ضیاء کا بھوت کہیں نہیں گیا

zia

مسلم لیگ نواز قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت کے ساتھ حکومت بنالے گی-اور وہ کسی حدتک اتحادی جماعتوں کی بلیک میلنگ سے بھی محفوظ رہے گی-اس سے بہتر صورت حال اس کے پاس پنجاب میں ہے-بلوچستان میں وہ جے یو آئی،این پی اور پی کے ایم پی کی مدد سے حکومت بنائے گی-

صوبہ خیبر پختون خوا میں پی ٹی آئی جماعت اسلامی ،قومی وطن پارٹی ،آزاد اراکین کی مدد سے حکومت بنائے گی-

سندھ میں پی پی پی اگرچہ اکیلے حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے لیکن ایم کیو ایم کے ساتھ ملکر حکومت بنائے گی-

کچھ حلقوں کی طرف سے یہ کہا جارہا ہے کہ مرکز ،خیبر پختون خوا میں سنٹر رائٹ پارٹیوں کے برسراقتدار آنے سے پاکستان کے اندر تعلیمی اداروں اور نصابی کتب و سٹیٹ کی پروپگینڈا مشین سے قدامت پرستی اور دائیں بازو کے خیالات کو مزید تقویت ملے گی-

ان کے خیال میں طالبانائزیشن کے عمل میں مزید تیزی آجائے گی-ایسے حلقے بہت زیادہ ہائپ پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں-اور ایک خوف پیدا کرنے کی شعوری یا لاشعوری کوشش میں مصروف ہیں-

میں نے جب اس حلقے کے لوگوں کی اس تازہ مہم کا جائزہ لینا شروع کیا تو مجھے ان کی اس مہم کے دوران دئے ہوئے دلائل میں کچھ زیادہ وزن محسوس نہیں ہوا-

میرے فاضل دوست علی ارقم نے مجھے لکھا کہ “جو پاکستان کے اندر تعلیمی اداروں میں دائیں بازو کے غلبے کے بڑھ جانے اور نصاب میں دائیں طرف کے رجحانات کے بڑھ جانے کے خطرے کی دھائی دے رہے ہیں ان سے یہ پوچھا جانا چاہئے کہ مشرف کے نام نہاد لبرل دور آمریت میں اور پی پی پی و اتحادی جماعتوں کے دور جمہوریت میں تعلیمی اداروں میں بائیں سمت لیجانے والے کون سے ریڈکل اقدامات اٹھائے گئے تھے؟اور اس دوران کون سی انقلابی تبدلیاں نصاب میں لائیں گی تھیں جن سے ضیاء دور کے بگاڑ کو درست کردیا گیا ہو؟اور اب سنٹر رائٹ کے آنے سے ان حاصلات کو خطرہ لاحق ہوگیا ہو-

پانچ سالہ دور حکومت میں ریلوے اوپن لائن میں یونینز بحال نہ ہوئیں-نہ ہی اوپن لائن میں الیکشن کرائے گئے-ریل گاڑیوں ،ٹکٹنگ اور دیگر کئی شعبے نجی شعبے کے حوالے کیے جانے کا عمل جاری رکھا گیا-

طلباء یوننیز کو وعدے کے باوجود بحال نہیں کیا گیا-ہاسٹلز پر قبضوں کی روائت کو ختم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی-ایسے وائس چانسلرز کی تعیناتی کی جاتی رہی جو تعلیم دشمن،فکری آزادی کے دشمن اور بدعنوان تھے-جنہوں نے ہماری جامعات کو فکری آذادی کے ہائیڈپارک بننے سے روکنے کی بھرپور کوشش کی-اور عملی طور پر سرکاری جامعات کو پرائیوٹ اور نوٹ بنانے والی مشینری میں بدلنے کا کام کیے رکھا-

سندھ یونیورسٹی،پنجاب یونیورسٹی،جی سی یو فیصل آباد ،بی زیڈ یو ملتان سمیت پاکستان بھر کی جامعات میں جو کچھ ہوتا رہا جس بری ایڈمنسٹریشن کا مشاہدہ ہوا کیا اس کے بعد بھی یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ ان تعلیمی اداروں میں سنٹر رائٹ کے آنے سے کچھ اور زیادہ خرابی آنے والی ہے-

میں سمجھتا ہوں کہ سابقہ پانچ سالوں میں تعلیم کے میدان میں اور نصاب کی تشکیل کے باب میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا کہ جس کے بدلے جانے کی فکر کی جائے-

پاکستان کی جامعات میں ضیاء کی آمد کے بعد جو تبدیلی آئی تھی اس میں کوئی بدلاؤ نہیں آیا ہے-فکری آزادی کل بھی مفقود تھی آج بھی مفقود ہے-آج بھی ذھنوں پر پہرے بٹھائے جانے کا سلسلہ جاری و ساری ہے-

ہمارے ہاں تاریخ اب بھی مسخ کرکے پڑھائی جارہی ہے-اور جن سورماؤں کو ضیاء نے ولن بنایا تھا ان کو سورماء بنانے اور لکھنے کی ہمت کسی نصابی کمیٹی کے کسی رکن میں نہ کل تھی نہ آج ہے-

جمہوری دور میں سلمان تاثیر اور شہباز بھٹی قتل ہوئے-رنکل کماری جیسے واقعات ہوئے-احمدی،ہندؤ،مسیحی برادرریوں پر حملے ہوئے-اس پر مرکز مین بیٹھی اور سندھ میں برسراقتدار لبرل ،پروگریسو جماعتوں نے کیا انقلابی اقدام اٹھایا؟

سلمان تاثیر کے چہلم پر پی پی پی اور حکومت کی مرکزی شخصیات تک غائب پائی گئیں-جبکہ نئے گورنر نے سلمان تاثیر کی تصویر تک گورنر ہاؤس سے ہٹاڈالی اور حلف کے بعد خطاب میں اس کا تذکرہ تک نہ کیا گیا-جو تقریر بلاول بھٹو نے لندن میں کی وہ یوسف رضا گیلانی اور آصف علی -زرداری پاکستان میں نہ کرسکے-

بلکہ جب دائیں بازو کی ملّائیت کا دباؤ بڑھنے لگا تو “توھین رسالت ایکٹ “کے چائزے کے لیے بنائی گئی کمیٹی کو ختم کردیا گیا-اور یہ بھی نہ سوچا گیا کہ اس کمیٹی کی صدارت ملنے کی پاداش میں بھٹوز کا ایک قیمتی جیالا شہباز بھٹی اپنی جان سے چلا گیا –

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جب جب دائیں بازو اور رجعت پسندوں کی طرف سے دباؤ بڑھائے جانے کا موقعہ آیا اور ایسے موقعہ پر پی پی پی کی حکومت برسراقتدار تھی تو دیکھنے میں یہ آیا کہ ترقی پسند کہلانے والی حکومت اور پارٹی کی قیادت اپنے لیفٹ موقف پر ڈٹی رہنے کی بجائے اور زیادہ دائیں سمت جھک گئی-مجھے آپ کو بھٹو صاجب کی 74ء کی ترامیم کا حوالہ دینے کی ضرورت نہیں ہے-نہ ہی 88ء،93 میں ضیاء کے قوانین کو تبدیل کرنے سے ایک دم پیچھے ہٹ جانے کی پالیسیوں کے بارے میں بتانے کی ضرورت ہے-

مجھے یہ بھی بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ کیسے ڈیپ سٹیٹ تھیوری کو بھٹو صاحب کی زندگی ہی میں آئی ایس آئی نے اس وقت بروئے کار لانا شروع کرڈالا تھا جب کابل میں ترقی پسندوں اور دائیں بازو کے لوگوں میں رسّہ کشی شروع ہوچکی تھی اور کیسے اس زمانے میں گلبدین حکمت یار اور دیگر چند بنیادپرستوں کو اسٹبلشمنٹ کی سرپرستی ملنے لگی تھی-مجاہدین کا پہلا کیمپ 74ء میں ہی بن گیا تھا-

پھر یہ بھی سبھی کو معلوم ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے جب 93ء میں دوسری مرتبہ اقتدار حاصل کیا تو انہوں نے پاک بھارت تعلقات ،کشمیر اور افعانستان میں پراکسی وار ،طالبان اور کشمیری گوریلا تنظیموں کے کاروبار کو اسٹبلشمنٹ کی مرضی پر چھوڑ دیا اور اس پر مزاحمت کرنا بند کردی تھی-

لیکن ان سب مصالحتوں کا نتیجہ کیا برآمد ہوا؟ان تجربات سے سبق سیکھتے ہوئے بےنظیر بھٹو نے جو وژن تشکیل دیا تھا اس کو جاننے کے لیے آپ کو بےنظیر بھٹو کی آخری کتاب کا مطالعہ کرلینا کافی ہوگا-یا پھر ان لیکچرز کا جو انہوں نے اپنی خود ساختہ جلاوطنی کے دوسرے دور میں یورپ،مڈل ایسٹ ،بھارت اور دیگر کئی خطوں میں دئے-

ان کی شہادت کے بعد آصف علی زراری نے مشکل سے ڈیڑھ سال محترمہ بے نظیر بھٹو کے خارجہ اور داخلہ امور پر وژن پر عمل کرنے کی بات کی اور محترمہ بےنظیر بھٹو کی ٹیم سے کام لینے کی کوشش کی –لیکن وہ اسٹبلشمنٹ سے زیادہ دیر لڑائی نہ کرسکے-اور ایک ایک کرکے ساری ٹیم کو انھیں ہٹانا پڑا-میمو گیٹ سکینڈل اس کا ڈراپ سین تھا-اس کے بعد دائیں سمت جھکاؤ کرنے کی ایسی روش شروع ہوئی کہ ہم نے پھر زرداری کو بے نظیر بھٹو کے وژن کی بات کرتے نہیں سنا-

آج تک یہ کہانی کھل نہیں سکی کہ آصف علی زرداری کیوں کم از کم سندھ،خیبرپختون خوا اور بلوچستان میں عسکری اور کالعدم تنظیموں کے نیٹ ورک کی تشکیل نو نہیں رکواسکے-وہ اپنے دور بلوچ قوم کی نسل کشی اور بلوچ نوجوانوں کے اغواء کے سلسلے کو نہیں رکوا سکے-اور ان تین صوبوں میں ان کی جانب سے بائیں سمت کو جانے والے ایسے فکری اقدامات دیکھنے کو نہیں ملے کہ جن کی بنا پر ہم کہہ سکتے کہ پنجاب اور تین صوبوں کی حکومتوں میں یہ فرق ہے-

اس لیے میں کہتا ہوں کہ 11 مئی کے دن بائیں بازو کے کارکنوں اور ترقی پسندوں میں پی پی پی اور اے این پی جیسی جماعتوں کی جیت کے لیے گرم جوشی کے ساتھ کوششوں کا فقدان بھی اسی وجہ سے تھا کہ پانچ سالوں میں ایسا کچھ بھی حاصل نہیں ہوا تھا جس کو باقی رکھنے اور کھونے سے بچانے کے لیے سردھڑ کی بازی لگانے کا فیصلہ کیا جاتا اور کچی آبادیوں،مذھبی و نسلی اقلیتوں اور جمہوری حلقوں میں جاکر ان حاصلات کے بچاؤ کا شعور اجاگر کرنے کی ضرورت کا احساس ہوتا-

پانچ سالوں میں بائیں بازو کے نظریات کی دائیں بازو اور موقعہ پرستوں کی قربان گاہوں پر اتنی قربانی دی گئی کہ کسی کو پی پی پی ،اے این پی کے دوبارا برسراقتدار آنے سے کوئی دلچسپی نہیں رہی-

میں مانتا ہوں کہ طالبان کی دھمکیوں اور دھشت گردی نے انتخابی مہم پر اثر ڈالا لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ بھٹو کی بیٹی اور باچہ خان،ولی خان ،اجمل خٹک کی پارٹیوں پر ریاستی جبر چاہے جتنا ہو ،دھشت گرد کتنا ہی ظلم کرلیں لیکن جب بھی ووٹ کا مرحلہ آتا تھا تو ان کی اکثریت کو دھاندلی سے اقلیت میں بدلا جاتا تھا یا ان کی اکثریت کا حجم کم کیا جاتا تھا-یہ نہیں ہوتا تھا کہ ان کے نشان کو ووٹ ہی نہ ملیں-

پنجاب،خیبرپختون خوا میں ترقی پسندوں کا ووٹ بینک ان کے دائیں سمت جھک جانے اور سمجھوتوں کی دلدل میں دھنسنے کی وجہ سے کم ہوا ہے-

اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ مسلم لیگ نواز اور پی ٹی آئی کی حکومتوں کے بارے میں مفروضہ خوف پیدا کرنے کی بجائے نظریات کی شفافیت کے ساتھ مرکز اور ار صوبوں میں حقیقی لیفٹ اپوزیشن بنائی جائے-اور سندھ میں اپنے ترقی پسند خیالات کو نیک نیتی کے ساتھ نافذ کرکے ان کی افادیت سندھ کے عوام کو عملی طور پر دکھائی جائے-تعلیم،صحت سمیت اب بہت سارے شعبے صوبوں کے پاس ہیں-پی پی پی کی حکومت سندھ کی عوام کو ان شعبوں میں ترقی پسند خدمات فراہم کرکے دائیں بازو کے سامنے مرکز اور دیگر صوبوں میں ایک چیلنج پیش کرسکتی ہے- اور عوامی حکومت کی تصویر پیش کرکے اپنے ناقدوں اور نکتہ چیںوں کا منہ بند کرسکتی ہے-

جہاں تک ضیاء الحق کے آسیب کے پلٹ آنے کا سوال ہے تو میں یہ کہوں گا کہ ضیاء الحق ایک آسیب سے سے ذیادہ  بھوت ہے جو دائیں بازو والوں کی روحوں سے جمٹا ہوا ہے-یہ بھوت گلفام شہزادہ بنکر ہماری اسٹبلشمنٹ کے بعض دماغوں سے بھی جمٹا ہوا ہے-یہ اس قدر طاقتور بھوت ہے کہ دھشت گردی کے خلاف جنگ میں ورنے والے فوجیوں کی یاد میں ہونے والی تقریب کے دوران یہ ہماری فوج کے سپاہ سالار جنرل کیانی کی زبان میں بھی اپنے الفاظ ٹھونسنے میں کامیاب ہوجاتا ہے-اور جنرل کیانی بھی ضیاء کے نظریات کو شوگر ملاکر قوم کی خدمت مین پیش کرنے لگتے ہیں-یہ بھوت کہیں گیا نہیں ہے اور تحریک انصاف و جماعت اسلامی کے اتحاد سے اس بھوت نے کوئی نیا جنم بھی نہیں لینا-اس بھوت کا ہمارے اردو پرنٹ میڈیا اور نصاب کی کتابوں پر پہلے ہی اجارہ ہے -اس لیے ہمیں اس بھوت کو دفن کرنے کی تدبیر کرنی چاہئیے-

Comments

comments