ڈی این اے , رحمت کا فرشتہ – سعدیہ نواز
انصاف سب کیلیےامریکی ریاست مشی گن کے شہر ڈیٹرائٹ میں 54 سالہ شخص ایڈی جو للیڈ کو سترہ سال جیل میں گزارنے کے بعد 6 جون 2013 کو رہای نصیب ہوئ، اس پر الزام تھا کہ اسنے ایک نا بالغ لڑکی کو عصمت دری اور تشددکے بعد قتل کر دیا تھا۔ اس بد قسمت کے خلاف واقعاتی شواہد مل گئے اور اسکو عمر قید کی سزا دی گئ جو کہ قانون کے مظابق 25 سال تھی،بالآخر اسکی مدد کو ایک فرشتہ آیا جس کا نام جدید سائنسی ٹیسٹ یعنی ڈی ایں اے ٹیسٹ ہے، اس “سپر مین” نے نہ صرف اسکی مشکل آسان کی بلکہ پورے امریکہ میں سو سے زیادہ افراد کی زندگیاں اسکی مدد سے جیل کی نذر ہونے سے محفوظ رہیں۔ یوں مشی گن ریاست نے یہ فیصلہ کیا کہ گزشتہ 25 سال سے جنسی زیادتی کے مقدمات میں جیلوں میں قید افراد کے محفوظ ریکارڈ کو دوبارہ تفتیشی عمل کیلیے کھولا جاے اور اس ٹیسٹ سے فاٰئدہ پہنچانے کی غرض سے انکے کیسز کو نئے زاویے سے کریدا جاے، تاکہ انصاف سب کیلیے کے اصول کے تحت بیگناہ ملزم بھی اس سے فاٰئدہ اٹھا سکیں، اس منصوبے پر قریبا” پندرہ ملین ڈالر لاگت آے گی، 2009 سے لیکر ابتک کے 569 مقدمات میں اس سے مدد لی گئ اور عصمت دری کے مرتکب 32 عادی مجرم شناخت کیےگئے۔ مشی گن کی عدالت کے ایک وکیل کا کہنا ہے کہ ان خواتین کیلئے جو زیادتی کا شکار ہوئ ہوں انصاف کے تقاضے پورے کرنے اور مستقبل میں اس جرم کے مستقل خاتمے کیلئے یہ عمل انتہائ مددگار ثابت ہو گا-
واضح رہے وہاں جرم سے نفرت ہے لیکن مجرم سے نہیں، انصاف سب کیلیے ہے، نہ تو کسی پہ جرم عاید کر کے اسے تنہا چھوڑا گیا نہ مظلوم کو انصاف سے محروم رکھا گیا، ریاست ہر کسی کی مدد کو بر سرِ عمل ہے مزید یہ کہ جرم کی مستقبل میں روک تھام کیلیے کڑا نظامِ انصاف ہے اور تفتیش کیلیے جدید سائنسی علوم بطور ہتھیار استعمال کیے جا رہے ہیں، اسکے بر عکس ہمارے یہاں ایک معروف دینی جماعت کے سر براہ اور”اسلامی عالم “معاشرے میں بڑھتےہوے اس جرم پر بے بس خاموشی کا درس ٹی وی پر چیخ چیخ کر دیتے ہیں۔ مولانا اپنے باقی بھای بندوں سی پوجھ لیجیے شاید وہ اسپر بھی اتفاق نہ کر سکیں کیونکہ یہ خاموشی بھی بے ضرر ہے مظلوم کو زندہ رہنے کا کیا حق ہے، خواتین کو اور کونسا اپنی مرضی کا حق دیا گیا ہے اسمیں مرضی کے بغیر کچھ ھو گیا تو اتنا واویلا کیوں اتنا شور مچانے کی انکی ہمت، آخر ضرورت کیا ہے قوانین بنانے کی، خوامخواہ وقت کا ضیاع اور معاشرے میں بے حیائ کا فروغ؟
(سعدیہ نواز)