شام امریکی خون آشامی کا نیا پڑاؤ

SYRIA

امریکی سیکرٹری خارجہ جان کیری نے ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا کہ امریکی صدر شام کی جانب سے اقوام متحدہ کی معائنہ ٹیم کو دمشق کے گرد و نواح میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال اور اس سے ہونے والی ہلاکتوں کی زمہ داری کا تعین کرنے کے لیے دورہ کی اجازت کے باوجود شام کے حلاف فوجی کاروائی کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں

 

جبکہ برطانیہ،ترکی،جرمنی،فرانس نے اقوام متحدہ کی اجازت کے بغیر بھی امریکی قیادت اور نیٹو کے جھنڈے تلے شام کے خلاف فوجی کاروائی کی حمائت کا اعلان کردیا ہے

 

اس کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ جو یہ کہہ رہے تھے امریکہ،نیٹو اور اس کے اتحادیوں نے عراق،افغانستان پر جنگ مسلط کرنے اور لیبیا میں زبردستی رجیم کی تبدیلی سے سبق سیکھا ہے وہ خوش فہمی کا شکار تھے-ان کی جانب سے یہ کہنا کہ امریکی مڈل ایسٹ سمیت پوری دنیا میں امن قائم کرنے اور جنگ کے خلاف کام کرنے پر راضی ہوگئے ہیں ایک غلطی تھی

 

امریکی عراق،افغانستان اور پھر لیبیا کے اندر اپنی من مانی کرنے اور یہاں پر اپنی پسند کی حکومتوں کو لانے میں کامیاب رہے مگر اس کی قیمت مڈل ایسٹ،جنوبی ایشا کے ملکوں اور عوام نے فرقہ وارانہ اور نسلی بنیادوں پر تقسیم کے گہرے ہونے،ہزاروں لوگوں کی جانوں کے ضیاع اور ان خطوں میں بنیادی انفرا سٹرکچر کی تباہی کی صورت میں ادا کرنی پڑی

 

افغانستان،عراق،اور لیبیا کی طرز پر امریکہ،یوروپی یونین اور مڈل ایسٹ کی خلیجی ریاستوں اور ترکی نے شام کے اندر اپنی مرضی کے مطابق سیاسی تبدیلی لانے کے لیے جو طریقہ اختیار کیا اس سے ایک طرف تو شام کے ایک لاکھ کے قریب لوگ موت کے گھاٹ اتر گئے-دوسری طرف اس طریقہ سے پورے مشرق وسطی،جنوبی ایشیا میں شیعہ-سنی آبادی کے درمیان سخت تناؤ پیدا ہوگیا-اور امریکہ کے اتحادی سعودی عرب،قطر،متحدہ عرب امارات ،بحرین،ترکی کی حکومتوں نے مذھبی دھشت گردوں کے نیٹ ورک کی کھلے عام سرپرستی کی جنہوں نے عراق،شام ،لبنان کےاندر مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگنے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے-اور ان دھشت گرد نیٹ ورک کی وجہ سے فرقہ وارانہ اور نسلی بنیادوں پر مسلم سماجوں کے اندر خانہ جنگی کی سی کیفیت پائی جاتی ہے

 

مگر امریکہ،صہونیت اور عرب و ترکی کے حکمرانوں کے باہمی گٹھ جوڑ کے باوجود شام کے اندر مطلوبہ مقاصد کے حصول کی کوشش اس لیے ناکام ہوگئی کہ ایک طرف تو شام کے اندر اہل سنت ،علوی فرقہ،شیعہ،کرد،کرسچن کمیونٹی کی اکثریت نے انتہا پسند فرقہ پرست عسکریت پسندوں کو مسترد کردیا اور ان کے پیچھے موجود شام مخالف مڈل ایسٹ کی حکومتوں کے ایجنڈے کا ادراک کرلیا-شام کے عوام نے جہاں ان مذھبی دھشت گردوں کو مسترد کیا وہیں پر انہوں نے نام نہاد “آزاد شامی حزب اختلاف”کی ڈوریاں غیر ملکی طاقتوں کے ہاتھوں میں دیکھ لیں تو ان کی حمائت سے بھی دست بردار ہونا شروع کردیا

 

شام میں بشارالاسد کی فوج نے باغیوں سے بہت سے علاقے واپس لے لیے اور باغیوں کی جانب سے شامی حکومت کی زمینی ،فضائی اور سمندری ناکہ بندی کرنے کے منصوبے کو ناکام بنا ڈالا-اور جس سے مغربی حکومتوں اور مڈل ایسٹ میں شام مخالف حکومتوں کو شامی باغیوں سے سخت مایوسی ہوئی

 

اس دوران روس،چین،ایران اور حزب اللہ کی شام کے حق میں ڈپلومیسی نے بھی امریکی بلاک کے عزائم کو ناکام بنانے اور اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے روکے رکھا

 

جب امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو انٹر نیشنل سطح پر اور مڈل ایسٹ کے اندر اپنی سٹریٹجی ناکام ہوتی نظر آنے لگی تو آخری ہتھیار کے طور پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا الزام بشارالاسد کی حکومت پر لگا دیا گیا-امریکی بلاک نے اس مرتبہ صرف الزام پر اکتفاء نہیں کیا-کیونکہ عراق پر جنگ مسلط کرتے ہوئے اس نے جو الزامات عائد کئے تھے وہ جھوٹ نکلے تھے اور آج تک اس بدنامی سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کی جارہی ہے-امریکی اور اس کے اتحادیوں نے نام نہاد باغیوں کو کہا کہ دمشق کے گرد و نواح میں جہاں ان سے کنٹرول لینے کے لیے شامی افواج پیش قدمی کررہی ہیں وہ وہاں عام شہریوں پر علاقہ چھوڑنے سے پہلے کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کرڈالیں-اور ایسا ہی کردیا گیا

 

امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے یہ بربریت پہلی مرتبہ نہیں کی-جب ایران میں امریکہ مخالف حکومت قائم ہوگئی تو امریکہ اور سعودیہ عرب کی آشیر باد سے عراقی آمر صدام حسین نے کرائے کے ٹٹو کی طرح جنگ ایران پر مسلط کرڈالی اور عراق-ایران سرحد پر کیمیائی ہتھیار اے وقت استعمال کئے جب وہ روائتی جنگ کے زریعے ایران کو شکست دینے میں ناکام ہوگیا-اور اس دوران امریکہ نے سعودیہ عرب سمیت خلیجی عرب ریاستوں کے آمروں کو پورے عالم اسلام میں فرقہ وارانہ منافرت اور تقسیم پھیلانے کا ایجنڈا دیا-آج بھی امریکی حکومت اور مشرق وسطی میں اس کے اتحادی اس طرح سے منافرت ،فرقہ پرستی اور نسلی و مذھبی بنیادوں پر خانہ جنگی کرانے کی کوشش کررہے ہیں

 

خود امریکی حکومت کے سابقہ اور موجودہ سیکورٹی اور خارجہ امور کے مشیر جن میں بروس ریڈل بھی شامل ہے واضح طور پر لکھ رہے ہیں کہ مصر میں اخوان المسلمون کا تختہ الٹنے اور جنرل السیسی کی حمائت کرنے جیسی حرکت کرنے کا سعودیہ عرب کا مقصد یہ ہے کہ اخوان کے محمد مرسی اور ایرانی حکومت کے درمیان تعلقات میں بہتری ان کے یے لیے خطرے کی گھنٹی تھی-مصر،شام،سوڈان،لبنانی حزب اللہ اور حماس کے درمیان روابط اور ان کے ساتھ ایران،روس،چین کے درمیان بڑھتے سٹرٹیجک رشتے امریکہ،اسرائیل،عرب آمروں اور ترکی کی توسیع پسندانہ حکومت کے لیے سخت خطرے کا سبب ہے-بروس ریڈل تو یہ تک کہتا ہے کہ عراق میں نوری المالکی کی حکومت بھی سعودی مفادات کے لیے خطرہ ہے

 

میں صاف صاف کہتا ہوں کہ امریکی بلاک اور روس،چین،ایران کے اتحاد کے درمیان مڈل ایسٹ میں جو پراکسی وار جاری ہے اس میں ابھی تک موخرالذکر بلاک کا پلہ بھاری نظر آرہا ہے-شام کے اندر بشارالاسد کی حکومت کا باقی رہنا اور حزب اللہ کا جنوبی لبنان پر کنٹرول اور صہونیت کی راہ میں روکاوٹ بنے رہنا مشرق وسطی میں امریکہ کے حامی حکمران طبقے کے خلاف چلنے والی تحریکوں کے حوصلے کو اور بڑھانے کا سبب بن رہا ہے-اس لیے امریکی انتظامیہ پر ان کے اتحادیوں کی جانب سے دباؤ بڑھتا چلا جارہا ہے کہ امریکہ نیٹو کے پلیٹ فارم سے براہ راست جنگ میں ملوث ہوجائے-امریکی بلاک میں کسی کو پہلے ایک لاکھ شامیوں کی ہلاکت پر کوئی ندامت نہیں ہے تو ان کو براہ راست مداخلت سے جنم لینے والی تباہی اور مصبیت کی بھی کوئی خاص پرواہ نہیں ہے

 

مڈل ایسٹ میں شام کے اندر رجیم کی تبدیلی کے لیے غیرانسانی طریقہ کار اختیار کرنے والی حکومتوں کے کردار کی وجہ سے وہاں پر جو فرقہ وارانہ آگ بھڑکی ہے اس کو توسیع دینے کی کوشش زور و شور سے جاری ہے-قطر،سعودیہ عرب اور ترکی کے سرگرم کردار کی وجہ سے پاکستان کے اندر بھی ایسا تکفیری گروہ پیدا ہوچکا ہے جو “اہل سنت “کا جھنڈا اٹھا کر پاکستان کے اندر شیعہ-سنی تفرقے کی آگ بھڑکانا چاہتا ہے-اور اس مقصد کے لیے جہاں فکری اور نظری بنیادوں پر مسلم تاریخ میں خارجی و تکفیری شدت پسندی کی لہروں سے مدد لیتے ہوئے وہ “اہل سنت “کا نام استعمال کرتے ہوئے آل مروان،آل سفیان کی سیاست سے مدد لیتے ہوئے اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان نہ ختم ہونے والی لڑائی کو جنم دینے کے درپے ہے-تاکہ اہل سنت کے نام پر عرب آمریتیں اور ان کا پاکستان پر اثر قائم ودائم رہ سکے

 

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان مذھبی انتہا پسند تحریکوں کے ظاہری مسلکانہ اختلافات کے شور و غوغا کے پیچھے کارفرماء سامراجی عزائم اور اس کے پس پردہ علاقوں اور وسائل پر کنٹرول کی جیو پالٹیکس کا ادراک کرنے کی کوشش کریں-اور یہ بھی پردہ فاش کریں کہ کیسے “یزیدی فکر اور سوچ”کو اہل تسنن کا لباس پہنانے کی کوشش کی جارہی ہے-اور مقصد بس یہ ہے کہ کسی بھی طرح سے زوال پذیر اقلیتی سلفیت کو بچالیا جائے اور اس کے لیے اگر امریکہ اور مغرب کے سامراجی عزائم کو مسلم دنیا کی عوام کے بدترین استحصال کے ساتھ قبول کرنا پڑے تو قبول کرلیا جائے-شام امریکی خون آشامی کا نیا پڑاؤ

 

امریکی سیکرٹری خارجہ جان کیری نے ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا کہ امریکی صدر شام کی جانب سے اقوام متحدہ کی معائنہ ٹیم کو دمشق کے گرد و نواح میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال اور اس سے ہونے والی ہلاکتوں کی زمہ داری کا تعین کرنے کے لیے دورہ کی اجازت کے باوجود شام کے حلاف فوجی کاروائی کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں

 

جبکہ برطانیہ،ترکی،جرمنی،فرانس نے اقوام متحدہ کی اجازت کے بغیر بھی امریکی قیادت اور نیٹو کے جھنڈے تلے شام کے خلاف فوجی کاروائی کی حمائت کا اعلان کردیا ہے

 

اس کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ جو یہ کہہ رہے تھے امریکہ،نیٹو اور اس کے اتحادیوں نے عراق،افغانستان پر جنگ مسلط کرنے اور لیبیا میں زبردستی رجیم کی تبدیلی سے سبق سیکھا ہے وہ خوش فہمی کا شکار تھے-ان کی جانب سے یہ کہنا کہ امریکی مڈل ایسٹ سمیت پوری دنیا میں امن قائم کرنے اور جنگ کے خلاف کام کرنے پر راضی ہوگئے ہیں ایک غلطی تھی

 

امریکی عراق،افغانستان اور پھر لیبیا کے اندر اپنی من مانی کرنے اور یہاں پر اپنی پسند کی حکومتوں کو لانے میں کامیاب رہے مگر اس کی قیمت مڈل ایسٹ،جنوبی ایشا کے ملکوں اور عوام نے فرقہ وارانہ اور نسلی بنیادوں پر تقسیم کے گہرے ہونے،ہزاروں لوگوں کی جانوں کے ضیاع اور ان خطوں میں بنیادی انفرا سٹرکچر کی تباہی کی صورت میں ادا کرنی پڑی

 

افغانستان،عراق،اور لیبیا کی طرز پر امریکہ،یوروپی یونین اور مڈل ایسٹ کی خلیجی ریاستوں اور ترکی نے شام کے اندر اپنی مرضی کے مطابق سیاسی تبدیلی لانے کے لیے جو طریقہ اختیار کیا اس سے ایک طرف تو شام کے ایک لاکھ کے قریب لوگ موت کے گھاٹ اتر گئے-دوسری طرف اس طریقہ سے پورے مشرق وسطی،جنوبی ایشیا میں شیعہ-سنی آبادی کے درمیان سخت تناؤ پیدا ہوگیا-اور امریکہ کے اتحادی سعودی عرب،قطر،متحدہ عرب امارات ،بحرین،ترکی کی حکومتوں نے مذھبی دھشت گردوں کے نیٹ ورک کی کھلے عام سرپرستی کی جنہوں نے عراق،شام ،لبنان کےاندر مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگنے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے-اور ان دھشت گرد نیٹ ورک کی وجہ سے فرقہ وارانہ اور نسلی بنیادوں پر مسلم سماجوں کے اندر خانہ جنگی کی سی کیفیت پائی جاتی ہے

 

مگر امریکہ،صہونیت اور عرب و ترکی کے حکمرانوں کے باہمی گٹھ جوڑ کے باوجود شام کے اندر مطلوبہ مقاصد کے حصول کی کوشش اس لیے ناکام ہوگئی کہ ایک طرف تو شام کے اندر اہل سنت ،علوی فرقہ،شیعہ،کرد،کرسچن کمیونٹی کی اکثریت نے انتہا پسند فرقہ پرست عسکریت پسندوں کو مسترد کردیا اور ان کے پیچھے موجود شام مخالف مڈل ایسٹ کی حکومتوں کے ایجنڈے کا ادراک کرلیا-شام کے عوام نے جہاں ان مذھبی دھشت گردوں کو مسترد کیا وہیں پر انہوں نے نام نہاد “آزاد شامی حزب اختلاف”کی ڈوریاں غیر ملکی طاقتوں کے ہاتھوں میں دیکھ لیں تو ان کی حمائت سے بھی دست بردار ہونا شروع کردیا

 

شام میں بشارالاسد کی فوج نے باغیوں سے بہت سے علاقے واپس لے لیے اور باغیوں کی جانب سے شامی حکومت کی زمینی ،فضائی اور سمندری ناکہ بندی کرنے کے منصوبے کو ناکام بنا ڈالا-اور جس سے مغربی حکومتوں اور مڈل ایسٹ میں شام مخالف حکومتوں کو شامی باغیوں سے سخت مایوسی ہوئی

 

اس دوران روس،چین،ایران اور حزب اللہ کی شام کے حق میں ڈپلومیسی نے بھی امریکی بلاک کے عزائم کو ناکام بنانے اور اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے روکے رکھا

 

جب امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو انٹر نیشنل سطح پر اور مڈل ایسٹ کے اندر اپنی سٹریٹجی ناکام ہوتی نظر آنے لگی تو آخری ہتھیار کے طور پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا الزام بشارالاسد کی حکومت پر لگا دیا گیا-امریکی بلاک نے اس مرتبہ صرف الزام پر اکتفاء نہیں کیا-کیونکہ عراق پر جنگ مسلط کرتے ہوئے اس نے جو الزامات عائد کئے تھے وہ جھوٹ نکلے تھے اور آج تک اس بدنامی سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کی جارہی ہے-امریکی اور اس کے اتحادیوں نے نام نہاد باغیوں کو کہا کہ دمشق کے گرد و نواح میں جہاں ان سے کنٹرول لینے کے لیے شامی افواج پیش قدمی کررہی ہیں وہ وہاں عام شہریوں پر علاقہ چھوڑنے سے پہلے کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کرڈالیں-اور ایسا ہی کردیا گیا

امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے یہ بربریت پہلی مرتبہ نہیں کی-جب ایران میں امریکہ مخالف حکومت قائم ہوگئی تو امریکہ اور سعودیہ عرب کی آشیر باد سے عراقی آمر صدام حسین نے کرائے کے ٹٹو کی طرح جنگ ایران پر مسلط کرڈالی اور عراق-ایران سرحد پر کیمیائی ہتھیار اے وقت استعمال کئے جب وہ روائتی جنگ کے زریعے ایران کو شکست دینے میں ناکام ہوگیا-اور اس دوران امریکہ نے سعودیہ عرب سمیت خلیجی عرب ریاستوں کے آمروں کو پورے عالم اسلام میں فرقہ وارانہ منافرت اور تقسیم پھیلانے کا ایجنڈا دیا-آج بھی امریکی حکومت اور مشرق وسطی میں اس کے اتحادی اس طرح سے منافرت ،فرقہ پرستی اور نسلی و مذھبی بنیادوں پر خانہ جنگی کرانے کی کوشش کررہے ہیں

 

خود امریکی حکومت کے سابقہ اور موجودہ سیکورٹی اور خارجہ امور کے مشیر جن میں بروس ریڈل بھی شامل ہے واضح طور پر لکھ رہے ہیں کہ مصر میں اخوان المسلمون کا تختہ الٹنے اور جنرل السیسی کی حمائت کرنے جیسی حرکت کرنے کا سعودیہ عرب کا مقصد یہ ہے کہ اخوان کے محمد مرسی اور ایرانی حکومت کے درمیان تعلقات میں بہتری ان کے یے لیے خطرے کی گھنٹی تھی-مصر،شام،سوڈان،لبنانی حزب اللہ اور حماس کے درمیان روابط اور ان کے ساتھ ایران،روس،چین کے درمیان بڑھتے سٹرٹیجک رشتے امریکہ،اسرائیل،عرب آمروں اور ترکی کی توسیع پسندانہ حکومت کے لیے سخت خطرے کا سبب ہے-بروس ریڈل تو یہ تک کہتا ہے کہ عراق میں نوری المالکی کی حکومت بھی سعودی مفادات کے لیے خطرہ ہے

 

میں صاف صاف کہتا ہوں کہ امریکی بلاک اور روس،چین،ایران کے اتحاد کے درمیان مڈل ایسٹ میں جو پراکسی وار جاری ہے اس میں ابھی تک موخرالذکر بلاک کا پلہ بھاری نظر آرہا ہے-شام کے اندر بشارالاسد کی حکومت کا باقی رہنا اور حزب اللہ کا جنوبی لبنان پر کنٹرول اور صہونیت کی راہ میں روکاوٹ بنے رہنا مشرق وسطی میں امریکہ کے حامی حکمران طبقے کے خلاف چلنے والی تحریکوں کے حوصلے کو اور بڑھانے کا سبب بن رہا ہے-اس لیے امریکی انتظامیہ پر ان کے اتحادیوں کی جانب سے دباؤ بڑھتا چلا جارہا ہے کہ امریکہ نیٹو کے پلیٹ فارم سے براہ راست جنگ میں ملوث ہوجائے-امریکی بلاک میں کسی کو پہلے ایک لاکھ شامیوں کی ہلاکت پر کوئی ندامت نہیں ہے تو ان کو براہ راست مداخلت سے جنم لینے والی تباہی اور مصبیت کی بھی کوئی خاص پرواہ نہیں ہے

 

مڈل ایسٹ میں شام کے اندر رجیم کی تبدیلی کے لیے غیرانسانی طریقہ کار اختیار کرنے والی حکومتوں کے کردار کی وجہ سے وہاں پر جو فرقہ وارانہ آگ بھڑکی ہے اس کو توسیع دینے کی کوشش زور و شور سے جاری ہے-قطر،سعودیہ عرب اور ترکی کے سرگرم کردار کی وجہ سے پاکستان کے اندر بھی ایسا تکفیری گروہ پیدا ہوچکا ہے جو “اہل سنت “کا جھنڈا اٹھا کر پاکستان کے اندر شیعہ-سنی تفرقے کی آگ بھڑکانا چاہتا ہے-اور اس مقصد کے لیے جہاں فکری اور نظری بنیادوں پر مسلم تاریخ میں خارجی و تکفیری شدت پسندی کی لہروں سے مدد لیتے ہوئے وہ “اہل سنت “کا نام استعمال کرتے ہوئے آل مروان،آل سفیان کی سیاست سے مدد لیتے ہوئے اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان نہ ختم ہونے والی لڑائی کو جنم دینے کے درپے ہے-تاکہ اہل سنت کے نام پر عرب آمریتیں اور ان کا پاکستان پر اثر قائم ودائم رہ سکے

 

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان مذھبی انتہا پسند تحریکوں کے ظاہری مسلکانہ اختلافات کے شور و غوغا کے پیچھے کارفرماء سامراجی عزائم اور اس کے پس پردہ علاقوں اور وسائل پر کنٹرول کی جیو پالٹیکس کا ادراک کرنے کی کوشش کریں-اور یہ بھی پردہ فاش کریں کہ کیسے “یزیدی فکر اور سوچ”کو اہل تسنن کا لباس پہنانے کی کوشش کی جارہی ہے-اور مقصد بس یہ ہے کہ کسی بھی طرح سے زوال پذیر اقلیتی سلفیت کو بچالیا جائے اور اس کے لیے اگر امریکہ اور مغرب کے سامراجی عزائم کو مسلم دنیا کی عوام کے بدترین استحصال کے ساتھ قبول کرنا پڑے تو قبول کرلیا جائے

Comments

comments