدمے اور شرم ساری کی کیفیت کا سماں ہے-اور ہم سب اپنے مسیحی بھائیوں سے ایسے شرمسار ہیں کہ ان سے دو حرف تسلی کہنے کا حوصلہ بھی نہیں ہورہا ہے-
میں سوموار کو جب ایک احتجاجی ریلی میں شریک ہونے خانیوال کے چرچ میں داخل ہوا تو وہاں فادر شہزاد نیامت،شہزاد فرانسس اور اپنے کامریڈ دوست فہیم عامر کے ساتھ تعزیت کرنے اور ان کے سامنے کچھ مناسب جملے بولنے کی مجھ میں ہمت ہی نہیں تھی-وہ سب میری خاموشی کو محسوس کررہے تھے-اور کہنے لگے کہ میں کچھ کہتا کیوں نہیں ہوں-
پھر خانیوال کے ایک چوک میں ڈسڑکٹ پولیس آفیسر رانا ایاز نے مسیحی برادری سے خطاب کرتے ہوئے کچھ ایسی باتیں کہیں کہ مجھے یوں لگا کہ انہوں نے سب کی ترجمانی کرڈالی-انہوں نے کہا کہ وہ سرگودھا کے ایک مشنری اسکول سے پڑھے اور ان کو اس بات کا اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ انہوں نے تہذیب،شائستگی اور امن سے محبت اپنے مشنری اساتذہ اور عیسی ابن مریم علیہ السلام کی تعلیمات سے سیکھیں اور آج وہ اگر ایک امن پرست آدمی ہیں تو اس مشنری اسکول کی وجہ سے ہیں-انہوں نے بہت پیاری بات کی کہ “چرچ،مسجد،امام بارگاہ،مراکز احمدیہ،مندر اور مزارات پر حملے کرنے اور عبادت کرنے والوں کو مارنے والے انسان ہی نہیں درندے ہیں اور ان کو کسی مذھب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے-کافر اور مومن کا سوال تو انسانوں کے درمیاں زیر بحث آتا ہے-جانوروں کے درمیان نہیں”
ایک ڈسڑکٹ پولیس آفیسر کے منہ سے ایسی عمدہ باتیں سنکر میں واقعی حیران رہ گیا-کیونکہ اس دوران ان کے لب و لہجے سے عجیب سے جذباتیت بھی جھلک رہی تھی-ورنہ میں وردی والوں کو روبورٹ اور جذبات سے عاری سمجھتا آیا ہوں-اور آج کل تو ہماری وردی میں ملبوس فورسز کا جو حال ہے اس کے بعد ان کے حق میں کلمہ خیر کہنے کا یارا مجھ میں تو کم از کم نہیں ہے-
ظلم اور بربریت کی جو آندھی ہمارے ملک میں تحریک طالبان پاکستان اور القائدہ نے اٹھائی ہے اس کے برابر بربریت اور ظلم اگر تاریخ میں کسی گروہ نے مچائی تھی تو وہ گروہ تاتار تھا-لیکن میں تو یہ کہتا ہوں کہ ان طالبانیوں اور القائدیوں و لشکریوں کو اگر کسی سے تشبیہ دینی ہے تو وہ ہلاکو خان نہیں بلکہ وہ نازی ہی ہوسکتے ہیں-ویسے اسلامی تاریخ میں جس گروہ نے سب سے پہلے خانہ خدا کا تقدس برباد کیا تھا وہ ایک تو ابو لولؤ فیروز تھا جس نے عمر فاروق پر حالت نماز میں مسجد کے اندر حملہ کیا تھا یا پھر خارجی عبدالرحمن ابن ملجم تھا جس نے مولا علی پر مسجد میں وار کیا تھا-یہ لعین عبدالمالک تھا جس نے حجاز بن یوسف کو کہا کہ وہ حرم پاک پر حملہ کرے اور تاریخ بتاتی ہے کہ بیت اللہ شریف کو آگ لگ گئی جسے تاریخ “سانحہ حرۃ”کے نام سے یا رکھے ہوئے ہے-لیکن اس وقت کے خوارج اور گروہ بنو امیہ نے کم از کم عورتوں کے خون سے ہاتھ نہیں رنگے تھے مگر آج کے خوارج وہ ہیں جن کے ہاں عبادت گاہوں کی پامالی تو ہے ہی ان کے ہاں عورتوں ،بچوں اور بوڑھوں کو بھی کوئی امان نہیں ہے-اور یہ بربریت اور فسطائت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے-
تحریک طالبان کے حفصہ بریگیڈ کے ترجمان نے کہا ہے کہ انہوں نے خود کش بمبار اس لیے چرچ بھیجے تھے کہ ڈرون حملوں کا بدلہ لیا جاسکے-
میں اس کے جواب میں پہلے تو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ سب سے بڑی جہالت تو یہ ہے کہ ان دھشت گردوں نے اپنی تنظیم کا نام “تحریک طالبان “رکھ ڈالا ہے-یہ کسی بھی اعتبار سے طلباء کی تحریک نہیں ہے-کیونکہ یہ اسلام اور دین محمدی سے کوئی تعلق نہ رکھنے والے جاہلوں کی تنظیم ہے-دوسرا ستم یہ کہ حفصہ جیسے نام رکھکر یہ لوگ اسلام کی عظیم شخصیات کے ناموں کو اپنے بربریت بریگیڈ پر چسپاں کررہے ہیں-تیسری بات یہ ہے کہ جن مسیحی بھائیوں ،بہنوں اور بچوں پر ظالمان بریگیڈ نے حملہ کیا وہ پاکستان کے شہری تھے-وہ تو اپنے ملک پاکستان کے امور میں کسی طرح دخیل نہیں تھے تو ان شہیدوں کا امریکہ کے ڈرون حملوں کی پالیسی سے کیا لینا دینا تھا؟ان میں کون تھا جو امریکی سینٹ،یا کانگریس کا رکن تھا-ان میں سے کون تھا جو سی آئی اے کے ڈرون آپریشن کا نگران تھا؟ان میں سے کون تھا جس کی امریکی کابینہ سے وابستگی ہو؟یقینی بات ہے کہ اس کا جواب نفی میں ہی ہوگا-اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ان کا امریکی ڈرونز پالیسی یا اس کے عمل درآمد سے کوئی تعلق نہیں تھا تو ان کو کیوں مارا گیا؟اس کا جواب تو یہ ملتا ہے کہ چونکہ امریکی بھی کرسچن ہیں تو ان کے افعال و اعمال کا بدلہ پاکستان میں بسنے والے مسیحی برادری سے لے لینا چاہئیے-زرا اس ممکنہ سوال کے ممکنہ جواب پر غور کرلیں-تو پتہ چلے گا کہ ان نام نہاد طالبوں کا تصور عدل اور انصاف قران اور فرامین محمد علیہ السلام کی روشنی میں نمایاں ہونے والے عدل اور انصاف سے کس قدر دور اور اجنبی ہے-اسلام کے اندر جہاد فی سبیل اللہ ایک تو اپنے دفاع میں کیا جاتا ہے-دوسرا ظلم و ناانصافی کے خلاف کیا جاتا ہے-اور ان دونوں طرح کے جہاد میں عورتوں،بچوں اور بوڑھوں پر حملہ حرام ہے-اور کسی بھی صورت میں کسی بھی مذھب کی کی عبادت گاہوں اور ان کے ہاں تقدیس کے قابل کسی بھی شعائر کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں ہے-تحریک طالبان،القائدہ اور ان کے ذیلی دھڑے ان دونوں اصولوں کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہیں-جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا کوئی تعلق اسلام اور اس کی تعلیمات سے نہیں ہے-یہ گروہ خوارج کی طرح اپنے علاوہ باقی سب کی تکفیر ہی نہیں کرتا بلکہ ان کی جان ۔عزت،آبرو سب کی پامالی کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا-“عبداللہ ابن عمر سے بخاری شریف میں ایک روائت آقائے دو جہاں سرور قلب و سینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیان کی ہے جس میں انہوں نے انکشاف کیا کہ خوارج شریر ترین مخلوق ہوں گے کہ جو آیات مشرکین کے بارے میں اتریں ان کا اطلاق مسلمانوں پر کریں گے-دین ان کے ہاتھ سے ایسے نکلے گا جیسے تیر کمان سے نکلتا ہے-یہ دھشت گرد بہانے تلاش کرکے پاکستان کی عوام کے خون کو بہانا جائز بنالیتے ہیں-مجھے اس کالم کے لکھنے کے دوران خیال آیا کہ ان طالبانیوں نے جس دن حکومت کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کی گئی اس کے بعد انہوں نے اپنے حملے تیز کرڈالے-حملے کا نشانہ طالبان کے بقول وہ ہیں جن کا عقیدہ ٹھیک نہیں ہے-اس تعریف کی رو سے اس ملک میں رہنے والے غیر مسلم جن میں ہندؤ،احمدی اور مسیحی سرفہرست ہیں دشمن ہیں-اور پھر یہ سلسلہ یہاں پر رکتا نہیں ہے بلکہ اس سے آگے یہ مسلم مسالک جیسے بریلوی،شیعہ ہیں تک چلا آتا ہے-اور اس فہرست میں وہ سب لوگ بھی شامل ہیں جو لبرل ،سیکولر اور کمیونسٹ کہلاتے ہیں-یہ غیر وہ ہیں جن کو طالبان ختم کرنا چاہتے ہیں-یہ ایک طرح سے سارے سماج کو ایک جیسا بنانا چاہتے ہیں جس میں بس ان کے تصورات کو عقیدہ مان کر رہنے کی گنجائیش ہو-مسلم تاریخ میں طاقت کے زور پر سب کو ایک جیسے عقائد پر لانے کا بیڑا سب سے پہلے خوارج نے اٹھایا تھا-اور پھر طاقت سے اپنے مسلک کو نافذ کرنے کی کوشش قرامطہ نے کی تھی-اور جمہور علمائے اسلام نے ایسی کوششوں کو گمراہ لوگوں کی کوشش قرار دیا تھا-
آج مگر کلمہ حق کہنے والے علماء کا قحط نظر آتا ہے-طالبان اور القائدہ خود کو جس مکتب فکر سے وابستہ بتلاتے ہیں ان کے اکثر مذھبی سردار ان کی مذمت کرنے اور ان سے اظہار برات کرنے کو تیار نہیں ہیں-ان کی جانب سے پاکستان کے اندر خود بارود برسانے والوں کی مذمت نام لیکر کرنے کی کوئی مثال سامنے نہیں آئی-ایسی سیاسی جماعتیں موجود ہیں جن کی قیادت ان بربریت پھیلانے والوں کو اپنا شاگرد کہتی ہے- اور ان کی وکیل بنی ہوئی ہے-
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان،مولانا فضل الرحمان جے یو آئی ایف والے اور پاکستان مسلم لیگ نواز جب بھی دھشت گردی کی کوئی واردات ہوتی ہے تو وہ اس کو طالبان کے خلاف سازش کہتے ہیں-چرچ پر حملے کو انہوں نے طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات نہ ہونے دینے کی سازش قرار دیا-اگر یہ سازش ہے تو پھر اس سازش میں واضح طور ہاتھ تو خود طالبان کا ہے-کیونکہ پاکستان آرمی کے افسران کی ہلاکت کی زمہ داری تحریک طالبان پاکستان کے سوات چیپٹر نے قبول کی تو پشاور میں چرچ حملے کی زمہ داری تحریک طالبان یے ابو حفصہ بریگيڈ نے قبول کی ہے-اس کے بعد الزام امریکہ کی سی آئی اے،بھارتی راء یا اسرائیل کی موساد پر دھرنا کہاں کی منطق ہے-ایسی مذھبی یا سیاسی قیادتیں لوگوں کے زخموں پر مرھم رکھنے کی بجائے ان کو مزید کریدنے کا باعث بن رہے ہیں-
عمران خان کے ساتھ لیڈی چئیرنگ ہسپتال میں جو کچھ ہوا وہ دراصل ان کی جانب سے دھشت گردوں کی حمائت کرنے اور ان سے نرمی برتنے کا لازمی اور ناگزیر نتیجہ ہے-ایسے مزید رد عمل کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہئے-
آئی ایس پی آر کے ترجمان عاصم باجوہ نے آمنہ تاثیر کے ایک سوال کا ٹیوٹ جواب دیتے ہوئے کہا کہ
“دھشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لیے ساری قوم اور ریاستی اداروں کو ایک موقف پر اکٹھا ہونا ہوگا”
لیکن سوال یہ جنم لیتا ہے کہ کیا ہماری اسٹبلشمنیٹ کے اندر ان عناصر سے جان چھڑائی جاسکتی ہے جو سٹریٹجک گہرائی کی تلاش میں ان درندوں کو ریزرو فورس کہہ کر خون پلاتے رہے اور اب بھی یہ اپنے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں؟کیا اس ریاست کے اہل قوت و آختیار اچھے اور برے دھشت گرد کی تمیز کرنا ختم کرنا ہوگی-
مگر مجھے افسوس کے ساتھ لکھنا پڑرہا ہے کہ محترم ترجمان نے ایسے عناصر کی موجودگی سے انکار کیا اور ان کے نزدیک “سٹریٹجک گہرائی”نام کی کوئی پالیسی موجود ہی نہیں ہے-جبکہ پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل اسلم بیگ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل حمید گل اس پالیسی کے ہونے کا اعتراف کرچکے ہیں-
چرچ پر حملہ اور پاک فوج کے افسران کی شہادت ان سب لوگوں کے منہ پر زناٹے دار طمانچہ ہے جنہوں نے دھشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کی رٹ لگارکھی ہے-اور ستم یہ ہے کہ اب بھی وہ ان کھلے حملوں پر تحریک طالبان کا نام لیکر مذمت کرنے کی بجائے ان حملوں کو سازش قرار دینے پر تلے ہیں-
تحریک انصاف اور مسلم لیگ نواز کو پاکستان کے عوام پر رحم کھانا چاہئے جو کہ طالبان کی دھشت گردی کے سب سے بڑے متاثرہ فریق ہیں-اس ملک کے سواد اعظم اہل سنت ،شیعہ جوکہ دوسرا بڑا مسلم مسلک ہے اور پھر اس ملک کی مسیحی ،احمدی اور ہندؤ برادریاں بھی طالبان سے بات چیت کرنے کی بجائے ان کو جڑ سے اکھاڑ پھینک دینے کے حامی ہیں-اس لیے ان کو طالبان کی خوشنودی کی بجائے عوامی رائے عامہ کا احترام کرنا چائیے-
طالبان جو کہ نئی فسطائیت ہیں ان کا خاتمہ کرنے ضرورت ہے ورنہ یہ سارے سماج کو تباہ و برباد کرڈالیں گے-
Comments
comments