ہجرت

images

افسانہ

پیلو راگ میں فراق کی غزل گائے جانے کی آواز اس گلی کے اندر موجود ایک مکان کے چوبارے سے آرہی تھی جب اس نے گلی کا آدھا راستہ طے کرڈالا تھا-اسی وقت اچانک گلی کے نکڑ سے ایک موٹر سائیکل نمودار ہوا –اس نے دیکھا کہ دو نوجوان اس پر سوار تھے-دونوں نے شلوار قمیص پہن رکھی تھی جبکہ اس کے اوپر خاکی رنگ کی جیکٹس نظر آرہی تھیں-دونوں نوجوانوں کے چہرے پر بڑی داڑھی تھی-اور بال شانوں تک لہرارہے تھے-پاؤں میں جاگرز تھے-اور جو پیچھے نوجوان بیٹھا تھا اس کے ہاتھ میں کلاشنکوف تھی-دونوں نوجوان جب اس کے زرا قریب ہوئے تو اس نے دیکھا کہ دونوں کے چہرے جوش جذبات سے سرخ ہورہے تھے-وہ ان کے ارادوں کو بھانپ چکا تھا-اس کو لگا تھا کہ یہ دونوں نوجوان اس کے لیے ہی اس گلی میں داخل ہوئے ہیں-اس نے آنے والی ممکنہ موت کے لیے خود کو تیار کرلیا-آہستہ سے سرخ سلام کہا-اور وہیں کھڑا ہوگیا-موٹر سائیکل پر سوار نوجوان اس کے قریب آئے تو اسے ایک لمحے کے لیے لگا جیسے گردش کائنات رک گئی ہو اور دور کہیں فراق کی غزل گانے والے کی آواز میں مزید درد پیدا ہوگیا ہو-لیکن کچھ دیر بعد جب اس کو ہوش آیا تو اس نے دیکھا کہ موٹر سائیکل اس سے دور جاچکی تھی-اس نے آگے قدم بڑھائے اور گلی کے آخری سرے پر پہنچنے والا تھا کہ اس نے اپنے عقب میں نعرہ تکبیر ،اللہ اکبر اور الجہاد،الجہاد۔۔۔۔۔۔۔سبیلنا،سبیلنا کی صدائیں سنیں اور پھر کلاشنکوف کے برسٹ نکلنے کی آواز اور پھر ایک کان پھاڑ دھماکہ ہوا-دھماکہ کی شدت سے وہ بے اختیار زمین پر گرپڑا-اور جب اس نے اٹھ کر دیکھا تو گلی کے وسط میں جس مکان کے چوبارے سے اس نے اداسی کے راگ پیلو میں فراق کی غزل گائے جانے کی آواز سنی تھی وہ مکان ملبے کا ڈھیر بنا ہوا تھا-مگر مکان کے اندر سے کسی کے چیخنے چلانے کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی-گلی کے دونوں اطراف میں بنے گھروں کے دروازے آہستہ آہستہ کھلنے لگے تھے-مکین باہر آرہے تھے-جہاں وہ گرا ہوا تھا اس کے سامنے بنے مکان کا دروازہ کھلا اور ایک نوعمر لڑکا نکلا اس نے فوری طور پر اس کو اٹھانے کی کوشش کی-

انکل آپ کو کوئی چوٹ تو نہیں لگی؟نوعمر لڑکے نے پوچھا-

نہیں بیٹا !میں ٹھیک ہوں-اس نے جواب دیا-

اوہ یہ تو صابر انکل کا گھر تھا-اچانک نوعمر لڑکے کے منہ سے نکلا-

کون صابر ؟اس نے پوچھا

انکل!صابر رضا انکل کا وہ گھر تھا جو ملبے کی صورت پڑا ہے-صابر انکل ایک کالج میں پڑھاتے ہیں-آنٹی واجدہ بھی یونیورسٹی میں لیکچرار ہیں-نوعمر لڑکے نے کہا

وہ یہ سنکر ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گیا،سوچنے لگا کہ یہ صابر رضا بھی کوئی اس کے قبیلے کا آدمی لگتا تھا-اسے لگا کہ “سرخ سلام “کہنے کا وقت اس کا نہیں بالکہ صبر رضا کا تھا-

وہ الٹے قدموں واپس ہوا اور گلی کے وسط میں ملبے کے ڈھیر کے پاس آکر رک گیا-ایمبولینس آکر گھر کے سامنے رکی ہوئی تھیں-پولیس کی موبائل گلی کے نکڑ پر رکی ہوئی تھیں اور اس سے پولیس اہلکار اتر کر گلی میں داخل ہورہے تھے-بہت سے کیمرا مین اور ہاتھ میں اپنے ٹی وی چینلوں کے لوگو پکڑے اور رننگ کمنٹری کرتے رپورٹر بھی آہستہ آہستہ جائے حادثہ پر اپنی اپنی ہانک رہے تھے-

اس نے عقب میں کسی کو کہتے سنا کہ اس نے اپنے مکان ک اوپر والی منزل سے موٹر سائیکل پر سوار نوجوانوں میں سے ایک کو پہلے مکان کے اوپر بنے چوبارے میں بم پھینکتے دیکھا-اوپر صابر رضا کا اسٹڈی روم تھا-صابر رضا کے قریب وہ بم گرا تھا اور ساتھ ہی نوجوانوں نے فائرنگ شروع کردی تھی-اس کے بعد انہوں نے دستی بم مکان پر پھینکے تھے اور صابر رضا اور واجدہ خاتون کو گالیاں دیتے بھی دیکھا تھا-

اس نے یہ سب سنا اور سوچنے لگآ کہ صابر رضا کوئی ایسا ہی استاد ہوگا جس نے نصابی کتابوں میں لکھی باتوں کو پرچوں میں لکھنے کے لیے یاد کرنے کی نضحیت کرتے ہوئے اپنے شاگردوں کو وہ باتیں عملی زندگی میں یاد رکھنے کو کہا ہوگا جن بیان کرنا ایسے ہی ہے جیسے جبرائیل سدرۃ المنتہی کی حد پار کر جائے اور اس کے پر جلکر راکھ ہوجائیں-

ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ایک سٹریچر پر انہوں نے خون میں لت پت ایک خاتون کو لیجائے جانے کا منظر دیکھا-خاتون ہوش میں تھی-مگر وہ ہونٹ سختی سے بھینچے ہوئے تھی-اس کا چہرہ جذبات سے عاری تھا-اور تبھی اس نے دیکھا کہ عورت نے سامنے انگلی سے اشارہ کیا-اس نے اشارے کی سمت دیکھا تو وہاں ایک اور عورت کو کھڑے دیکھا وہ عورت اشارہ دیکھکر زخمی عورت کے قریب ہوئی-بے اختیار ہوکر وہ بھی سٹریچر کے قریب ہوگیا-اس نے عورت کی نحیف سی آواز سنی کہہ رہی تھی راشدہ!صابر نہیں مانے نا اور آج وہ مجھ سے جدا کردئے گئے۔۔۔۔۔۔۔۔راشدہ نے یہ سنا تو اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے-

زخمی عورت کی آواز آئی!راشدہ رونا مت تمہیں تو معلوم ہے صابر کمزور لمحوں میں سپاٹ چہروں کو دیکھنے کے آرزومند ہوا کرتے تھے-

وہ سمجھ گیا تھا کہ زخمی خاتون واجدہ ہیں-صابر رضا کی بیوی اور اس حادثے میں وہ مرنے سے بچ گئی ہیں-

وہ وہاں سے واپے پلٹ پڑا اور گلی سے نکل کر اپنے گھر آگیا-

گھر داخل ہوا تو بیگم ٹی وی لاؤنج میں ٹی وی کھولے دیکھ رہی تھیں-ایک نیوز چینل تھا-اس پر سٹریچر پر لیجاتے ہوئے واجدہ کو دکھایا جارہا تھا-سٹریچر کے پاس وہی راشدہ نامی خاتون کھڑی تھیں-اور کیمرے نے ان کے ساتھ اس کو بھی فوکس کیا ہوا تھا-اور خود اپنی فوٹیج دیکھکر اسے پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ وہ کتنا کھویا کھویا اور بکھرا بکھرا لگ رہا تھا-اس کی اپنی آنکھوں میں کتنی ویرانی تھی-

ابھی وہ اس منظر بارے سوچ ہی رہا تھا کہ اس کی بیگم کی آواز آئی کہ حسین !تم وہاں کیا کررہے تھے-سو دفعہ آپ کو کہا ہے کہ دریا کے الٹی سمت بہنے کی کوشش ترک کردیں-تم ہوکہ صحافت کو روزی کا دھندہ سمجھنے کی بجائے جہاد سمجھ رہے ہو-آخر جیسے سب کررہے ہیں ویسے تمہیں کرنے میں کیا حرج ہے-یہ دیکھو صابر رضا نامی اس پروفیسر کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ کالج میں کفریہ خیالات پھیلاتا تھا-اور پاکستان کی بہادر افواج اور ایجنسیوں پر تنقید کرتا تھا-اس کی بیوی کو بھی بے راہ رو،مادر پدر آزاد غرب زدہ عورت قرار دیا جارہا ہے-یہی چارج شیٹ لگاکر اس کے گھر کو تباہ اور اس کو مار دیا گیا ہے-

اس کی بیگم بے تکان بولے چلی جارہی تھی-اور وہ سن رہا تھا

دیکھو حسین!یہ خدائی فوج داری ہمارے سماج میں چلنے والی نہیں ہے-میں نے تمہیں کہا تھا کہ میرے پاپا تمہیں اور ہمیں یو کے شفٹ ہونے کا کہہ رہے ہیں-ڈی ایف ڈی آئی نامی ایک نیم سرکاری این جی او ہماری اس سلسلے میں مدد کرنے کو تیار ہے-مگر تم یہاں سے جانا نہیں چاہتے-میں کہتی ہوئ کہ یوکے میں تم جو چاہو گے لکھ سکو گے-تم پر کوئی قدغن نہیں ہوگی-یہ سب ہمارے بچوں کے مستقبل کے لیے بھی بہتر ہوگا-

شہر بانو! تمہاری یہ باتیں جب میں سنتا ہوں تو مجھے خیال آتا ہے کہ تم وہ شہر بانو تو نہیں ہو جو یونیورسٹی کے دنوں میں ریگل چوک میں میرے شانہ بشانہ بوٹوں والوں کی دھشت کے سامنے ڈٹ جایا کرتی تھی-

تمہیں یاد ہے شہر بانو جب مجھے فوجی اٹھاکر ٹرک میں ڈال رہے تھے تو تم نے جاتے جاتے مجھے زور سے چیخ کر کہا تھا کہ حسین !معافی نامے کے بانڈ بھرنے کی وبا چلی ہوئی ہے-تم ایسا بانڈ کا کلنک لگوکر باہر مت آنا ورنہ مجھے کھو دوگے-

اور میں نے پانچ سال گھپ اندھیروں میں شاہی قلعہ کی جیل میں کاٹنے منظور کئے تھے-جہاں وہ منحوس بانڈ بار بار میرے سامنے لایا گیا-مگر ہر مرتبہ یہ تمہارا چہرہ تھا جو مجھے ڈگمگانے سے بچاگیا تھا-اور کیا تمہیں یاد ہے کہ جب لیاری میں ایک مظاہرے کے دوران تشدد سے میری ٹانگیں ٹوٹ گئیں تھیں اور میں نے ہسپتال میں تم سے کہا تھا کہ اگر میں لنگڑا یا معذور ہوجاؤں تو تمہیں اپنا رومیو اور تلاش کرنے کا ح ہوگا-اس پر تم نے کہا تھا کہ میرے رومیو تو تم ہی ہو-

آج تمہیں کیا ہوگیا ہے-تم گولی کہیں برسے شاخ بیدمجنوں کی طرح کانپنے لگتی ہو-اور تمہیں حق بیانی سے چڑہونے لگی ہے-اور تم مجھے بزدلی کا درس دے رہی ہو-

اس نے بہت جذباتی انداز میں کہا-

ہاں حسین!میں ہوں تو وہی شہر بانو مگر اس وقت میں نہ تو بیوی تھی اور نہ ماں تھی-تمہارے کھو جانے اور اپنے دو بیٹوں کو کھونے کا اندیشہ مجھے مارے جارہا ہے-ویسے بھی کیا قربانیوں کا ٹھیکہ تم نے ہی اٹھا رکھا ہے-زرا غور کرو بدر انکل کی فیملی کس قدر کسمپرسی کا شکار ہے-بدر عباس انکل کیا شہید ہوئے قیامت آگئی-کوئی ان کی مدد کرنے کو تیار نہیں ہے-اور بدر عابس شہید انکل کی تھوڑی بہت جائے داد تھی جو کام آرہی ہے-

حسین ہمارے پاس کیا ہے-سواغے اس تنخواہ کے جو تم تین تین جگہ دن رات کام کرکے کماپاتے ہو-بیمار پڑتے ہو تو اتائی ڈاکٹروں سے  لیتے ہو-ایک ایک پائی بچانے کی کوشش کرتے ہو-

مجھے معلوم ہے کہ اس گلی میں تم کیسے پائے گئے-حسب سابق بس کا کرایہ بچانے کی خاطر پیدل چل دیئے ہوں گے-اور راستے میں اس حادثے کے عینی شاہد بن گئے ہوں-

اچھا یہ بتاؤ کہ آپ ڈی آئی جی سے ملے تھے؟اچانک اس کی بیوی نے پوچھا

ہاں ملا تھا۔۔۔۔۔اس نے آہستہ سے کہا

شہر بانو یہ سنکر ہنس دی،حسین تم جب بھی جھوٹ بولتے ہو تہمارا لہجہ ایسے ہی مدھم اور مجروح مجروح لگتا ہے-

مجھے عاشی آنٹی نے بتایا ہے کہ انکل طارق کل ڈی آئی جی آفس گئے کیونکہ ڈی آئی جی ظفر عباس ان کے کلاس فیلو ہیں-تو ڈی آئی جی نے بتایا کہ تم نے ان سے تو کیا کسی بھی افسر سے رابطہ نہیں کیا-اسٹیشن آفیسر کو جو درخواست تم نے دی تھی اس پر بھی تم نے مزید کوئی دلچسپی نہیں دکھائی-ہاں اس علاقے کے ڈی ایس پی حامد رضا نے بتایا تھا کہ تم اس سے ملے تھے اور تم نے اپنے  گھر کے سامنے فائرنگ کے پیچھے انٹر سروسز انٹیلی جینس کے مقامی انچارج اور ایک بہت بڑی مذھبی تنظیم کے مرکزی سربراہ کو نامزد کیا تھا-

ہاں میں نے ان کو کہا تھا کہ اگر آپ ان دو صاحبان کو ایف آئی آر میں نامزد کریں تو میں آگے کاروائی میں دلچسپی لوں گا-لیکن وہ تو اس شہر کے چند بے گناہوں کو خانہ پری کے لیے اندر کرنے کے خواہاں تھے-۔۔۔۔حسین نے غصّے میں کہا

تمہیں کیا ضرورت ہے ان مگر مچھوں سے پنگا لینے کی-شہر بانو نے کہا-

وہ کچھ نہیں بولا اور شہر بانو کو گھورتا ہوا اپنے بیڈ روم میں آگیا-

گذرے واقعات کی ایک فلم سی اس کے زھن کے پردے پر چلنے لگی-

کیسے وہ 1988ء کو بے نظیر بھٹو کے آڈر سے جیل سے رہا ہوا تھا-اور اس نے کراچی یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ میں پڑھانا شروع کردیا تھا-اور پھر کیسے وہاں سے ایک انصاف کی متلاشی پامال عورت کے حق میں آواز اٹھانے کے باوجود انصاف نہ ملنے پر اس نے اور اسی کی بیوی نے استعفا دے ڈالا تھا-اور پھر ایک معروف انگریزی جریدے میں چلاگیا تھا-مگر وہاں سے ایک میجر کے کہنے پر نکالا گیا-اور وہ اے ایف پی کے لیے کام کرنے لگا-اس دوران اس نے بلاگ لکھنا شروع کیا اور رفتہ رفتہ اس کے بلاگ کی شہرت پھیلنے لگی-وہ بہت سے گروہوں کی نظر میں معتوب ٹھہر گیا-ریاست کے اندر ریاست کے طور پر کام کرنے والے اس سے خارکھانے لگے-یہ اس کے لیے نئی بات نیں تھی-مگر پریشانی یہ تھی کہ سب اس کم محتاط رھنے اور کم از کم اس کام سے دستبردار ہونے کو کہہ رہے تھے-

جب سے اس کے گھر کے باہے فائرنگ ہوئی تھی تو اس کے کولیگ جو اس سے نظریاتی اختلاف رکھتے تھے کہہ رہے تھے کہ برے کاموں کا برا انجام،جو متفق تھے ہ بھی کھل کر اس کے ساتھ کھڑے ہونے سے گریزاں تھے-بعض تو اس سے ملنا ترک کرگئے تھے-

آج جب اس کے دفتر میں چائے کا وقفہ تھا تو دفتر کے نیچے کیفے میں اس کو سلام تک کرنے سے گریز کیا گيا اور کسی نے اس کی میز کے پاس بیٹھنے کی ہمت نہ کی-وہ دشمنوں کے روئے پر حیران نہ تھا مگر اپنے کہلائے جانے والوں پر حیران ضرور تھا-اس کو ایم آرڈی کے دور کا زمانہ یاد آنے لگا تھا جب آمرانہ ،فسطائی اور جابر و ظالموں کے خلاف کھڑے ہونے والوں کی پیروی فخر سمجھی جاتی تھی اور ایسے لوگ رول ماڈل کہلاتے تھے-آج ان کو احمق کہنے میں بھی عار نہیں تھا-

یہ سب سوچتے سوچتے اس کی آنکھ لگ کئی-صبح وہ دیر سے اٹھا-اور فریش ہوکر ناشتے کی میز پر آیا تو شہر بانو نے اخبار کا پہلاا صفحہ اس کے سامنے کردیا-جلی سرخی میں لکھا تھا

“عباسی شہید ہسپتال کراچی کے ایمرجینسی وارڈ میں دھماکہ،یونیورسٹی کی زحمی لیکچرار واجدہ جاں بحق”

اس نے اپنا لیپ ٹاپ کھولا اور ایک معروف خبررساں کی ویب سائٹ کھولی اور اس میں خبر کی تفصیل پڑھنے لگا-اس میں لکھا تھا کہ کالج لیکچرار صابر رضا اور ان کی اہلیہ واجدہ کے گھر پر جو حملہ ہوا تھا اس میں واجدہ بچ گئی تھیں-واجدہ نے عباسی شہید ہسپتال میں میڈیا کے ایک حصّے کو بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان پر حملے کے اندر ملک کے ایک حساس ادارے کا ہاتھ ہے-اور انہوں نے اپنے اوپر حملے کا زمہ دار ڈی جی آئی ایس آئی کو قرار دیا تھا-اس بیان کے دو گھنٹے بعد ایمرجنسی وارڑ جہاں ان کو رکھا گیا تھا پر اس وقت خودکش حملہ کیا گیا جب ان کو سکون آور دوائیں دے کر سلادیا گیا تھا-

خبر کے آخر میں لکھا تھا کہ مرحوم لیکچرار میاں بیوی کی نماز جنازہ پڑھانے سے مولویوں کا انکار جبکہ ان کے جنازے میں بھی مسلمانوں کو جانے سے روکا گیا ہے-ایک مفتی کا فتوی بھی درج کیا گیا تھا-

وہ یہ خبر پڑھتا گیا اور اس کے سینے میں ایک درد سا اٹھنے لگا-وہ سوچنے لگا کہ مرنے والوں کو زندگی میں تو احباب کی بے مروتی برتنے اور بعد میں اعزاز سے دفنانے کی روایت تو سماج مین موجود تھی یہ مرنے کے بعد بےحرمتی کی روایت کہاں سے آگئی-

اس نے اچانک لیپ ٹاپ سے نظریں اٹھائیں اور شہر بانو سے کہا-

شہر بانو!انکل کو فون کرو اور ان سے کہو کہ ہمیں یوکے شفٹ ہونے کے لیے کون سے کاغذات تیار کرانا ہوںگے-

Comments

comments

WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.