ہولی : ایک شہر جس میں تاریخ کے کچھ ادوار حرف غلط کی طرح مٹادیے گئے – عامر حسینی
خانیوال میں آج کے دن ایک بھی ہندو گھرانہ نہیں ہے مگر ایسے لاتعداد گھر اب بھی پرانی حالت میں باقی ہیں جہاں ہولی کے دن رنگ کی بارش ہوا کرتی تھی، مرے والدین جس گھر میں مقیم تھے یہ پاکستان بننے سے پہلے دلورام اور تولہ رام دو ہندو بھائیوں کا تھا جو غلہ منڈی میں آڑھتی تھے اور اس گھر کے اندر کمروں کی چھتوں پہ لگے شتہیروں پہ ان کے نام درج ہیں اور اس گھر کے مرکزی دروازے دیودار کی لکڑی سے بنے ہوئے تھے اور دروازے کے دائیں بائیں دو چوکیاں بنی تھیں جن کے عین اوپر اوطاق بنے تھے جن میں چراغ جلا کرتے تھے،
اس شہر کے 12 بلاکس میں پاکستان بننے سے پہلے اکثریت ہندوؤں کی تھی اور شہر کی زیادہ تر ہندو آبادی کاروبار، مڈل کلاس پروفیشنلز اور ایجوکیٹرز پہ مشتمل تھی، تین بلاک کے سامنے سات بلاک کے عین نکڑ پہ جہاں اب ایک پلازہ کھڑا ہے وہاں پہ ایک ہندو ڈاکٹر کا کلینک تھا، بلدیہ کا ریکارڈ بتاتا ہے تقسیم سے کچھ ماہ پہلے ان ڈاکٹر کے ہاں دو بیٹوں کی ولادت ہوئی تھی اور بلاک تین و سات اور بلاک چار و بلاک آٹھ کے درمیان چوک سنگلہ والہ میں جہاں اب جوتوں کی دکانیں بنی ہوئی ہیں وہاں حکیم لوکناتھ کا مطب ہوا کرتا تھا اور یہ مطب خانیوال شہر کی ادبی شخصیات کا مرکز ہوا کرتا تھا اور سات بلاک کی چھے نمبر گلی کے وسط میں ایک مندر تھا جس میں ساتھ ہی اسکول بھی تھا اور اسے آر یہ سماج والے چلارہے تھے اور آج جسے اکبر بازار کہا جاتا ہے یہ گرودوارہ بازار تھا اور اس میں ایک بڑا گوردوارہ تھا جو آج کے جنوبی پنجاب کا سب سے بڑا گردوارہ تھا –
اس شہر میں خالصہ ہائی اسکول، گورنمنٹ ہائی اسکول سمیت جتنے اسکول تھے سب سکھوں اور ہندوؤں نے بنائے تھے اور 99 فیصد استاد اور استانیاں بھی سکھ اور ہندو ہی تھے پھر کرسچن کا نمبر تھا، اس شہر میں ایک بھرپور قسم کی ثقافتی تنوع موجود تھا اور بلدیہ ہال میں ہولی، دیوالی، عید، شب برات کی تقریبات ہوا کرتی تھیں، اور یہاں ایک سول کلب ہے جس کی پرانی عمارت ابھی باقی ہے اور اس میں ایک گروپ فوٹو موجود ہے جس میں تقسیم سے قبل کی اس شہر مڈل کلاس کے کئی چہرے نمایاں ہیں، لالہ پنڈی داس اس شہر میں کانگریس کے صدر تھے ان کے حوالے سے ایک واقعہ درج کیا جاتا ہے کہ وہ یہ ہے کہ لالہ پنڈی داس خانیوال سے جانا نہیں چاہتے تھے –
آج جسے گپی والہ چوک کہا جاتا ہے وہاں کھڑے ہوکر وہ 47ء میں کہہ رہا تھا کہ اسے نہیں جانا اور جب جبری ہجرت اسے کرنا پڑی تو خانیوال کے ریلوے اسٹیشن پہ کسی نے لالہ پنڈی داس کو چھری ماری تو اس کی بیٹی وبملا داس اپنے باپ کو سنبھال رہی تھی یہ وبملا داس اندرا گاندھی کی پولیٹکل سیکرٹری بنی اور وبملا داس اس شہر کی یادوں کو بار بار دوہراتی تھی، آج میں شہر میں آتے ہوئے بار بار سوچ رہا تھا کہ اگر یہ جبری ہجرت نہ ہوئی ہوتی تو آج اس شہر میں رنگ پھینکے جارہے ہوتے ہے
ہولی ہے بھئی ہولی ہے
کی آواز سنائی دے رہی ہوتی
اور “یہ جوانی ہے دیوانی ہے ” کا یہ گیت چل رہا ہوتا
بلم پچکاری جو تونے ہے ماری تو سیدھی سادھی لڑکی دیوانی ہوگئی
تقسیم نے پنجاب کے شہروں اور دیہاتوں سے مذھبی تنوع اور شناخت کی تکثیریت کا جو خاتمہ کیا وہ پروسس اب تک چلا جارہا ہے اور یہ پروسس ایسا ہے اس نے سیکولر معاشرے کی تعمیر کے امکانات کو بڑی حد تک تباہ و برباد کرڈالا اور اس کے ہمہ جہت اثرات مرتب ہوئے، خانیوال شہر ایک نمونہ ہے جہاں پروان چڑھنے والی نئی نسل exclusive identity based فضا میں پل بڑھ رہی ہے اور اس کے نزدیک کلچر کی لبرل، سیکولر، روادار اور تنوع پہ مبنی اقدار کے کچھ معانی ہے بھی یا نہیں؟
مجھے اس بارے سخت شبہات لاحق ہیں،اور میں سوچتا ہوں کہ میں ہی اس شہر میں بیٹھا یہ سب کچھ کیوں سوچ رہا ہوں، یہ لائنیں ابھی لکھی تھیں کہ کامریڈ فہیم عامر آگئے اور مجھے کم از کم یہ حوصلہ ہوگیا کہ اس شہر میں، میں اکیلا نہیں ہوں اس طرح سے سوچنے میں اور پھر ہم دونوں نے یہ فیصلہ کیا کہ چلو ہم اس شہر میں ہجرت کر جانے والوں کی بسی یادوں کے ساتھ ہی ہولی منائیں….. لالہ پنڈی داس کو، وبملا داس کو سب کو ہولی مبارک ہو