Thank you, Qasim Zia – by Nazir Naji
تھینک یو!قاسم ضیاء
سویرے سویرے…نذیر ناجی
آج کسی دوسرے موضوع پر کالم لکھ کر میں اہل وطن کی خوشی سے الگ نہیں ہو سکتا۔جی چاہتا ہے کہ آج ہاکی کا ذکر کرتے ہوئے ان جذبات کو متحرک رکھوں‘جنہیں 20برس کے بعد اظہار کا موقع ملا ہے۔
بحیثیت قوم ہمارے لئے خوشیوں کے مواقع کم ہوتے جا رہے ہیں۔مدتوں سے ایسی خبر نہیں ملتی جس پر ہم سب بلاامتیاز اظہارمسرت کریں۔ کہیں سے اگر کوئی اچھی خبر آتی بھی ہے‘ تو کسی ایک طبقے یا گروہ کے لئے ہوتی ہے۔ ایسی خوشیاں مدتوں انتظار کے بعد نصیب ہوتی ہیں‘ جن پر بچے‘ بوڑھے اور جوان یکساں ہمکنار ہوں۔
اسکواش اور ہاکی برسوں تک ہمارا امتیازی اعزاز رہے۔ ہاکی پر کبھی ہمارا راج تھا اور اسکواش کے کھیل میں ہمارے ہیرو برسوں تک اپنی بادشاہت کی شان دکھاتے رہے اور پھراچانک ایسا زوال آیا کہ ہم کسی بھی کھیل میں قابل ذکر پوزیشن حاصل کرنے کے قابل نہ رہے۔
ہاکی تو ایسی ابتری کا شکار ہوئی کہ ہم کوئی تمغہ تو کیا لیتے؟ کسی علاقائی یا عالمی ٹورنامنٹ میں کوئی بھی تمغہ نہیں لے پائے۔ زوال آیا تو ہر طرف ہی پھیل گیا۔ ہاکی ختم ہوتی ہوئی نظر آنے لگی۔ اسکواش کا ذکر ہی غائب ہو گیا اور کرکٹ جو ہاکی کے بعد قومی کھیل کا درجہ اختیار کرنے لگا تھا‘ بورڈ کے نئے سربراہ کے بوجھ تلے آ کر کراہنے لگی۔ حد یہ ہے کہ جس ٹیم نے ہمیں ٹی ٹوئنٹی کا عالمی کپ جیت کر دیا۔ ہم نے اس کے کپتان کی وہ درگت بنائی کہ بیچارہ منظر سے ہی غائب ہو گیا۔ طویل عرصے کی غیرحاضری کے بعد یونس خان کرکٹ میں واپس آئے‘ تو وہ ایک خوفزدہ انسان تھے۔ جب انتخاب عالم کے ساتھ کھڑے ہو کر انہوں نے ایک ٹی وی انٹرویو میں اپنی انا کی شکست تسلیم کی‘ تو دل پر چوٹ سی لگی۔ کیسے ہیں وہ لوگ ؟جو اپنے شعبے کے قومی ہیرو کو نیچا دکھا کر خوشی محسوس کرتے ہیں۔ یونس خاں کے پاس اپنا کھیل ہی تھا‘ جو انہوں نے دوبئی میں پیش کر کے تمام ناقدین کے منہ بند کر دیئے۔مگر کرکٹ کے کرتا دھرتاؤں سے ہم یہ نہیں پوچھ سکتے کہ انہوں نے قومی ٹیم کو یونس خاں جیسے کھلاڑی سے محروم کرنے کی کوشش کیوں کی؟ دوبئی کے میچوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری کرکٹ ٹیم بھی جلد ہی اپنے اصل مقام کو حاصل کرنے کے قابل ہو جائے گی۔
ہاکی باضابطہ ہمارا قومی کھیل تھا مگر جب ہم اس میں پستی کے آخری درجے پر جا پہنچے‘ تو اس کھیل سے اجتماعی طور پر بیزاری محسوس ہونے لگی۔
ایک زمانہ تھا کہ شہروں کی سڑکوں اور میدانوں اور دیہات کی گلیوں میں ہر جگہ ہاکی دکھائی دیا کرتی تھی اور پھر یہ حال ہو گیا کہ کسی قابل ذکر ادارے نے بھی ہاکی کے کھلاڑیوں کو سپانسر کرنا چھوڑ دیا۔ ایک ہاکی فیڈریشن تھی‘ جو کسی نہ کسی طرح سے کھیل کو زندہ رکھنے کی کوشش میں لگی رہی‘ مگر کامیابی نصیب نہ ہوئی اور پھر جب قاسم ضیا کو ہاکی فیڈریشن کی سربراہی سونپی گئی‘ تو مجھ جیسے چند لوگ یہ امید لگا بیٹھے کہ یہ نوجوان اپنے عزم و ہمت‘ ذہانت اور تجربے کے بل بوتے پر اس مرتے ہوئے قومی کھیل کو نئی زندگی دے سکتا ہے۔ مگر جو ملبہ قاسم ضیا کو ملا تھا‘ اسے جلد ہٹانا آسان کام نہ تھا۔ دنیا میں کوئی بھی شخص کسی بگڑی ہوئی چیز کو فوراً درست نہیں کر سکتا اور ہاکی جیسا کھیل جس کا ایک ہی وقت میں 11 کھلاڑیوں کی کارکردگی پر انحصار ہوتا ہے‘ اسے تباہی کی حالت سے نکال کر کامیابی کے راستے پر ڈالناجان جوکھوں کا کام ہے۔
قاسم ضیا کے ابتدائی دور میں ہاکی کی حالت دگرگوں ہی رہی‘ جس پر مایوسی کا اظہار کیاگیا۔کوئی بھی ٹیم کسی مقابلے میں قابل ذکر کارکردگی نہ دکھا پائی۔ حتیٰ کہ ایشیاڈ میں بھی جب ہم بھارت سے ہارے‘ تو مایوسی پھیل گئی۔ ہمارے لئے ایشیاڈ میں کوئی دلچسپی کا سامان نہیں رہ گیا تھا۔ لیکن سیمی فائنل میں جب ہم جیتے اور دوسری طرف سے ملائشیا فائنل میں آ گیا‘ تو ہماری امیدیں جاگ اٹھیں اور طویل مدت کے بعد پہلی مرتبہ یوں لگا‘ جیسے ہاکی کا کھیل ہمیں واپس مل رہا ہے۔ ورنہ برسوں سے ہم نہ کسی فائنل میں جا سکے اور نہ ہی اسے دیکھنے کا شوق کہیں دکھائی دیا۔ مگر اس مرتبہ فائنل سے پہلے پورے ملک میں دلچسپی کے زبردست مظاہرے دیکھنے میں آئے۔ ٹی وی چینلوں نے خصوصی ٹرانسمشنز کا اہتمام کیا۔ مبصروں نے ٹیم کا جائزہ لے کر اچھی توقعات ظاہر کیں۔ گلی محلوں میں اسی طرح ٹی وی لگا کر لوگ اکٹھے ہوئے اور مل کر میچ دیکھا۔ ہاکی کو ایک بار پھر پذیرائی ملی اور جب نتیجہ آیا تو ہماری خوشی کی انتہا نہیں تھی۔ قوم نے فائنل سے جو امیدیں لگائی تھیں‘ وہ پوری ہوئیں۔ ہم اولمپکس میں جانے کے لئے کوالیفائی کر گئے اور اب ہم یہ توقع رکھنے میں حق بجانب ہیں کہ اس مرتبہ اولمپکس میں ہماری ہاکی کی واپسی شروع ہو جائے گی۔
ایشیا کا چیمپئن بننا چھوٹا اعزاز نہیں۔ مگر ہاکی کی اصل ٹیمیں یورپ اور آسٹریلیا میں ہیں۔ بھارتی ہاکی بھی ہماری طرح زبوں حالی کا شکار ہے۔ اصل امتحان اس وقت ہو گا‘ جب ہم آسٹریلیا‘ جرمنی‘ ہالینڈ اور پولینڈ سے جیتیں گے۔ ایشیا کے گولڈ میڈل سے ہمارے نوجوانوں کے حوصلے بڑھ گئے ہیں۔ یہ کامیابی آئندہ کی تیاریوں کے لئے قوت متحرکہ ثابت ہوں گی۔ مجھے حیرت ہے کہ پاکستان میں نجی شعبے کی طرف سے نوجوان کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے لئے کچھ نہیں کیا گیا۔ اب بھی وقت ہے جو ادارے کروڑوں بلکہ اربوں روپے کی اشتہاری مہمات چلاتے ہیں‘ ان کی طرف سے پاکستان کا نام روشن کرنے والے بچوں کو چند لاکھ روپے کے انعامات ہمارے دم توڑتے ہوئے قومی کھیل کو نئی زندگی دینے میں مددگار ہو سکتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے 50لاکھ کی جس رقم کا اعلان کیا گیا ہے‘ وہ بھی حوصلہ افزا نہیں۔ ہر کھلاڑی کو کم از کم 10 لاکھ روپے ضرور ملنا چاہئیں۔ جہاں تک واپسی پر کھلاڑیوں کے استقبال کا تعلق ہے‘ وہ انشاء اللہ انتہائی شاندار ہو گا
Stand up for the Champions
On Thursday, after a hiatus of 20 years, Pakistan hockey returned to its rightful place as champions of Asia. It was also a momentous day for the men’s squash team who upset Malaysia to clinch the team honours. Earlier, the Pakistan women’s cricket team made the nation proud by winning its maiden T-20 Asian Games gold medal.
The hockey team won gold by beating Malaysia 2-0 in the final. In winning this tournament, Pakistan has automatically qualified for the London 2012 Olympic Games. Although hockey is Pakistan’s national sport, its development has largely been neglected. For years, the Pakistan Hockey Federation (PHF) has been lacking professionalism. For too long it has played second fiddle to cricket. There are only seven Astro Turf fields in the country, out of which only 2-4 are in proper working condition. In comparison there are over 400 Astro Turfs in Holland. With this win it is hoped the hockey team can turn a new leaf and return to its glory days. So deep is our history in this sport that the PHF, under the initiative of Air Marshal M Nur Khan, introduced the World Cup Tournament and the Champions Trophy Tournament. It is imperative to praise our new Pakistan hockey coach Michel van den Heuvel, who brought cohesion into the team that was previously missing. Also, goalkeeper Salman Akbar must be honoured for his heroics in the semi-final against South Korea, where he saved four out of seven penalty strokes. After this match Sohail Abbas was criticised and it was alleged that he was beyond his prime and should be put out to pasture. It is commendable how Sohail Abbas bounced back to show that he is the king of penalty corners. But we should not let this victory go to our heads and plan for the future. The London Olympics 2012 are just around the corner. Let us hope we also bring back that coveted trophy after 28 years.
Source: Daily Times, 27 Nov 2010