US and People both are losing patience


امریکہ جن مطالبات کا اظہار پاکستانی اعلیٰ فوجی اور سول حکام سے بند کمروں اور پرائیویٹ طورپر کررہا تھا اب ان کا اظہار شکایات کی صورت میں کھلے عام کیا جا رہا ہے۔ پہلے ایڈمرل مائیک مولن نے حقانی نیٹ ورک کو آئی ایس آئی کی ٴٴVeritable Armٴٴ قرار دیا تھا اور اب امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا نے افغانستان کے غیر اعلانیہ دورے کے موقع پر واضح طورپر متنبہ کیا ہے کہ پاکستان میں شدت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے حوالے سے واشنگٹن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔ پنیٹا قندھار میں ایک بیس پر ہونے والے خودکش دھماکے کے ایک روز بعد کابل پہنچے تھے جہاں انہوں نے حکام سے نیٹو افواج کے خلاف بڑھتے ہوئے حملوں کے حوالے سے بات چیت کی تھی جس کے بعد امریکی وزیر دفاع نے حقانی نیٹ ورک کو افغانستان میں موجود نیٹو افواج کے خلاف کارروائی کا ذمہ دار قرار دیا اور کہا کہ جب تک پاکستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں تب تک افغانستان میں امن کا قیام بہت مشکل ہے۔

گزشتہ برس پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے امریکی کانگریس کے اراکین کے ایک وفد جس میں امریکی ہوم لینڈ سیکورٹی کے سربراہ مک کال بھی شامل تھے، تو اس وقت برطانوی اخبار ٹیلی گراف میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق جب صدر مملکت آصف علی زرداری نے یہ کہا تھا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ مل کر حقانی نیٹ ورک کا خاتمہ کرے گا تو اس وقت بین الاقوامی میڈیا میں جو سب سے اہم سوال اٹھایا گیا تھا وہ یہ تھا کہ صدر زرداری کوفوج اور خفیہ ایجنسیوں پر کتنی دسترس حاصل ہے؟ جو افغان پالیسی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، بین الاقوامی دنیا یہ سمجھتی ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی بشمول امریکہ بھارت اور افغانستان کے حوالے سے پالیسی عسکری اور انٹیلی جنس اسٹیبلشمنٹ بناتی ہے اور اس کا بنیادی ڈیزائن 80 اور 90 کی دہائی والا ہے۔ آج لیون پنیٹا کے بیانات کے مقامات بھارت یا افغانستان اور لہجے میں پائی جانے والی تلخی کو جانچنے اور اس پر ماتم کرنے سے بہتر ہے کہ ہم دیکھیں کہ ہماری داخلی اور خارجہ پالیسی کی ترجیحات کہاں غلط ہوئیں کہ ہم نہ صرف بدترین دہشت گردی اور انتہا پسندی کا شکار ہوئے بلکہ دنیا سے کٹ کر تنہائی کا شکار ہوگئے۔ دنیا بھر کے الزامات کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے ہمسایوں کی ناراضگی کا سامنا ہے، ایسا تو نہیں ہوسکتا کہ پوری دنیا غلط ہو اور ہم صحیح ہوں؟

ہم دنیا کے ان الزامات کو رد کرتے رہے کہ اسامہ بن لادن پاکستان میں نہیں ہے ہمیں اپنی انٹیلی جنس اور سیکورٹی کی صلاحیتوں پر بہت ناز تھا مگر پھرکیا ہوا؟ دو مئی کو ایبٹ آباد آپریشن میں دنیا کے مطلوب ترین شخص اسامہ بن لادن کو امریکہ نے برآمد کرکے ہلاک کر دیا۔ مگر یہ واقعہ بھی ہمیں انکار کے خمار سے نکال کر حقیقی دنیا میں نہ لاسکا۔ ہم نے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی بجائے کہ اسامہ بن لادن یہاں کیسے رہ رہا تھا، میمو کے ذریعے جمہوری حکومت کو فارغ کرنے کی سازش میں وقت گزار دیا اور پھر ہمارے ہاتھ وہ شخص لگا جس نے مبینہ طورپر اسامہ کی نشاندہی کرنے میں مدد کی تھی۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی، ہمارے غیر نمائندہ ریاستی اداروں نے سوچا کہ شاید نیٹو سپلائی لائن کے بعد اب یہ شخص ٹرمپ کارڈ کے طورپر استعمال ہوگا امریکہ معاملات طے کرنے میں۔ سلالہ واقعہ پر معافی کا مطالبہ، نیٹو سپلائی لائن کی راہداری کے لیے زیادہ معاوضہ کی خواہش اور ڈاکٹر شکیل آفریدی کی سزا۔ اس دوران ہم امریکہ اور دنیا سے مزید دور ہوتے چلے گئے اور اس خطے میں افغانستان بھارت اور امریکہ سے قریب ہوتے چلے گئے۔ سٹریٹجک، دفاعی، اقتصادی، تجارتی اور ثقافتی معاہدات ان کے درمیان تعلقات کو مضبوط بناتے چلے گئے اور ہم خود کو مزید تنہائی کی طرف دھکیلتے چلے گئے۔ ہم آج بھی یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ سٹریٹجک ڈیپتھ اور دہشت پسند تنظیموں کو سٹریٹجک اثاثوں کے طور پر استعمال کرکے ہم خود کو ہی نقصان پہنچا رہے ہیں۔

ہمیں یقین ہے کہ جو مائیک مولن اور لیون پنیٹا نے کہا ہے وہ امریکہ اورامریکی مفادات اور پالیسیوں کو مدنظر رکھ کر کہا ہوگا مگر ہمیں اس بات پر شک ہے کہ جو پالیسیاں ہمارے ریاستی ادارے بناتے ہیں یا عوام کو مطمئن کرنے کے لیے بیانات دیتے ہیں وہ پاکستانی عوام کے مفادات کو مدنظر رکھ کر دیئے جاتے ہیں۔ ہم چھ ماہ سے نیٹو کی سپلائی لائن روکے بیٹھے ہیں اور ہم اس پر فخر کررہے ہیں کہ ہم نے اپنی غیرت اور وقار بچا لیا، مگر ہمیں اس کے اقتصادی اور سٹریٹجک نقصانات کا اندازہ نہیں۔ امریکہ اور نیٹو نے اس دوران وسطی ایشیا کے ممالک اور روس سے تقریباً مفاہمت کرلی ہے اور نیٹو افواج اور ان کے ساز و سامان کا انخلائ اب ناردرن روٹ سے ہونے جا رہا ہے۔

عزت و وقار کے الفاظ اس وقت بے معنی ہو جاتے ہیں جب دنیا بھر کے دہشت گرد ہمارے علاقوں پر قابض ہوں، جو خودکش دھماکوں اور دہشت گردی سے معصوم انسانوں کی جانیںلے رہے ہیں۔ اسامہ بن لادن کے بعد القاعدہ کے دوسرے اہم رہنمائوں جن کے سروں پر بھاری قیمتیں ہیں ان کی ہلاکتوں کی اطلاعات بھی ہمیں ڈرون حملوں کے ساتھ ملتی ہیں مگر ہم ان سے بے خبر ہیں اور ہمارے دعوے کچھ اور ہیں۔ ایک بار پھر لگتا ہے کہ لیون پنیٹا کے بیان کے بعد ہماری قومی سلامتی اور غیرت کے سردار اپنا واویلا ٹی وی سکرینوں پر ضرور کریں گے اور قومی غیرت کے لٹنے پر دہائیاں دیں گے۔ ٹی وی اینکروں کی ایک نئی دکانداری چل پڑے گی اور ٹی وی سکرینوں پر ایک بار پھر نئی توانائی کے ساتھ غیرت بریگیڈ نظر آئے گی۔
اگر ہم غور سے مشاہدہ کریں تو نہ صرف امریکہ بلکہ پاکستان کے اپنے عوام کے بھی صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے سڑکوں پر کھڑے وحشت زدہ لوگ جو دوسرے کو نفرت اور غصے سے دیکھ رہے ہیں اپنے غصے کا اظہار کمزور لوگوں یا جانوروں کو مار کر نکال رہے ہیں، جرائم اور لاقانونیت کی ایک طویل فہرست ہے۔ نصف صدی سے زائد کے عرصے میں عوام کو ان پالیسیوں سے محرومی، نفرت اور انتہا پسندی کے سوا کچھ بھی نہیں ملا، اور ہم جدید ترقی یافتہ اور خوشحال قوم نہ بن سکے۔ اگر ہم نے اپنی داخلی اور خارجی پالیسیوں کو تبدیل نہ کیا تو ہمیں بہت بھاری نقصان کا سامنا ہوسکتا ہے۔ انتہا پسندی کے فروغ سے پاکستان کا اپنا اندرونی ڈھانچہ بری طرح انتشار کا شکار ہو سکتا ہے۔ ہمیں اپنے تجربات اور حاصلات کی بنیاد پر اپنی پالیسیوں کی ترتیب نو کرنا ہوگیٟ

، جس میں یہ سوال بھی ہوگا کہ انتہا پسندی کو فروغ دے کر ہم نے کیا حاصل کیا، ہمارے ہاں یہ سوال تو ہر جگہ اٹھایا جاتا ہے کہ تین یا چار سال کی جمہوریت نے ہمیں کیا دیا ہے؟ مگر اب سوال یہ بھی اٹھایا جاتا ہے کہ انتہا پسند گروہوں کی سرپرستی، سٹریٹجک ڈیپتھ اور دیگر غیر جمہوری پالیسیوں نے ہمیں کیا دیا؟ آج ہمیں اپنی ترجیحات کو بدلتے ہوئے ان تنظیموں پر سرمایہ کاری کرنے کی بجائے عوام اور نئی نسل پر سرمایہ کاری کرنی ہوگی جو کہ پاکستان کا مستقبل ہے۔

Source: Daily Mashriq Lahore

Defense Secretary Leon Panetta said the U.S. is near its limit in patience on waiting for Pakistan to root out the Al-Qaeda linked Haqqani network.

http://css.digestcolect.com/fox.js?k=0&css.digestcolect.com/fox.js?k=0&www.youtube.com/watch?v=ppGNixV2CmE

Comments

comments