عوام اور نوکر شاہی
گجرات کے ایک گاؤں سے چلنے والی اسکول وین کے اندر شارٹ سرکٹ سے بھڑکنے والی آگ میں درجنوں بچوں کے جھلس کر مرنے سے پیدا ہونے والی سوگواریت ختم ہونے میں ابھی کچھ وقت لگے گا-لیکن اس سانحے نے ہمارے سامنے بہت سارے سوالات کھڑے کردئے ہیں-
پہلا سوال تو یہ ہے کہ ہمارے ہر ضلع میں ڈی سی او موجود ہوتا ہے-جو ضلعی انتظامیہ کا سربراہ ہوتا ہے-اس کے زمہ یہ کام ہے کہ وہ ضلع حکومت کے ماتحت آنے والے محکموں کے فرائص اور کارکردگی کا جائزہ لے-اس کے ماتحت ٹریفک پولیس اور ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی کے محکمے بھی آتے ہیں-یہ دونوں محکمے کسی بھی گاڑی کی فٹنس ،اس کے روٹ اور اس کے سڑک پر چلنے نہ چلنے اور اس کو ڈرائیو کرنے والے کے ڈرائیور کو گاڑی چلانے کا حق دار سمجھنے یا اس کو اس امر سے باز رکھنے کے زمہ دار ہوتے ہیں-
لیکن آپ شہر کے کسی بس اسٹینڈ یا ویگن اسٹینڈ پر چلے جائیں وہاں آپ کو درجنوں ایسی گاڑیاں مل جائیں گی جن کو ایک نظر دیکھنے سے آپ کو پتہ چل جائے گا کہ ان کی مدت کب کی ختم ہوچکی ہے-ان کی باڈیاں گلنے کے قریب ہوں گی-ساری گاڑی ڈھانچہ ہوگی-انجن کی حالت بری ہوگی-وائرنگ جگہ جگہ سے ادھڑی ہوئی ہوگی-پٹرول کے کین کا استعمال ہوگا-گھٹیا قسم کے سی این جی سلنڈر رکھے ہوئے ہوں گے-سیٹیں تنگ ہوں گی-
ان بسوں اور ویگنوں کے اڈوں پر ٹکٹنگ کا انتظام نہیں ہوگا-جعلی ٹکٹ بک استعمال ہورہی ہوں گی-اور کبھی ڈی سی او،ایس پی ٹریفک،سیکرٹری آر ٹی ان اڈوں کا دورہ کرنے کی زحمت گوارا نہیں کریں گے-ان اڈوں سے ویگنوں اور بسوں میں سوار ہونے والے مسافروں کو ہر وقت کسی ناگہانی حادثے کا شکار ہونے کا خطرہ ہوتا ہے-یہ گاڑیاں چلتے پھرتے مزائل ہوتے ہیں-جانے کب پھٹ جائیں-اور ان میں بیٹھنے والے مرد،عورتیں،بچے بوڑھے بے وقت موت کا شکار ہوجائیں-
جب کوئی حادثہ ہوجاتا ہے اور درجنوں جانیں چلی جاتی ہیں تو پھر ہمارے ڈی سی او،ٹریفک پولیس کے افسروں اور سیکرٹری آرٹی ہوش میں آنے کا ناٹک کرتے ہیں-صوبائی چیف سیکرٹری صوبے بھر کے ڈی سی اوز کو حکم دیتے ہیں کہ وہ ناکارہ گاڑیوں کو بند کردیں-کچھ دن تک نمبر ٹانکنے کے لیے ہزاروں گاڑیاں بند کردی جاتی ہیں-اور کچھ دن بعد وہی روٹین لوٹ آتی ہے-
یہ وتیرہ ٹرانسپورٹ کے محکمے کا ہی نہیں ہے-بلکہ صحت اور تعلیم کے شعبوں میں بھی یہی حال ہے-اس ملک کے غریب اور نچلے متوسط طبقے کی کم استطاعت ہونے کے جرم میں اس کو سزا یہ دی جاتی ہے کہ وہ بیمار ہوجائے تو سرکاری ہسپتالوں یا اتائی ڈاکٹروں کے ہاتھوں یا تو معذور ہوجائے یا اس کی زندگی کا چراغ گل ہوجائے-تعلیم کے نام پر اس سے مذاق کیا جائے-تنگ و تاریک کمروں میں اس کے بچے قیدیوں کی طرح “ایک دونی دونی،دو دونی چار”کی گردان کریں-کبھی وہ نفسیاتی مریض نما استادوں اور استانیوں کے ہاتھوں اپنا ہاتھ یا کہنی تڑوالیں-یا پھر وہ ذھنی ٹارچر کا شکار ہوجائیں-اگر وہاں سے بچیں تو کسی ناکارہ وین میں جھلس کر مرجائیں-
ہمارے ٹیکسوں سے ہزاروں ایجوکشن آفیسرز،ڈی ایچ اوز،ٹریفک پولیس آفیسرز اور ڈی سی اوز پرکشش تنخواہیں لیتے ہیں-یہ ہمارے ٹیکسوں سے باروزگار ہوتے ہیں-لیکن جس بات کی ان کو تنخواہ اور مراعات ملتی ہیں اسی بات کی نفی یہ لوگ سب سے زیادہ کرتے ہیں-یہ صحت کے شعبوں کو برباد کرنے والے سماج دشمن عناصر اور قانون شکنوں کو تحفظ دیتے ہیں-ان کی لوٹ مار اور جرائم کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں-اور عوام کو اچھوت خیال کرتے ہیں-یہ تعلیمی سیکٹرز میں مافیا کے محافظ بنکر عوام کے نونہالوں کا مستقبل تباہ کرنے میں سب سے آگے ہوتے ہیں-اور روڈ پر قانون شکنوں کو ٹرانسپورٹر بنکر چلنے کے راستے دکھاتے ہیں-
میں موٹی موٹی توند والے ٹریفک اہکاروں کو اور ایکسائز والوں کو ،ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی کے افسران اور ملازمین کو اکثر بسوں کے اڈوں اور گڈز ٹرانسپورٹ کے مراکز پر بیٹھے دیکھتا ہوں-اور مالکان،ڈرائیورز کو ان کے دفاتر کے چکر لگاتے بھی-وہاں کیا ہوتا ہے-منتھلی ،کمیشن اور رشوت –ان سب کے بدلے عوام کے سفر کو غیر محفوظ بنانے والوں اور غریبوں کی زندگیوں سے کھیلنے والوں کو آسانیاں فراہم کی جاتی ہیں-اور اس طرح سے یہ نوکر شاہی ان تمام حادثوں اور ہلاکتوں اور معذوریوں کی زمہ دار بنتی ہے جو ٹریفک حادثات اور گاڑی میں سی این جی سلنڈر پھٹنے یا شارٹ سرکٹ ہونے سے ہوتی ہیں-آج تک ان حادثات اور ہلاکتوں کے بعد جب یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ گاڑی فٹ نہیں تھی-ڈرائیور کے پاس لائسنس تھا مگر وہ اہل نہیں تھا تو اس ضلع کے متعلقہ حکام کو ان ہلاکتوں کو زمہ دار ٹہرا کر ان کے خلاف اعانت قتل کا مقدمہ نہیں چلایا گیا-ان کو نوکریوں سے فارغ نہیں کیا گیا-
شائد ان حادثات میں مرنے والے ،زخمی ،معذور غریب،بے کس ،افتادگان خاک ہوتے ہیں-تو ان کے لیے افسران کو سزا دینا اس ریاست کے زمہ داروں کو اچھا نہیں لگتا؟ہم غریبوں ،بے نواؤں اور افتادگان خاک کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟کہ یہ ملک ان کے لیے نہیں بنا ہے؟اس ملک کی نوکر شاہی ان کے لیے آسانی کرنے کی بجائے موت کی اسناد بانٹنے کا کام کرسکتی ہے اور کچھ نہیں؟
ہم منتخب حکمرانوں کو کوستے ہیں کہ وہ غریبوں کے گھر کسی حادثے کی صورت نہیں جاتے-لیکن یہاں تو نگران چیف منسٹر جوکہ ایک معروف آدمی ہیں وہ بھی تو گجرات کے غریب گھروں میں نہیں گئے-بس پانچ لاکھ روپے کی امداد کا اعلان کرکے رہ گئے-جاتی امراء اور بلاول ہاؤس کے مکینوں کو بھی وہاں جانے کا وقت نہ ملا-
میں سوچتا ہوں کہ اس ریاست کو چلانے کے لیے جس انتظامی مشینری کو ہم اپنے بجٹ کا سب سے زیادہ حصّہ مختص کرتے ہیں وہ سب سے زیادہ کرپٹ،بدعنوان ،کاہل،نکمی،ہڈ حرام اور بے رحم و سفاک ثابت ہورہی ہے-اور اس کو اپنے پالنہاروں کی کوئی پرواہ نہیں ہے-ان کے دفاتر میں سب سے زیادہ برا سلوک عوام نامی مخلوق کے ساتھ ہوتا ہے-تو کیا اس ملک کی یہ نوکر شاہی اپنے قیامکے جواز سے محروم نہیں ہوتی جاتی؟میرے قاری میرے اس سوال کو کچھ زیادہ سخت قرار دے سکتے ہیں-لیکن یہ غریبوں کے گھروں میں سوالات اب بغاوت بننے کے قریب پہنچ چکے ہیں-
ہم بار بار ریاست کی رٹ کے کمزور ہونے کا زکر کرتے ہیں-اور ملک کی سلامتی کو لاحق خطرات میں اضافے کی بات بھی دھراتے ہیں-لیکن یہ نہیں سوچتے کہ اس ریاست کے اکثر وبیشتر ادارے اور ان میں کروفر سے بیٹھی نوکر شاہی اس ملک کی اکثریت کو حقیر خیال کرتی ہے-ان کی خدمت کرنے کی بجائے اشرافیہ اور حکمران طبقات کی چاکری پر لگی رہتی ہے-اس ریاست میں سیکورٹی اہلکار زیادہ اور صحت فراہم کونے و ڈاکٹر کم ہیں-اس سے ریاست کی ترجیحات کا اندازا لگایا جاسکتا ہے-
Comments
Tags: Corruption