Hinduism: An eco-friendly way of life
A thought provoking article by Riaz Sohail on BBC Urdu dot com, comparing the treatment of peacocks in Sindh by Muslims versus Hindus.
Shame on those Muslims who claim that their religion is a message of peace for all living creatures but whose actual practices are in direct opposition to their religious principles.
Sharm tum ko magar naheen aati.
مسلمان مور کے دشمن اور ہندو محافظ
تھر کے صحرائی ٹیلوں اور گھروں میں اکثر مور رنگ بکھیرتے نظر آجاتے تھے مگر اب چند ہی ایسے گاؤں ہیں جہاں بارش کی آمد سے پہلے چیخ چیخ کر آگاہ کرنے والا یہ پرندہ بچا ہوا۔ پاکستان میں سب سے زیادہ مور اسی صحرائی علاقے میں پائے جاتے ہیں۔
روایتی طور پر مور کو خوبصورتی، خوش قسمتی اور مقدس علامت مانا جاتا ہے، کئی شاعروں اور مصوروں نے متاثر ہوکر ا سے اپنے گیتوں اور فن پاروں میں محفوظ کیا ہے۔
مور صرف ان علاقوں میں موجود ہیں جہاں ہندو آبادی اکثریت میں ہے اور انہوں نے ان کی حفاظت کے لیے ضابطہ بنایا ہوا، قحط کے دنوں میں بھی یہ لوگ انہیں دانہ پانی فراہم کرتے ہیں۔
تھر کے ضلعی ہیڈ کوراٹر سے چالیس کلومیٹر دور ایک سو گھروں پر مشتمل گاؤں ڈیڈھ سر میں دوسو سے زائد مور موجود ہیں۔
پرائمری ٹیچر محمد چارو بتاتے ہیں کچھ عرصہ پہلے تک ان کے گاؤں میں ایک بھی مور نہیں تھا برابر کے گاؤں سے ایک دو مور یہاں آئے، جس کے بعد گاؤں والوں نے ان کے شکار اور پکڑنے پر پابندی عائد کر دی۔ مقامی پنچایت نے فیصلہ کیا کہ جو بھی خلاف ورزی کرے گا اس پر پانچ ہزار روپے جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ جس کے بعد نہ وہ ان موروں کو پکڑتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کو پکڑنے دیتے ہیں۔
صحرائے تھر کی آبادی انیس سو اٹھانوے کی مردم شماری کے مطابق نو لاکھ سے زائد تھی جس میں تقریبا پچاس فیصد آبادی ہندو ہے، یہ صحرائی علاقہ ہر دوسرے سال قحط سالی کا شکار ہوجاتا ہے۔
مالنہور وینا گاؤں کے رہائشی ریٹائرڈ استاد پریم شیوانی کے مطابق پہلے تھر کے ہر گاؤں میں مور پائے جاتے تھے مگر انیس سو پینسٹھ اور اکہتر کی پاکستان بھارت جنگ کے بعد یہاں سے مقامی ہندو آبادی بڑی تعداد میں نقل مکانی کر کے بھارت چلی گئی اور وہاں سے مسلمان آبادی یہاں آگئی، اس کے بعد تقریبا ستر فیصد دیہات سے مور نایاب ہوگئے ہیں اور جن تیس فیصد دیہاتوں میں موجود ہیں وہاں بھی روز بروز ان کی تعداد میں کمی ہو رہی ہے۔
محکمہ جنگلی حیات کے چیف کنزرویٹر حسین بخش بھاگت بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ہندو کمیونٹی نے مور کو تحفظ دیا ہے۔ ان کے مطابق تھر اور عمرکوٹ کے صحرائی علاقے میں جہاں ہندو آبادی ہے وہاں مور کو کافی تحفظ ملا ہوا ہے، جہاں جہاں بھی ان کے گاؤں ہیں انہوں نے باقاعدہ ان کا تحفظ کیا ہوا ہے، وہ نہ کسی کو پکڑنے دیتے ہیں اور نہ کسی کو مداخلت کرنے دیتے ہیں۔
سرحدی علاقہ ہونے کی وجہ سے سرحدی فورس رینجرز کے اہلکاروں کی جانب سے مور پکڑنے اور گاؤں کے لوگوں کی جانب سے مزاحمت کی کئی شکایات سامنے آتی رہی ہیں۔ اقلیتی لوگ جو عام طور پر کسی جھگڑے میں نہیں پڑتے مگر مور پکڑنے کے خلاف ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر مٹھی میں کئی احتجاج کرچکے ہیں۔
ڈیڈھ سر گاوں کے محمد چارو بتاتے ہیں کہ غیر مقامی لوگ مور لینے آتے ہیں مگر وہ انہیں پکڑنے نہیں دیتے، ایک مرتبہ رینجرز والے ان کے گاوں آئے تھے کہ انہیں مور کے بچے چاہئیں مگر انہوں نےمعذرت چاہی جس کے بعد وہ دوسرے گاوں گئے اور وہاں جاکر نوکری کا آسرا دیکر مور کے بچے لے لیے۔
پریم شیوانی کے مطابق مور کو بطور گفٹ بھی استعمال کیا جاتا ہے ماتحت افسرانِ بالا کو خوش کرنے کے لیے مور بھیجتے ہیں۔ اس طرح مقامی لالچی قسم کے لوگ افسران سے تعلق استوار کرنے کے لیے بھی مور پیش کرتے ہیں۔ یہ صورتحال رہی تو آئندہ دو دہائی میں یہ پرندہ مشکل سے بچے گا۔
بارش کے دنوں میں مور انڈے دیتے ہیں ماحول کے تحفظ اور بقا کے لیے کام کرنے والے ادارے سکوپ کے مقامی رضاکار بھارو مل بتاتے ہیں کہ یہی سیزن انڈے اور بچوں کی فروخت کا ہوتا ہے۔ مور کا انڈہ لے کر اس کو مرغی کے نیچے رکھا جاتا ہے اور جب اس میں سے بچہ نکلتا ہے تو اسے فروخت کردیا جاتا ہے، ان کے مطابق جو ٹرک مال مویشی لیکر جاتے ہیں ان میں مور بھی چھپا کر بڑے شہروں کو بھیجے جاتے ہیں ۔
اللہ رکھیو کھوسو کے مطابق جو لوگ بچے لے جاتے ہیں وہ اکثر مرجاتے ہیں ایک سو میں سے صرف ایک ہی بچ پاتا ہے،اس وجہ سے ان کی نسل کو خطرات ہیں۔
محکمہ جنگلی حیات دو سو روپے کی معمولی فیس پر مور پکڑنے کا اجازت نامہ جاری کرتا ہے مقامی لوگوں کے مطابق پیشہ ور شکاری اس اجازت نامے کا غلط استعمال کرتے ہیں، اس پرمٹ کے مطابق ایک وقت ایک ہی مور رکھا جاسکتا ہے مگر یہ شکاری ہر چکر میں ایک مور لے جاتے ہیں۔اگر کوئی پکڑا بھی جائے تو اس کی سزا صرف ایک ہزار روپے ہے۔ کراچی سے اسلام آباد تک ان کا کاروبار کیا جاتا ہے اور ویب سائیٹ پر ان کی تشہیر ہوتی ہے۔
محکمہ ماحولیات کے چیف کنزرویٹر حسین بخش بھاگت کے مطابق جنگلی حیات کے قانون کے تحت مور کو تحفظ حاصل ہے اس کے رکھنے، پکڑنے اور اس کی فروخت پر مکمل طور پر پابندی ہے، مگر روایت کو بھی جاری رکھنے کی وجہ سے اس کی اجازت دی ہوئی ہے کہ کسی کو گھر پر مور رکھنا ہے تو اجازت نامہ حاصل کیا جاتاہے۔
وہ تسلیم کرتے ہیں کہ مور پکڑے جا رہے ہیں لوگ اس کاروبار میں ملوث ہیں مگر وسائل اور افرادی قوت کی کمی کی وجہ سے وہ انہیں روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔
تھر کے کچھ علاقے بجلی سے روشن ہوگئے ہیں مگر بجلی کے کھمبے اس پرندے کے لیے خطرناک ثابت ہوئے ہیں، مور اڑ کر بجلی کے کھمبے پر بیٹھتا ہے اور بجلی کے جھٹکے کا شکار ہو جاتا ہے۔
مقامی لوگ مور کو مغرور پرندہ سمجھتے ہیں مگر ان کے مطابق یہ گاؤں کا زیور اور ان کی زندگی اور ماحول کا ایک حصہ ہیں۔ اس سے پہلے اس علاقے میں پائے جانے والے پرندے کونج، سارس اور ھنج پہلے ہی ناپید ہوچکے ہیں، محکمہ جنگلی حیات کا کہنا ہے کہ اس بات پر غور کیا جا رہا ہے کہ مور کے شکار کے پرمٹ جاری نہ کیے جائیں
Lord Vishnu (the saver of the whole universe) is imagined as sleeping peacefully on the bed formed with Sheshanag (great snake) on great ocean. Lord Shiva is meditating on glaciers, accompanied by bull named as Nandi and River Ganga is flowing out of the hair of his head and snakes are playing peacefully on his holy body. The ocean and the glaciers are most important chain for existence of this globe and are thus kept as most sacred place and protected from any human intervention.
In Hinduism, all Gods are worshipped with one animal as vahan (carrier/company). Apart from spiritual meanings, this is helpful to protect animal bio-diversity; all the animals which have an important role in environment are preserved carefully by allotting a special status as attached with Gods– for example, beautiful white swan is associated with Lord Brahma (the creator) and Goddess Saraswati (Goddess of education and fine arts). God Maheswara is sitting on Brisava (great Ox ), Lord Krishna is associated with cows. Dhavali and Saoli are the names of His two favourite cows. Goddess Laxmi is accompanied by owl or elephants, Devi Durga is sitting on a lion, Devi Ganga is sitting on Makara (an ancient sea-animal looks like an elephant), Lord Ganesha is worshipped with a mouse and Lord Kartikeya is seen on a peacock.
Among dus avatars (ten incarnations) of Lord Vishnu, fish, tortoise and wild boar are described as the three most primitive avatars. In this way, Hindus tried to point out the chain of evolution of life on earth, and this also gives a special protection to tortoise, fishes and wild boars.
Most of the temples in India, especially in rural areas are home to different animals like monkey, tortoises, fish, snakes, bats, owls etc. In many Shiva temples, snakes are worshipped. Snakes easily move in and around the temples, take milk from devotees, nobody harms them and even they don’t harm any one. In many ways, Hindu culture teaches humans to build a humane relation with animals and live together sharing the earth.
Ayurveda (the Veda for life) prescribes many herbal treatments for many diseases; this not only saves human being with natural medication, but also saves herbs and plants as useful friends of human being and facilitates respect to nature.
Also it offers many natural pest control measures which are popular and used in homes. For example, turmeric powder is used to get rid of red ants in the kitchen. Sarpagandha plant is planted near the courtyard to repel snakes etc. These prevent the use of chemical pesticides.
In rural areas of Orissa, farmers rarely kill rats; they just catch one rat, colour it hugely with sindoor (vermillion) and release it. Next day, rats stop visiting the place for at least three months. Biodiversity management groups may list out such practices and encourage replication of these ‘good practices’ to keep the food-chain intact and help preserve the bio-diversity.
To protect the environment, protection of trees is very necessary. Hindu culture gives special attention to this also. Banyan and bata trees are given the status of God and imagined as an abode of Lord Narayana. These trees cannot be cut or uprooted according to Hindu culture and plantation of these plants is considered as most pious work.
But unfortunately, after English subjugation of India since 1757 to 1947, a tendency of rejecting all the practices of Hindu culture as ‘foolish thing’ or ‘blind faith’ is embedded in the mind of people and this has taken much toll on relation between human and nature also.
Bio-diversity of India today, is almost destroyed. Sustainable education to people through generations on importance of bio-diversity and its impact on global warming is a Herculean task. Our culture could do it in a simple way—way of love, respect and mutual recognition!