Is Pakistan’s judiciary influenced by media?
Related article:
Ali Ahmed Kurd’s description of the likes of Iftikhar Chaudhry & Khawaja Sharif
چیف جسٹس بحالی تحریک کے ورثہ پر ججوں کی ناراضگی!!
چونتیس سالہ ڈاکٹر تھیوڈیرا ڈیلس برطانیہ کی یونیورسٹی آف بیڈفرڈشائر میں نفسیات کی لیکچرر تھیں ۔ گزشتہ سال وہ ایک زیرسماعت مقدمہ میں جیوری کی رکن تھیں۔ مقدمہ میں ملزم بیری ولیم پر ایک شخص کو جان بوجھ کر جسمانی ایذا پہنچانے کا الزام تھا۔ ڈاکٹر ڈیلس نے مقدمے کی سماعت کے دوران وقفے میں جیوری کے بعض دوسرے ارکان سے ذکر کیا کہ انہوں نے ملزم کے بارے میں انٹرنیٹ پر پڑھا ہے۔ ان کا یہ انکشاف عدالت تک پہنچا تو جج نے مقدمہ کی سماعت روک دی اور حکام سے نئی جیوری بنانے کے لیے کہہ دیا۔
مقدمہ کی سماعت سے پہلے جج جیوری کے ارکان کو تنبیہ کرتا ہے کہ وہ کمرہ عدالت سے باہر کے کسی عنصر کو اپنے فیصلوں پر اثر انداز نہیں ہونے دینگے۔اپنے جذبات اور تعصبات کو ایک طرف رکھتے ہوئے صرف ان عوامل کو مدنظر رکھیں گے جو عدالت میں ان کے روبرو پیش کیے گئے۔ وہ مقدمے سے متعلق عدالتی فائل سے ہٹ کر نہ تو کوئی مواد پڑھیں گے اور نہ ٹی وی پر مقدمے سے متعلق خبریں اور تبصرے ملاحظہ کرینگے ۔ غیرجانبدار فیصلہ کرنے کے لیے یہ کم سے کم معیار عام آدمی کے لیے ہے جو جیوری سروس کے لیے بلایا جاتا ہے جبکہ جج اپنے لیے اس سے بھی کڑے معیار کواپناتے ہیں۔
عدالتی احکامات کی خلاف ورزی پر ڈاکٹر ڈیلس پر توہین عدالت کا مقدمہ چلا اور اس سال جنوری میں انہیں چھ ماہ قید کی سزا سنائی گئی، اگرچہ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے جان بوجھ کر ملزم کے بارے انٹرنیٹ پر تحقیق نہیں کی تھی، بلکہ کسی اور موضوع پر گوگلنگ کرتے ہوئے انہیں بیری ولیم پر کچھ معلومات پڑھنے کو مل گئیں جس کا ذکر انہوں نے اپنے کچھ ساتھیوں سے کردیا۔ ڈاکٹرڈیلس اب جیل میں اپنی سزا کاٹ رہی ہیں۔
وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے خلاف توہین عدالت کے مقدمہ کی سماعت کے دوران ان کے وکیل بیرسٹر اعتزاز احسن نے بنچ میں شامل بعض ججوں کے بار بار ٹی وی پروگراموں، اخباری خبروں اور رائے عامہ کے حوالوں پر آخر کا ر کہہ ہی دیا کہ ججوں کو اتنا بھی باخبر نہیں ہونا چاہیے۔حیران کن طو ر پر ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے جج مقدموں کی سماعت کے دوران صحافیوں، اینکر پرسنز اور خبروں کے حوالے دے رہے ہوتے ہیں۔
اصغر خان آئی ایس آئی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے یونس حبیب کو کہا کہ مقدمہ عدالت میں چل رہا ہے اور آپ ہر وقت ٹی وی پر بیٹھے نظر آتے ہیں۔ چیف صاحب کے اس مشاہدے کا دوسرا پہلو یہ نکلتا ہے کہ موصوف خود بھی ٹی وی دیکھتے رہتے ہیں۔موجودہ ’آزاد عدلیہ‘ کی اسی روش پر تبصرہ کرتے ہوئے وکلاء تحریک کے سرکردہ رہنماء علی احمد کرد نے کچھ عرصہ پہلے تبصرہ کیا تھا کہ عدالتیں ٹی وی ٹاک شوز اور صبح کے اخبار پڑھ کر فیصلے کر رہی ہیں۔
امریکہ اور برطانیہ سے ایسی کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں جہاں عدالت نے جیوری اس بات پر برخاست کر کے نئی جیوری بنانے کی درخواست کردی کہ عدالت کے علم میں یہ بات آئی کہ اس کے کچھ ارکان ٹی وی دیکھتے ہیں۔ عدالت نے ان کی اس بات کو درخور اعتناء نہیں جانا کہ وہ اس مقدمہ کی خبر یا اس پر تبصرہ نہیں سنتے جس کے لیے وہ جیوری کا کام کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے ججوں نے اعتزاز احسن اور یونس حبیب سے میڈیاپر ان کی حاضریوں کے حوالے سے جن باتوں پر اعتراض کیا ہے وہ دراصل ’چیف جسٹس بحالی تحریک‘ کا ورثہ ہے۔اس سے پہلے زیرسماعت مقدموں کی میڈیا عدالتیں نہیں لگا کرتی تھیں۔ جب چیف صاحب کی بحالی کا مقدمہ جسٹس خلیل الرحمن رمدے کی عدالت میں زیرسماعت تھا تو ایک طرف مدعی افتخار چوہدری وکلاء اور عوام سے خطاب کرتے پائے جاتے تھے، یہ خطاب بیشتر ٹی وی چینلز پر براہ راست دکھائے جاتے تھے، اور دوسری طرف اعتزاز احسن، منیر اے ملک، حامد خان، اطہر من اللہ اور جسٹس طارق افتخار چوہدری کی طرف سے روزانہ ٹاک شوز کے اکھاڑوں میں اس وقت کی حکومت کے وکلاء اور نمائندوں سے زور آزمائی کرنے جلوہ افروز ہوتے تھے۔ اس وقت عدالتی اخلاقیات کے کسی چیمپیئن کو سرشام لگ جانے والی میڈیا عدالتوں کو خیال نہیں آیا۔
وکلا ء تحریک اور پھر سڑکوں پر سراپا احتجاج اور عوامی اجتماعات سے خطاب کرتے افتخار چوہدری کی بطور ’ عوامی چیف جسٹس ‘بحالی نے ریاست کے اداروں میں عدم توازن تو پیدا کیا ہی ہے، اس سے میڈیا ٹرائل کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے اس کے منفی اثرات کی تپش معزز جج حضرات کو پہلی دفعہ ’وزیراعظم توہین عدالت کیس‘ اور ’اصغر خان آئی ایس آئی کیس‘ میں محسوس ہوئی ہے، وگرنہ عدلیہ ’آزاد‘ ہونے کے بعد این آر او، پی سی او ججز، حج سکینڈل، این آئی سی ایل کیس وغیرہ میں بھی میڈیا نے اپنا متوازی ٹرائل جاری رکھا۔
میڈیا پر پروگرامنگ مارکیٹ کے لیے کی جاتی ہے، جس کا مقصد منافع خوری ہوتا ہے۔ جو پروگرام زیادہ دیکھا جائے گا اسے زیادہ اشتہار ملیں گے، جو کم دیکھا جائے گاوہ بند ہوجائے گا کیونکہ اسے اشتہار نہیں ملتے۔ دنیا بھر میں پرائم ٹائم میں تفریحی پروگرام دیکھے جاتے ہیں کہ اس وقت دیکھنے والوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، پاکستان میں فارغ وقت (پرائم ٹائم) میں عام آدمی کی تفریح قہوہ خانوں ، بیٹھکوں اور اوتاکوں پر حالات حاضرہ پر بحث ہوتی تھی جو اب ٹاک شوز کے نمبرداروں اور چوہدریوں کے سٹوڈیوز میں ہوتی ہے۔
اسی طرح معاشرے میں جو Lynch Mob نفسیات پائی جاتی ہے، جس کا اظہار سیالکوٹ میں دو بھائیوں کے عوامی قتل کی صورت میں سامنے آیا تھا، وہی ہمارے حالات حاضرہ ٹاک شوز کے اینکرپرسنز میں نظر آتی ہے۔ جس کا اظہار آپ کو وحیدہ شاہ کیس میں نظر آیا۔ وحیدہ شاہ کو سزا دلوا کر ہمارے پینٹ، کوٹ اور ٹائی میں ملبوس اینکرز کے لب و لہجہ میں وہی اطمینان تھا جو کسی جیب کترے کو رنگے ہاتھوں پکڑنے پر عوامی انصاف دینے والوں کے چہروں پر ہوتا ہے۔ اور پھر جب چیف صاحب نے یہ بھی کہہ دیا ہو کہ وحیدہ شاہ کا معاملہ کراچی میں رینجرزکے ہاتھوں سرعام قتل ہونے والے نوجوان سرفراز کے واقعہ سے زیادہ سنگین ہے۔
جسٹس افتخار چوہدری کی ریٹائرمنٹ کے بعد پارلیمنٹ کو میڈیا کے قانون اور عدالتی کارروائیوں میں کردار پر غوروخوض کرنا پڑے گا اور فیئر ٹرائل کے لیے آزادی صحافت کو چھیڑے بغیر زیرسماعت مقدمات کی رپورٹنگ کی حدود مقرر کرنی پڑینگی، وگرنہ انصاف میڈیا ٹرائل اور اس کے تعصبات سے مجروع ہوتا رہے گا۔(اصلاح احوال کے لیے جسٹس افتخار کی ریٹائرمنٹ کے انتظار کا مشورہ اس لے دیا ہے کہ اب اگر کوئی کوشش کی گئی تو متنازعہ ٹھہرے گی)۔
Source: Top Story
A very good article!!
This was really the need of what is going on in the Pakistani courts. With due respect but it must really be the eye opener for Azad Adlia.
Greet Lady Dr.Delas…
I Will Salam U..
Ramchand Mir,Pur, Bathoro.
Disst Thatta Sindh Pakistan..
Cell:0092-03062358230
Before relating to Dr. Theodora Dallas begins her six month sentence for contempt of court with the Judges of Supreme Court of Pakistan you should make some research on law and case of Theodora Dallas,, my dear Theodora Dallas was member of Jury and in western country jury only decide facts of the cases not Law a judge decide the case on law, In Pakistan the High Courts and Supreme Court cannot travel on facts the cases they only can decide on law, she made research on facts from net which is amount to prejudice his mind and In her case, ‘contempt of court’ meant deliberately disobeying an order by the judge at the start of the case. As a matter of routine in every case, judges tell jurors not to search on the internet for information about the case they are due to try. They call it the ‘Google warning’, and will remind the jury of it at regular intervals. Prominent notices in the jurors’ section of the court building and the introductory film they are shown on their first day,
My dear when court is bound to decide matter on law what will effect TV programs, my dear these programs only prejudice your minds because being a layman we love to decide on facts but no case can be entertained in superior court on the basis of facts………….. our Superior courts in Pakistan can Entertain The Cases Only On The Point Of Law…