
یہ اک فرضی قصہ ہے برطانیہ کے اک قصبہ کا جہاں زیادہ تر عیسائی آباد ہیں ان میں سے کچھ گھر مسلمانوں کے ہیں ۔ اس کے مصروف ترین بازار میں ایک عیسئائی پادری کھڑا بائیبل کی چند آیات پر مبنی چھپا ہوا اک رنگدار ورقہ ہر راہ گرزتے ہوئے کے ہاتھ تھمانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ اسی اثنا میں حال ہی میں پنجاب پاکستان سےبرطانیہ آنے والے سیدھے سادھے شخص چوہدری خدا بخش کا گزر ہوتا ہے ۔ چوہدری خدا بکش کو اسکی اکلوتے بیٹے نے برطانیہ سیر کے واسطے بلایا ہے ،
چوہدری خدا بخش کو اتنی ہی زبان آتی ہے کو وہ ضرورت زندگی کی چیزیں خرید سکے ۔ وہ اس ورقہ کو اشتہار سمجھتے ہوئے پکڑتا ہے اور اس پر لاطینی اور انگریزی میں لکھی بائبل کی آیات اور اس کی تشریح کو سمجنھے کی ناکام کوشش کے بعد تھوڑا سا آگے جا کر اس ورقہ کو اک کونے میں میں پڑی ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتا ہے ۔ وہ اپنے خیال میں برطانیہ کے قانون کی پیروی کرتے ہوئے اس ملک کو صاف ستھرا رکھنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن اسے کیا معلوم کے وہ پادری جس نے اسے وہ ورق تھمایا تھا وہ اس کی ساری حرکت دیکھ کر سیخ پا ہو رہا ہے پادری اس بندے کے پیچھے اس مسلمان کو پکڑو کہہ کر بھاگتا ہے ۔ بوڑھے چوہدری کو احساس ہوتا ہے کہ کچھ گڑبڑ ہے وہ زیادہ تیز چل تو نہیں سکتا لیکن بازار میں زیادہ رش ہونے کی وجہ سے چوہدری خدا بخش بھیڑ میں آسانی سے چھپ جاتا ہے اور کوئی چیز خریدنے کی بجائے گھر کی راہ لیتا ہے ہانپتا کانپتا خدابخش گھر پہنچ کر سارے دروازوں کو تالے لگا کر چھپ کر بیٹھ جاتا ہے اور بیٹے بہو اور پوتوں کے انتظار میں لگ جاتا ہے دل ہی دل میں سوچ رہا ہوتا ہے کہ شاید کسی نے اسے چور سمجھا ہے اور اس کو پولیس پکڑ کے لے جائے گی ۔
چند گھنٹے گزر جانے کے بعد دروازے پر زور زور سے دستک ہوتی ہے لیکن کوئی جواب نہ پا کر دروازے پر دستک دینے والا واپس چلا جاتا ہے ۔ خدا بخش صوفے پہ بیٹھا انتظار کرتا کرتا سو جاتا ہے اور خواب میں بھی پولیس اس کے پیچھے بھاگ رہی ہوتی ہے جب اس کی آنکھ کھلتی ہے تو ہر طرف اسے آگ دکھائی دیتی ہے تھوڑی دیر میں یہ آگ سارے گھر کو خدا بخش سمیت جلا دیتی ہے ۔ کچھ گھنٹوں کے بعد ٹی وی پر خبر چل رہی ہوتی ہے کہ چند شر پسندوں نے انجیلِ مقدس کی بے حرمتی کی وجہ سے غصہ میں آ کر اک قصبہ میں مسلم گھروں کو آگ لگا کر جلا دیا فائر بریگیڈ ابھی تک آگ بجانے کی کوشش میں مصروف ہے اور پولیس کو چند گھروں سے جلی ہوئی لاشیں ملی ہیں ۔ تھوڑی دیر بعد دنیا بھر کے مسلمان فیس بک ٹوئیٹر پر احتجاج شروع کر دیتے ہیں پاکستان کے ٹی وی چینلز اس واقعہ کی لمحہ بہ لمحہ رپورٹنگ کر رہے ہوتے ہیں اور پاکستان میں مذہبی اور سیاسی جماعتیں احتجاجی تحریک کا اعلان کر دیتی ہیں ۔ برطانیہ پر الزام لگ رہا ہوتا ہے کہ وہ اپنے ملک میں آباد اقلیتوں کا تحفظ کرنے میں ناکام رہا ہے چند سو مسلمانوں سے برطانیہ میں آباد عسیائیوں کو کیا خطرات لاحق ہو سکتے تھے ۔
آپ پریشان مت ہوں یہ تو اک فرضی قصہ تھا برطانیہ اور مغرب میں مسلمانوں کو جس قدر حقوق اور مذہبی آزادی حاصل ہے اس کا عشرِ عشیر بھی پاکستان میں آباد اقلیتوں کو حاصل نہیں ۔ جوزف کالونی میں گھروں کو جلانے کا واقعہ اور اس سے پہلے سانحہ گوجرہ وغیرہ اس بات کہ گواہ ہیں کہ اقلیتوں کے ساتھ کس طرح کا سلوک روا رکھا جا رہا ہے ۔ اس کہانی کا خیال یوں ذہن میں آیا کہ میرے کچھ عزیز اور دوست یورپ اور امریکہ کے چند علاقوں میں آباد ہیں ، سوچا کہ ان کے ساتھ کچھ ایسا بھی ہو سکتا ہے لیکن ان کے بقول وہ خود کو پاکستان سے زیادہ محفوظ تصور کرتے ہیں اس کے باوجود کہ دہشت گردوں نے مسلمانوں کا نام رسوا کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی ۔
پاکستان میں آباد عیسائی یا دوسری اقلییتیں جان بوجھ کر کوئی ایسا کام یا حرکت نہیں کریں گے جس سے اسلام کی کوئی توہین ہو یا اسلام خطرے میں پڑھ جائے ۔ ماضی میں ہونے والے بہت سے واقعات جس میں توہینِ رسالت کے قانون کے تحت مقدمات درج کئے گئے ان میں سے زیادہ تر واقعات ذاتی رنجش یا کسی غلط فہمی کی وجہ سے شروع ہوئے ۔ ابھی چند لمحے پہلے اک آن لائن اخبار کے مطابق جوزف کالونی میں ہونے والا واقعہ جس میں اک صاحب نے اک مسیحی پر توہین رسالت کا الزام لگایا در اصل وہ دو پرانے دوستوں میں نشہ میں بدمست ہو کر لڑائی کرنے پر شروع ہوا۔
لگتا تو ایسے ہے کہ اک شرابی مسلمان جو نشہ میں چور تھا اس نے ذاتی رنجش کی بنا پر الزام لگایا۔ پاکستان میں بڑھتے ہوئے انتہا پسند رجحانات کو قابو میں کرنے کے ساتھ ساتھ اس قانون پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے لیکن سلمان تاثیر صاحب نے جب اس قانون کے غلط استعمال کی وجہ سے اس پر تنقید ان کی شہادت کا سبب بن گئی دکھ کی بات تو یہ ہے کہ ان کے قاتل کو ہیرو بنا کر پیش کیا گیا۔ لگتا تو ایسا ہے کہ نہ تو کوئی قانون بدلنے والا ہے اور نہ ہی لوگ اس کے غلط استعمال سے باز آئیں گے لیکن ہم سب کو اپنے عزیزو اقارب اور دوستوں کو بتاناچاہیے کہ سب اس بات پر احتجاج کریں تاکہ اس سانحہ کے مجرمو ں کو سخت سزا ملے ۔
اور آئندہ لوگوں کی ایسی حرکت کی ہمت نہ ہو۔ لوگوں کو بتانا ہو گا کہ آج کسی اور کا گھر جلا ہے لیکن کل جلنے والا گھر ہمارا بھی ہو سکتا ہے لیکن انتہائی دکھ کی بات یہ ہے اگر کسی سے بات کی جائے اور سمجھانے کی کوشش کی جائے تو لوگ ’سانوں کی‘(ہمیں کیا) کہہ کر بات کو ٹال دیتے ہی
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا لوگ ٹهرے نہيں حادثہ دیکهہ کر

Comments
comments