Balochistan Burns!
QUETTA, April 9: A police constable was killed and at least 12 other people were injured in firing on Thursday as Balochistan slid into violence after the bodies of three Baloch nationalist leaders were found in Turbat.
The mysterious killing of three leading Baloch nationalist leaders – who were allegedly arrested by intelligence agencies last Friday – have sparked a wave of massive protests and violence all over Balochistan that has so far killed one police official. Police found the decomposing bodies of the three Baloch leaders – veteran politician Ghulam Mohammad Baloch and Lala Munir of the Balochistan National Movement (BNM) and Sher Muhammad Baloch of the Baloch Republican Party (BRP) – in Pidrak area of Turbat district on Wednesday evening. The Baloch leaders were allegedly arrested last Friday by the state intelligence apparatus from the office of Kachkol Ali Baloch, a former leader of the opposition in the Balochistan Assembly. According to local sources, the Baloch leaders had been shot in the head, and their faces were hardly recognisable. The killing of the Baloch leaders has invited widespread condemnations – including by Balochistan Chief Minister Nawab Aslam Raisani, Senator Hasil Khan Bizanjo and Sanaullah Baloch. Baloch political parties have decided to observe a three-day mourning period, and the Baloch National Front has announced a strike on April 11 and 12. Violence and protests broke out across Balochistan soon after the news of the Bloch leaders’ killing broke out. Reuters reported that two people had been killed in the violence.
اعجاز مہر
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں تین قوم پرست رہنماؤں کے قتل سے جمہوری حکومت کی سیاسی مصالحت کی کوششوں کو جہاں بڑا دھچکہ پہنچا ہے وہیں یہ واقعہ مسلح مزاحمت کو مزید تقویت بخشنے کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔
غلام محمد بلوچ، لالہ منیر اور شیر محمد بلوچ کو تربت کی ضلعی عدالتی احاطے سے سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد نے گزشتہ جمعہ کو اغوا کیا اور بدھ کی شب ان کی مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں۔
جمعرات اور جمعہ کو بلوچستان بھر میں ان ہلاکتوں کے خلاف ہنگامے ہوئے، سڑکیں اور بازار بند کروائے گئے اور توڑ پھوڑ کی گئی۔ تین رہنماؤں کے قتل پر بلوچستان کے علاوہ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے بلوچ آبادیوں والے علاقوں میں بھی احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔
بلوچستان کے ایک ماہر تعلیم اور دانشور ڈاکٹر نعمت اللہ گچکی کہتے ہیں کہ نواب اکبر بگٹی اور بالاچ خان مری کی ہلاکت کے بعد بھی صوبے بھر میں ہنگامے ہوئے لیکن اس بار اس سے بھی زیادہ شدت سے احتجاج ہو رہا ہے۔ پنجگور سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر نعمت اللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ تینوں مقتول بلوچ رہنما نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور بلوچ نوجوانوں میں اپنے کردار کے حوالے سے بے حد مقبول تھے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں جو آگ لگی ہوئی ہے وہ ان ہلاکتوں سے بھڑک اٹھے گی کیونکہ یہ واقعہ جلتی پر تیل کا کام کرے گا۔
ان کے مطابق ’ہمارے نوجوان اور ہم جیسے بزرگ جو جمہوریت کی بات کرتے ہیں، ان پر برہم ہیں اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کے ہاتھوں اس طرح کے قتل سے علیحدگی کی سوچ پروان چڑھے گی۔ اور یہ واقعہ حکومت کی مصالحت کی کوششوں کو ناکام بنادے گا۔۔۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی طاقتور قوتوں کو بلوچستان سے جان چھڑانے کی بڑی جلدی ہے۔‘
بلوچستان کے سیاسی رہنماؤں سینیٹر حاصل بزنجو اور سردار اختر مینگل سمیت اکثر نے تین بلوچ رہنماوں کے قتل کا الزام پاکستان کی انٹیلیجنس ایجنسیوں پر لگایا ہے لیکن فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس نے ان ہلاکتوں پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ملک دشمن عناصر کی کارروائی ہے۔ انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ قتل کے اس واقعہ سے حکومت کی مصالحتی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔ ان کے مطابق افواج پاکستان بلوچستان میں امن و امان کی کوششوں کی حمایت کرتی ہیں۔ ترجمان نے ان رہنماؤں کے ان بیانات پر افسوس ظاہر کیا جس میں بغیر حقائق جانے قتل کا الزام سیکورٹی ایجنسیز پر لگایا گیا ہے۔
فوجی ترجمان کے بیان پر بعض مبصرین کی رائے ہے کہ اس سے ایسا تاثر ملتا ہے کہ یہ پاکستان کے بیرونی دشمنوں کی سازش ہو سکتی ہے لیکن اس صورت میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ تربت کے شہر سے تین رہنماؤں کو غیر ملکی ایجنٹ دن دہاڑے اغوا کر لیں۔ ان کے مطابق اگر ایک لمحے کے لیے یہ فرض بھی کیا جائے تو پھر یہ تو پاکستان کی تمام سکیورٹی ایجنسیوں کی ناکامی ہے کہ ایک دشمن ملک کے کارندے ایسا کرلیں۔
بلوچستان کے ایک سینیئر صحافی اور تجزیہ کار صدیق بلوچ کہتے ہیں کہ ’تین نوجوانوں کو ریاستی تحویل میں قتل کیا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ سویلین اداروں نے تو انہیں قتل نہیں کیا۔۔ بلوچستان کے گورنر خود کہتے ہیں کہ یہ دہشت گردی ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ ’فوجی قیادت کا جو منتخب حکومت کے ساتھ ہنی مون تھا وہ ختم ہوتا نظر آرہا ہے اور اس سے حالات مزید خراب ہوں گے۔۔۔ یہ واقعہ بہت بڑی تبدیلی کا سبب بن سکتا ہے۔۔۔ وفاقی حکومت نے بھی ایک سال گزر گیا کچھ نہیں کیا۔۔۔ ایک دو سردار اور ان کے بچوں کو چھوڑ دیا لیکن سینکڑوں غریب گمشدہ بلوچوں کے لیے کچھ نہیں کیا‘۔ یاد رہے کہ بلوچستان میں سنہ دو ہزار سے ملٹری انٹیلیجنس پر مبینہ طور پر بلوچ نوجوانوں کو اغوا اور قتل کرنے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔
تین بلوچ رہنماؤں کے قتل سے بظاہر لگتا ہے کہ بلوچستان میں جاری سیاسی تحریک اور مسلح مزاحمت کو مزید تقویت ملے گی اور ان لوگوں کی سوچ کو فروغ مل سکتا ہے جو سمجھتے ہیں کہ پارلیمانی سیاست سے حقوق حاصل نہیں ہو سکتے۔
ڈاکٹر نعمت اللہ کہتے ہیں ’ہم جب جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو نوجوان پہلے ہی ہم پر ناراض ہوتے تھے اور اب اس طرح کے واقعات سے ہم جیسے لوگوں کی کوئی نہیں سنے گا اور بات دوسری طرف نکل جائے گی۔‘
کچھ مبصرین کی رائے ہے کہ صوبے کے قدرتی وسائل پر بلوچستان کا حقِ مالکیت تسلیم کرانے کی خاطر سرگرمِ عمل بعض بلوچ قومپرست رہنما جس طرح اپنے تین ساتھیوں کے قتل کا الزام ریاستی اداروں پر لگا رہے