عرب دنیا کے بُرے بانسری باز – از خالد المعینا

b3eafe38-ab1c-4180-9f52-0663eb94dd2e_3x4_142x185

دمشق اور بغداد ایک زمانے میں علم و تہذیب وتمدّن کا گہوارہ ہوا کرتے تھے۔ آج ان شہروں پر تاریکی اتر چکی ہے اور درحقیقت عرب دنیا کہلانے والے تمام علاقے تاریکی، طوائف الملوکی اور کنفیوژن میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ہر کہیں جبر و استبداد اور خونریزی کا دور دورہ ہے۔ نقاب پوش افراد کے زیر قیادت نوجوانوں کے جتھوں کی تصاویر ٹیلی ویژن کی سکرینوں اور سوشل میڈیا کی تمام شکلوں پر نظر آ رہی ہیں۔بے مقصد ہلاکتیں جاری ہیں اور انسانی زندگی ارزاں ہو چکی ہے۔

ہماری موجودہ صورت حال اور اس کے پیچھے وجوہات کی وضاحت مشکل ہے۔بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ہم نام نہاد ”عرب بہار” کے مضمرات کو جھیل رہے ہیں۔تاہم اس کی زیادہ بہتر انداز میں وضاحت کی جائے تو اس کو ”عرب بہار” نہیں بلکہ ”آمروں کی خزاں” کا نام دیا جا سکتا ہے۔

عرب دنیا میں ایسے مطلق العنان آمر موجود ہیں جو کسی بھی طرح اقتدار سے جڑے رہنا چاہتے ہیں۔خواہ یہ براہ راست حکمرانی ہویا گماشتوں کے ذریعے ہو۔ وہ ایک عرصے سے اس طرح اقتدار سے چمٹے چلے آ رہے ہیں۔ اس لیے ان کے لیے اقتدار چھوڑنا مشکل ہو رہا ہے۔

اور ان لوگوں نے کیا کیا ہے۔ یہ ٹینکوں پر سوار ہو کر اور 1940ء اور 1950ء کے عشرے میں موجودہ خوش نما سول سوسائٹی اور ثقافت کو تہس نہس کرتے ہوئے برسر اقتدار آئے تھے۔ انھوں نے مطلق العنان نظام حکمرانی قائم کیا جس کا محور سفاکانہ انداز میں اقتدار کو مستحکم کرنا تھا۔انھوں نے اقتصادی ترقی کو نظر انداز کیا، اداروں کی تعمیر کی مزاحمت کی اور سول معاشروں کے قیام سے انکار کیا ہے۔قومی خزانے کو فوج اور انٹیلی جنس سروسز اور ان کے آلہ کاروں پر لُٹا دیا۔انھوں نے اپنے ہی ہزاروں شہریوں کو جیلوں میں ڈال دیا، انھیں تشدد کا نشانہ بنایا اور ہلاک کر دیا۔

اس دوران دنیا تبدیل ہو گئی۔ سوویت یونین میں مطلق العنان نظام حکمرانی کا دھڑن تختہ ہو گیا اور کمیونسٹ چین نے اس میں ترامیم وتبدیلیاں کرلیں لیکن عرب آمروں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوئے مگر دوسری جانب عوام بھی خود پر مسلط جبر واستبداد کو زیادہ دیر تک برداشت کرنے کو تیار نہیں تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کی آواز سنی جائے اور آزادی کے لیے ان کی خواہش کا احترام کیا جائے۔

جدید انفارمیشن ٹکنالوجی نے انھیں اس قابل بنا دیا ہے کہ وہ اپنے مقاصد کو آگے بڑھائیں۔وہ بغاوت نہیں چاہتے تھے بلکہ عزت ووقار والی زندگی، اقتصادی خوش حالی اور اپنے بچوں کے لیے بہتر مستقبل کے خواہاں تھے۔ وہ تنازعات اور بے مقصد جنگوں میں بھی الجھنا نہیں چاہتے تھے۔ بدقسمتی سے عربوں کی ان امنگوں میں سے کوئی بھی پوری نہیں ہوئی ہے اور نتیجہ یہ ہے کہ آج پورا عرب خطہ خون آشام اتھل پتھل سے دوچار ہے اور اس کا کوئی اختتام بھی نظر نہیں آ رہا ہے۔

عرب لیڈروں نے اپنے لوگوں کو اپنے ہی ممالک میں شریک کار اور ساجھی بنایا ہوتا تو آج ہمیں دولت اسلامی عراق وشام (داعش) اور النصرہ محاذ ایسے خون کے پیاسے گروپ دیکھنا نصیب نہ ہوتے۔ ہمیں خود ساختہ ”خلیفہ” اور اس طرح کے دوسرے کردار دیکھنے نصیب ہو رہے ہیں جو ہیملین کے بانسری باز کی طرح معصوم اور بے یارو مددگار نوجوانوں کو موت اور تخریب کی راہ کی جانب لے جا رہے ہیں۔

یہ تمام گروہ عربوں کی امنگوں کے نمائندہ نہیں ہیں اور انھیں تبدیلی اور ترقی کی مانگ کرنے والے عوام کی اکثریت کی حمایت بھی حاصل نہیں ہے۔ درحقیقت یہ لوگ تو ان آمروں سے بھی بدترین ہیں جن کا عرب صفایا چاہتے ہیں۔ یہ گروہ برائی اور تباہی کا ذریعہ ہیں۔انھیں عربوں کی جمہوریت اور عوام کی شراکت داری کے لیے تحریک کو ہائی جیک کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ مشرق وسطیٰ بھر کی عاقلانہ اور دانش مندانہ آوازیں مل بیٹھیں اور ان مسلح گروہوں اور شر پسندوں کا راستہ روکنے کے لیے کوئی حل تجویز کریں۔ وگرنہ یہ خطے کو مزید تاریکی کی جانب لے جائیں گے۔ کچھ کرنے کا یہی وقت ہے ورنہ بہت تاخیر ہو جائے گی۔

Source :

http://urdu.alarabiya.net/ur/politics/2014/07/07/%D8%B9%D8%B1%D8%A8-%D8%AF%D9%86%DB%8C%D8%A7-%DA%A9%DB%92-%D8%A8%D9%8F%D8%B1%DB%92-%D8%A8%D8%A7%D9%86%D8%B3%D8%B1%DB%8C-%D8%A8%D8%A7%D8%B2.html

Comments

comments