Kudos to Badam Zari, the first female candidate to run for the elections from Fata
KHAR: “I am contesting the election with passion, with a clean heart and a clear conscience. My passion is to educate the future generation, girls and women, and to serve them,” says Badam Zari — the first female candidate to run for the elections from Fata (Federally administered tribal areas of Pakistan).
Zari is a Pakistani housewife, who cannot read or write despite being married to a head teacher and has made history by becoming the first woman approved to run for election in the Taliban-infested tribal belt.
Zari, 53, may have little chance of winning, but her enthusiasm has been seized upon as a step towards emancipation in one of the most conservative parts of Pakistan, where women live in purdah and few even vote.
“I know I am the first woman to contest and I am hopeful that I will win,” Zari told AFP in a telephone interview from Bajaur district.
Her father initially sent her to the village school, but when other relatives said it was inappropriate for her – a young girl of only six or seven – to walk through the market to class, she was kept at home.
Bajaur is one of seven districts that make up Pakistan’s Federally Administered Tribal Areas (FATA). The semi-autonomous region of mountains, valleys and caves is one of the most deprived and ill-educated in the country.
It has been a stronghold for Afghan Taliban, al Qaeda and other Pakistani militant groups, and for years a battleground between the army and insurgents.
Zari says she has never been threatened but acknowledges she cannot campaign in public, confining herself to going door-to-door among women’s quarters.
“I have no fear, I have never been threatened by anyone,” she said.
Reforms introduced in 2011 in a bid to lessen the grip of militancy, mean political parties can contest elections for the first time in Fata, but Zari is standing as an independent.
There are 1.7 million registered voters in the tribal belt, just 600,000 of them women, the lowest rate in the country. None of the 60 seats reserved for women in the lower house of parliament is in Fata.
Zari and her husband, 55-year-old Mohammad Sultan, have put together a short manifesto, pledging to solve the problems of people in Bajaur, even diverting the benefits she would receive in parliament to her constituents.
“Bajaur is an area which lacks all basic facilities. It’s a deprived area. We have no women’s education, no health facility, no electricity and no roads,” she told AFP by telephone.
“Sometimes women living in the mountains die because of lack of health facilities. We don’t even have clean drinking water and I want to struggle for it.”
She registered to run on Sunday but was only told by election commission officials on Wednesday that her application had been accepted. Under Pakistani law, being illiterate and uneducated is no bar to running for parliament.
Noor Ul Wahab, an election officer in Bajaur, confirmed to AFP on Thursday that Zari’s papers had been approved, clearing the way for her campaign.
Zari’s husband, who has a master’s degree in international relations, confirmed his wife can write only her name and cannot read a newspaper, yet declined to say why he had not educated her. Two of his brothers are doctors.
The couple have been married for 26 years but have no children.
Although her chances are remote, Ijaz Khan, who teaches political science at the University of Peshawar, told AFP that it was an interesting move.
“She will not be able to get many votes, obviously,” he told AFP.
“For a woman to come up and say ‘I will represent you better than all men and women’; Just saying that is a big change.”
Zari is the first woman to stand in Fata, but two women from tribal communities in the southwestern province of Baluchistan were elected to parliament, in 2002 and in 2008. (Source)
پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ قبائلی علاقوں سے ایک خاتون امیدوار آنے والے انتخابات میں جنرل نشست سے حصہ لے رہی ہیں۔ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی بادام زری ایک ایسے علاقے سے الیکشن لڑ رہی ہیں جہاں فرسودہ قبائلی روایات کے باعث پہلے خواتین کو آزادانہ طورپر ووٹ ڈالنے کی اجازت حاصل نہیں تھی۔
باجوڑ ایجنسی سے نامہ نگار رفعت اللہ اورکزئی کی رپورٹ
http://www.bbc.co.uk/urdu/multimedia/2013/04/130403_badam_zari_tim.shtml
پاکستان کے قبائلی علاقے باجوڑ ایجنسی کے مرکز خار میں واقع بادام زری کا گھر گزشتہ چند دنوں سے ملکی اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
اسی بارے میں
فاٹا سے پہلی خاتون امیدواردیکھئیے02:32
قبائلی علاقے سے پہلی بار خاتون انتخابی میدان میں
خواتین نشستوں کے لیے پارٹی کارکن نظرانداز
متعلقہ عنوانات
پاکستان, الیکشن
ان کا آج کل یہ معمول ہے کہ وہ صبح اٹھتی ہیں تو ان کے مکان کے چھوٹے سے لان میں صحافی کیمروں اور دیگر ریکارڈنگ آلات کے ساتھ ان کا انتظار کررہے ہوتے ہیں۔ ہر صحافی کی کوشش ہوتی ہے کہ پہلے ان کو وقت ملے تاکہ وہ بادام زری کا انٹرویو کر سکے۔
بادام زری قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والی پہلی خاتون ہیں جو فاٹا کے کسی علاقے سے آنے والے انتخابات میں امیدوار ہیں۔ وہ باجوڑ ایجنسی کے انتخابی حلقہ این اے چوالیس سے آزاد حیثیت سے جنرل نشست پر الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔
متوسطہ طبقے سے تعلق رکھنے والی بادام زری نے کوئی تعلیم حاصل نہیں کی ہے۔ وہ بنیادی طورپر گاؤں کی ایک سیدھی سادھی قبائلی اور گھریلو عورت ہیں۔ ان سے بات کرکے اندازہ ہوجاتا ہے کہ ان کا سیاست اور دنیا کے نشیب و فراز سے دور تک بھی کوئی واسط نہیں۔
لیکن ان کو سیاست کی طرف راغب کرنے اور انتخابات میں حصہ لینے کے پیچھے ان کے شوہر سلطان محمد کا اہم کردار رہا ہے۔ سلطان محمد خار میں ایک مقامی سکول کے وائس پرنسپل ہیں۔ ان کے خاندان کے زیادہ تر افراد تعلیم یافتہ ہیں جبکہ ایک بھائی انگلینڈ میں طب کے شعبے سے منسلک ہیں۔
ترپن سالہ بادام زری کا کہنا ہے ’مجھے یوں ہی خیال آیا کہ اگر مرد انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں تو خواتین کو بھی حصہ لینا چاہیے۔ ملک میں ایسے اور بھی علاقے ہیں جہاں سے خواتین نے الیکشن میں حصہ لے کر کامیاب ہوئی ہیں اور پھر فاٹا سے تو ضرورت زیادہ ہے کیونکہ ان علاقوں سے پہلے کبھی کوئی خاتون ممبر منتخب نہیں ہوئی ہیں۔‘
“مجھے یوں ہی خیال آیا کہ اگر مرد انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں تو خواتین کو بھی حصہ لینا چاہیے۔ ملک میں ایسے اور بھی علاقے ہیں جہاں سے خواتین نے الیکشن میں حصہ لے کر کامیاب ہوئی ہیں اور پھر فاٹا سے تو ضرورت زیادہ ہے کیونکہ ان علاقوں سے پہلے کبھی کوئی خاتون ممبر منتخب نہیں ہوئی ہیں۔”
بادام زری
بادام زری کی کوئی اولاد نہیں۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ ایک چھوٹے سے سرکاری کوارٹر میں رہائش پذیر ہیں۔ بظاہر ان کے اتنے وسائل نہیں جو عام طور پر پاکستان میں انتخاب لڑنے کےلیے لازم ہوتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں بھی زیادہ تر مالدار اور پرانے سیاست دان میدان میں ہیں جو اس سے پہلے بھی اس حلقے سے الیکشن جیتے رہے ہیں۔
تاہم بادام زری کا کہنا ہے کہ وہ اپنی محنت جاری رکھیں گی اور ان سے ہر طرف سے لوگ رابطے بھی کر رہے ہیں۔
ان سے جب پوچھا گیا کہ ان کے علاقے میں شدت پسندوں کا اثر و رسوخ زیادہ ہے اور ان کا الیکشن میں حصہ لینے پر ان کو سکیورٹی کا مسئلہ بھی پیش آسکتا ہے تو اس پر انہوں نے کہا ’وہ نیک ارادے سے سیاست میں آئی ہیں اور نیک نیتی سے کام بھی کررہی ہیں تو پھر خوف کس بات کا۔ باجوڑ کے عوام ان کے بہن بھائی ہیں اس لیے انہیں کوئی خوف محسوس نہیں ہورہا لیکن پھر بھی ہوگا وہی جو اللہ کو منظور ہوگا۔‘
قبائلی علاقوں میں عام طور پر خواتین کا گھر سے باہر قدم رکھنے کو برا سمجھا جاتا ہے۔ لیکن بادام زری کو اپنے شوہر اور قبیلے کے تمام افراد کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ ان کے شوہر سلطان محمد کے مطابق ان کے والد نے بادام زری کو الیکشن میں حصہ لینے پر مجبور کیا۔
“الیکشن میں ہار جیت تو ہوتی ہے اور شاید بادام زری کو تجربہ کار اور مالدار سیاست دانوں کا مقابلہ کرنے میں مشکلات کا سامنا بھی ہو لیکن انہوں نے مردوں کے مقابلے میں جس جرآت کا مظاہرہ کیا ہے اس کے آنے والے وقتوں میں مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔”
غفار طوفان
دوسری جانب باجوڑ کے عوام بھی بادام زری کا الیکشن میں حصہ لینے کو اپنے لیے فخر سے تعبیر کررہے ہیں۔ علاقے کے ایک باشندے غفار طوفان کا کہنا ہے ’الیکشن میں ہار جیت تو ہوتی ہے اور شاید بادام زری کو تجربہ کار اور مالدار سیاست دانوں کا مقابلہ کرنے میں مشکلات کا سامنا بھی ہو لیکن انہوں نے مردوں کے مقابلے میں جس جرآت کا مظاہرہ کیا ہے اس کے آنے والے وقتوں میں مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ بادام زری نے فاٹا کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے جو قبائلی علاقوں کی تعلیم یافتہ خواتین کےلیے ایک مثال ہے۔
باجوڑ ایجنسی میں سکیورٹی کی خراب صورتحال کے باوجود بھی ہر طرف الیکشن کا ماحول نظر آتا ہے۔ تاہم کوئی بڑا جلسہ دیکھنے میں نہیں آیا۔
صدر مقام خار کے بازاروں اور گلیوں میں دیگر امیدواروں کے پوسٹرز اور بنیرز تو نظر آئے تاہم ان میں بادام زری کے نام سے منسوب کوئی پوسٹر یا بینر دکھائی نہیں دیا۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/04/130404_badam_zari_profile_rh.shtml