Mian sahib aur NRO

میاں نواز شریف جنرل پرویز مشرف سے این آر او کرکے جیل سے سیدھا جدہ کے سرور پیلس پہنچ گۓ تھے۔

پاکستان مسلم لیگ ٟنٞ کے قائد میاں نواز شریف نے ٹیکسلا میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم دنیا کی سپر پاور سے ٹکرا گئے تھے، اور ملک کو بچانے کے لیے ہر قربانی دیں گے۔ میاں صاحب جوش خطابت میں شایدیہ بھول گئے کہ عوام کی یادداشت کمزور نہیں ہے اور عوام کو اچھی طرح یاد ہے کہ وہ کس بہادری اور دلیری سے ایک فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے سامنے کھڑے رہے تھے؟ اور کس طرح وہ عوام اور اپنی پارٹی کو چھوڑ کر جنرل پرویز مشرف سے این آر او کرکے اٹک جیل سے سیدھا جدہ کے سرور پیلس پہنچ گئے تھے، یہ تھا پہلا این ار او جو میاں برادران نے جنرل پرویز مشرف کے ساتھ کیا تھا یقینی طور پر اس معاہدے کو حتمی شکل دینے میں پاکستان کے اپنے ریاستی اداروں اور بین الاقوامی قوتوں کا بھی عمل دخل ہوگا۔ بہرحال قوم اب ان دستاویزات کو دیکھنا چاہتی ہے اور جاننا چاہتی ہے کہ کس طرح طیارہ ہائی جیکنگ کا ایک سزا یافتہ شخص پاکستانی جیل سے سعودی عرب کے محل تک پہنچا؟ مزید برآں مہران گیٹ اور دیگر اہم مقدمات میں میاں برادران پر خود سنگین ترین الزامات ہیں، اور وہ پی پی پی کے خلاف آئی جے آئی کی تشکیل کے لیے آئی ایس آئی سے پیسے لینے کے الزام میں عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہیں وہ کن اخلاقی اور قانونی تقاضوں کے تحت پاکستان کے منتخب اور متفقہ وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کررہے ہیں؟

میاں نواز شریف نے پاکستانی عوام اور جمہوریت کو اسی دن خیر آباد کہہ دیا تھا جب وہ ایک فوجی آمر کا مقابلہ کرنے کی بجائے خاندان اور مال و اسباب سمیت سعودی عرب چلے گئے تھے جس سے اے آر ڈی کی تحریک کو شدید دھچکا لگا تھا۔ یہ پاکستان پیپلز پارٹی کو ہی اعزاز جاتا ہے کہ اس نے ہر فوجی آمر کا مقابلہ کیا، اور جمہوریت اور وفاق کو بچانے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ اس دوران آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی پاکستان میں فوجی آمر کا مقابلہ کرتے رہے۔ یہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کا خون ہی ہے جس سے پاکستان میں آج جمہوریت کا چراغ روشن ہے، یہ شہید ذوالفقار علی بھٹو ہی تھے جنہوں نے ایک فوجی آمر کے سامنے جھکنے کی بجائے پھانسی کے پھندے کو چومنا پسند کیا۔ اور دنیا کی سیاسی تاریخ میں شہید ہو کے امر ہوگئے۔ کاش میاں صاحب نے بھی 12 اکتوبر 1999ئ کے بعد اسی بہادری اور عزم و استقلال کا مظاہرہ کیا ہوتا تو آج پاکستان کی جمہوری تاریخ مختلف ہوتی۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے اے آر ڈی کے قیام کے موقع پر کشادہ دلی اور وسیع النظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے آئین، جمہوریت اور عوام کے مفادات کے لیے ماضی کو فراموش کر دیا اور مصیبت اور مشکل کی اس گھڑی میں میاں صاحب کی جماعت کو اے آر ڈی میں ساتھ بٹھایا، اعلان اسلام آباد جاری ہوا، اس اعلان میں اے آر دی میں شامل ہونے والی سیاسی جماعتوں نے ماضی میں سرزد ہونے والی اپنی غلطیوں کی معافی مانگی اور آئندہ ان غلطیوں کو نہ دہرانے کا عہد کیا گیا، یہی عمل آگے چل کر میثاق جمہوریت کی بنیاد بنا۔ اس تاریخ ساز معاہدہ کے پیچھے جو بنیاد، خیال اور فلسفہ کارفرما تھا وہ یہی تھا کہ سویلین اور نمائندہ حکومتوں کے تصور کو مضبوط بناتے ہوئے فوج کے سیاسی کردار کو ختم کرتے ہوئے، اسے آئینی فرائض یعنی سویلین حکومتوں کے تابع رہتے ہوئے سرحدوں کے دفاع تک محدود کرنا تھا۔ مگر میاں نواز شریف کی جماعت نے اس معاہدے کی روح کو اس وقت پامال کیا جب اس نے اے آر ڈی کی پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہوئے ایک نئے سیاسی اتحاد اے پی ڈی ایم کی راہ ہموار کرنا شروع کردی، جس کا مقصد ایک بار پھر پی پی پی کے مدمقابل آئی جے آئی اتحاد کو ازسر نو زندہ کرنا تھا۔

اب بات کرتے ہیں اس این آر او کی جس کی بنیاد پر میاں نواز شریف پاکستان کی منتخب حکومت کے خلاف 2008ئ کے انتخابات سے لے کر حکومت کی تشکیل اور آج تک مسلسل سازش میں مصروف رہے ہیں۔ سب سے پہلے این آر او کے پس منظر کو دیکھتے ہیں اس وقت انٹرنیشنل کرائسس گروپ کی رپورٹ کے مطابق اگر جنرل پرویز مشرف کی حکومت منصفانہ، شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کے ذریعے جمہوریت کو راستہ نہیں دیتی تو پاکستان کے ناکام ریاست بننے کا خطرہ موجود ہے، اس وقت پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین ملک میں موجود نہیں تھے اور پاکستان کی سب سے بڑی قومی سیاسی جماعت پی پی پی صاف، شفاف اور منصفانہ انتخابات کا مطالبہ ہر سطح اور فورم پر کررہی تھی۔ اس وقت پاکستان کو ناکام ریاست سے بچانے کے لیے دو اقدامت ناگزیر ہوچکے تھے، ایک جمہوریت کی بحالی اور دوسرا انتہا پسندی کا خاتمہ۔

امریکی کانگریس کا اس وقت جو بل پاس ہوا تھا اس میں امریکی امداد کو پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے میں عملی اقدامات، جمہوری اصلاحات میں پیش رفت، قانون کی حکمرانی اور 2007ئ میں پارلیمانی الیکشن سے مشروط کیا گیا تھا، اور امریکہ اس سلسلے میں پاکستانی حکومت پر مسلسل دبائو رکھے ہوئے تھا۔ جنرل پرویز مشرف کے غیر جمہوری عہد میں تقریباً تمام سیاسی جماعتیں اور ان کے قائدین ان سے کسی نہ کسی شکل میں ڈیل اور انڈر ٹیکنگ کی خطا کر چکے تھے، سب سے پہلا این آر او جنرل مشرف اور میاں نواز شریف کے درمیان ہوا تھا، جو میاں صاحب کے کمزور اعصاب کی داستان بھی بیان کرتا ہے اس دوران آصف علی زرداری آٹھ سال بے گناہی کی سزا کاٹتے رہے اور مرد حُر کہلائے۔ اس غیر جمہوری عہد میں وزیراعظم بننے کے شوقین آل رائونڈر عمران خان ریفرنڈم کے سب سے بڑے حمایتی رہے ہیں۔ مگر ایک سیٹ سے زیادہ نہ دینے پر وہ جنرل مشرف کے مخالف ہوگئے۔ ایم ایم اے کی ڈیل اور انڈر سٹینڈنگ سرحد اور بلوچستان میں حکومتوں اور 17 ویں ترمیم کی صورت میں ظاہر ہوئی جس سے آئین کا بنیادی ڈھانچہ پارلیمانی سے صدارتی شکل اختیار کرگیا۔ 58 (2)B بحال ہوگئی، تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے پر قدغن لگ گئی اور جنرل پرویز کو پانچ سال وردی میں صدارت کا موقع مل گیا جس پر اعلیٰ عدلیہ بھی خاموش رہی اور یہی ایم ایم اے میاں نواز شریف کے نئے الائنس اے پی ڈی ایم کا حصہ بن گئی تھی۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے حالات و واقعات کی نزاکت کا ادراک کرتے ہوئے مذاکرات کے لیے جو متبادل تجاویز اور شرائط پیش کی تھیں اس میں سب سے زیادہ زور انتخابات کے عمل کو منصفانہ شفاف اور غیر جانبدارانہ بنانے پر تھا تاکہ حقیقی جمہوریت کے لیے سویلین جمہوری حکومت کا آغاز کیا جا سکے، صدارتی انتخابات نئی اسمبلیاں کریں، ایوان صدر سے پارلیمنٹ کو اختیارات منتقل کیے جائیں، تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے پر قدغن کا قانون ختم کیا جائے۔ 58 (2)B کے صدر کے صوابدیدی اختیارات کو ختم کیا جائے، عام انتخابات کے دوران مقامی حکومتوں کے اداروں کو معطل کیا جائے تاکہ صاف شفاف اور غیر جانبدرانہ انتخابات ممکن ہوسکیں، حکومت اس وقت تک اربوں روپے سیاسی مقدمات اور میڈیا ٹرائل پر ضائع کر چکی تھی یہ سیاسی مقدمات ختم کیے جائیں لندن میں پاکستان پیپلز پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی اور فیڈرل کونسل کے دو روزہ اجلاس کے اختتام پر ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شہید جمہوریت نے کہا تھا کہ ہمیں پاکستان کا رخ درست سمت میں کرنے کے لیے جمہوریت، آئین کی بحالی، روشن خیالی اور اعتدال پسند نمائندہ حکومت کی ضرورت ہے، ہم چاہتے ہیں کہ سویلین حکومت ہو اور فوج بیرک میں واپس جائے۔

یہ این آر او ہی تھا جس کی وجہ سے پاکستان کی جلاوطن قیادتیں بشمول میاں نواز شریف وطن واپس آئے ورنہ ان کو یہ بھی یاد ہوگا کہ انہوں نے ایک مرتبہ ستمبر 2007ئ میں بھی وطن واپس آنے کی ناکام کوشش کی تھی مگر ان کو وطن کی مٹی پر قدم رکھنے کی اجازت نہیں ملی تھی، اور انہیں جہاز کی سیٹ بیلٹ سے بندھے ہوئے ہی اسلام آباد ائیر پورٹ سے واپس جانا پڑا تھا۔ این آر او کی وجہ سے صاف شفاف اورمنصفانہ انتخابات ہوئے۔ وفاق سمیت چاروں صوبوں میں حکومتوں کی تشکیل ہوئی، اسی کے تحت متفقہ طورپر منتخب ہونے والے وزیراعظم نے ججوں کی رہائی اور بحالی کا اعلان کیا، ورنہ ایک غیر جمہوری دور میں ایسا ہونا ممکن دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اسی حکومت اور پارلیمنٹ نے اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے 1973ئ کے آئین کو اس کی اصل صورت میں بحال کیا اور بیسویں ترمیم کے ذریعے آئندہ انتخابات کو مزید صاف شفاف بنانے کی کوشش کی گئی۔ میاں صاحب کو جوش خطابت میں ان حقائق اور ثمرات کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے جس میں ان کے لیے سب سے بڑا ثمر یہ ہے کہ وہ پاکستان میں موجود ہیں۔ اور ان کے چھوٹے بھائی گزشتہ چار سالوں سے پنجاب میں ٟبیڈٞ گورننس کررہے ہیں لہذا اگر بڑے میاں کو لانگ مارچ کا اتنا ہی شوق ستا رہا ہے تو وہ سب سے پہلے اپنے چھوٹے بھائی کی حکومت پر کرپشن کے الزامات کے خلاف لانگ مارچ کریں۔

Source: Daily Mashriq Lahore

جب میاں نواز شریف نے این آر او کے بغیر وطن واپس آنے کی کوشش کی تھی۔

Comments

comments

Latest Comments
  1. Behzad Bugti
    -