خون میں ڈوبا ھوا پاکستان کا مستقبل۔ از گل عرفانی

دل اتنا بوجھل اور شکستہ ھے کہ الفاظ کا انتخاب کرنے میں دقت ھو رھی ھے۔ سفاکی اور بر بریت کی ایسی مثال شاید میں نے آج تک نہ دیکھی ھو گی۔ کچھ دیر قبل ٹی وی پر شہید ھونے والے ایک طالب علم کے وارث کے یہ جملے دل میں پیوست ھوگئے کہ ۲۰ سال لگتے ھیں بیٹے کو جوان کرنے میں، اور ان ظالموں نے بیس منٹ میں اس بیٹے کو ھم سے چھین لیا۔

وزیر اعظم نواز شریف اور آرمی چیف پشاور پہنچ چکے ھیں۔ شنید ھے کی عمران خان بھی وہاں پہنچ رھے ھیں۔ سہہ روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا ھے، دہشت گردوں سے آہنی ھاتھوں سے نمٹنے اور کیفر کردار تک پہنچانے کا اعادہ بھی کیا جائے گا۔ متاثرین سے اظہار یک جہتی کیا جائے گا اور غالبا کوئی مالی امداد بھی دی جائے گی۔ البتہ جن ماں باپ کے لخت جگر انہیں سے جدا ھو گئے، ان کے زخموں کا مداوہ شاید کبھی نہ ھو سکے۔ حقیقت پسندانہ مشورہ دوں تو ان والدین کو کسی اقدام کوئی توقع رکھنی ھی نہیں چاہیئے۔ یہاں کوئیٹہ میں لوگ پیاروں کی میتیں رکھ کر دھرنا دیتے ھیں،، ان سے وعدے وعید کیے جاتے ھیں لیکن ھوتا کچھ نہیں۔ یہاں عباس ٹاون نامی بستی اجاڑ دی جاتی ھے، ذمہ داروں کے خلاف کچھ نہیں ھوتا، ، یہاں احمدیوں کے گھر جلائے جاتے ھیں، بات ختم ھوجاتی ھے، یہاں مسیحی جوڑے کو زندہ جلا دیا جاتا ھے، جوابا جنید جمشید کو معافی مل جاتی ھے، یہاں آرمی کی جوان اپنی جانیں دیتے ھیں اور شہید دہشت گردوں کو قرار دیا جاتا ھے، یہاں تو چھ ماہ کی بتول کو بھی شہید کر دیا جاتا ھے اور کوئی شنوائی نہیں ھوتی۔ یہاں اولیاء اللہ کے مزارات اُڑا دئے جاتے ھیں، مسجدیں خون آلود کر دی جاتی ھیں اور اس پر بھی بس نہ چلے تو جنازوں پر بھی حملہ کر دیا جاتا ھے۔ لہذا پشاور میں آج جن والدین نے اپنے بچے کھو دئے، وہ صبر کریں۔ شاید کبھی ان کی شنوائی ھو جائے۔

آج میرا دل چاہ رھا ھے کہ میں ان تمام تجزیہ نگاروں پر لعنت بھیجوں جو دن رات طالبان اور داعش جیسے سفاک گروہوں کی تکفیریت کی وکالت کرتے نظر آتے ھیں۔ دل چاہتا ھے کہ سوال کروں سرکاری ذمہ داروں اور اپنے سپہ سالاروں سے کہ کھلے عام داعش اور طالبان کو اپنا نظریاتی حلیف کہنے والے لال مسجد کے خطیب، کالعدم جماعتوں کے لیڈر ، اخباروں میں ان درندوں کی حمایت میں کالم لکھنے والے قلم فروشوں اور  دیواوں پر طالبان اور داعش کی محبت میں چاکنگ کرنے والے کالعدم جماعتوں کے خلاف کیوں کاروائی نہیں ھوتی؟خدا جانے گڈ طالبان اور بیڈ طالبان کی اصتلاح ھمیں اور کتنے سانحے دکھائے گی۔ کاش جنرل حمید گل جیسے طالبان اور افغان جہاد کے ثناء خواں بتا سکیں کہ وہ کونسے فیوض و برکات ھیں جن کا ذکر وہ کیا کرتے ھیں؟ وہ برکات جو افغان جہاد کی کامیابی کے صلے میں اور ملا عمر اور طالبان کی حمایت کے صلے میں ھم تک پہنچیں؟ بہتر ھو گا کہ وہ یہ جواب شہید ھونے والے کسی معصوم بچے کے والدین کو دیں۔ ھمیں تو سب پتہ ھی ھے۔ بس ایک درخواست ھے دست بدستہ، خدارا اس سانحے کے بعد یہ مت کہہ دیجے گا کہ کوئی مسلمان یہ نہیں کر سکتا۔ یہ مسلمان ھی ھیں جو دوسرے مسلمانوں پر تکفیریت کے ذرئعے مسلط ھیں۔ آپ ان کی مذمت کریں اور مظلوم کا ساتھ دیں۔

اس واقت سوشل میڈیا پر اس سانحے کی کوریج جاری ھے، سب ایک دوسرے پر سبقت لیجانے میں مصروف ھیں۔ البتہ میرے لیئے صرف ایک تصویر اس پورے سانحے کا احطہ کرنے کیلئے کافی ھے۔ دل خون کے آنسو رہ رھا ھے اور گمان ھو رھا ھے جیسے  کوئی طالب علم نہیں پاکستان کو مستقبل اس تابوت میں موت کی گھری نیند سو رھا ھے۔

 

Comments

comments