’چھ برس میں ہزار سے زیادہ عمائدین ہلاک‘

دلاور خان وزیر
بی بی سی اردو ڈاٹ کام پشاور

پاکستان کے قبائلی علاقوں میں گذشتہ چھ سالوں کے دوران کم سے کم ایک ہزار سے زیادہ قبائلی عمائدین اور قومی مشران (رہنما) ہدف بنا کرمارے گئے ہیں جب کہ سینکڑوں اپنا علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

فاٹا سکریٹیریٹ میں ایک اعلیٰ اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ 2006 سے 2012 تک سات قبائلی ایجنسیوں اور نیم قبائلی علاقوں میں شدت پسندی کے مختلف واقعات میں ایک ہزار سے زیادہ قبائلی عمائدین اور قومی مشران کو ہدف بنا کر ہلاک کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس دوران سینکڑوں قبائلی عمائدین زخمی ہوئے ہیں جن میں کچھ شدید زخمی تھے اور کچھ معمولی زخمی شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سات قبائلی ایجنسیوں میں 42647 قبائلی ملکان موجود ہیں۔ جن میں بعض کو قبائلی عمائدین یا ملکانان اور بعض لنگی مشر یا قومی مشران کے نام سے جانے جاتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ باجوڑ ایجنسی میں7396، مہمند ایجنسی میں 8289۔ خیبر ایجنسی میں 3681، کُرم ایجنسی میں 1112، اورکزئی ایجنسی میں 7613، شمالی وزیرستان میں 1576، جنوبی وزیرستان میں 1380 جبکہ نیم قبائلی علاقوں میں 2100 ملکان اور لنگی مشران موجود ہیں۔

اہلکار کا کہنا تھا کہ گذشتہ چھ سالوں کے دوران تمام قبائلی علاقوں میں 1035 قبائلی ملکان اور قومی مشران کو ہدف بنا کر ہلاک کیے گئے ہیں۔ اہلکار کے مطابق سب سے زیادہ ہلاکتیں باجوڑ ایجنسی میں ہوئی ہیں۔

 

کلِککس ایجنسی میں کون سے نمایاں ملکان ہلاک کیے گئے: کلک کریں

اہلکار کے مطابق نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے ان ایک ہزار قبائلی عمائدین میں سے کچھ ایسے امن کمیٹیوں کے لوگ شامل ہیں جو علاقے میں قومی مشران بھی تھے اور امن کمیٹیوں میں بھی پیش پیش تھے۔

اہلکار کا کہنا تھا کہ فاٹا سکریٹیریٹ کی جانب سے ہلاک ہونے والوں کو تین لاکھ اور زخمیوں کو ایک لاکھ پچاس ہزار پاکستانی روپے معاوضہ ادا کردیا گیا ہے۔

اہلکار نے واضح کیا کہ ہلاک ہونے والوں کی یہ تعداد مقامی انتظامیہ کی طرف سے رپورٹ کی گئی ہیں جن کو فاٹا سکریٹیریٹ نے معاوضہ بھی ادا کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ انتظامیہ کی جانب سے عام شہری اور ایک قبائلی سردار کے ہلاکت پر لواحقین کو معاوضہ برابر ہی دیا جاتا ہے۔ البتہ خاصہ دار فورس اور لیویز کے اہلکاروں کو پہلے تین لاکھ دیے جاتے تھے اور بعد میں آٹھ لاکھ، جب کہ اب یہ رقم بڑھا کر 30 لاکھ کر دی گئی ہے۔

ابراھیم خان کوکی خیل آفریدی کو دو سال پہلے خیبر ایجنسی کی تحصیل جمرود میں ہدف بناکر ہلاک کیاگیا۔ ابراھیم خان کی ہلاکت کے بعد اب ان کے خاندان میں اور ابراھیم خان کے چچازاد بھائی ملک اکرام اللہ جان ایک سرکردہ ملک کی حیثیت سے سامنے آئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ شدت پسندوں کی جانب سے حملوں کی وجہ سے سینکڑوں قبائلی عمائدین نے اپنے علاقے چھوڑ دیے ہیں اور وہ پاکستان کے دوسرے علاقوں میں رہائش اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے علاقے میں قبائلی جرگے بھی بُری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

ابراھیم خان کوکی خیل آفریدی کو دو سال پہلے خیبر ایجنسی کی تحصیل جمرود میں ہدف بناکر ہلا ک کیاگیا۔ ابراھیم خان کی ہلاکت کے بعد اب ان کے خاندان میں اور ابراھیم خان کے چچازاد بھائی ملک اکرام اللہ جان ایک سرکردہ ملک کی حیثیت سے سامنے آئے ہیں۔

ملک اکرام اللہ جان نے بی بی سی کو بتایا کہ تمام قبائلی علاقوں میں ملکان کی ہلاکتوں سے انتظامیہ اور قبائل کے درمیان دوری پیدا ہوگئی ہے۔ اس دوری کی وجہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قبائلی عمائدین کا کردار حکومت اور عوام کے درمیان ایک پُل کے مانند تھا اور قبائلی سرداروں کی ہلاکت کے بعد جرگے بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں اور اس وقت قبائلی جرگے برائے نام رہ گئے ہیں۔

اسسٹنٹ پولیٹکل ایجنٹ جمردو جہانگیر اعظم نے بتایا کہ یہ بات درست ہے کہ قبائلی عمائدین کو چُن چُن کر ہلاک کیاگیا ہے۔ لیکن اس کے باجود بھی قبائلی نظام کا انحصار جرگوں پر ہے اور وہ ایجنسی کے اندر تمام معاملات اور تنازعات کو جرگوں کے ذریعے حل کراتے ہیں۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ حالت خراب ہونے سے پہلے قبائلی عمائدین کے ذریعے ان کے تمام تنازعات مقامی سطح پر حل ہوتے تھے لیکن قبائلی عمائدین کے کمزور ہونے سے لوگوں کے درمیان تنازعات حل کرانے میں انتہائی مُشکلات کا سامنا ہے۔

Source: BBC Urdu

’یہ مشران اپنی ذات میں ادارہ ہوا کرتے تھے‘
آصف فاروقی
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

مشران کے چن چن کر قتل کیے جانے کے بعد اب ہم اس پریشانی کا شکار ہیں کہ ہماری اگلی نسل اس خلا کو کیسے پر کرے گی؟

مشران کے چن چن کر قتل کیے جانے کے بعد اب ہم اس پریشانی کا شکار ہیں کہ ہماری اگلی نسل اس خلا کو کیسے پر کرے گی؟

قبائلی علاقوں کے لیے سابق وفاقی وزیر اور موجودہ گورنر خیبر پختونخوا انجینئر شوکت اللہ نے قبائلی عمائدین کے قتل کو بڑا قومی نقصان قرار دیا ہے۔

’یہ مشران اپنی ذات میں ادارہ ہوا کرتے تھے۔ یہ لوگ کئی سالوں کے تجربے کے بعد اس مقام تک پہنچتے تھے جہاں وہ اپنے تجربے اور دانش کی بنیاد پر روز مرہ مسائل حل کرنے کے ساتھ اہم سیاسی معاملات پر بھی دسترس رکھتے تھے۔ ان مشران کے چن چن کر قتل کیے جانے کے بعد اب ہم اس پریشانی کا شکار ہیں کہ ہماری اگلی نسل اس خلا کو کیسے پر کرے گی۔‘

باجوڑ ایجنسی سے تعلق رکھنے والے انجینئر شوکت اللہ نے بی بی سی کے ساتھ یہ گفتگو گورنر کا عہدہ سنبھالنے سے قبل کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ یہ بھی حقیقیت ہے کہ سینکڑوں مشران کے قتل کے بعد بہت بڑی تعداد میں مشران اور ان کے رشتہ دار قبائلی علاقے چھوڑ کر اسلام آباد یا دیگر شہروں میں گمنامی کی زندگی گزارنے پر بھی مجبور ہوئے۔
انجینئر شوکت اللہ کا کہنا تھا کہ ان مشران کے قتل ہونے اور علاقے چھوڑ کر چلے جانے سے قبائلی علاقوں میں صدیوں سے قائم جرگے کا نظام متاثر تو ہوا لیکن مکمل طور پر ختم نہیں ہو سکا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت نے جس قدر ممکن ہوا ان مشران کی حفاظت کی کوشش کی۔
’لیکن ان میں بیشتر افراد کو ان کے اپنے علاقوں میں نہیں بلکہ شہروں یا ایسے مقامات پر نشانہ بنایا گیا جہاں پر انہیں معمول کی سکیورٹی دستیاب نہیں تھی۔‘
انجینئر شوکت اللہ نے کہا کہ ویسے بھی ہدف بنا کر قتل کرنے کے واقعات کراچی میں روکے نہیں جا سکے تو قبائلی علاقوں میں انہیں روکنا زیادہ مشکل ہے۔
انہوں نے کہا کہ مشران کے خلاف اس مہم کا آغاز ان کے اپنے علاقے باجوڑ سے ہوا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ سب سے زیادہ مشران انہی کے علاقے میں قتل کیے گئے۔
’جن لوگوں نے سکیورٹی مانگی ان کی حفاظت کا بندوبست کیا گیا۔ بعض لوگوں نے خود سے ہی حفاظتی اقدامات کیے۔ لیکن وہ لوگ جنہوں نے غیر محتاط رویہ اختیا کیا وہ اس مہم کا نشانہ بنے۔‘

Source: BBC Urdu

Comments

comments

WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.